
یہ جنگ، جنگ نہیں تھی بھلا تو پھر کیا تھی
نورا کشتی یا قومی سلامتی؟ دہلی اور اسلام آباد کے بیچ واشنگٹن سے فیصلہ صادر!
ڈاکٹر سلیم خان، ممبئی
وزیر اعظم مودی اہم اجلاسوں سے غائب؟ عوام کے منتخب نمائندوں کا سامنا کرنے سے گریز!
ہندوستان اور پاکستان ماضی میں چار مرتبہ باقاعدہ ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوچکے ہیں اب اس فہرست میں ایک اور اضافہ ہوگیا ۔ ان میں اگر 1971کو چھوڑ دیا جائے تو پچھلی تین جنگوں کا مرکز و محورکشمیر رہا ہے اور اب پانچویں تصادم کے پسِ پشت بھی وہی مسئلہ ہے ۔ ان میں سے پہلی اور آخری کو روایتی جنگ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ حکومتوں کی جانب سے ان کارسمی اعلان نہیں ہوا تھا ۔ 2019میں کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کی گئی تو اس وقت وزیر داخلہ امیت شاہ نے کئی حقائق بیان کرتے ہوئے درمیان میں ایک نہایت خطرناک جھوٹ بول دیا ۔ ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کو موردِ الزام ٹھیراتے ہوئے ایوانِ پارلیمنٹ میں موصوف نے کہا کہ کشمیر کے بارے میں اگر نہرو اس وقت کے وزیر داخلہ سردار پٹیل کے مشورے کو تسلیم کرلیتے تو ایک تہائی کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نہیں جاتا ۔ اس طرح مسئلہ کشمیر کاٹھیکرا پنڈت نہرو پر پھوڑا گیا۔
شاہ نے اس الزام کے بعد یہ تو بتایا کہ پنڈت نہرو نے بار بار اس عہد کا اعادہ کیا تھا کہ کشمیر کا ہندوستان کے ساتھ الحاق مختصر مدت کے لیے ہے اور کشمیری عوام خود اپنا حق خود ارادیت استعمال کرتے ہوئے اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ وہ بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ جانا چاہتے ہیں ۔ امیت شاہ نے پنڈت نہرو کی اقوام متحدہ کے زیر اہتمام کشمیر میں استصواب رائے کرانے کے عہد پر کاربند رہنے کی بات یاد دلائی لیکن بڑی چالاکی سے اس حقیقت پر پردہ ڈال دیا کہ آخر کشمیر کے حوالے سے سردار ولبھ بھائی پٹیل کا مشورہ کیا تھا ؟ اتفاق سے وہ مشورہ زبانی نہیں بلکہ ایک خط کی صورت میں محفوظ ہے اس لیے امیت شاہ اس کا انکار نہیں کرسکتے ۔ سردار پٹیل نے 13 ستمبر 1947 کو اپنے ایک خط میں واضح کیا تھا کہ اگر کشمیر نے پاکستان کی طرف راستہ اختیار کیا تو وہ اس کے فیصلے پر آمادہ ہو جائیں گے۔ اس میں شک نہیں کہ اس رائے کو مان لیا جاتا تو پورا کشمیر ہاتھ سے نکل جاتا ۔ سچ تو یہ ہے کہ جو دو تہائی کشمیر امیت شاہ کے پاس ہے وہ سردار پٹیل کے سبب نہیں بلکہ پنڈت نہرو کی وجہ سے ہے۔
ویسے بیچارے امیت شاہ کا آج کل بہت برا حال ہے۔ انہوں نے آئین کی دفعہ 370کو ختم کرتے وقت کشمیر میں امن و امان کی جو نوید سنائی تھی وہ تو پہلگام میں غلط ثابت ہوگئی۔ موصوف نے نہ تو وہاں موجود سیاحوں کو تحفظ فراہم کیا اور نہ قتل و غارتگری کرنے والے دہشت گردوں کو گرفتار کرسکے ۔ مقبوضہ کشمیر کے لیے جان لڑا دینے کا جملہ تو تمام عمر انہیں منہ چڑاتا رہےگا کیونکہ اس جنگ کے دوران اس کا نادر موقع ہاتھ آیا مگر وہ ایک انچ زمین بھی واپس نہیں لے سکے اور جنگ کے دوران چپیّ سادھے رہے۔ اب انتخابی مہم میں خوب گرجیں گے۔ ہمارے وزیر داخلہ سے تو مہلوکین کے اہل خانہ سے مل کر ان کی تعزیت تک نہیں ہوسکی حالانکہ جب مودی وزیر اعلیٰ تھے تو جہاں کہیں بھی دہشت گردی کا واقعہ رونما ہوتا وہ وہاں سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے پہنچ جاتے لیکن اب وہ زمانہ گزرگیا۔ مودی اور شاہ کی جوڑی اس خوبی سے محروم ہوچکی ہے۔
اس جملۂ معترضہ سے ہٹ کر یہ سوال قابلِ توجہ ہے کہ آخر سردار پٹیل جیسے سخت گیر رہنما کا کشمیر کی بابت اتنا لچکدار موقف کیوں تھا ؟ آزادی کےبعد برطانوی استعمار نے جب اپنے زیر نگیں ریاستوں کے حکم رانوں کو مشورہ دیا گیا کہ وہ اپنی مرضی سے ہندوستان یا پاکستان کسی ایک کے ساتھ الحاق کے معاہدے پر دستخط کرلیں تو راجہ ہری سنگھ کے سامنے ایک دھرم سنکٹ کھڑا ہوگیا ۔ ایسے میں جموں و کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ اور ان کے وزیر اعظم رام چندر کاک نے کسی میں بھی شامل نہ ہونے کا فیصلہ کیا۔ اس کی وجہ یہ بتائی کہ ریاست کی مسلم اکثریتی آبادی ہندوستان میں شامل ہونے پر مطمئن نہیں ہو گی اور اگروہ پاکستان میں شامل ہو گئے تو ہندو اور سکھ اقلیتیں غیر محفوظ ہو جائیں گی۔ یہ شیخ عبداللہ یا پنڈت نہرو کا خیال نہیں بلکہ ریاست کے ہندو راجہ اور ہندو وزیر اعظم کی رائے تھی ۔ کشمیری پنڈت وزیر اعظم کی رائے اس قدر مستحکم تھی کہ ہندوستان سے الحاق کرنے کی خاطرراجہ ہری سنگھ کو انہیں برطرف کرنا پڑا۔ مہاراجہ ہری سنگھ ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ الحاق کےمعاملے میں تذبذب کا شکار اس لیے تھےکیونکہ کشمیر کی حالت حیدر آباد اور جونا گڑھ سے یکسر مختلف تھی ۔ ریاستِ جموں کشمیر ایک مسلم اکثریتی صوبہ تھا مگر اس کا فرماں روا ہندو تھا ۔ اس لیے مسئلہ کشمیر کو مسلمانوں اور پنڈت نہرو سے جوڑنے والوں کو یہ حقائق پیشِ نظر رکھنے چاہئیں ۔
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیر کا اقتدار کسی فوج کشی کے ذریعہ حاصل نہیں کیا تھا بلکہ وہ انگریزی استعمار کے ساتھ ایک سودے بازی کا انعام تھا ۔1845-46میں سکھ سلطنت اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے درمیان جنگ ہوئی۔ اس میں سکھوں نے کشمیر پر اپنی خود مختاری کا دعویٰ کیا۔ اس کے بعد لاہور معاہدے میں، سکھوں کو بیاس اور ستلج کے درمیان کا قیمتی علاقہ (جالندھر دوآب) چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اور 12 لاکھ روپے کا جرمانہ ادا کرنے کی شرط رکھی گئی۔ یہ رقم چونکہ وہ فوری طور پر نہیں جمع کر سکے اس لیے ایسٹ انڈیا کمپنی نے ڈوگرہ حکم راں گلاب سنگھ کو سکھ سلطنت سے کشمیر حاصل کرنے کی اجازت اس شرط پر دی کہ وہ کمپنی کو 7لاکھ 50 ہزار روپے کی ادائیگی کریں گے۔ اس طرح گویا جوڑ توڑ کے نتیجے میں گلاب سنگھ جموں و کشمیر کی نئی تشکیل شدہ ریاست کے پہلے مہاراجہ بن گئے اور ان کی خاندانی حکم رانی آزادی تک جاری رہی۔ ڈوگرا راج کے خلاف پونچھ میں بغاوت کے بعد جب پاکستان کے حمایت یافتہ عسکریت پسندوں نے کشمیر پر حملہ کر دیا تو مجبوراً مہاراجہ نے بھارت سے مدد مانگی۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان اس پہلی جنگ کے بعد جنوری 1949 میں اقوام متحدہ نے 770 کلومیٹر طویل لائن آف کنٹرول کھینچ کر کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔اسی سلسلے کی ایک کڑی حالیہ چپقلش بھی تھی جسے جنگ کہنے میں تردد محسوس ہوتا ہے بقول شاعر ؎
یہ جنگ جنگ نہیں تھی بھلا تو پھر کیا تھی؟
یہ کھیل کھیل نہیں تھا تو کیا تماشا تھا؟
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان حالیہ تصادم کے ڈرامائی انجام کو دیکھ کر اس پر نورا کشتی ہونے کا گمان ہوتا ہے۔ دہلی اور اسلام آباد کے بجائے واشنگٹن سے جنگ بندی کا اعلان دونوں ممالک کے لیے شرمناک بات تھی جبکہ کسی تیسرےفریق کو ملوث نہ کرنے پر دونوں کا اتفاق ہے۔ اس جنگ نما شئے نے وزیر اعظم نریندر مودی کو پوری طرح بے نقاب کردیا ۔ ملک جب حالتِ جنگ میں گیا تو وہ اچانک پردے سے غائب ہوگئے اور ملک کی سیاسی کمان گویا وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے ہاتھوں میں تھما دی گئی کیونکہ یہ انتخابی مہم یا دنگا فساد کا معاملہ تو تھا نہیں کہ مودی و شاہ پیش پیش ہوتے ۔ وزیر دفاع نے ہی دونوں مرتبہ کل جماعتی نشست کی صدارت کی ۔ وزیر داخلہ ان مجلسوں میں شریک تو ہوئے مگر وزیر اعظم نے پر اسرار طریقہ پر دونوں مرتبہ کنی کاٹ لی۔ ان کی بابت بار بار یہ کہا گیا کہ وہ مسلسل صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں لیکن آخر انہیں حزب اختلاف کے ساتھ بیٹھنے میں کیا پریشانی تھی؟ ابھی دو دن قبل بھی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے سی ڈی ایس جنرل انیل چوہان اور تینوں آرمی چیفس سے بات کرنے کے بعد مودی کو تازہ ترین پیش رفت سے آگاہ کیا تھا یعنی وزیر اعظم نےابتدا میں فوجی سربراہوں سے بھی براہِ راست ملنے کی زحمت نہیں کی ۔
کانگریس پارٹی کے جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے میٹنگ سے قبل امید ظاہر کی تھی کہ کم از کم اِس مرتبہ پی ایم مودی شریک ہوکر سبھی سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیں گے۔ان کے خدشات اس لیے تھے کیونکہ پہلگام دہشت گردانہ حملہ کے بعد ہونے والی کُل جماعتی میٹنگ کو چھوڑ کر مودی بہار چلے گئے تھے ۔ اس کا تذکرہ کرتے ہوئے جئے رام رمیش نے کہا کہ ’’ہم نے 24 اپریل کو کُل جماعتی میٹنگ کا مطالبہ کیا تھا۔ اسی دن وہ میٹنگ بھی طلب کی گئی تھی۔ ہمیں امید تھی کہ وزیر اعظم اس کی صدارت کریں گے، لیکن کسی وجہ سے وزیر اعظم موجود نہیں تھے۔‘‘ انہوں نے یقین دلایا کہ اس میٹنگ میں کانگریس صدر ملکارجن کھرگے اور لوک سبھا میں حزب اختلاف کے قائد راہل گاندھی بھی شریک ہوں گے۔ جئے رام رمیش نے دہشت گردی کے خلاف حکومت ہند کے ذریعہ کی جانے والی کارروائی کو واجب قرار دیتے ہوئے کہا تھاکہ ’’آج ملک میں اتحاد و یکجہتی کی بہت ضرورت ہے۔ کانگریس کی مجلس عاملہ نے کئی سیاسی تقاریب پر روک لگانے کا فیصلہ کیا ہے اور کہا کہ حکومت جو بھی قدم اٹھائے گی، ہم اس کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم فوج کے ساتھ تھے، ہیں اور رہیں گے۔ نیز سیکیورٹی فورسز کا حوصلہ کمزور نہیں ہونے دیں گے۔ ‘‘
جئے رام رمیش سمیت پورے حزب اختلاف کو مایوس کرتے ہوئے وزیر اعظم ’آپریشن سندور‘ کے بعدوالی آل پارٹی میٹنگ سے بھی گریز کیا ۔ اس لیے صدارت مرکزی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کو کرنی پڑی ۔کل جماعتی نشست میں سب سے پہلے وزیر دفاع نے آپریشن سندور کی مکمل تفصیلات پیش کیں، اس کے بعد تمام رہنماؤں نے اپنی رائے اور مفید مشورے دیئے۔ سبھی جماعتوں نے افواج کو مبارکباد دینے کے ساتھ یقین دہانی کرائی کہ ہم متحد ہیں اور فوج کی ہر کارروائی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس موقع پرمرکزی وزیر کرن رجیجو نے سیاسی جماعتوں کے مشوروں کو قابل قدر قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت ان پر سنجیدگی سے غور کرے گی۔کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے نے نشست کے بعد بتایا کہ ان کی پارٹی نے حکومت کو مکمل حمایت دی ہےمگر دہشت گردی کے خلاف ہر قدم میں شفافیت بھی لازمی ہے۔
راہل گاندھی نے موجودہ صورتحال پر پارلیمنٹ کا ایک خصوصی اجلاس کی تجویز دی تاکہ تمام ارکان اپنی رائے دے سکیں اور اس اہم مسئلے پر قوم کا اعتماد مزید مضبوط ہو۔سبھی نے حکومت کی جانب سے شفاف رابطہ قائم کرنے اور جماعتوں کو اعتماد میں لینے کو ایک مثبت پیش رفت قرار دے کر سراہا ۔آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسدالدین اویسی نے سیکیورٹی فورسز اور حکومت کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ریزسٹنس فرنٹ (ٹی آر ایف) کے خلاف عالمی سطح پر مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ امریکہ سے ٹی آر ایف کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کی درخواست کی جائے اور پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل کرانے کی کوشش کی جائے۔ان بیانات سے محسوس ہوتا ہے کہ جنگ کی بابت حکومت سے زیادہ حزب اختلاف سنجیدہ ہے ورنہ وزیر اعظم اس نشست سے غیر حاضر نہ رہتے اور مقبوضہ کشمیر کے لیے جان دینے کی دہائی دینے والے وزیر داخلہ پر اسرار طور پر خاموشی اختیار نہیں کرتے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کل جماعتی نشست میں تو نہیں آئے مگر انہوں نے اسی دوران مختلف مرکزی وزارتوں اور محکموں کے سکریٹریوں پر مشتمل ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں شرکت کی۔ وزیر اعظم یہ بھول گئے کہ وہ عوام کے منتخب شدہ نمائندے ہیں اور اس لحاظ سے سیاسی جماعتوں کی نشست قابلِ ترجیح ہے۔ سرکاری ملازمین تو ان کےبلانے پر کسی بھی وقت آسکتے تھے۔ وزیر اعظم انہیں اس لیے ترجیح دی کیونکہ وہ صرف ہاں میں ہاں ملاتے ہیں ۔ نہ سوال پوچھتے ہیں اور نہ مشورہ دیتے ہیں ۔ وزیر اعظم نہ تو کسی کو جواب دینا چاہتے ہیں اور نہ مشورہ لینے میں یقین رکھتے ہیں اس لیے انہوں نے عوامی رہنماؤں کے مقابلے میں نوکرشاہوں کے درمیان بیٹھنا پسند کیا ۔ اس نشست کا مقصد قومی سلامتی سے متعلق حالات کا جائزہ لینا اور جعلی اطلاعات کے بہاؤ کو روکنے کے لیے مؤثر حکمت عملی اپنانا تھا۔ وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں موجودہ وقت کو ملک کے لیے ایک حساس مرحلہ قرار دےکر ایسی صورتِ حال کے پیش نظر ادارہ جاتی رابطہ، آپریشنل تیاری اور واضح مواصلات پر زور دیا ۔ انہوں نے کہا کہ غلط معلومات اور فرضی خبروں کا پھیلاؤ نہ صرف عوامی اعتماد کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ قومی سلامتی کو بھی خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
فی الحال گودی سمیت سوشل میڈیا میں غلط خبروں کا جو سیلاب آیا ہوا ہے اس پر لگام لگانا بہت ضروری ہے۔ کرن رجیجو نے بھی اس پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور وزارت دفاع نے بھی من مانی سنسنی پھیلانے پر تنقید کرکے صرف اس کی تصدیق شدہ خبروں پر انحصار کرنے کی تاکید کی تھی ۔ اب تو وزارت اطلاعات و نشریات نے میڈیا چینلوں کے لیے ایک اہم ایڈوائزری جاری کرکے دفاعی کارروائیوں اور سیکیورٹی فورسوں کی سرگرمیوں کے براہِ راست کوریج سے اجتناب کرنے کی ہدایت دی ہے۔ وزارت کے مطابق ایسی رپورٹنگ سے قومی سلامتی اور جوانوں کی جانوں کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ تمام میڈیا چینلوں، نیوز ایجنسیوں اور سوشل میڈیا صارفین کواس بابت انتہائی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے قوانین و ضوابط کی سختی سے پیروی کرنے کا حکم دیا گیا۔ رئیل ٹائم رپورٹنگ، تصاویر یا ذرائع پر مبنی معلومات کا پھیلانے سے منع کیا گیا۔ وزارت نے حساس معلومات کا قبل از وقت افشا نادانستہ طور پر دشمن کے لیے مفید ہونے اورآپریشن کی کامیابی کو نقصان پہنچانے کے مترادف بتایا۔ وزارت نے کیبل ٹی وی نیٹ ورک (ترمیمی) قواعد 2021 کے قاعدہ 6(1)(پی) کے تحت کارروائی کی یاددہانی کراتے ہوئے صرف حکومت کے مقررہ نمائندہ کی جانب سے جاری کردہ سرکاری معلومات تک خود کو محدود رکھنے کی تلقین کی ۔
وزیراعظم نے تمام وزارتوں کو ریاستی سطح کے اداروں اور مقامی انتظامیہ کے ساتھ قریبی رابطہ رکھنے پر زور دیا تاکہ نچلی سطح پر بھی ہم آہنگی اور چوکسی برقرار رکھی جا سکے۔ انہوں نے یقین دلایا کہ حکومت ملک کے ہر کونے میں امن و امان برقرار رکھنے، اہم انفراسٹرکچر کی حفاظت اور شہریوں کے تحفظ کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گی۔ عام حالات میں بھی امن عامہ کے لیے ان اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے مگر وزارت داخلہ تو اس دن سائرن بجا کر بلیک آوٹ کرنے اور موک ڈرل کرانے میں مصروف تھا۔ پرانے زمانے میں بمبار تیاروں کو فریب دینے کے لیے شہروں میں سائرن بجتے ہی بتیاں بجھا دی جاتی تھیں ۔ اس سے حملہ آور کو پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ کہاں بم گرایا جائے۔ آج کل تو انٹرنیٹ اور جی پی ایس کی مدد سے منتخبہ مقام پر بمباری کرنا سہل ہو گیا ہے۔ موک ڈرل کے بعد بنکر میں جاکر چھپنا ہوتا ہےلیکن اگر بنکر ہی نہ ہوں تو اس مشق سے کیا حاصل ؟ یہ تو کورونا میں تالی اور تھالی بجانے جیسا عمل ہے۔ یہ سارا ناٹک امیت شاہ کے پہلگام میں پہرا نہ لگوانے کی غلطی کو چھپانے کے لیے کیا گیا تھا۔ اس غلطی کی وجہ سے پہلگام کا سانحہ ہوا اور حملہ آوروں کو پکڑنے میں بھی وہ ناکام ہوگئے۔
اس معاملے کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جنگ کا اعلان تو نہیں ہوا لیکن جنگ بندی نافذ ہوگئی اور وہ بھی ایک ایسے شخص کی جانب سے جو ہندوستان و پاکستان کے تنازع کو پندرہ سو سالہ پرانا کہتا ہے جبکہ پاکستان کو وجود میں آئے 78سال بھی نہیں ہوئے ہیں ۔ ایسے میں فیض کے یہ اشعار یاد آتے ہیں؎
تم یہ کہتے ہو وہ جنگ ہو بھی چکی!
جس میں رکھا نہیں ہے کسی نے قدم
کوئی اترا نہ میداں میں دشمن نہ ہم
کوئی صف بن نہ پائی، نہ کوئی علم
منتشر دوستوں کو صدا دے سکا
اجنبی دشمنوں کا پتا دے سکا
تم یہ کہتے ہو وہ جنگ ہو بھی چکی!
جس میں رکھا نہیں ہم نے اب تک قدم
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***
ہند۔ پاک جنگ بندی میں ٹرمپ کا کردار!
واشنگٹن 🙁 دعوت انٹرنیشنل نیوز ڈیسک)سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ (@realDonaldTrump) سے ایک ٹویٹ جاری کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا کہ ریاستہائے متحدہ کی ثالثی میں ہونے والی طویل بات چیت کے بعد بھارت اور پاکستان نے ’’مکمل اور فوری جنگ بندی‘‘ سے اتفاق کر لیا ہے۔ اس ٹویٹ کے ذریعے ٹرمپ نے اس اہم پیش رفت کا اعلان کیا جو دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ انہوں نے لکھا: ’’یونائٹیڈ اسٹیٹس کی ثالثی میں دیر رات کی بات چیت کے بعد، مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ بھارت اور پاکستان نے مکمل اور فوری جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے۔ دونوں ممالک کو ’’کامن سینس اور عمدہ ذہانت کے استعمال پر مبارکباد۔ اس معاملے پر آپ کی توجہ کا شکریہ!‘‘۔
امریکی صدر کا یہ تبصرہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ نیوکلیئر طاقت سے لیس ہمسایوں کے درمیان صورتحال کو معمول پر لانے میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 مئی تا 24 مئی 2025