(دعوت نیوز نیٹ ورک)
سعودی عرب اور ایران کے درمیان بہتر تعلقات کے بعد عرب دنیا کے غریب ملک میں تنازعات کا جلد خاتمہ ممکن
جزیرہ نما عرب کے ایک چھوٹے سے ملک یمن میں آٹھ سال پرانی تباہ کن جنگ کے بعد، جس میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی اور انسانی بحران پیدا ہوا، ایسے اشارے سامنے آئے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات کی حالیہ بحالی کے بعد یہ تنازعہ جلد ختم ہو سکتا ہے۔ بتا دیں کہ سعودی عرب کی حمایت یافتہ حکومت اور ایران کی حمایت یافتہ باغی حوثی تحریک کے درمیان 2015 سے تنازعہ جاری ہے۔ یمن کو ناکامی اور انسانی بحران کا سامنا ہے، جبکہ عوام کی جمہوری امنگیں بھی ایک طویل عرصے سے غائب ہو چکی ہیں۔ خانہ جنگی جو حریف علاقائی طاقتوں کے درمیان پراکسی جنگ میں تبدیل ہوئی اس نے یمن کے شہریوں کی حالت زار کو دور کرنے اور دیرپا امن قائم کرنے کی بین الاقوامی کوششوں کو بے معنی بنا دیا ہے۔
اگرچہ یمنیوں نے ابھی تک کوئی خاطر خواہ امن بات چیت نہیں دیکھی ہے، لیکن سعودی عرب اور ایران کے درمیان حالیہ چینی ثالثی نے جنگ کے مذاکراتی خاتمے کی امید پیدا کی ہے اور امن معاہدے کے امکانات کو فروغ دیا ہے۔ ریاض اور حوثیوں کے درمیان جاری مذاکرات نے بھی امن کی امیدیں تیز کر دی ہیں جبکہ دونوں فریقوں کے درمیان تقریباً 900 قیدیوں کے تبادلے کو اعتماد سازی کا اقدام سمجھا جا رہا ہے۔ یمن میں تنازعہ 2011 میں شروع ہوا تھا۔اس وقت صدر علی عبداللہ صالح کو اپنے نائب عبد ربہ منصور ہادی کو اقتدار سونپنا پڑا تھا۔ ہادی نے یمن کے معاشی اور سلامتی و حفاظتی مسائل سے نمٹنے کے لیے ناقابل تسخیر مشکلات کا سامنا کیا۔ ایران کی حمایت یافتہ حوثیوں نے ہادی کے کمزور کنٹرول کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شمال میں صوبہ صعدہ اور پھر 2014 میں یمن کے دارالحکومت صنعا پر بھی قبضہ کر لیا۔
ایران کے حمایت یافتہ حوثیوں کے یمن پر کنٹرول نے پڑوسی ملک سعودی عرب کو ایران کے ساتھ اختلافات کی وجہ سے پریشان کیا۔ اس کے بعد سعودی عرب نے ایک اتحاد کی قیادت کی جس میں دیگر عرب ممالک شامل تھے اور 2015 میں یمن میں فوج بھیجی، تب سے جنگ جاری ہے۔ یہ معاملہ اپریل 2022 میں اس وقت ختم ہوا جب حوثیوں اور سعودی قیادت والے اتحاد نے رمضان سے قبل دو ماہ کی جنگ بندی کا اعلان کیا۔ یمن میں چھ سالوں میں یہ پہلی ملک گیر جنگ بندی تھی۔ ایک نیا امن معاہدہ اب مستقل جنگ بندی کا باعث بن سکتا ہے اور فوجی تنازع کے حل کی راہ بھی ہموار کر سکتا ہے۔
حوثی تحریک، جس کا نام حوثی قبیلے کے ایک مذہبی رہنما کے نام پر رکھا گیا ہے اور سرکاری طور پر انصاراللہ کے نام سے جانا جاتا ہے، 1980 کی دہائی کے آخر میں شمالی یمن میں زیدی شیعوں کے درمیان مذہبی اور ثقافتی احیاء کے لیے ابھرا۔ زیدی، سنی مسلم اکثریتی ملک میں اقلیت ہیں لیکن سعودی سرحد کے ساتھ شمالی پہاڑی علاقوں میں وہ غالب ہیں۔ حوثی 2003 کے بعد سیاسی طور پر سرگرم ہوئے، عراق پر امریکی قیادت میں حملے کی حمایت کرنے پر انہوں نے صالح کی مخالفت کی، لیکن بعد میں صدر کے عہدے سے استعفیٰ دینے کے بعد ان کے ساتھ اتحاد کر لیا۔ ایران حوثیوں کا بنیادی بین الاقوامی حمایتی ہے اور مبینہ طور پر اس نے انہیں ہتھیاروں سمیت فوجی مدد فراہم کی ہے۔ ہادی کی حکومت نے ایران کی لبنانی اتحادی حزب اللہ پر حوثیوں کی مدد کا الزام بھی لگایا۔ سعودی عرب کا یہ خیال کہ حوثی ایک مقامی تحریک کے بجائے ایک "ایرانی پراکسی” ہیں، ریاض کی فوجی مداخلت کا باعث بنی ہے۔ لیکن متعدد بین الاقوامی مبصرین کا خیال ہے کہ یمن میں تہران کا اثر و رسوخ محدود ہے، خاص طور پر اس وجہ سے کہ ایرانی اور حوثی شیعوں کے مختلف مکاتب فکر پر عمل پیرا ہیں۔
سعودی عرب کی قیادت میں جو اتحاد ہوا ہے اس میں سنی اکثریتی عرب ممالک ہیں، جن میں بحرین، مصر، اردن، کویت، مراقش، قطر، سوڈان اور متحدہ عرب امارات بحیثیت رکن شامل ہیں۔ 2018 تک اس اتحاد نے اریٹیریا اور پاکستان کی افواج کو بھی شامل کرنے کے لیے توسیع کی۔ انہوں نے ہادی کی حکومت کو بحال کرنے کے مقصد سے حوثیوں کے خلاف فضائی مہم شروع کی۔ سعودی عرب کے لیے یمن پر حوثیوں کا کنٹرول قبول کرنے کا مطلب یہ ہو گا کہ ایک دشمن پڑوسی کو اس کی جنوبی سرحد پر رہنے کی اجازت دی جائے، جس سے ایران کے مقابلے میں اس کی پوزیشن بھی کمزور ہوگی۔
اگرچہ امریکی کانگریس اس معاملے پر منقسم ہے لیکن امریکہ نے سعودی عرب کی قیادت میں اتحاد کی حمایت کی ہے جب کہ فرانس، جرمنی اور برطانیہ جیسے ممالک نے بھی اس معاملے میں سعودی عرب کی حمایت کی ہے۔ امریکی مفادات میں سعودی عرب کی سرحدوں کی حفاظت، آبنائے باب المندب میں آزادانہ گزرگاہ، جو کہ بحیرہ عرب اور بحیرہ احمر کے درمیان راستہ ہے اور تیل کی عالمی نقل و حمل کے لیے ایک اہم شریان ہے، اور صنعاء میں حکومت کرنا بھی شامل ہے، جو امریکہ کے مطابق اس کے انسداد دہشت گردی کے پروگراموں میں تعاون کرے گا۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے حال ہی میں کہا ہے کہ وہ اپنے ملک کی اتحادی افواج کی فوجی کارروائی کے لیے حمایت ختم کر دیں گے، بشمول ہتھیاروں کی فروخت اور یمن کے لیے ایک خصوصی ایلچی مقرر کر کے سفارت کاری میں تبدیلی کا اشارہ دیا۔ اس کے باوجود امریکی دفاعی ٹھیکیدار اب بھی سعودی طیاروں کی سروسنگ کی نگرانی کرتے ہیں جو جارحانہ کارروائیاں کرتے ہیں، اور انتظامیہ نے دفاعی مقاصد کے لیے سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت کی منظوری دے دی ہے۔
جہاں تک بھارت کا تعلق ہے، تنازعات سے پاک یمن جزیرہ نما عرب میں اپنی اقتصادی موجودگی کو بڑھانے کے لیے ساز گار ہے۔ بھارت تیل اور گیس کے میدان کے ساتھ ساتھ زراعت سے متعلق مسائل پر اپنی سرگرمیاں بڑھانے کی کوشش کرے گا۔ بھارت جنگ کے بعد تعمیر نو میں مدد اور امداد فراہم کرنے پر بھی غور کر سکتا ہے تاکہ یمنی آبادی اور متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے درمیان اپنی خیر سگالی کو بڑھایا جا سکے۔
2015 سے جب یمن میں تنازعہ شروع ہوا، بھارت نے یمن کے ساتھ گہرے تعلقات کے سلسلے میں محتاط رویہ اپنایا ہوا ہے۔ اگرچہ بھارت نے بڑی حد تک یمن میں سرکاری سطح پر امن کی طرف اشارہ کیا ہے اور مشرق وسطیٰ کے مختلف تنازعات میں بظاہر غیر جانبدارانہ موقف برقرار رکھا ہے لیکن وہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے موقف سے زیادہ ہم آہنگ ہے، جو بدلے میں موجودہ حکومت کی حمایت کرتا ہے۔ نیز یمن کی سیاسی اور سلامتی کی مختلف فیہ صورتحال کی وجہ سے صنعا میں بھارت کا سفارت خانہ 14 اپریل 2015 سے جیبوتی کے کیمپ آفس سے عارضی طور پر کام کر رہا ہے۔ جنگ کے درمیان یمن کا انسانی بحران بھوک، بیماری اور معصوم شہریوں پر حملوں کی وجہ سے دنیا کے بدترین بحرانوں میں سے ایک شمار کیا گیا ہے۔ تقریباً تین چوتھائی آبادی کی غربت کے ساتھ، یمن طویل عرصے سے عرب دنیا کا غریب ترین ملک رہا ہے۔ یو این ڈیولپمنٹ پروگرام (یو این ڈی پی) کا تخمینہ ہے کہ جنگ کے نتیجے میں 3.70 لاکھ سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں، جس کی بالواسطہ وجوہات جیسے خوراک، پانی اور صحت کی خدمات کی کمی تقریباً 60 فیصد اموات کا سبب بنتی ہے۔
ذرائع کے مطابق یمن کی تقریباً 80 فیصد آبادی امداد اور تحفظ پر منحصر ہے۔ 2015 سے اب تک تقریباً 30 لاکھ سے زیادہ لوگ اپنے گھروں سے بے گھر ہو چکے ہیں۔ صحت کی دیکھ بھال، پانی، صفائی ستھرائی اور تعلیم جیسے عوامی خدمات کے شعبے یا تو منہدم ہو چکے ہیں یا ابتر صورتحال میں ہیں۔ اقتصادی طور پر بھی یمن کو مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ اس کی اقتصادی پیداوار میں 90 بلین امریکی ڈالر کا نقصان ہوا ہے اور 6 لاکھ سے زائد لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ یمن میں خوراک کی عدم تحفظ کا مسئلہ اپنی بہترین کوششوں کے باوجود ایک شدید خطرہ بنا ہوا ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق تقریباً 1.70 کروڑ لوگ اب بھی غذائی عدم تحفظ سے دوچار ہیں۔ اس نے 2023 کے پہلے پانچ مہینوں میں شدید غذائی عدم تحفظ کی نہایت نچلی سطح کا سامنا کرنے والے لوگوں کی تعداد میں 32 لاکھ سے بڑھ کر سال کے آخری نصف میں 39 لاکھ ہونے کی پیشن گوئی کی ہے۔ یمن میں ڈبلیو ایف پی کے نمائندے، رچرڈ ریگن نے زور دیا ہے کہ ملک میں انسانی بحران اور قحط کو روکنے کے لیے فوری اور مستقل مدد کی ضرورت ہے۔ یمن میں سعودی عرب کے سفیر محمد الجابر نے کہا ہے کہ تمام متحارب فریق تنازعہ کے خاتمے کے لیے سنجیدہ ہیں لیکن یہ پیشن گوئی کرنا مشکل ہے کہ کب کوئی پیش رفت ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ہر کوئی امن کی تلاش میں ہے لیکن اگلے اقدامات کے بارے میں واضح ہونا آسان نہیں ہے۔ اس کے باوجود سعودی عرب اور ایران کے درمیان دو ماہ قبل اعلان کردہ ایک حیرت انگیز تال میل کے ذریعے امن کے لیے زور کو بحال کیا گیا ہے۔
سعودی عرب اور ایران کے درمیان حال ہی میں بہتر ہونے والے تعلقات نیز ریاض اور حوثیوں کے درمیان جاری مذاکرات نے بھی جنگ بندی میں توسیع کی امیدوں کو مزید بڑھا دیا ہے، لیکن علیحدگی پسند جنوبی عبوری حکومت (STC) (جس نے 2019 میں عدن پر قبضہ کیا تھا) کو مذاکرات سے باہر رکھا گیا ہے۔ یاد رہے کہ ہادی نے اپریل 2022 میں استعفیٰ دے دیا تھا اور ایگزیکٹو اتھارٹی ’صدارتی لیڈرشپ کونسل‘ کو منتقل کر دی تھی جس کے چیئرمین رشاد العلیمی تھے۔ یہ کونسل جنگ زدہ ملک میں دیرپا امن کے لیے روڈ میپ طے کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرے گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یمن میں کب تک امن و امان قائم ہوگا۔
بشکریہ : انڈیا ٹومارو
***
ایران کے حمایت یافتہ حوثیوں کے یمن پر کنٹرول نے پڑوسی ملک سعودی عرب کو ایران کے ساتھ اختلافات کی وجہ سے پریشان کیا۔ اس کے بعد سعودی عرب نے ایک اتحاد کی قیادت کی جس میں دیگر عرب ممالک شامل تھے اور 2015 میں یمن میں فوج بھیجی، تب سے جنگ جاری ہے۔ یہ معاملہ اپریل 2022 میں اس وقت ختم ہوا جب حوثیوں اور سعودی قیادت والے اتحاد نے رمضان سے قبل دو ماہ کی جنگ بندی کا اعلان کیا۔ یمن میں چھ سالوں میں یہ پہلی ملک گیر جنگ بندی تھی۔ ایک نیا امن معاہدہ اب مستقل جنگ بندی کا باعث بن سکتا ہے اور فوجی تنازع کے حل کی راہ بھی ہموار کر سکتا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 جون تا 17 جون 2023