’یہ شادی نہیں ہو سکتی، باقی سب کچھ ہو سکتا ہے‘

لڑکی کی شادی کی عمر بڑھاکر21 سال کرنے کے منفی نتائج سامنے آنے شروع ہوگئے

ڈاکٹر سلیم خان، ممبئی

معاشرے کو جنسی بے راہ روی کی سمت دھکیلا جارہا ہے ۔ مسلم پرسنل لا سے تصادم کا خطرناک رجحان
پرانی ہندی فلموں کا ایک ٹرننگ پوائنٹ مقبول عام مکالمہ ’یہ شادی نہیں ہو سکتی‘ بھی ہوا کرتا تھا۔ اس کے ساتھ اچانک بہت کچھ بدل جاتا تھا۔ خوشی کے شادیانے غم کے نغموں میں بدل جاتے تھے۔ دلہن کا باپ (عام طور پر نذیر حسین) اپنی پگڑی سمدھی کے قدموں میں رکھ دیتا تھا اور وہ اسے ٹھوکر سے اڑا کر آگے بڑھ جاتا تھا۔ اس کے بعد شائقین رونے لگتے اور فلمساز خوشی سے پھولا نہیں سماتا تھا کیوں کہ فلم ہٹ ہو جاتی تھی۔ موجودہ دور کی فلمیں شادی کی جھنجھٹ سے بے نیاز ہو رہی ہیں اس لیے فلموں سے شہنائی کی تان غائب ہو چکی ہے۔ اس معاشرتی انحطاط میں مغرب کی اباحیت کے ساتھ حکومت ہند کا نادانستہ تعاون بھی شامل ہے۔ ملکی قانون کے مطابق شادی کے لیے لڑکی کی کم سے کم عمر پہلے 18 برس اور لڑکے کی عمر 21 برس ہونا لازمی تھا۔ حکومت کو اس کے حوالے سے احساس جرم پیدا ہوا تو وہ قانون میں ترمیم کر کے اب لڑکی کی کم از کم عمر بھی 21 سال کرنے کا بل لا چکی ہے۔
مذکورہ قانون پر اگر سختی سے عمل کرایا جائے تو ملک کے بہت سارے علاقوں میں لڑکیاں بن بیاہی رہ جائیں گی لیکن حکومت کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اس کو انتخابات جیتنے سے مطلب ہے، جب تک ووٹ ملتے رہیں سرکار بنتی رہے اس کے نزدیک سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر اس حماقت کی وجہ کیا ہے؟ موجودہ حکومت انتخابی مہم کے دوران تو خوب دقیانوسی مذہبیت کا مظاہرہ کرتی ہے جیسا کہ ابھی حال میں ہماچل پردیش اور گجرات میں نظر آیا لیکن قانون سازی کے وقت وہ اپنے آپ کو روشن خیال اور ترقی پسند ثابت کرنے میں لگ جاتی ہے۔ مغرب کی مرعوبیت کا شکار بڑے بڑے دانشور اس کی پذیرائی بھی خوب کرتے ہیں لیکن ایسا کرتے وقت ان میں سے کوئی بھی اس حوالے سے یوروپ و امریکہ کا جائزہ نہیں لیتا۔
نام نہاد ترقی یافتہ ممالک شادی کے بجائے جنسی تعلقات کی کم از کم عمر طے کرتے ہیں جو ہند و پاک میں 18 سال ہے جبکہ برطانیہ، امریکہ، ہانگ کانگ اور آسٹریلیا کے بیشتر صوبوں میں 16 سال ہے۔ فرانس جیسے ترقی یافتہ ملک میں یہ 15 سال چین میں 14 سال اور جاپان میں 13 سال ہے۔ اس معاملے میں عالمی سطح پر کوئی یکسانیت نہیں پائی جاتی۔ ہر کوئی الل ٹپ کسی عمر کا تعین کر کے اپنے آپ کو ترقی یافتہ ملک کا تمغہ دے لیتا ہے۔ مذکورہ ترمیم کے نتیجے میں اندیشہ ہے کہ بھارت دنیا کے کئی ایسے ممالک سے آگے نکل جائے گا جہاں جنسی بے راہ روی تمام حدود و قیود کو توڑ چکی ہے۔ یہاں اس قانون کے عملی نفاذ کا امکان بہت کم ہے لیکن اگر اس معاملے میں سختی کی گئی تو لا قانونیت کے ساتھ فحاشی و اباحیت کا ایک ایسا طوفان برپا ہو گا کہ جس پر قابو پانا مشکل ہو جائے گا کیوں کہ گو ناگوں وجوہات کی بنا پر ملک میں جنسی جرائم کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
اس حوالے سے ملک کی عدالتوں میں بڑا کنفیوژن ہے اور ان کے ذریعہ مختلف ریاستوں متضاد فیصلے صادر ہو رہے ہیں۔یکم نومبر 2022 کو کرناٹک کی عدالتِ عالیہ نے ایک مسلمان لڑکی کی شادی اس بنیاد پر کالعدم قرار دے دی کہ 18 برس سے کم عمر کی لڑکی سے جنسی تعلق قانون کی رو سے جرم ہے حالانکہ بہت جلد 21 سال سے قبل ہونے والی شادی بھی غیر قانونی ہو جائے گی۔ اس وقت موجودہ قانون کے لحاظ سے جو نکاح کر چکے ہوں گے ان کا کیا ہو گا یہ کہنا مشکل ہے۔ اس معاملے میں ملزم کے وکیل نے مسلم پرسنل لا کا حوالہ دے کر اپنے مؤکل کا دفاع کرنے کی کوشش کی تو ہائی کورٹ نے اسے مسترد کر دیا۔ عدالت نے یہ تسلیم کیا کہ اگرچہ مسلم پرسنل قوانین کے تحت ماہواری کے لحاظ سے بالغ ہونے والی لڑکی کی شادی کرنے کی اجازت ہے لیکن اگر لڑکی کی عمر 18 برس سے کم ہے تو وہ قانون کی رو سے نابالغ ہے اور ایسی شادی بچوں کے ساتھ جنسی جرائم کے قانون کی خلاف ورزی ہے۔
یہ معاملہ بڑے دلچسپ انداز میں سامنے آیا۔ امسال جون میں ایک حاملہ مسلمان لڑکی بنگلور کے سرکاری دواخانے میں جانچ کے لیے گئی۔ ڈاکٹر نے اس کی صحت پر توجہ دینے کے بجائے پہلے تو عمر کا پتہ لگایا اور پھر پولیس میں شکایت درج کرادی۔ یعنی جو کام اس کے ذمہ تھا وہ تو نہیں کیا اس کے علاوہ باقی سب کر دیا۔ اس نے پولیس کو بتایا کہ 17 برس کی حاملہ لڑکی نابالغ ہے۔ پولیس نے بھی بڑی سرعت کے ساتھ اس معاملے میں نابالغ بچوں کی شادی روک تھام اور جنسی زیادتی کی دفعات کے تحت لڑکی کے شوہر پر مقدمہ درج کر دیا حالانکہ جس نام نہاد نابالغ پر جنسی زیادتی کو لے کر ڈاکٹر ٹسوے بہا رہا ہے وہ حاملہ ہے۔ پولیس کا عملہ اور عدالت جس پر زیادتی سے پریشان ہے اس نے کبھی کوئی شکایت نہیں کی بلکہ وہ تو اس کو اپنا حق سمجھتی ہے۔ اس لیے یہ بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ جیسی صورتحال ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس لڑکی کو بنیادی حق سے محروم کرنے کی زیادتی کا ارتکاب تو یہ سب مل کر کر رہے ہیں ۔
اس مقدمے میں مظلوم شوہر نے ضمانت کی درخواست داخل کرتے ہوئے یہ دلیل دی کہ مسلم پرسنل لا کے تحت جس لڑکی کو ماہواری شروع ہو چکی ہو، وہ شادی کی مجاز ہے اور 15 سال کی عمر کو سن بلوغت مانا گیا ہے۔ اس بنیاد پر یہ نکاح چائلڈ میرج ایکٹ کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ ہائی کورٹ نے ان کی دلیل کو قطعی طور پر مسترد کر تے ہوئے یہ فرمان جاری کر دیا کہ اس طرح کے معاملات میں مسلم پرسنل لا پر نابالغ بچی کے ساتھ جنسی زیادتی روکنے کا قانون حاوی رہے گا۔ سوال یہ ہے کہ اگر پرسنل لا اس طرح کے معاملات میں نافذ نہیں ہوگا تو کب ہو گا؟ مسلم پرسنل لا بورڈ کا موقف بھی یہی رہا ہے کہ اسلامی ضوابط کے مطابق پندرہ برس یا اس سے زیادہ عمر کی مسلمان لڑکی شادی کی مجاز ہے اور اس پر بچوں کے حقوق کے تحفظ سے متعلق تعزیرات ہند کی دفعات کا اطلاق نہیں ہوتا۔
ہندوستانی آئین میں ہر شہری کے اپنے مذہب پر چلنے کا حق تسلیم کیا گیا ہے لیکن اگر عدالت خود آئین کو پامال کرنے پر تُل جائے تو اس کی حفاظت کون کرے گا؟ تاہم عدالت نے یہ تسلیم کیا کہ لڑکی نے خود اس شادی کی مخالفت نہیں کی تھی اور اس شادی میں اس کی مرضی بھی شامل تھی۔ اس لیے ملزم شوہر کی ایک لاکھ روپوں کے ذاتی مچلکوں (بانڈ) پر ضمانت منظور کر لی۔ کرناٹک عدالتِ عالیہ کا یہ فیصلہ پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے فیصلے سے متصادم ہے۔ ابھی حال میں، 30 ستمبر کو اس نے اسی طرح کے ایک مقدمے میں کہا تھا کہ پندرہ سال یا اس سے زیادہ عمر کی کوئی بھی مسلمان لڑکی اپنی مرضی اور اپنے انتخاب سے کسی بھی لڑکے سے شادی کی مجاز ہے اور ایسی شادی پر 2006 کے بچوں کی شادی روکنے کے قانون کا اطلاق نہیں ہو گا۔ ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ ملک کے ہر شہری کو زندگی اور آزادی کے تحفظ کا حق حاصل ہے۔
اس معاملے میں ایک مسلم جوڑے نے پنجاب و ہریانہ ہائی کورٹ میں اپنے تحفظ کی خاطر عرضی داخل کی تھی کیوں کہ ان کا نکاح گھر والوں کی مرضی کے بغیر ہوا تھا۔ ہائی کورٹ کے جسٹس جسجیت سنگھ بیدی نےاس عرضی کو منظور کر لیا اور پٹھان کوٹ کے ایس ایس پی کو سولہ سالہ لڑکی کو شوہر کے ساتھ رہنے کے لیے ضروری تحفظ فراہم کرنے کا حکم بھی دے دیا۔ جسٹس بیدی نے اپنے فیصلے میں مسلم پرسنل لا پر دنشاہ فریدون جی ملا کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے اس نکاح کو جائز ٹھہرایا۔ کرناٹک اور پنجاب وہریانہ کورٹ کے فیصلوں میں تضاد حیرت انگیز ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ نظیر موجود ہونے کے باوجود کرناٹک کی عدالت نے ایسا فیصلہ کیوں دیا؟ یہ بات درست ہے کہ حقوق اطفال کا تحفظ کرنے والے قومی کمیشن نے پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہوا ہے۔ اس لیے اگر کرناٹک ہائی کورٹ کو پنجاب و ہریانہ کے عدالت عالیہ سے اختلاف ہوتا تب بھی اسے سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے تھا۔ اپنے سیاسی آقاوں کو خوش کرنے کی اتنی جلدی آخر کیا تھی؟ ایسے خوشامدانہ فیصلوں نے عدلیہ کے وقار کو خاک میں ملا دیا ہے۔
اس معاملے میں مذکورہ جوڑے کا قانونی جرم یہ ہے کہ ان دونوں نے نہایت مہذب انداز میں شرعی نکاح کیا اور وہ اپنے جائز بچے کی پیدائش اور اس کی پرورش کرنا چاہتے ہیں۔ بفرض محال اگر ان دونوں نے نکاح نہیں کیا ہوتا اور اپنے بچے کا اسقاط یعنی قتل کرنا چاہتے تو انہیں قانونی تحفظ مل جاتا۔ فی الحال ملک میں میڈیکل ٹرمینیشن آف پریگننسی بل کا قانون 2021 نافذ ہے۔ اس کے مطابق چوبیس ہفتوں کے اندر نابالغ لڑکیوں کا حمل ساقط کروانا جائز ہے۔ یعنی کوئی نام نہاد نابالغ جس کی عمر اٹھارہ سال سے کم ہو اور اگر وہ کسی ناجائز رشتے سے حاملہ ہو جائے تو وہ اپنا حمل ساقط کراسکتی ہے مگر جائز نکاح کر کے اپنے بچے کو جنم نہیں دے سکتی۔ اس صورت میں اس کا نکاح فسخ کر دیا جائے گا۔ اس کے شوہر کو جیل میں اور اسے چلڈرن ہوم میں بھیج دیا جائے گا۔ یہ کون سا انصاف ہے؟
ہندوستان میں اسقاط حمل کے حق کو ازدواجی حیثیت سے آزاد کر دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اسقاط حمل سمیت تمام خواتین کو ‘تولیدی خود مختاری’ عطا کرتے ہوئے شادی کے بغیر ٹھہرنے والے حمل کو گرانے کے حوالے سے عائد پابندیاں ختم کر دی ہیں۔ سپریم کورٹ نے عورت کے اسقاط حمل کروانے یا نہ کرنے کا فیصلہ کو بیرونی مداخلت یا اثر و رسوخ کے بغیر کرنے کا اختیار تو دے دیا مگر ایک نامعقول عمر کی شرط لگا کر اٹھارہ سال سے عمر کی لڑکی سے نکاح کا حق چھین لیا۔ سوال یہ ہے اسقاط حمل زیادہ اہم ہے یا نکاح؟ کرناٹک کا ہائی کورٹ نکاح کی بابت تو نہایت سخت ہے مگر جنسی تعلق کے معاملے میں بڑا لچکدار ہے۔ ابھی حال میں پانچ نومبر کو کرناٹک ہائی کورٹ میں دو ججوں کی بنچ نے (اس کے مطابق) نابالغ لڑکی سے جنسی تعلق قائم کرنے والے اس کے عاشق کو رہا کر دیا، وہ اس کا شوہر ہے مگر چونکہ عدلیہ کی نظر میں وہ شادی غیر قانونی ہے اس لیے اسے عاشق کہا جا رہا ہے۔
کرناٹک میں پانچ سال قبل وقوع پذیر ہونے والے اس واقعہ کی تفصیل نہایت دلچسپ ہے۔ سن 2017 میں ایک 17 سالہ مسلم لڑکی نے گھر سے بھاگ کر ایک مسلمان لڑکے کے ساتھ نکاح کر لیا اور حاملہ ہو گئی۔ ظاہر ہے کہ والدین کی ناراضی کے سبب ان کو راہِ فرار اختیار کرنی پڑی تھی لیکن لڑکی کے والدین نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ انہوں نے پولیس میں لڑکے کے خلاف ان کی نابالغ لڑکی کا جنسی استحصال کر کے اسے جسمانی نقصان پہنچانے کی شکایت درج کروادی۔ اس کے علاوہ پوکسو کا قانون (جو بچوں کو جنسی استحصال سے محفوظ رکھنے کے لیے وضع کیاگیا) کے تحت بھی مقدمہ درج کروایا۔ اس میں لڑکے کو دس سال تک کی سزا ہو سکتی ہے۔ اس معاملے میں گواہوں کے مکر جانے کی وجہ سے نچلی عدالت نے مقدمہ خارج کر دیا۔ اس کے معنیٰ یہی ہیں کہ وہ جعلی گواہ تھے لیکن لڑکی والدین کا غصہ اب بھی سرد نہیں ہوا وہ ہائی کورٹ پہنچ گئے اور یہ معاملہ پانچ سال چلا۔
7 نومبر کو بالآخر کرناٹک ہائی کورٹ میں جسٹس سورج گووند راج اور جسٹس جی بسوراج کی بنچ نے اس لڑکے کو بری کرتے ہوئے یہ تبصرہ بھی کیا کہ ’’سولہ سال کی نابالغ لڑکیوں کے محبت کرنے اور اپنے عاشق کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے کے کئی معاملات سامنے آئے ہیں۔ ایسے میں ان کا ماننا ہے کہ لا کمیشن کو جنسی تعلقات کے لیے رضا مندی کی عمر پر پھر سے غور وخوض کرنا چاہیے۔ بنچ کا موقف ہے کہ ’’ہمیں سوچنا ہو گا کہ سولہ سال سے زیادہ عمر کی لڑکیوں کے ساتھ ان کی رضا مندی سے رشتہ قائم کرنا کیا اب بھی کوئی جرم ہے؟ ‘‘یہاں دقت یہ ہے کی جنسی تعلق کے لیے جج صاحبان سولہ سال کی عمر کو ٹھیک سمجھتے ہیں۔ شادی کے لیے اکیس سال تک کی پابندی لگنے جارہی ہے تو اس بیچ کے وقفہ میں کیا ہو گا؟ اور اگر کوئی فرد اس درمیان میں بے راہ روی کا شکار ہو جائے تو کیا وہ شادی کے بعد بدل جائے گا؟
دائمی الہامی شریعت سے محروم اقوام کے اندر اس طرح کے سوالات پیدا ہوتے ہیں کیوں کہ ان کے پاس حق و باطل اور حرام و حلال کی کسوٹی نہیں ہوتی۔ ان کے نزدیک جائز و ناجائز کا معیار بدلتا رہتا ہے یعنی کل تک جو شئے حرام ہوا کرتی تھی اسے آج حلال بلکہ مستحب قرار دے دیا جاتا ہے۔اسلام کے لحاظ سے مندرجہ بالا قضیہ نہایت سادہ ہے، لیکن چونکہ ہندوستانی قانون کے مطابق 18 سال سے کم عمر کی شادی ناجائز ہے اس لیے عدلیہ خود ساختہ مسائل میں گرفتار ہے۔ اس مقدمہ میں ملزم لڑکے کے وکیل نے تین دلائل پیش کیے۔ پہلا یہ کہ مسلم پرسنل لا کے تحت یہ نکاح جائز ہے۔ دوسرے گواہوں کا مکر جانا اور تیسرے لڑکی کا اپنی مرضی سے بھاگ کر اسلام کے مطابق نکاح کرنا۔ ایک معاملے میں کرناٹک کی عدالت ان دلائل کو تسلیم کرتی ہے اور دوسرے میں اسے مسترد کر دیتی ہے۔ یہ بھی ایک زبردست تضاد ہے۔
اس مقدمہ میں امکان تھا کہ مسلم پرسنل لا کو بالائے طاق رکھ کر یہ نکاح کالعدم قرار دے دیا جاتا، ایسے میں اس کی ذمہ داری لڑکی کے مسلمان والدین پر آتی جو غیر اسلامی قانون کی مدد سے اپنے داماد کو سزا دلوانا چاہتے تھے۔ امت مسلمہ اگر خود اپنی شریعت سے روگردانی کرے اور پھر عدالتوں سے یہ توقع کی جائے کہ وہ زبردستی ملت پر شریعت نافذ کردیں گے تو یہ ناممکن ہے۔ اس لیے نہ صرف بیرونی مداخلت سے شریعت کا دفاع بلکہ سختی سے اس پر عمل پیرا ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ 2019 میں اس طرح کا ایک واقعہ یو پی کے ضلع بہرائچ میں پیش آیا۔ تنازعہ وہی تھا کہ قانونی اعتبار سے لڑکي نا بالغ تھی اور اسلامی شرعی قانون کے لحاظ سے اسے شادی کر کے ازدواجی زندگی گزارنے کا حق حاصل تھا۔
اس معاملے میں بہرائچ کا ایک لڑکا اپنے گاؤں اور برادری کی ایک لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ لڑکی کے والد کو پتہ چلا تو اس نے بیٹی کی شادی اپنے دوست کے بیٹے سے طے کر دی۔ اس کے باوجود لڑکی نے اپنے من پسند لڑکے سے نکاح کر لیا۔ شادی کے بعد خسر نے اپنے داماد کے خلاف نابالغ لڑکی کو اغوا کرنے کی ایف آئی آر درج کرا دی۔ لڑکی نے مجسٹریٹ کے سامنے کہا ہے کہ اس نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے اور وہ اپنے خاوند کے ساتھ رہنا چاہتی ہے، وہ اپنے والدین کے گھر نہیں جانا چاہتی کیوں کہ وہاں اس کی جان کو خطرہ ہے۔ اس کے باوجود بہرائچ کی ضلعی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ لڑکی کی عمر ابھی شادی کی نہیں ہے اس لیے بالغ ہونے کے تک اسے بچوں کے سرکاری فلاحی مرکز میں رکھا جائے۔ ہائی کورٹ نے تو شادی کو ہی رد کر دیا اور وہ معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا۔
اس کیس میں لڑکے کے وکیل دشینت پراشر کے مطابق ہائی کورٹ میں پرسنل لا پر بحث نہیں ہوئی ورنہ اس شادی کو غیر قانونی قرار نہیں دیا جاتا۔ شریعت کے حساب سے لڑکی کی شادی درست ہے۔ دشینت پراشر نے یاد دلایا کہ سنہ 1982 کے اندر ایسے ہی ایک معاملے میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ جب نوجوانوں کے جسم بڑے ہو رہے ہوں تو بالغ ہونے میں ایک دو سال کا فرق کوئی معنی نہیں رکھتا ہے اور اس پر غور کیا جا سکتا ہے۔ یہاں پر بھی اگر والدین عفو و درگزر سے کام لیتے توعدالت کو شریعت میں مداخلت کا موقع نہیں ملتا ہے اور ان کی بیٹی و داماد بلاوجہ کی زحمت سے بچ جاتے۔ وطن عزیز میں 131 سال قبل 1891 میں انگریزوں نے لڑکی کے ساتھ رضا مندی کے ساتھ جنسی تعلق کی عمر دس سے بڑھا کر بارہ سال کی تھی جو اب اٹھارہ سال ہو چکی ہے۔
یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ معروف مجاہد آزادی اور کانگریس کے رہنما بال گنگا دھر تلک نے اس وقت یہ کہہ کر مخالفت کی تھی کہ یہ نیا قانون ہندو مذہب کی روایت کے خلاف ہے۔ تلک اور ان کے ساتھیوں کا اصرار تھا کہ شادی تو بلوغت سے پہلے ہی ہونی چاہیے۔ یعنی ان کا معاملہ تو اسلام سے بھی زیادہ سخت تھا۔ کم عمری کی شادیاں عدلیہ کے مصیبت بن جاتی ہیں اور اس سے نکلنے کے لیے درمیان کا لچکدار راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ 2012 میں دہلی ہائی کورٹ نے اس طرح کے معاملے میں یہ فیصلہ سنایا تھا کہ اٹھارہ سال سے کم عمر لڑکی یا اکیس برس سے کم عمر لڑکے سے ہونے والی اولاد ناجائز ہے لیکن اگر ان میں سے کوئی شکایت نہ کرے تو ان کے قانونی طور پر بالغ ہو جانے پر وہ جائز ہو جائے گی۔ اسی طرح کا ایک فیصلہ ہریانہ اور پنجاب کورٹ نے بھی 2021 میں دیا تھا۔ یہ فیصلے بظاہر مضحکہ خیز لگتے ہیں لیکن قانون کی نامعقولیت کی بنا پر عدالت کو ایسا کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ مسلمان اگر ان ناقص قوانین کو ذاتی انتقام کا ذریعہ بنانے کے بجائے اپنے شرعی قوانین پر عمل کریں تو دیگر اقوام کے لیے مشعل راہ بن سکتے ہیں۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***

 

***

 فی الحال ملک میں میڈیکل ٹرمینیشن آف پریگننسی بل کا قانون 2021 نافذ ہے۔ اس کے مطابق چوبیس ہفتوں کے اندر نابالغ لڑکیوں کا حمل ساقط کروانا جائز ہے۔ یعنی کوئی نام نہاد نابالغ جس کی عمر اٹھارہ سال سے کم ہو اور اگر وہ کسی ناجائز رشتے سے حاملہ ہو جائے تو وہ اپنا حمل ساقط کراسکتی ہے مگر جائز طریقے سے نکاح کر کے اپنے بچے کو جنم نہیں دے سکتی۔ اس صورت میں اس کا نکاح فسخ کر دیا جائے گا۔ اس کے شوہر کو جیل میں اور اسے چلڈرن ہوم میں بھیج دیا جائے گا۔ یہ کون سا انصاف ہے؟


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 نومبر تا 26 نومبر 2022