یہود کبھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے
ساری دنیا پر فضیلت بخشے جانے کے باوجودنافرمانی کا انجام ابدی ذلت و مسکنت
نام کتاب: یہود اور قرآن مجید
مصنف:مولانا ضیاء الدین اصلاحی
مرتبہ : اشتیاق احمد ظلی
ناشر:دارالمصنفین شبلی اکیڈمی،اعظم گڑھ
سن اشاعت: ۲۰۱۵ء
صفحات:۱۳۸؛
قیمت:۱۵۰ روپے
ابوسعد اعظمی
(ادارہ علوم القرآن، شبلی باغ، علی گڑھ)
مولانا ضیاء الدین اصلاحیؒ(۱۹۳۷-۲۰۰۸ء) کا نام علمی دنیا میں محتاج تعارف نہیں ہے۔وہ مدرسۃ الاصلاح سے فراغت کے بعدسے تا وفات مشہورعلمی ادارہ دارالمصنفین اعظم گڑھ میں علمی خدمات انجام دیتے رہے اوراس کے ترجمان باوقار علمی رسالہ ماہنامہ معارف کے ایک عرصہ تک مدیر بھی رہے۔زیرتعارف کتاب ’’یہود اور قرآن مجید‘‘ دراصل ان کے ان گراں قدر مقالات کا مجموعہ ہے جو معارف کے جون تا نومبر 1971 کے شماروں میں شائع ہوئے تھے۔موضوع کی غیر معمولی اہمیت کے پیش نظر دارالمصنفین کے سابق ناظم پروفیسر اشتیاق احمد ظلی نے اسے مرتب کرکے شائع کیا ہے اور کتاب کے آغاز میں تین صفحات پر مشتمل مقدمہ بھی تحریر کیا ہے جس میں مولانا ضیاء الدین اصلاحیؒ کی شخصیت،ان کی علمی خدمات اور کتاب کی اہمیت کی طرف اختصار سے اشارہ کیا گیا ہے۔کتاب کے آخر میں مولوی کلیم صفات اصلاحی کا تیار کردہ اشاریہ بھی شامل ہے ۔زیر تعارف کتاب کے ابتدائی 26 صفحات میں مولانا ضیاء الدین اصلاحیؒ نے بہت تفصیل کے ساتھ یہود پر اللہ تعالیٰ کے احسانات کاتذکرہ آٹھ جلی عناوینکے تحتکیا ہے۔اس کے بعد ان کی شرک وبت پرستی، احسان ناشناسی،جرائم کا ارتکاب اور عبادات سے روگردانی کا جائزہ لیا ہے اور قرآن کریم میں مذکور ان کے جرائم کی تفصیل پیش کی ہے جس سے ان کے عروج وزوال کا ایک حسین مرقع ہمارے سامنے آجاتاہے۔
مولاناضیاء الدین اصلاحیؒ رقم طراز ہیں: ’’اس کتاب میں اس صحیفۂ عبرت کے کچھ اوراق قرآن مجید کی روشنی میں روشن کیے جاتے ہیں جس سے یہود کی گزشتہ اور موجودہ تصویر سامنے آئے گی اور یہ اندازہ ہوگا کہ خدا کی اس محبوب اور روئے زمین کی سب سے مقدس اور برگزیدہ قوم کو اس کے گوناگوں عظیم الشان احسانات کی ناقدری کے نتیجہ میں کیا کیا خمیازہ بھگتنا پڑا اور وہ کیسی کیسی ذلتوں اور رسوائیوں سے دوچار ہوئی اور شکست وریخت کے کن مراحل سے گزری‘‘۔ (ص۹)اس تمہیدی گفتگو کے بعد مولانا اصلاحیؒ نے آٹھ عناوین ہدایت وشریعت کا انعام، دنیا والوں پر فضیلت، فرعون کی غلامی سے نجات، فرعون کی عبرتناک تباہی اور بربادی، غلبہ وتمکن فی الارض،صحرائے سینا میں انعامات اور دھوپ، فاقہ اور پیاس کی تکلیفوں سے بچانے کے خدائی انتظامات کے تحت قرآن کریم کی آیات کوپیش کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ یہود پر اللہ تعالیٰ نے سب سے بڑا فضل وانعام یہ کیا تھا کہ ان کو اپنی ہدایت وشریعت کی عظیم الشان نعمت عطا کی اور شریعت پر قائم اور استوار رکھنے کے لیے ان کے اندر پے درپے اپنے انبیاء ورسل مبعوث کیے اور نبوت ورسالت کا ایک طویل سلسلہ ان کے اندر جاری کیا۔ یہود پر دوسرا زبردست احسان یہ تھا کہ ان کو ساری دنیا کے لوگوں پر فضیلت وبرتری عطا کی گئی تھی۔اسی سیاق میں سورہ مائدہ آیت 20 کی تشریح مولانا ضیاء الدین اصلاحیؒ کے الفاظ میں یوں ہے کہ: ’’نبوت ورسالت کی طرح ان کو حکومت وسلطنت بھی بخشی گئی تھی اور وہ عرصہ دراز تک خدا کی ان دونوں عظیم الشان نعمتوں سے بہرہ ور رہے۔ امت مسلمہ کے ظہور سے پہلے وہی منصب امامت وشہادت حق پر مامور تھے۔ان کے سوا اور کسی قوم کو یہ دینی پیشوائی وبرتری اور دنیاوی اعزاز ووجاہت اور قوموں کی ہدایت ورہنمائی کا مقام جلیل حاصل نہیں تھا‘‘۔ (ص۱۳)
بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کا ایک بڑا انعام یہ بیان ہوا ہے کہ فرعون جیسے ظالم وقاہر حکم راں کے ظلم وتشدد سے انہیں چھٹکارا دیا گیا ۔ فرعون کے مظالم سے نجات دلانے کے بعد اس کو اور اس کے متبعین کونہایت ہی عبرتناک طور پر ہلاک بھیکردیا گیا ۔مولانا اصلاحیؒ اللہ کے اس احسان عظیم پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:’’ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت وحکمت اور رحمت وعدل کا ایسا مہتم بالشان واقعہ تھا جس کا بنی اسرائیل نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تھا۔ وہ نہایت مظلوم اور بے سروسامان تھے اس کے باوجود محض خدا کے فضل ورحمت سے انہوں نے آسانی کے ساتھ سمندر کو پار کرلیا، لیکن ان کا تعاقب کرنے والا فرعون اور اس کا لشکر جرار دولت وقوت اور اقتدار کے نشہ میں سرشار تھا مگر اس کے باوجود وہ خدا کے قہر وغضب کا نشانہ بن گیا اور سمندر کی لہروں کی لپیٹ میں آکر غرق ہوگیا‘‘۔ (ص۱۶) اس کے بعد قرآن کریم کی متعدد ایسی آیات نقل کی ہیں جن میں فرعون کی غرقابی کی تصویر کشی اور اس کے پس منظر پر روشنی ڈالی گئی ہے۔آگے لکھتے ہیں:’’ فرعون کی ساری رعونت خاک میں مل گئی، اس کا غرور پاش پاش ہوگیا، نہ اعوان وانصار کی جماعت، لہلہاتے باغ اور سرسبز وشاداب کھیتیاں اس کے کچھ کام آئیں اور نہ اس کی قوت واقتدار اور مصر کی سلطانی وفرماں روائی نے اس کو کوئی فائدہ پہنچایا۔ اتنے جابر وقاہر حکم راں اور ایسی عظیم الشان حکومت وسلطنت کے فرماں روا پر کوئی شخص آنسو بہانے والا اور غم کرنے والا بھی نہ تھا‘‘ (ص۱۸)۔فتح وکامرانی کے اسی دن کا بنی اسرائیل کو نہایت بے چینی سے انتظار تھا اور وہ اپنی عجلت پسندی اور بے صبری کی وجہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شان میں عجیب عجیب گستاخیاں اور ناروا حرکتیں بھی کیا کرتے تھے۔ بالآخر خدا کا وعدہ پورا ہوا اور فرعون کے جاہ واقتدار کا خاتمہ ہوگیا، اس کے نیست ونابود ہونے کے بعد اللہ نے بنی اسرائیل کو ان کے آبائی وطن فلسطین وشام کی سرزمین میں بسایا اور تخت وتاج کا وارث بنایا۔غلبہ وتمکن فی الارض کے عنوان سے اللہ کے احسان عظیم کی وضاحت ملاحظہ ہو:’’بنی اسرائیل کو حقیر وذلیل، کمزور وناتواں اور بہت بے بس اور بے سہارا خیال کیا جاتا تھا۔ ان کے مقابلہ میں فرعون کی شان وشوکت اور اقتدار وقوت بہت غیر معمولی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی عجیب کرشمہ سازی سے اقتدار وقوت کے نشہ میں سرشار لوگوں کو ہلاک اور مجبور ومظلوم لوگوں کو غالب و کار فرما بناکر دکھادیا کہ کوئی چیز بھی اس کے قبضہ وقدرت اور ارادہ واختیار کے دائرہ سے باہر نہیں ہے‘‘۔ (ص۱۹)
فرعون کی غلامی سے نجات اور ارض فلسطین میں دخول کے درمیان کی جو تاریخ ہے وہ بھی بنی اسرائیل کے خوف وہراس، بزدلی ودہشت زدگی اور پست ہمتی نیز اللہ تعالیٰ کی ناشکری اور اس کی نعمتوں کی ناقدری، اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی اور اس کی آیات کی تکذیب واستہزاء سے عبارت ہے۔یہود کی تاریخ کا اجمالی جائزہ پیش کرتے ہوئے مولانا اصلاحیؒ رقم طراز ہیں:’’ان کی اس ناقدری اور بزدلی کی یہ سزا بھی ان کو دی گئی کہ چالیس سال تک کے لیے سرزمین مقدس ان کے لیے حرام قرار دے دی گئی اور یہ مدت انہوں نے صحرا نوردی میں گزاری، تاکہ ان کی غلامانہ زندگی کا خاتمہ ہو اور ان کی کوکھ سے وہ نسل ابھرے جو صحرا کی فضا میں پل کر جوان ہوئی ہو اور یہ اپنی بہادری، خود اعتمادی اور ہمت وحوصلہ کی بدولت ارض مقدس فتح کر سکے۔ یہ اگرچہ ایک طرح کی سزا تھی لیکن اس بے آب وگیاہ صحرا میں بھی اللہ تعالیٰ نے ان کی راحت کا مکمل انتظام فرمایا، سایہ مہیا کیا، پانی کے بارہ چشمے جاری کردیے اور رزق ومعیشت کی جانب سے ان کی پریشانی دور کردی۔ قرآن مجید نے صحرائے سینا کے ان انعامات کا جو دھوپ، پیاس اور فاقہ کی تکلیفوں سے بچانے کے لیے کیے گئے تھے سورہ بقرہ(۵۷-۶۰) میں تفصیل سے ذکر کیا ہے‘‘۔(ص۲۳)
اللہ تعالیٰ نے یہود کو جہاں یہ سب نعمتیں بخشی تھیں، وہیں ان کو کچھ ذمہ داریوں اور فرائض کا مکلف بھی بنایا تھا اور یہ تاکید کردی تھی کہ تم پر جو انعامات کیے گئے ہیں ان کا سلسلہ اس وقت تک تمہارے اندر باقی رہے گا جب تک تم اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوتے رہو گے، لیکن اگر تم نے ناشکری کا رویہ اختیار کیا، خدا کی نعمتوں کی ناقدری کی، اس کے پیغمبروں کو جھٹلایا اور اس کی کتابوں کی تکذیب کی تو تم اس کی لعنت کے مستحق ہوگے اور تمہاری عزت وحشمت خاک میں مل جائے گی۔ اس کے برعکس اگر خدا کی ہدایت وشریعت کو اختیار کرکے اس پر مضبوطی سے قائم رہے تو تمام مادی وروحانی فیوض وبرکات کا سلسلہ جاری رہے گا۔
یہود کو جن ذمہ داریوں کا مکلف بنایا گیا تھا اس کی تفصیل قرآن مجید کی مختلف سورتوں بنی اسرائیل، انعام، بقرہ، مائدہ اور اعراف وغیرہ میں بیان ہوئی ہے۔یہ مثبت ومنفی احکام مولانا اصلاحیؒ کے الفاظ میں حسب ذیل تھے:
’’توحید کا اقرار اور شرک سے اجتناب، والدین کے ساتھ حسن سلوک، رشتہ داروں اور دوسرے اہل حقوق کے حقوق کی ادائیگی اور ضرورت مندوں کی حاجت روائی، اسراف وتبذیر کے بجائے اعتدال ومیانہ روی، اولاد کے قتل سے پرہیز، زنا اور بدکاری سے اجتناب، ناحق قتل وخونریزی کی ممانعت، یتیموں کے ساتھ حسن سلوک، ایفائے عہد، ناپ تول میں کمی بیشی کی ممانعت، نامعلوم باتوں کی ٹوہ میں نہ پڑنا، کبر وغرور اور زمین پر اکڑنے کی ممانعت، حق وعدل کا شیوہ اختیار کرنا، نماز وزکوٰۃ کا اہتمام، اپنی قوم کے لوگوں کو جلاوطن نہ کرنا، انبیاء علیہم السلام اور ان کی کتابوں پر ایمان لانا،تورات وانجیل کی تعلیمات پر عمل کرنا اور قرآن ورسالت محمدی کو تسلیم کرنا، آیات الٰہی کو دنیا کے حقیر معاوضہ کی خاطر فروخت نہ کرنا، کتمان حق اور حق وباطل کو گڈ مڈ کرنے کی ممانعت وغیرہ ‘‘۔(ص۲۷)
اس کے بعد مولانا اصلاحیؒ نے قرآنی آیات کی روشنی میں یہود کے کردار کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے کہ کس طرح بالکلواضح احکامات کی انہوں نے خلاف ورزی کی اور ہر اس برائی کا ارتکاب کیا جس سے انہیں سختی سے روکا گیاتھا۔ انہوں نے شرک کیا، پیغمبر کی موجودگی میں ہی بچھڑے کی پرستش میں مبتلا ہوگئے، حضرت عزیر علیہ السلام کو خدا کا بیٹا قرار دیا، اللہ کے سوا دوسروں کو اپنا رب بنالیا، اللہ کی تنقیص کی، انبیاء کرام کے بارے میں افراط وتفریط کا شکار ہوئے، انبیاء کی تکذیب کی حتی کہ ان کے قتل کا ارتکاب کیا ۔ اللہ کی کتاب اور آخرت کا انکار اور اس کی تکذیب کی روش اختیار کی۔ عبادات میں کوتاہی کا شکار ہوئے ، نماز کو ضائع کردیا، خواہشات کی اتباع کی۔
مولانا اصلاحیؒ نے واضح کیا ہے کہ یہود خدا کی کتابوں کے بھی منکر ہوگئے تھے اور اپنے صحیفہ تورات کے احکام وہدایات کو بھی پس پشت ڈال کر اوہام وخرافات میں پڑگئے تھے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’یہود نے تورات کے حصے اور بخرے کر ڈالے تھے اور جس حصے کو چاہتے مانتے اور ظاہر کرتے اور جس کو چاہتے مخفی رکھتے اور رد کردیتے۔ انہوں نےتورات کو کتاب ہدایت اور دستور حیات بنانے کے بجائے اسے طرح طرح سے نفع اندوزی کا ذریعہ بنالیا تھا۔جب ان کا اپنی کتابتورات کے ساتھ یہ حال تھا تو وہ بھلا قرآن کو کیا خاطر میں لاتے۔ انہوں نےتورات میں تحریف وتلبیس اور اخفاء کا سارا کھیل اسی لیے تو کھیلا ہی تھا کہ قرآن اور آنحضورؐ کی تکذیب کرسکیں اور اس میں ان دونوں کے متعلق جو واضح پیشن گوئیاں ہیں ان کو نظر انداز کرسکیں‘‘۔ (ص۵۲-۵۳)
عبادات ومعاملات میں ان کے فساد پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے تمام آسمانی مذاہب کی طرح یہودی مذہب میں بھی نماز، زکوۃ، روزہ ، حج اور قربانی وغیرہ تمام عبادتیں فرض تھیں۔ لیکن انہوں نے یا تو ان عبادتوں کو سرے سے ترک کردیا تھا یا ان کی اصل حقیقت وروح گم کردی تھی اور ان کی ظاہری صورتیں بگاڑ ڈالی تھیں اور ان کے اندر خدا کے احکام وہدایات کے بجائے اپنی بدعات وخرافات شامل کردی تھیں‘‘۔ (ص۵۶)
اس کے بعدعادات واخلاق، کفران نعمت،کبر وغرو، نقض عہد، حسد ، تعصب، بغض وعداوت ، اختلاف وفرقہ بندی،اپنے بھائیوں کو قتل اور ان کی جلاوطنی، فساد فی الارض،امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے انحراف، جھوٹ، زنا اور بدکاری، حب دنیا، خیانت، سود خوری، رشوت،اکل اموال بالباطل، ہراس اور بزدلی، حرص وبخل جیسے جلی عناوین کے تحت یہود کی خباثتوں کو اجاگر کرتے ہوئے بھرپور جائزہ پیش کیا ہے اور خلاصہ یہ بیان کیا ہے کہ وہ اخلاقی انحطاط کی آخری حد کو پہنچ گئے تھے۔(ص۹۱)
یہود کے رویہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’ان پر اللہ تعالیٰ کے جو احسانات تھے ان کا تقاضا تھا کہ وہ خدا کے شکر گزار ہوں گے اور لوگوں کے احسانات کا بدلہ بھی احسان سے دیں گے مگر انہوں نے سب سے زیادہ ناشکری کا رویہ اختیار کیا۔اگرچہ اہل کتاب اور یہود میں ایک قلیل گروہ ایسا بھی تھا جس نے اللہ کی عہد ومیثاق پر قائم رہ کر حق پسندی سے کام لیا۔ قرآن کریم نے جا بجا اس گروہ کی ستائش کی ہے‘‘۔(ص۴۷)
یہو د کے علمی واعتقادی گمراہیوں کے بنیادی سبب کبر وغرور کا جائزہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’اسی استکبار نے ان کو سب سے بے نیاز یہاں تک کہ خود خدا سے بھی مستغنی کرکے اس کی نافرمانی اور طغیان پر آمادہ کردیا تھا۔ وہ اپنی عظمت وبرتری اور خاندانی ودینی فضیلت کو خدا کا فضل وانعام سمجھنے کے بجائے اپنی محنت وکوشش کا ثمرہ سمجھتے تھے اور اس پر اس قدر نازاں تھے کہ کسی اور دین وشریعت کو تسلیم کرنے کے لیے مطلق تیار نہ تھے‘‘۔ (ص۶۵)مسلمانوں سے ان کے بغض وعداوت کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے کہ ’’ان کو مسلمانوں کی کامیابی اور ان کے آرام سے رنج ہوتا ہے اور ان کی شکست اور نقصان سے خوشی ہوتی ہے، اسی لیے وہ ان کے اندر فساد اور بگاڑ پیدا کرنے کے لیے پیش پیش رہتے ہیں۔ ٹھیک یہی کیفیت آج بھی ان کی ہے، وہ سب کو انگیز کرسکتے ہیں، سب سے مصالحت کرسکتے ہیں، لیکن مسلمانوں کے خلاف سازش اور ریشہ دوانی سے باز نہیں آسکتے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بھی ان سے ترک موالات کی تلقین کی ہے‘‘۔ (ص۷۸)
کتاب کے آخر میں خلاصۂ کلام کے طور پر مولانا اصلاحی نے اس حقیقت کو پیش کیا ہے کہ ’’اللہ کی طرف سے ان (یہود)کو بار بار متنبہ کیا گیا اور سنبھلنے کی دعوت دی گئی مگر انہوں نے کوئی پروا نہ کی، یہاں تک کہ جب حضرت مسیح علیہ السلام کی اعجاز پروری اور مسیحا نفسی بھی ان کے اندر کوئی ایمانی روح نہ پھونک سکی تو سب سے آخر میں رسول اکرم ﷺ کی بعثت ٹھیک ان کے صحیفوں کی پیشین گوئی کے مطابق ہوئی، لیکن انہوں نے اس نعمت عظمیٰ کی بھی ناقدری کی اور اس آخری موقع کو بھی ضائع کردیا اور بجائے سنبھلنے کے اور بگڑتے چلےگئے۔اس لیے وہ خدا کی گرفت میں آگئے کیوں کہ اس کا قانون یہ ہے کہ جب کوئی قوم اس کی بخشی ہوئی نعمت کی ناقدری کرتی اور اس کے دیے ہوئے موقع کو گنوادیتی ہے تو اپنے کیے کی سزا پاتی ہے‘‘۔ (ص۹۲)اس کے بعد ہدایت الٰہی سے محرومی، ازاغت قلوب، طبع قلوب، قساوت قلب، غضب الٰہی، ذلت ونکبت، لعنت اور پھٹکار ، خزی اور وادی تیہ میں سرگردانی کے عناوین سے یہود کی ذلت ومسکنت کے قرآنی دلائل نقل کرتے ہوئے ان کی تباوہی وبربادی کے واقعات درج کیے گئے ہیں۔
یہ درحقیقت ایک آئینہ ہے، ایک کردار ہے جو اہل ایمان کے سامنے پیش کیا گیا ہے کہ اللہ کے احسانات کی قدردانی کے کیا انعامات ہیں اور اس کی اطاعت سے روگردانی ، احسان فراموشی اورمعصیت الٰہی کے کیا عواقب ہیں۔ یہ داستان عبرت ہے اس سے ہمیں ضرور سبق لینا چاہیے۔
***
***
’’قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے تمام آسمانی مذاہب کی طرح یہودی مذہب میں بھی نماز، زکوۃ، روزہ ، حج اور قربانی وغیرہ تمام عبادتیں فرض تھیں۔ لیکن انہوں نے یا تو ان عبادتوں کو سرے سے ترک کردیا تھا یا ان کی اصل حقیقت وروح گم کردی تھی اور ان کی ظاہری صورتیں بگاڑ ڈالی تھیں اور ان کے اندر خدا کے احکام وہدایات کے بجائے اپنی بدعات وخرافات شامل کردی تھیں‘‘۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 14 جنوری تا 20 جنوری 2024