ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی
للن سنگھ نے کلن مشرا سے پوچھا یار یہ بتاو کہ بنگلہ دیشی ہمارے پردھان جی سے ڈرتے کیوں نہیں ہیں ؟
کلن نے پوچھا وہ کیوں ڈریں ان کاہمارے پردھان سے کیا لینا دینا ۔
ارے بھائی ہم ان کے بڑے بھائی جیسے ہیں اس کا تو خیال رکھنا چاہیے ۔
دیکھو للن ہمارے کہنے سے کیا ہوتا ہے ۔ ہم ان کےنزدیک بھائی ہیں یا قصائی اس کا فیصلہ ہم نہیں وہ کریں گے ۔
للن نے بگڑ کر پوچھا کہ وہ ہمیں قصائی کیسے سمجھ سکتے ہیں ؟
ہمارے وزیر داخلہ بنگلہ دیشیوں کو بھوکا ننگا اور جونک کہتے ہیں اسی طرح وہ بھی سمجھ سکتے ہیں۔ انسان کو اس دنیا میں سوچنے سمجھنے کی آزادی ہے۔
لیکن ہم تو نہ کچھ سوچتے ہیں اور نہ سمجھتے ہیں ۔ ہمارا معاملہ تو یہ ہے کہ بس سنتے ہیں اور آنکھیں موند کر مان لیتے ہیں۔
کلن ہنس کر بولا بھیا انسان کو اپنی سوجھ بوجھ کی صلاحیت کو سلب کرنے کی بھی آزادی ہے ۔ اس کے استعمال سے ہمیں کوئی نہیں روک سکتا ۔
للن بولا سمجھ گیا ہم پر طنز کستے ہیں۔ اب اگر کسی نے ایسی حرکت کی تو میں یہ جواب دے کر اس کی زبان بند کردوں گا ۔
دیکھو للن تم کسی کی بھی زبان تو بند کرسکتے ہو لیکن اس کو سوچنے سمجھنے سے روک نہیں سکتے ۔
چلو مان لیا کہ نہیں روک سکتے مگر اس سے کیا فرق پڑے گا؟
بھائی تم خود سوچو کہ تمہاری اس زور زبردستی کے بعد وہ تمہارے بارے میں کیا سوچے گا؟
یار کلن تم عجیب آدمی ہو ۔ میں نے ابھی کہا کہ ہمارے دھرم میں سوچنا سمجھنا منع ہے پھر تم مجھے سوچنے کے لیے کہہ رہے ہو۔
کلن کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ۔ وہ بولا ہاں بھائی بھول گیا تھا ۔ غلطی ہوگئی معافی چاہتا ہوں ۔
للن خوش ہوکر بولا چلو تم نے مان لیا تو میں نے بھی معاف کردیا لیکن یہ بتاو کہ احسان مندی بھی تو کوئی چیز ہے ۔ ہماری وجہ سے وہ آزاد ہوئے ۔
جی ہاں للن لیکن وہ حسینہ سے نجات کو اپنی دوسرے آزادی مانتے ہیں اور یہ انہوں نے ہماری مرضی کے خلاف حاصل کی ہے، اس لیے احسان ختم۔
ہماری مرضی کے خلاف والی منطق سمجھ میں نہیں آئی۔ کھول کر بتاو ۔
ارے بھیا شیخ حسینہ کے ساتھ حکومتِ ہند اور مودی کے گہرے تعلقات جگ ظاہر ہیں ۔
دیکھو یار ہمارے تو سارے پڑوسیوں سے ایسے ہی تعلقات ہیں۔ ہم لوگ ’واسو دھیو کٹمبکم‘ یعنی ساری دنیا کو ایک کنبہ ماننے والے لوگ ہیں ۔
اچھا یہ بتاو کہ پاکستان بھی ہمارا پڑوسی ہے یا نہیں ؟
کیوں نہیں ضرور ہے۔ اس حقیقت کا انکار کیونکر ممکن ہے ۔ وزیر اعظم بن بلائے وہاں جاچکے ہیں اور کیا چاہیے ؟
چلو مان لیا مگر نواز شریف کے بعد کیا کسی پاکستانی وزیر اعظم کو یہاں بلایا گیا ؟
جی نہیں لیکن اس کا بنگلہ دیش سے کیا تعلق ؟
شیخ حسینہ اس سال سات مہینوں میں پانچویں بار دہلی آئی ہیں ؟
کیا بکتے ہو! یقین نہیں ہوتا ۔
جی ہاں چوتھی بار منتخب ہونے کے بعد پہلا دورہ ہندوستان کیا ۔ وزیر اعظم کی حلف برداری میں شرکت کے بعد پہلی غیر ملکی مہمان وہی تھیں ۔
چلو مان لیا لیکن ہم ان کے بڑے بھائی جیسے ہیں اس کا تو خیال رکھنا چاہیے ۔
دیکھو للن ہمارے کہنے سے کیا ہوتا ہے ۔ ہم ان کےنزدیک بھائی ہیں یا قصائی اس کا فیصلہ ہم نہیں وہ خود کریں گے ۔
للن نے پھر بگڑ کر پوچھا کہ وہ ہمیں قصائی کیسے سمجھ سکتے ہیں ؟
جیسے ہمارے وزیر داخلہ بنگلہ دیشیوں کو بھوکا ننگا اور جونک سمجھ سکتے ہیں اور ببانگ دہل کہہ بھی سکتے ہیں اسی طرح وہ بھی آزاد لوگ ہیں۔
بھائی میرے سیدھے سوال کو تم اِدھر اُدھر گھما دیتے ہو ۔ یہ بتاو کہ کیا وہ ہمارے پڑوسی نہیں ہیں ؟ اگر ہیں تو انہیں ہم سے ڈرنا چاہیے؟
جیسے وہ پڑوسی ہیں، ہم بھی تو ان کے پڑوسی ہیں۔ کیا ہم ان کے وزیر اعظم سے ڈرتے ہیں۔
ارے بھائی سمجھتے کیوں نہیں ۔ بنگلہ دیش کے مقابلے ہندوستان بڑا ہم سایہ ملک ہے ۔ اس کا پاس و لحاظ ہونا چاہیے ۔
کلن نے کہا اگر یہ بات ہے تو چین بھی ہم سے بڑا اور طاقتور پڑوسی ہے کیا ہمیں بھی اس ڈرنا چاہیے ؟ اور آج کل مالدیپ بھی ہم سے نہیں ڈرتا ۔
کیا بکتے ہوئے کلن ! مالدیپ اور چین کی مثال مت دو ہمارے چھپن انچ کی چھاتی والےپردھان وشو گرو ہیں۔ کوئی اور ان کی برابری نہیں کرسکتا؟
جی ہاں میں مانتا ہوں لیکن پھر بھی آج کل ان سے نہ راہل گاندھی ڈرتا ہے اور نہ یوگی ۔ہر کوئی انہیں آنکھ دکھاتا ہے۔
للن نے کہا ہاں یار بجٹ میں چندرا بابو اور نتیش کمار خزانہ لوٹ کر لے گئے اور ہمارے وزرائے اعلیٰ کو جھنجھنا پکڑا دیا گیا ۔
بھائی دیکھو سارے کمل چھاپ وزرائے اعلیٰ پردھان جی کے مرہونِ منت ہیں کیونکہ انہی دونوں کی بیساکھیوں پر ہماری سرکار ٹکی ہوئی ہے۔
ہاں یار اب تو چندرا بابو نائیڈو اور چراغ پاسوان نے دباو ڈال مسلم وقف بل کو بھی ٹھنڈے بستے میں ڈلوا دیا۔ قسم سے مجھے بہت غصہ آیا۔
کلن بولا بھیا یہ مخلوط حکومت ہے۔ اس میں اگر اپنے پارٹنرس کا خیال نہیں رکھا گیا تو سرکار گرجائے گی ۔ کیا کریں یہ مضبوط نہیں مجبور سرکارہے۔
للن نے کہا لیکن یہی حال تو یوگی کا بھی ہوا ۔ انہیں تو غالب اکثریت حاصل ہے۔ وہاں کون سی مخلوط حکومت ہے؟
جی ہاں میں سمجھ گیا تم نزول کی زمین پر قبضہ کرنے کے قانون کی بات کررہے ہو جسے خود بی جے پی نے ٹھنڈے بستے میں بھیج دیا۔
اچھا تو کیا یہ کسی گھر کے بھیدی کی کارستانی ہے؟ جس نے یوگی کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا لیکن پھر بابا کا بلڈوزر کہاں چلا گیا ؟
ارے بھیا یوگی کی کیا مجال کے بی جے پی کے صوبائی صدر بھوپیش سنگھ چودھری سے پنگا لیں ۔ کیا تمہیں نہیں معلوم کے وہ کس کے آدمی ہیں؟
للن بولا مجھے پتہ ہے وہ تو شاہ جی کے چہیتے ہیں، بابا ان کی جانب بری نظر سے دیکھ ہی نہیں سکتے ۔
جی ہاں اسی لیے دونوں ایوانوں میں واضح اکثریت کے باوجود یہ بل قانون نہیں بن سکا اور بابا کی زبردست بے عزتی ہوگئی۔
للن نے سوال کیا یاریہ مجھے تو لگتا ہے اپنے یوگی بابا کے ستارے گردش میں آگئے ہیں؟
کلن نے کہا جی ہاں ایسے میں انہیں از خود استعفیٰ دے کر ہٹ جانا چاہیے ورنہ ذلیل ہونےکے بعد بھی جانا تو پڑے گا ہی؟
کیسی باتیں کرتے ہو کلن ان کو کون نکال سکتا ہے اور نہ کوئی استعفیٰ مانگنے کی جرأت کرےگا؟لیکن مجھے نزول کا قانون سمجھ میں نہیں آیا۔
کلن نے کہا وہ دیکھو سامنے سے جمن آرہا ہے ۔ وہ پوچھ رہا تھا کہ نزول کی زمین پر نظر رکھنے والی یہ سرکار ہے یا لینڈ مافیا ہے؟
للن نے پوچھا کیوں جمن تم نےاتنی بڑی بات کیسے کہہ دی ؟
جمن نے کہا بھائی پہلے مودی کی سرکار نے کسانوں کی زمین ہڑپنے کا قانون بنایا۔ اس کے بعد نزول اور پھر اوقاف کی زمین۔ اب کہیں تو کیا کہیں ؟
کلن بولا ہاں یار اس بات میں دم ہے۔ مجھے تو لگتا ہے ایودھیا مندر اور بنارس کاریڈور کےبعد اب عام لوگ بھی ہمیں بھو مافیا کہنے لگے ہیں ۔
جمن بولا تمہیں پتہ ہے نزول کی زمین 27 ہزار ہیکٹر ہے اور اگر اس کو خالی کیا گیا تو اکیلے یو پی میں ڈھائی کروڑ لوگ بے گھر ہوجائیں گے ۔
کلن گھبرا کر بولاتب تو لوگ ہمیں جوتے لے کر دوڑا دیں گے ۔ کہیں بابا جی دماغ تو نہیں خراب ہوگیا ۔
للن نےکہا لیکن اب یوگی نےموضوع بدل دیا ہے۔ انہوں نے بنگلہ دیش کے ہندوؤں اور وہاں پر مندروں کا تحفظ کاراگ چھیڑ دیا ہے۔
اس کا اثر یہ ہوا کہ پنکج چودھری نامی بدمعاش نے پہلے بنگلہ دیشیوں کو سزا دینے دھمکی دی اور پھر اپنے ملک کےمسلمانوں پر حملہ کردیا ۔
اچھا کون ہے پنکج چودھری؟ جس نے اتنے جلدی باباجی کے آدیش پر عمل کر دکھایا؟
ارے ایک ہسٹری شیٹر ہے جس پر ایک درجن مقدمات درج ہیں۔ اس نے غریبوں پر حملہ کیا اس بار اس پر این یس اے لگے گا۔
کیا بات کرتے ہو میں تو سمجھتا تھا کہ بابا جی اس کو شاباشی دیں گے اور وہ این ایس اے کیا صرف مسلمانوں کے لیے نہیں ہے؟
جی نہیں وہ ہے تو سب کے لیے مگر لگتا صرف مسلمانوں پر ہے لیکن اس بار پنکج پر لگے گا۔
ایسا کیوں، اس کا کیا قصور؟
ارے بنگلہ دیش کی بھگوڑی کو پردھان جی نے یوپی میں پناہ دے رکھی ہے۔اب اگر یہ لوگ ہنڈون ائیر بیس پر حملہ کردیں تو مشکل ہوجائے گی
للن بولا لیکن یوگی ایسا نہیں کرنے دیں گے ۔ شیخ حسینہ تو پردھان جی کی خاص مہمان ہیں۔
جمن نے پوچھا اچھا اگر ایسا ہے تو پردھان جی اپنے خاص مہمان کا خیر مقدم کرنے کے لیے سرخ قالین بچھواکر ہوائی اڈے کیوں نہیں گئے ؟
للن نے کہا ارے بھائی اب شیخ حسینہ واجد وزیر اعظم تھوڑی ہیں۔
جمن نے پھر سوال کیا کہ اس برے وقت میں اگر پردھان جی ان سے ملنے نہ جائیں یا اپنے محل میں نہ بلائیں تو کس کام کی دوستی؟
للن موضوع بدلتے ہوئے بولا لیکن بابا جی کو دیکھو انہوں نے کھلے عام بنگلہ دیش کے مصیبت زدہ اقلیتوں یعنی ہندوؤں کی حمایت کا اعلان کردیا ۔
جمن نے کہا وہ تو ٹھیک ہے مگر جو شخص دن رات اپنی ہی مسلمان اقلیت کی دلآزاری کرتا ہو اس کی نصیحت کا بنگلہ دیشیوں پر کیا اثر پڑے گا ؟
للن بولا باباجی بنگلا دیشی ہندوؤں کی خاطر پورے سناتن سماج کو متحد کرنے کی بات کررہے ہیں ۔
جمن نے کہا بھیا جب ننھا سا سنگھ پریوار متحد نہیں ہوسکا تو پورا سماج کیسے ہوگا؟ یوگی ہندووں کو تحفظ دینا چاہتے ہیں مگر شاہ جی سرحد بند کررہے ہیں ۔
ارے بھائی وہ مسلمان گھس پیٹھیوں کو روکنے کے لیے ایسا کررہے ہوں گے ؟
جمن نے کہا لیکن اگر وہاں مسلم نواز حکومت آرہی ہے تو مسلمان کیوں بھاگیں گے؟ خالدہ ضیاء کے ڈر سے ہندو ہی تو بھاگیں گے نا؟
کلن نے کہا جی ہاں تب تو ہمیں اپنی سرحد کھول دینا چاہیے ۔
للن بولا جی ہاں سی اے اے کے تحت تو مظلوم ہندووں کو پناہ دینا شاہ جی کی ذمہ داری ہے۔
جمن نے جواب دیا سرکار نے تو ہندوؤں کے لیے سرحد بند کرکے شیخ حسینہ کو بلا لیا ۔ اس طرح سی اے اے کی ہنڈیا بیچ بازار میں پھوٹ گئی۔
للن نے کہا لیکن بابا جی نے اس کا زبردست حل ڈھونڈ نکالا ہے انہوں نے ضلع ایودھیا میں ایک سماج وادی مسلمان کو عصمت دری کے کیس میں پھنسا لیا ۔
کلن نے پوچھا ہاں یار یہ تو ڈبل بلڈوزر ہے۔ ایک تیر سے دو شکار۔ اچھا جمن یہ بتاو کہ تم لوگ معیزخان کی حمایت میں سڑک پر کیوں نہیں آئے؟
جمن بولا دیکھو اگر وہ مجرم ہے تو ہمارا دین ہمیں اس کی اجازت نہیں دیتا ۔ اسلام میں جرم اور اس کی سزا کے معاملے میں کوئی تفریق و امتیاز نہیں ہے۔
للن نے کہا بھیا ہم لوگوں نے کھٹوعہ میں جس طرح اپنے ہم مذہب زانیوں کی حمایت کی تھی اس کے جواب میں تو تم پر بھی یہ کرنا لازم ہے۔
جمن بولا جی نہیں اگر کوئی کتا ہمیں کاٹ لے تو ہم اسے کاٹ نہیں سکتے لیکن تم یہ کیوں چاہتے ہو کہ ہم لوگ سڑک پر اتریں؟
کلن نے کہا یہ بھی کوئی سوال ہے؟ ارے بھیا تم لوگ سڑک پر آوگے تو ہمیں اسلام اور مسلمانوں کی بدنام کرنے میں مدد ملے گی ۔
جمن ہنس کر بولا لیکن ہم تمہاری مدد کیوں کریں؟ تم خود تو ہمارا تعاون نہیں کرتے اور ہم سے مدد کی توقع کرتے ہو؟ یہ عجیب خود غرضی ہے۔
للن نے سوال کیا تو کیا تم چاہتے ہو کہ معیز خان پھانسی پر چڑھ جائے؟
جمن بولا جی نہیں ہم لوگ ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنا چاہتے ہیں؟
کلن نے پوچھا اگر بفرضِ محال ڈی این اے ٹیسٹ میں معیز خان مجرم نکل آیا تو کیا ہوگا؟
جمن بولا ہم اس کو سزا دلوانے میں تعاون کریں گے لیکن مجھے لگتا ہے ایسا نہیں ہوگا۔
کلن نے پوچھا یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو؟
جمن بولا بھائی اس کی بیوی نے کہا کہ وہ اس عمر میں عصمت دری نہیں کر سکتا ۔
للن نے سوال کیا اچھا تو پھر وہ لڑکی حاملہ کیسے ہوگئی؟
جمن بولا معیز کی بیوی کے مطابق نوکر راجو کالڑکی سے معاشقہ تھا ۔ سماج وادی پارٹی کو بدنام کرنے کے لیےمعیز خان کو درمیان میں گھسیٹ لیا گیا۔
للن نے پوچھا لیکن اپنے شوہر کو بچانے کے لیے اس کی بیوی جھوٹ بھی تو بول سکتی ہے؟
جمن نے تائید کی۔ ہاں، اسی لیے تو ہم ڈی این اے ٹیسٹ کا مطالبہ کررہے ہیں۔
کلن بولا لیکن للن ایک مسئلہ یہ ہےکہ یوگی اپنی پارٹی کی مسلم مخالف شبیہ بناکر ووٹ مانگتے ہیں اور مودی بنگلہ دیشی حسینہ کو یوپی میں پناہ دیتے ہیں ۔
للن بولا جی ہاں اسی شیخ حسینہ نے تو ایودھیا عصمت دری معاملے کی جانب سے عوام کی توجہ ہٹا دی ہے۔
جمن بولا تب تو کمل ضمنی انتخاب کے اندر سبھی مقامات پر مرجھا جائے گا اور اس کے لیے شیخ حسینہ کا خیرمقدم ہی کافی ہے۔
کلن نے کہا یاں یار غریب بنگلہ دیشی ہندو سے نفرت کرکے وہاں کی مسلمان رہنما سے محبت کرنا تو سی اےاے کی روح کے خلاف ہے ۔
جمن بو لا بھیا اب تو ایودھیا کا معاملہ پیچھے چلا گیا کیونکہ انجلی جاٹو نے یوگی کے دفتر پر آکر خودسوزی کرلی ۔
للن بولا اچھا ۔ اس کو کسی مسلمان نے ستایا ہوگا ۔ یوگی ان کو ٹھیک کردیں گے ۔
جمن نے کہا نہیں اس کو اپنے شوہر اور ساس سے شکایت ہے اور اس کی ساس نے اس کا پیسہ اور منگل سوتر چھین لیا۔
کلن بولا منگل سوتر ۔ وہی منگل سوتر جسے کانگریس چھین کر مسلمانوں کو دینے والی تھی اسے ایک ہندو عورت نے دوسری ہندوسے چھین لیا ۔
للن بولا لیکن بھیا یہ تو گھر سنسار کا معاملہ ہے اب کوئی اس میں خود سوزی کرلے تو بیچارے بابا کیا کرسکتے ہیں؟
ارے بھائی وہ پہلے آئی مگر دادرسی نہیں ہوئی تو دوسری بار آکر یہ کردیا ۔ ایک گھنٹے تک ایمبولنس نہیں آسکی تو پولیس کی گاڑی میں لے جانا پڑا۔
کلن بولا تب تو بڑے شرم کی بات ہے لکھنو میں یہ ہورہا ہے تو گاوں دیہات میں کیا حالت ہوگی؟
جمن بولا جی ہاں اب پولیس نے تحقیق کے بعد ایک وکیل سنیل کمار کو اکسانے کے الزام میں گرفتار کرلیا ہے۔
کلن نے پوچھا یاربابا کو بچانے کے لیے فوراً تحقیق ہوگئی اور معیز خان کی تفتیش کا دور دور تک پتہ نہیں ۔ کیا بات ہے؟
للن بولا یار اگر بابا کے یوپی میں ہندو خواتین کا اتنا برا حال ہے تو انہیں بنگلہ دیش سے قبل اپنے یہاں کی عورتوں کے بارے میں فکرمند ہونا چاہیے۔
کلن بولا ہاں یار یہ تو چراغ تلے اندھیر ا ہوگیا ۔ انجلی اور حسینہ نے مل کر اپنے کمل پر ہی بلڈوزر چلا دیا ۔ اب ضمنی انتخاب میں یہ کیسے کھلے گا؟
جمن بولا جس سوال کا جواب مودی کے پاس ہو نہ یوگی کے پاس تو میں کیا بول سکتا ہوں؟ چلو میں چلتا ہوں ۔ تم لوگ بھی کچھ کام دھام کرو۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***
***
للن بولا جی ہاں اسی شیخ حسینہ نے تو ایودھیا عصمت دری معاملے کی جانب سے عوام کی توجہ ہٹا دی ہے۔
جمن بولا تب تو کمل ضمنی انتخاب کے اندر سبھی مقامات پر مرجھا جائے گا اور اس کے لیے شیخ حسینہ کا خیرمقدم ہی کافی ہے۔
کلن نے کہا یاں یار غریب بنگلہ دیشی ہندو سے نفرت کرکے وہاں کی مسلمان رہنما سے محبت کرنا تو سی اےاے کی روح کے خلاف ہے ۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 اگست تا 24 اگست 2024