یحیٰ السنوار

قید سے قیادت تک

خبیب کاظمی

رات کا وقت تھا۔ ہوا میں ہلکی سی نمی اور گرمی کا احساس تھا۔ یوسف، مریم اور علی اپنے دادا کے اردگرد بیٹھے کہانی سننے کے لیے بے حد پرجوش تھے۔ دادا ہمیشہ رات کو سونے سے پہلے کہانیاں سناتے تھے۔ بچوں کو ان کے سنائے ہوئے قصے بہت پسند تھے۔ آج کی کہانی خاص طور پر اہم تھی کیونکہ یہ ایک عظیم مجاہد یحییٰ السنوار کی زندگی پر مبنی تھی، جنہوں نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ فلسطین اور مظلوموں کے حق میں قربان کیا تھا۔
یوسف نے سب سے پہلے سوال کیا "دادا جان، آج آپ ہمیں کونسی کہانی سنانے والے ہیں؟”
دادا نے مسکراتے ہوئے کہا "آج میں تمہیں ایک ایسے مجاہد کی کہانی سناؤں گا جو اپنی قربانیوں، عزم اور علم کی روشنی سے فلسطین کے لیے امید کا چراغ بنا۔جسے دنیا یحییٰ السنوار کے نام سے جانتی ہے”
سنو بچو ’’یحییٰ سنوار کا تعلق فلسطین کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے تھا۔ بچپن ہی سے انہوں نے اپنی زمین پر ظلم و جبر کا سامنا کیا نتیجے میں ان کے دل میں اپنی قوم کے لیے مزاحمت کا جذبہ پیدا ہوا۔ وہ ایک ایسے ماحول میں بڑے ہوئے جہاں اسرائیلی فوج کی جانب سے لوگوں کو مسلسل دبایا جاتا تھا، لیکن یحییٰ سنوار کے دل میں ہمیشہ ایمان کی روشنی موجود رہی”
مریم، جو ہمیشہ تاریخ میں دلچسپی رکھتی تھی حیرت سے بولی "دادا جان، کیا وہ بچپن ہی سے اتنے بہادر تھے؟”
دادا نے جواب دیا "ہاں مریم، یحییٰ بچپن ہی سے بہادر اور سمجھدار تھے۔ ان کی بہادری صرف جسمانی طاقت میں نہیں، بلکہ ان کی ذہانت اور علم میں بھی نظر آتی تھی۔”
"یحییٰ کو جوانی میں اسرائیلی فوج نے گرفتار کیا اور قید کر دیا۔ لیکن قید کی دیواریں ان کے عزائم کو محدود نہ کر سکیں۔ جیل میں انہوں نے نہ صرف قیدیوں کی رہنمائی کی بلکہ اپنی تعلیم کو بھی جاری رکھا۔ انہوں نے عبرانی زبان سیکھی تاکہ دشمن کی حکمت عملی کو بہتر طور پر سمجھ سکیں اور فلسطین کی آزادی کے لیے بہتر منصوبے بنا سکیں۔ یحییٰ جانتے تھے کہ علم ہی وہ طاقت ہے جو انہیں قید سے رہائی کے بعد قیادت کی منزل تک لے جائے گی۔”
علی، جو ہمیشہ کہانیوں میں سوالات کرتا تھا کہنے لگا "دادا جان، جیل میں رہ کر کوئی کیسے سیکھ سکتا ہے؟”
دادا نے ہنس کر کہا "بیٹا، جب انسان کے دل میں عزم ہو تو وہ ہر جگہ سے کچھ نہ کچھ سیکھ لیتا ہے۔ یحییٰ نے جیل کو اپنا میدان بنایا اور وہاں سے علم حاصل کر کے اپنی رہائی اور قوم کی آزادی کے لیے حکمت عملی بنائی۔”
"یحییٰ السنوار نے جیل میں رہتے ہوئے نہ صرف اپنی رہائی کی منصوبہ بندی کی بلکہ اپنے ساتھی قیدیوں کو بھی تربیت دی۔ وہ جانتے تھے کہ دشمن کے خلاف لڑنے کے لیے حکمت اور علم دونوں کی ضرورت ہے۔ ان کا عزم کبھی کمزور نہ ہوا اور جب وہ جیل سے باہر آئے تو ان کی رہائی دشمن کے لیے ایک شکست کی علامت بن گئی۔”
یوسف، جو پوری توجہ سے کہانی سن رہا تھا، کہنے لگا "دادا جان، کیا انہوں نے رہائی کے بعد بھی مزاحمت جاری رکھی؟”
دادا جان نے مسکراتے ہوئے کہا، "ہاں، رہائی کے بعد وہ حماس کے ایک اہم رہنما بنے۔ انہوں نے اپنی زندگی کو قوم کی آزادی کے لیے وقف کر دیا۔ ان کا ہر قدم فلسطین کی آزادی کی طرف بڑھتا تھا، اور وہ ہمیشہ عقل اور تدبر سے کام لیتے رہے۔”
"یحیٰ السنوار نہ صرف بہادر مجاہد تھے بلکہ ایک بہترین قائد بھی تھے۔ انہوں نے اپنی قوم کو سکھایا کہ فتح صرف ہتھیاروں سے نہیں بلکہ حکمت اور اتحاد سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے فلسطینی عوام کے دلوں میں امید جگائی اور ان کی قیادت میں فلسطین کی مزاحمت مضبوط ہوتی چلی گئی۔ یحییٰ نے اپنے ساتھیوں کو یہ باور کرایا کہ علم اور قیادت کے ذریعے ہی آزادی ممکن ہے۔”
مریم نے کہا، "دادا جان، کیا وہ کبھی تھکتے نہیں تھے؟”
دادا جان نے جواب دیا، "نہیں مریم، ان کا عزم اور ایمان ہمیشہ مضبوط رہا۔ انہوں نے کبھی ہمت نہیں ہاری۔ وہ جانتے تھے کہ قربانی اور صبر کے بغیر آزادی ممکن نہیں۔ ان کی زندگی نے ہمیں سکھایا کہ جب عزم پختہ ہو تو دنیا کی کوئی طاقت انسان کو شکست نہیں دے سکتی۔”
"یحیٰ السنوار کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ علم، حکمت اور قربانی دینے والا انسان کبھی ناکام نہیں ہوتا۔ انہوں نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ فلسطین کی آزادی کے لیے قربان کیا۔ جیل میں بھی انہوں نے علم حاصل کیا، اپنی رہائی کے بعد اپنی قوم کی قیادت کی، اور ہر لمحہ یہ ثابت کیا کہ ایک مجاہد کی اصل طاقت اس کا ایمان، علم، اور قربانی ہے۔”
یوسف، مریم اور علی نے دادا کی کہانی سن کر نئے عزم کے ساتھ کہا، "دادا جان، ہم بھی یحییٰ السنوار کی طرح بہادر اور علم والے بننا چاہتے ہیں۔ ہم بھی اپنی قوم کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔”
دادا نے بچوں کو پیار سے دیکھا اور کہا، "بیٹو، علم اور قربانی ہی وہ راستے ہیں جو انسان کو عظیم بناتے ہیں۔ اگر تم علم حاصل کرتے رہو گے اور اپنے مقصد کے لیے قربانیاں دو گے، تو تم بھی ایک دن اپنی قوم کے لیے مثال بنو گے۔”
اس رات بچوں نے یحییٰ السنوار کی کہانی سے یہ سیکھا کہ زندگی میں عزم، علم، اور قربانی ہی سب سے بڑی طاقت ہیں۔ انہوں نے یہ جانا کہ اگر وہ اپنی زندگی میں ان اصولوں کو اپنائیں گے تو وہ بھی اپنی قوم کے لیے ایک روشن مثال بن سکیں گے۔
***

 

***

 "یحییٰ کو جوانی میں اسرائیلی فوج نے گرفتار کیا اور قید کر دیا۔ لیکن قید کی دیواریں ان کے عزائم کو محدود نہ کر سکیں۔ جیل میں انہوں نے نہ صرف قیدیوں کی رہنمائی کی بلکہ اپنی تعلیم کو بھی جاری رکھا۔ انہوں نے عبرانی زبان سیکھی تاکہ دشمن کی حکمت عملی کو بہتر طور پر سمجھ سکیں اور فلسطین کی آزادی کے لیے بہتر منصوبے بنا سکیں۔ یحییٰ جانتے تھے کہ علم ہی وہ طاقت ہے جو انہیں قید سے رہائی کے بعد قیادت کی منزل تک لے جائے گی۔”


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 اکتوبر تا 2 نومبر 2024