یوگی و مودی کی چمک ماند

شمالی ہند میں چوتھے مرحلے کے بعد ہوا کے رخ میں تبدیلی

عرفان الٰہی ندوی

شمال میں عام انتخابات کا چوتھا مرحلہ آتے آتے ہوا کا رخ بدل چکا ہے۔ قومی دارالحکومت دلی میں طوفان باد و باراں نے سیاسی موسم بدلنے کا بھی اشارہ دے دیا ہے، جس کی ابتدا دلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال کی ضمانت سے ہوئی ہے ۔سپریم کورٹ نے ای ڈی کی پر زور مخالفت کے باوجود کیجریوال کو یکم جون تک کی عبوری ضمانت پر تہاڑ جیل سے رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ عام آدمی پارٹی کے ساتھ اپوزیشن انڈیا گٹھ بندھن کی تمام حلیف جماعتوں نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے سیاسی مبصرین کے مطابق کیجریوال کی رہائی سے اپوزیشن کو نئی طاقت ملی ہے جس کا اثر دلی اور پنجاب کے علاوہ این سی آر پر خاص طور پر پڑے گا اور پورے ملک میں اسے مثبت تبدیلی کی امید کے طور پر دیکھا جائے گا۔ اروند کیجریوال نے جیل سے رہا ہوتے ہی اپنے سیاسی تیور واضح کر دیے ہیں۔ انہوں نے رہائی کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس میں کہا کہ میں دلی کا بیٹا ہوں اور مودی کے سامنے جھکنے والا نہیں ہوں۔ انہوں نے بی جے پی سے سوال کیا کہ وہ بتائے کہ اس کا اگلا وزیر اعظم کون ہو گا؟ مودی تو اگلے سال پچھتر سال کے ہو جائیں گے اور پچھتر سال میں ریٹائر ہونے کا ضابطہ انہوں نے خود بنایا ہے۔ کیجریوال کی رہائی کے بعد جھارکھنڈ کے وزیر اعلی ہیمنت سورین کی ضمانت کا مطالبہ بھی تیز ہو گیا ہے۔ پروفیسر دلیپ منڈل نے ایکس پر لکھا کہ ہیمنت سورین کو اندر کیوں رکھا گیا ہے؟ کیجریوال کو جن شرطوں کے ساتھ چھوڑا ہے انہی شرطوں کے ساتھ انہیں بھی چھوڑ دو! دلیپ منڈل نے اسی ٹویٹ میں سپریم کورٹ کے کولیجیم سسٹم پر تنقید کی ہے۔ انہوں نے لکھا کہ سپریم کورٹ کی تاریخ میں جسٹس سیما کے علاوہ آج تک کوئی قبائلی جج نہیں ہوا ہے۔ اتنے سالوں میں صرف ایک قبائلی جج؟
شمال کی سب سے بڑی اور اہم ریاست اتر پردیش میں سیاسی گھمسان صوبے کے وسط میں پہنچ چکا ہے۔ انڈیا گٹھ بندھن کے دو نوجوان لیڈر راہل گاندھی اور اکھلیش یادو، مودی اور یوگی کی جوڑی کو کڑی ٹکر دے رہے ہیں۔ راہل نے کانپور کی مشترکہ ریلی میں کہا کہ "انڈیا اتحاد کے طوفان میں بی جی پی اڑ جائے گی” دونوں لیڈروں نے قنوج پارلیمانی حلقے کی مشترکہ ریلی میں زبردست تال میل اور بانڈنگ کا مظاہرہ کیا۔ کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے لکھنو کے سمودھان سمیلن میں یقین کے ساتھ دعوی کیا کہ مودی تیسری بار وزیر اعظم نہیں بن سکتے۔ انہوں نے جسٹس لوکور کے وزیر اعظم کے ساتھ کھلے مباحثے کے چیلنج کو قبول کرتے ہوئے دعوی کیا کہ وزیراعظم مودی ان کے ساتھ آمنے سامنے بحث کبھی نہیں کریں گے۔ اس دستوری اجلاس میں شرکت کرنے والے نوجوان شاعر سیف بابر کہتے ہیں کہ اس میٹنگ میں راہل گاندھی نے اقلیتوں کے حقوق پر کچھ نہیں کہا، شاید انہیں اس بات کا احساس ہو چکا ہے کہ مسلمان تو سیدھے سدھاے ہوئے انہی کی طرف ہی ہیں۔ انہیں اپنی جیت اور حکومت بنانے کا یقین ہو چکا ہے، شاید اسی لیے احتیاط کر رہے ہیں۔ لیکن ہم امید کرتے ہیں کہ جیتنے کے بعد وہ ایسی احتیاط نہیں کریں گے کہ ہم ان کے ذکر میں بھی نہ ہوں! سیف بابر کا امید و بیم سے بھرا یہ تبصرہ کافی معنی خیز اور مسلمانوں کے دل و دماغ کی عکاسی کے لیے کافی ہے۔ سیف بابر نے اس پر ایک تازہ قطعہ بھی کہا ہے۔۔۔۔۔
معتبر اپنی ذات کرتے رہو
ٹھیک ہے احتیاط کرتے رہو
تم کو آنا ہے گر حکومت میں
کچھ ہماری بھی بات کرتے رہو
سیاسی تجزیہ نگار بھی ماننے لگے ہیں کہ راہل گاندھی پرینکا گاندھی اور اکھلیش یادو کی ٹکڑی کافی پر اعتماد نظر آرہی ہے جبکہ مودی اور یوگی کی چمک ماند پڑ چکی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ بی جی پی کو چوتھے مرحلے کی 13 سیٹوں پر کامیابی حاصل کرنے کے لیے ہر دن تین سو میٹنگیں کرنی پڑیں۔ مودی ایک بار پھر سے گنگا میا کی دہائی دے رہے ہیں جبکہ انتخابی پوسٹروں پر مقامی امیدواروں کے ساتھ یوگی کے فوٹو غائب ہو چکے ہیں۔ بی جے پی لیڈروں کے بیانات سے چار سو پار کے دعوے بھی بند ہو چکے ہیں۔ اس کی جگہ اکثریتی آبادی کو اقلیتوں کی آبادی بڑھنے سے ڈرایا جا رہا ہے یعنی سیاست میں الٹی گنگا بہنے لگی ہے۔
یو پی کی تیسری سیاسی طاقت بی ایس پی سپریم مایاوتی انتخابی مقابلے کو سہ رخی بنانے کی کوشش کر رہی ہیں، لیکن دلت لیڈر سوامی پرساد موریہ کے ایک بیان نے ان کی کوششوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ سوامی پرساد نے دعوی کیا کہ مایاوتی نے بی جے پی کو خوش کرنے کے لیے اپنے بھتیجے آکاش آنند کو بی ایس پی کے تمام عہدوں سے برطرف کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ مایاوتی نے آکاش کو اپنا سیاسی جانشین بنانے کے ساتھ بی ایس بی کا نیشنل کوآرڈنیٹر بھی بنایا تھا لیکن سیتاپور میں ان کے ایک متنازعہ بیان پر ایف آئی آر درج ہونے کے بعد انہیں تمام عہدوں سے ہٹا دیا
گیا ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق آکاش آنند کی تقاریر اور سیاسی تیور بی جے پی کے انتخابی امکانات کو نقصان پہنچا رہے تھے جبکہ بی ایس پی کے اکثر امیدوار بی جے پی امیدواروں کو مدنظر رکھ کر میدان میں اتارے گئے ہیں۔
شمال کی ایک اور ریاست ہریانہ میں سیاسی فضا بدل چکی ہے۔ ریاستی حکومت کے حامی تین آزاد ارکان اسمبلی نے اپنی حمایت واپس لے لی ہے جس کے بعد چند ماہ پہلے ہی وزیر اعلی بننے والے نائب سنگھ سینی کی حکومت اقلیت میں آگئی ہے۔ کانگریس نے ریاستی اسمبلی کو تحلیل کر کے از سر نو انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ہریانہ اور پنجاب میں بی جے پی کو پہلے سے ہی کسانوں کی پر زور مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ راجستان میں بھی بی جے پی کو نقصان ہونے کے اندازے لگائے جا رہے ہیں۔ ایسے میں این ڈی اے کو یو پی بہار اور مدھیہ پردیش سے سب سے زیادہ امیدیں وابستہ ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق جو فی الحال پوری ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ہیں،
یو پی میں دو دلچسپ اور سبق آموز واقعات پیش آئے ہیں۔ رام پور میں ایک نوجوان نے دعوت نہ ملنے پر اپنے خالہ زاد بھائی کو بیچ بارات میں گولی مار دی۔ دولہا، دلہن کے پاس پہنچنے کے بجائے اسپتال پہنچ گیا جہاں اس کا علاج چل رہا ہے۔ پولیس کے مطابق دونوں میں پرانی رنجش کا امکان ہے۔
بریلی میں ایک جج نے عصمت دری کا جھوٹا الزام لگانے والی لڑکی کو انوکھی سزا سنائی ہے۔ ایڈیشنل جج گیانندر ترپاٹھی نے بیان بدلنے کے کیس میں انوکھا فیصلہ سناتے ہوئے ملزم کو باعزت بری کر دیا اور الزام لگانے والی لڑکی کو جھوٹا الزام لگانے کی پاداش میں اتنے ہی دن جیل کاٹنے کی سزا سنائی جتنے دن ملزم جیل میں رہا۔ الزام لگانے والی لڑکی نے عدالت کے سامنے قبول کیا کہ اس نے اپنی ماں کے دباؤ میں ملزم پر پاکسو ایکٹ لگوایا تھا۔ لڑکی کو رہا ہونے والے ملزم کو تقریبا پانچ لاکھ روپے کا ہرجانہ بھی دینا پڑے گا۔
تو صاحبو! یہ تھا شمال کا حال۔ اگلے ہفتے پھر ملیں گے کچھ تازہ اور دلچسپ احوال کے ساتھ۔ تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر سلا

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 مئی تا 25 مئی 2024