!یہ تو بس ایک جھانکی ہے، آگے بہت کچھ باقی ہے

قانون کی جیت کے ساتھ اندھی عقیدت اور گندی سیاست کی شرمناک ہار

0

ڈاکٹر سلیم خان، ممبئی

الٰہ آباد کی عدالت عالیہ کا فتنہ پرستوں کو شدید جھٹکا: شاہی عیدگاہ مسجد کو ’متنازعہ ڈھانچہ‘ ماننے سے انکار
ہندو احیاء پرستوں نے بابری مسجد کی شہادت کے بعد یہ نعرہ لگایا تھا ’یہ تو بس ایک جھانکی ہے ، کاشی متھرا باقی ہے‘۔ اس فہرست میں سنبھل کا اضافہ کرکے وہ تنازعات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کرنا چاہتے تھے تاکہ اپنے اقتدار کو طول دے سکیں لیکن الٰہ آباد ہائی کورٹ نے اس خواب کو چکنا چور کردیا ۔ اترپردیش میں واقع متھرا میں واقع شاہی عیدگاہ۔شری کرشن جنم بھومی معاملے میں الٰہ آباد ہائی کورٹ نے ایک بڑا فیصلہ سنا کر مودی اور شاہ سمیت سارے فرقہ پرستوں کو یہ پیغام دیا کہ ’یہ تو بس ایک جھانکی ہے، آگے بہت کچھ باقی ہے‘۔ان لوگوں کا طریقہ کار یہ ہے کہ پہلے ایک جھوٹ گھڑو پھر اس کی بنیاد پر کسی عبادت گاہ کو عدالت سے متنازع ڈھانچہ کہلواؤ اور آگے چل کر اس پر قبضہ کرلو۔ ایودھیا میں یہ داؤ چل گیا کیونکہ چیف جسٹس بلیک میل ہوگئے اور انہوں نے شواہد کے بجائے عقیدہ کی بنیاد پر ناانصافی کردی ۔ متھرا میں بھی اسی حکمت عملی کے تحت پہلے مرحلے میں عید گاہ کی شاہی مسجد کو متنازع عمارت قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا مگر اس بار عقیدے کے بجائے تاریخی شواہد کو بنیاد بنایا گیا ۔ اتفاق سے جج صاحب بھی جھانسے میں نہیں آئے اس لیےبازی الٹ گئی۔ یہ دراصل عدالت پر حکومت کی پکڑ کمزور ہونے کی بھی ایک علامت ہے۔
متھرا کی عیدگاہ مسجد اور کرشن جنم بھومی مندر کا تنازع آپسی بات چیت سے 1968 میں حل کردیا گیا تھا ۔ اس وقت کے شری کرشن جنم استھان سیوا سنگھ (جو اب شری کرشن جنم ستھان سیوا سنستھان)اور شاہی عیدگاہ مسجد کمیٹی کے درمیان زمین کو لےکرایک سمجھوتے میں یہ طے ہوا تھا کہ مسجد جتنی زمین میں بنی ہے، بنی رہےگی۔ اس معاہدے کے خلاف 28 ستمبر 2020کو عدالت میں ایک عرضی داخل کرکے یہ الزام لگایا گیا کہ 17ویں صدی میں مغل بادشاہ اورنگ زیب کےحکم پر مندر کو توڑکر وہاں پر مسجد بنائی گئی تھی۔ عدالت سے مسجد کی پوری زمین مندر ٹرسٹ کو سونپنے کی درخواست کی گئی ۔اس طرح لکھنؤ کی رنجنا اگنی ہوتری سمیت آدھا درجن لوگوں نے شری کرشن جنم استھان سیوا سنستھان اور شاہی عیدگاہ مینیجنگ کمیٹی کے درمیان پانچ دہائی قبل ہونے والے سمجھوتے کو غیرقانونی بتاتے ہوئے اسےرد کرنے کی اپیل کردی۔سپریم کورٹ کے وکیل وشنو شنکر جین نے بھی اپنی عرضی میں مذکورہ سمجھوتےکو پوری طرح غلط کہہ کر ردکرنے کا مطالبہ کیا۔ یہ وہی فتنہ پرور وکیل ہے جو کاشی سے سنبھل تک ہر جگہ نظر آتا ہے۔
بابری مسجد کے حوالے سے سپریم کورٹ میں کی جانے والی تاریخی ناانصافی سے ترغیب لے کر متھرا کی دیوانی جج (سینئر ڈویژن) چھایا شرما کی عدالت سے اس شرارت کا آغاز ہوا۔ عرضی گزاروں نے کہا ہے کہ متنازعہ مقام کترا کیشو دیو (تاریخی نام) کی 13.37 ایکڑ زمین کا ایک ایک انچ شری کرشن کے بھکت اور ہندو کمیونٹی کے لیے مقدس ہے۔عرضی میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کرشن کا جنم استھان ‘حقیقی کاراگار‘ مسجد کمیٹی کے ذریعے بنائی گئی تعمیر کے نیچے ہی واقع ہے اور وہاں پر کھدائی ہونے پر سچائی کا پتہ چلےگا۔ سوال یہ ہے کہ ان لوگوں کو اس بات کا حتمی علم کیسے ہوگیا؟ کیا یہ شری کرشن کی پیدائش کے وقت موجود تھے؟ ان لوگوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ سیوا سنگھ اور مسجد کمیٹی نے سیاسی وجوہات کےتحت لوگوں سے سچائی چھپائی اور سمجھوتےکے وقت ایک‘انسانی کاراگار’بنا دیا تھا ۔ ویسے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ الزام لگانے والے خود اپنے سیاسی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے یہ فتنہ پروری کررہے ہیں۔
ہندو فریق نے آئین کی دفعہ 26 کاحوالہ دے کر شری کرشن براجمان کی زمین کی دیکھ ریکھ کا حق مانگا ہے ۔ وشنو شنکر جین نے تو مسجد کو ہٹاکر مندر کی زمین اسے واپس کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ ممکن ہے وہ وہاں اپنی دان پیٹی( چندے کا ڈبہ) لگا کر کچھ پیسے بٹورنا چاہتاہو اس لیے کہ قریب کے بانکے بہاری مندر میں اسی کے بھائی بند چندے کے لیے یوگی سرکار سے لڑ رہے ہیں ۔ عرضی گزاروں نے خود ابتدا میں اتر پردیش سنی سنٹرل وقف بورڈ اور شاہی عیدگاہ ٹرسٹ کی انتظامیہ کمیٹی کو فریق بنایا گیا ۔یہ مقدمہ ستمبر 1991 میں پی وی نرسمہا راؤ سرکارکے منظور کردہ ’عبادت گاہ(خصوصی اہتمام)ایکٹ،1991‘ کی خلاف ورزی تھا جس میں رام جنم بھومی بابری مسجد تنازعہ کے علاوہ عبادت گاہوں کی صورت حال میں 15 اگست 1947 کے بعد تبدیلی کرنےکی ممانعت کی گئی تھی۔بدقسمتی سے سپریم کورٹ میں اسے بھی چیلنج کرتے ہوئے کہا گیا چونکہ یہ قانون عدالتی جائزہ کے حق کو سلب کرتا ہےاس لیے غیر آئینی ہے۔ متھرا میں دائر مذکورہ عرضی میں 1991 کےایکٹ سےبلادلیل استثناء طلب کیا گیا تھا۔
ایک طویل عرصہ تک ٹھنڈے بستے میں پڑا رہنے کے بعد دسمبر 2023 میں الٰہ آباد ہائی کورٹ نے اچانک ہندو فریق کے مطالبے پر متھرا میں شاہی عیدگاہ کمپلیکس کے اے ایس آئی (ASI) سروے کا حکم دے کر اسے گرما دیا کیونکہ اس مشق کے ذریعہ اس دعویٰ کی تصدیق پیش نظر تھی جس میں کہا گیا تھا کہ کرشنا کی جائے پیدائش مسجد کے نیچے ہے اور مبینہ طور پر بہت سی نشانیاں یہ ثابت کرتی ہیں کہ مسجد ایک ہندو مندر تھی۔ ہندو فریق نے اسی تنازع کو آگے بڑھاتے ہوئے عدالت عالیہ سے شاہی عیدگاہ کو ’متنازعہ احاطہ‘ قرارد دینے کی درخواست دی جسے الٰہ باد ہائی کورٹ کے جسٹس رام منوہر مشرا کی سنگل بنچ نے مسترد کردیا۔ عدالت نے کہا کہ موجودہ حقائق اور عرضی کی بنیاد پر عیدگاہ کو فی الحال متنازعہ ڈھانچہ قرارنہیں دیا جاسکتا ہے۔ اس طرح مندر مسجد کھیل کر اپنی سیاسی دکان چمکانے والوں کو ایک شدید جھٹکا لگا۔ یہ وہی الٰہ باد ہائی کورٹ ہے جہاں کے جسٹس شیکھر یادو نے ببانگِ دہل کہا تھا کہ یہ ملک اکثریت کی مرضی سے چلے گا مگر جسٹس رام منوہر مشرا نے اس منطق کو مسترد کردیا۔ یہ بڑی دلچسپ صورتحال ہے کہ ایسی احمقانہ دلیل پیش کرنے والا مسلمانوں کے ہمدرد پسماندہ طبقے سے ہے اور اس کا مخالف مسلم دشمن برہمن سماج کا فرد ہے۔
ہندو فریق کے پیروکار مہندر پرتاپ سنگھ نے ہائی کورٹ میں 5 مارچ 2025 کو متھرا میں واقع شاہی عید گاہ مسجد کو’متنازعہ ڈھانچہ‘ قرار دیے جانے کا مطالبہ کرتے ہوئے عرضی داخل کی تھی۔ موصوف نے معاصرعالم گیری سے لے کر متھرا کے کلکٹر تک ایف ایس گراؤس تک کے وقت میں لکھی گئی تاریخ کی کتابوں کا حوالہ دے کر مندر ثابت کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ وہاں پرمسجد ہونے کا کوئی ثبوت شاہی عیدگاہ کمیٹی عدالت میں نہیں پیش کرسکی۔ ان کے مطابق نہ تومسجد کا نام خسرہ-کھتونی میں رکھا گیا ہے اورنہ ہی میونسپل کارپوریشن میں کوئی ریکارڈ ہے، نہ ہی کوئی ٹیکس ادا کیا جارہا ہے۔ یہاں تک کہ شاہی عیدگاہ انتظامیہ کمیٹی کے خلاف بجلی چوری کی رپورٹ بھی ہوچکی ہے، ایسی صورت میں مسجد کوایک ’متنازعہ ڈھانچہ‘ قراردیا جانا چاہیے۔ مہندر پرتاپ کی حمایت میں سبھی ہندو فریق تھے مگر ایک نہیں چلی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جسٹس مشرا کو یہ شواہد متاثر نہیں کرسکے ورنہ ان کا فیصلہ کچھ اور ہوتا۔
ہندو فریق نے عدالت میں ایودھیا کے رام مندراوربابری مسجد تنازع سے شری کرشن کی جائے پیدائش کو مشابہ بتا کر کہا تھا چونکہ ایودھیا معاملے میں اپنا فیصلہ دینے سے پہلے بابری مسجد کو’متنازعہ ڈھانچہ‘ قراردیاگیا تھا، اس لیے شاہی عید گاہ مسجد کوبھی متنازعہ ڈھانچہ قراردیا جائے مگر یہ حربہ کارگر نہیں ہوا۔ ویسے ہائی کورٹ کے ذریعہ شاہی عیدگاہ مسجد کو متنازع ڈھانچہ قرار نہیں دینے والےاس فیصلے کا دیگر عرضیوں پربراہ راست اثر نہیں پڑے گا۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ میں ایودھیا تنازع کی طرزپر فی الحال ڈیڑھ درجن عرضیاں زیرسماعت ہیں ۔اس سے قبل ستمبر 2023 میں ایڈووکیٹ مہک مہیشوری نے شاہی عید گاہ کو کرشن جنم بھومی قرار دے کراس کو ہٹانے کا مطالبہ کرنے والی مفاد عامہ کی درخواست الٰہ باد ہائی کورٹ میں داخل کی تھی۔ہائی کورٹ میں اسے مسترد کر دیا گیا تو وہ سپریم کورٹ پہنچ گئے مگر جنوری 2024 جسٹس سنجیو کھنہ اور دیپانکر دتا پر مشتمل بنچ نےاسے سننا تک گوارا نہیں کیا اور ناقابلِ سماعت کہہ کر مسترد کردیا ۔اس طرح تاریخی مساجد کو ہتھیانے کی کوششوں کوپہلے بھی جھٹکا لگ چکا ہے۔
متھرا کی شاہی عیدگاہ تنازع میں فتنے کی جڑ الٰہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس مینک کمار جین کا فیصلہ تھا۔ انہوں نے مسلم فریق کے اعتراضات کو مسترد کر کے جو سروے کی اجازت دے کر معائنہ کرنے کے لیے کمیشن قائم کرنے کی ہدایت دی تھی۔ اس وقت مسلم فریق نے آرڈر 7 رول 11 کے تحت ان درخواستوں کی برقراری پر سوالات اٹھاکر ان کو خارج کرنے کی اپیل کی تھی ۔ مسلم فریق نے عبادت گاہوں کے قانون، وقف ایکٹ، حد بندی ایکٹ اور مخصوص قبضہ ریلیف ایکٹ کا حوالہ دیا تھا مگر ان سب کو بالائے طاق رکھ کر ہندو فریق کی طرف سے دائر درخواستوں کو قبول کیا گیا۔ ان میں یہ بے بنیاد دعویٰ کیا گیا تھا کہ مسجد کی تعمیر کٹرا کیشو دیو مندر کی اراضی پر کی گئی ہے۔ تعجب اس بات پر ہے کہ سپریم کورٹ نے بھی اسے منسوخ کرنے سے انکار توکردیا مگر جنوری 2024میں اس نے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے 14 دسمبر 2023 کے اس حکم پر روک لگا دی جس میں متھرا میں شاہی عیدگاہ مسجد کے سروے کی ہدایت دی گئی تھی۔
شاہی عیدگاہ کمپلیکس کے ابتدائی سروے کی اجازت کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر سپریم کورٹ نے مسجد فریق کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل کی سماعت کے بعد کہا تھاکہ کمیشن کی تقرری کے حکم پر عمل درآمد نہیں کیا جائے گا۔ اس طرح پھر سے سپریم کورٹ نے شاہی عیدگاہ مسجد کمپلیکس کے عدالتی نگرانی کے سروے کے کام پر اسٹے میں توسیع کردی ہے۔ چیف جسٹس کھنہ نے اپنے حکم نامہ میں کہا
تھا کہ ہندو فریق کی جانب سے قانونی چارہ جوئی کے لیے دائر کردہ سوٹ عبادت کی جگہوں کو چیلنج (خصوصی دفعات) ایکٹ (1991) سے متعلق ہے جو عدالت میں زیر سماعت ہے۔ متھرا کی عید گاہ جامع مسجد کے معاملے میں چونکہ ہندو فریق کا دعویٰ کمزور ہے اس لیے وہ بار بار رنگ بدلتا ہے اور اس کے سبب اسے عدالت میں ہزیمت بھی اٹھانی پڑتی ہے۔ اس سال (2025) جنوری میں وہ لوگ اپنے کمزور موقف کو مضبوط کرنے کے لیے مندر مسجد قضیہ میں آرکیالوجیکل سروے اور مرکزی حکومت کو فریق بنانے کا مطالبہ لے کر الٰہ باد ہائی کورٹ پہنچ گئے۔ انہوں نے سوچا ہوگا کہ اگر یہ مطالبہ منظور ہوجائے تو اپنے حق میں مرکزی حکومت کی طرف سے مفت میں سالیسیٹر جنرل کی خدمات حاصل ہوجائیں گی اورعدالت پر سرکاری دباؤبھی پڑے گالیکن یہ داؤ بھی الٹا پڑگیا ۔ عدالت نے ہندو فریق پر 5 ہزار روپے جرمانہ عائد کرکے اسے عیدگاہ مسجد کمیٹی کو دینے کا حکم دیا جو اس کی بڑی بے عزتی تھی۔
ان لوگوں کی دلیل تھی کہ اے ایس آئی اور حکومت ہند کو فریق بنانا اس لیے ضروری ہے کیونکہ شاہی عید گاہ محکمہ آثار قدیمہ کے ذریعہ محفوظ ہے۔ اسے 1920 کے نوٹیفکیشن کے ذریعہ محفوظ کیا گیا ہے۔ یہ آگرہ خطے کی محفوظ عمارتوں کی فہرست میں بھی شامل ہے۔ اس طرح کے احمقانہ دلائل دینے والے بھول گئے کہ پچھلے 105 سالوں سے قانون کے ذریعہ محفوظ شدہ عبادت گاہ پر تنازع کھڑا کرنے کی آخر کیا ضرورت ہے؟ مسلم فریق کی جانب سے مسجد کمیٹی نے یہ کہہ کر مخالفت کی کہ یہ تنازع بنیادی طور پر مندر اور مسجد انتظامیہ کے درمیان کا ہے اس لیے کسی تیسرے یا چوتھے فریق مثلاً اے ایس آئی یا مرکزی حکومت کا اس میں کوئی کردار نہیں ہے۔ دونوں کی بات سن کر عدالت نے بھی کہا کہ اے ایس آئی یا مرکزی حکومت کو فریق بنانے سے تنازعہ میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس لیے کوئی نئی راحت نہیں مانگی گئی ہے تاہم جرمانہ کی ادائیگی کے ساتھ یہ درخواست قابل قبول ہے۔ عدالت کا یہ موقف متضاد معلوم ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ درخواست جائز تھی تو اسے قبول کرتے اور جرمانہ نہ لگاتے اور غلط تھی تو مسترد کردیتے۔ ایسے میں درخواست قبول کرکے جرمانہ لگاناعجیب معلوم ہے لیکن آج کل یہ سب ہماری عدالتوں میں عام ہوگیا ہے۔
وہی موقع تھا جب جنم بھومی مکتی نیاس کے صدر نے ہائی کورٹ سے شاہی عیدگاہ مسجد کو ایودھیا کے طرز پر متنازعہ ڈھانچہ قرار دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ مسلم فریق نے اس پر اپنا اعتراض درج کروایا تو سماعت اپریل تک ٹل گئی۔ اپریل 2025 میں جب سماعت شروع ہوئی تو ہندو فریق نے ایک نیا شوشہ چھوڑ دیا ۔ اس نےمحکمہ آثار قدیمہ کے ماتحت ہونے کا حوالہ دےکرمسجد میں نماز کی مخالفت شروع کردی اور یہ دلیل بھی دی کہ اس پر پلیس آف ورشپ ایکٹ کا اطلاق نہیں ہوگا۔ اس طرح اپنے موقف کی کمزوری کو دور کرنے کی خاطر بھگوا فریق نے شاہی عیدگاہ مسجد کے مقدمہ کا رُخ ہی تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ ایساکرنے کے لیے اس نے الٰہ آباد ہائی کورٹ میں اپنے بنیادی پٹیشن میں تبدیلی کی درخواست دے ڈالی۔ مسلم فریق نے الٰہ آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت پٹیشن میں ہندو فریق کے ذریعہ اس تبدیلی کی مخالفت میں کہا کہ اس سے مسلمانوں کے ذریعہ دفاع کے بنیادی مرکز ( پلیس آف ورشپ ایکٹ) کی ہی نفی ہوجاتی ہے۔ انہوں نے یہ واضح کیا کہ ’’مجوزہ ترمیم سے ظاہر ہے کہ مدعیان کے ذریعہ مدعا الیہ کی طرف سے اختیار کئے گئے دفاع کے بنیادی نکتہ کو ہی بے معنی کرکے ایک نیا کیس تیار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ مدعا علیہ کے اس دفاع سے بچ کر نکلنے کی خاطر ترمیم کی درخواست کرکے کہا جارہا ہے کہ ان کا دعویٰ پلیس آف ورشپ ایکٹ کے تحت قابل سماعت ہی نہیں ہے۔
الٰہ باد ہائی کورٹ نے چونکہ جرمانہ لگا کر ہندو فریق کی درخواست کو قبول کرلیا اس لیے اس کے خلاف مسلم فریق کو سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹاناپڑا۔ سپریم کورٹ نے معاملے کو سماعت کے لیے قبول کر کے ہندو فریق کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’’ محکمہ آثار قدیمہ کے ماتحت محفوظ عمارت کو مسجد کے طور پر استعمال کرنے یا نہ کرنے کا معاملہ ہمارے سامنے زیر التوا ہے اس لیے کوئی عبوری حکم جاری نہیں کیا جاسکتا‘‘ اس کے ساتھ چیف جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس پی وی سنجے کمار نے یہ بھی کہا کہ ہندو فریق کو پٹیشن میں ترمیم کی اجازت دینے کا الٰہ آباد ہائی کورٹ کافیصلہ بادی النظر میں مناسب لگتا ہے۔اس طرح دونوں فریقوں کو راحت دینے کا کام کیا گیا۔ ان عدالتی فیصلوں سےہندو فریق خاصا پر امید تھا مگر الٰہ آباد ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے سے اس کو صدمہ ہوا کیونکہ عدالت نے ان کے سارے دلائل کو یکسر مسترد کرکے شاہی عیدگاہ مسجد کو متنازع ڈھانچہ قراردینے سے انکار کردیا ۔ جسٹس رام منوہر نارائن مشرا کی سنگل بنچ کا یہ فیصلہ مسلمانوں کی ایک بڑی جیت ہے۔ امید ہے آگے بھی اسی طرح کے منصفانہ فیصلے آئیں گے تاکہ مظلومین کو انصاف ملے اور عدلیہ کا وقار بحال ہو
ورنہ آج کل تو یہ حالت ہوگئی ہے کہ؎
قانون اس جہاں کا کیسا ہے آج کل
طاقت کے حق میں فیصلہ ہوتا ہے آج کل
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)

 

***

 الٰہ آباد ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے سے فریق مخالف کو صدمہ ہوا کیونکہ عدالت نے ان کے سارے دلائل کو یکسر مسترد کرکے شاہی عیدگاہ مسجد کو متنازع ڈھانچہ قراردینے سے انکار کردیا ۔جسٹس رام منوہر نارائن مشرا کی سنگل بنچ کا یہ فیصلہ مسلمانوں کی ایک بڑی جیت ہے۔ امید ہے آگے بھی اسی طرح کے منصفانہ فیصلے آئیں گے تاکہ مظلومین کو انصاف ملے اور عدلیہ کا وقار بحال ہو


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 جولائی تا 19 جولائی 2025