یادوں کے البم سے۔۔۔

آل انڈیا اجتماعات کےتجربات ۔چند بزرگ شخصیات کی زبانی

0

محمد آصف اقبال، نئی دہلی

اللہ تعالیٰ کا یہ فضل ہی ہے کہ اس نے انسان کو بے شمار نعمتوں کے ساتھ یادداشت کو محفوظ رکھنے کی نعمت سے بھی سرفراز کیا۔ لہٰذا اس مضمون میں جماعت اسلامی ہند کے آل انڈیا اجتماعات کی کچھ یادداشتوں کو موجودہ وابستگان جماعت کے لیے جمع کیا گیا ہے۔یہ یادداشتیں نہ صرف یادوں کے جھروکوں سے پرانے رشتہ کو استوارکرنے کا ذریعہ بنیں گی بلکہ کیڈر کو مثبت تحریک دینے میں بھی معاون ہوں گی۔
جماعت اسلامی ہند حلقہ دہلی کے رکن شوریٰ ڈاکٹر شفیق احمد اصلاحی کہتے ہیں کہ 1960 میں جامع مسجد دہلی کے سامنے پریڈ گراؤنڈ میں کل ہند اجتماع عام منعقد ہوا تو اس میں مجھے بھی شرکت کا موقع ملا۔اجتماع کے ناظم جناب انیس الدین احمد مرحوم امیر حلقہ بہار تھے ۔اجتماع نظم و ضبط اور ڈسپلن کے لحاظ سےبے مثال تھا۔1947 کے بعد دہلی میں مسلمانوں کا یہ ایک بڑا اجتماع تھا۔مسلمانوں پر زبردست خوف و دہشت کا سایہ تھا۔عام تاثر یہ تھا کہ اِس اجتماع نے مسلمانوں کو حوصلہ دیا ہے اور ان کے اندر ہمت و جرات پیدا ہوئی ہے۔اجتماع میں، مَیں نے دیکھا کہ حاجی بشیر احمد جو فیض آباد یوپی کے ایک باحیثیت اور بزرگ شخصیت تھے، وہ کئی کمپنیوں کے مالک تھے، موصوف ایک ٹوکری ہاتھ میں لیے ہوئے فرش سے کاغذ کے ٹکڑے اور گری پڑی چیزیں اٹھاکر ٹوکری میں ڈال رہے ہیں۔دراصل حاجی صاحب نے اپنا نام والینٹرس میں لکھوایا تھا اور جو کام انہیں دیا گیا اسے پوری خوشدلی سے انجام دے رہے تھے۔اسی اجتماع کے موقع پر محمد مسلم صاحب مدیر دعوت اخباراورمیڈیا انچارج نے مجھ جیسے نوجوان کو اپنی معاونت کے لیے مقرر کیا ۔ ذمہ داری تھی کہ اجتماع کی رپورٹ مختلف اخبارات و رسائل کو پابندی کے ساتھ بھیجتے رہیں۔ایک بار میں مقررہ وقت سے پانچ منٹ کی تاخیر سے پہنچا تواس تاخیر پر مسلم صاحب نے سخت سرزنش کی اور کہا کہ "اس غیر ذمہ دارانہ طرز عمل سے کیا کارنامہ انجام دو گے؟”محترم مسلم صاحب کی یہ تنبیہ آج جبکہ میری عمر پچھتر سال سے کچھ زائد ہوگئی ہے، میرے لیے زادراہ کا کام دے رہی ہے۔اسی اجتماع کے موقع پر لوگوں نے بتایا کہ رات کو جب لوگ اپنی قیام گاہوں میں سورہے ہوتے ہیں تو امیر جماعت اسلامی ہند مولانا ابواللیث اصلاحی گشت کررہے ہوتے ہیں،تاکہ وہ معلوم کرسکیں کہ کسی رفیق کو کوئی پریشانی لاحق تو نہیں ہے۔
چند رائن گٹہ،حیدر آباد سے وابستہ جناب ایس ایم ملک،سابق رکن شوریٰ حلقہ حیدرآباد، گیٹورائی اور انوپما تلگو میگزینس کے ایڈیٹراور تلگوزبان میں بے شمار کتابوں کے مترجم اپنی یادداشت پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرا پہلا اجتماع زیبا باغ، حیدر آباد میں سنہ1967 میں منعقد ہونے والا اجتماع تھا۔ اس اجتماع کے ناظم جناب محمد عبد الرزاق لطیفی تھے۔ اس وقت میں شہر مدراس کا ناظم ہمدرداں تھا۔ اس سے پہلے امیر جماعت مولانا ابواللیث اصلاحی، قیم جماعت مولانا محمد یوسف اور معاون قیم مولانا سید حامد حسین سے ان کے مدراس کے دوروں کے مواقع پر ملاقات ہوچکی تھی۔ اس کے باوجود جناب محمد نجات اللہ صدیقی صاحب سے ملنے کا بہت اشتیاق تھا۔ چنانچہ جب میں مرکزی مکتبہ اسلامی کے اسٹال پر پہنچا تو وہ دیگر لوگوں سے محو گفتگو تھے۔کسی نے بتایا کہ یہی نجات اللہ صدیقی ہیں، میں ان کے قریب گیا اور اپنا تعارف پیش کیا، اس موقع پر جس حد درجہ محبت کے ساتھ انہوں نے مجھ سے بات کی اس سے میں بہت متاثر ہوا۔ میرے ذہن میں نجات اللہ صاحب تحریک اسلامی کے ایک ابھرتے ہوئے نوجوان قائد تھے۔1974 کے اجتماع کے ناظم مولانا سید حامد حسین تھے اور اجتماع گاندھی درشن میدان میں منعقد ہوا تھا۔ اس موقع پر آندھرا پردیش سے ایک اسپیشل ٹرین بک کروائی گئی تھی، راستے میں آگرہ جنکشن پر ٹرین کو روک کر کسی دوسری ٹرین کو چھوڑا جا رہا تھا۔ اس وقت عبدالحفیظ خان صاحب مرحوم جو ٹرین میں ہمارے رہبر تھے اور چند دیگر احباب نے چھوڑے جانے والی ٹرین کی پٹریوں پر دھرنا دے کر بیٹھ گئے تب جاکے اسپیشل ٹرین کو جانے کا سگنل ملا تھا۔1981 کے اجتماع میں ہمارا بک اسٹال ایک اونچے ٹیلے پر تھا لوگ وہاں آتے اور پورے اجتماع گاہ کا نظارہ کرتے۔ایک بار جناب نجات اللہ صدیقی اور مولانا ابواللیث صاحب تشریف لائے اور پورے اجتماع گاہ پر نظر ڈالتے ہوئے فرمایا کہ بس اب یہ آخری کل ہند اجتماع ہے اس کے بعد کوئی کل ہند اجتماع عام نہیں ہو سکتا اور وہی ہوا۔
شکراوا، ہریانہ کے مولانا شمس الدین ندوی آل انڈیا اجتماعات ارکان میں اپنی شرکت کے تعلق سے کہتے ہیں کہ 1998 میں حیدرآباد میں جو اجتماع ہوا اس میں قیادت کا بہت زبردست رجحان سامنے آیا تھا۔آپ جانتے ہیں کہ 1990 کے بعد الیکشن کے متعلق جماعت کی پالیسی میں تبدیلی آئی۔لہٰذا اجتماعِ ارکان میں سوال و جواب کے سیشن میں مولانا عبدالعلیم اصلاحی نے بہت ہی جارحانہ طریقہ سے گفتگو کی یعنی گستاخی کی حد تک، اس وقت قیادت کا جو کردار سامنے آیا، اس سے معلوم ہوا کہ واقعی اللہ تعالیٰ نے تحریک اسلامی کو صحیح اسلامی فکر اور شعور دیا ہے۔اس وقت جہاں ایک جانب سوال کے بعد کچھ کا کہنا تھا کہ ان پر ایکشن لیا جائے لیکن جناب محمد جعفر، قیم جماعت نے کہا کہ "بھئی ہمیں امید ہے کہ اس پر وہ خود سوچیں گے، وہ رکن جماعت ہیں، عالم دین ہیں” یہ جو انتہائی متحملانہ قیم جماعت کا جواب تھا، اس سے ماحول خوشگوار ہوگیا۔ دوسری جانب خود امیر جماعت مولانا سراج الحسن صاحب نے بہت ہی پرسوز انداز میں کہا کہ "جناب آپ اس طرح کیوں پیش آرہے ہیں؟ اور آپ نے امیر جماعت پر جو راست حملہ کیا ہے، تو دیکھیے امیر جماعت نہ تو خود اپنے آپ بن گیا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی فیصلہ ذاتی ہے، ہمارے یہاں شورائیت موجود ہے اور تمام فیصلے شوریٰ کے اتفاق سے ہوتے ہیں، لہذا آپ بھی اطاعت کیجیے”۔ اس واقعہ کو یاد کرتے ہوئے آج بھی میری آنکھیں نم ہو جاتی ہیں اور ابھی بھی یہ سوچ کر رونا آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے واقعی جماعت اسلامی ہند کو بہترین قیادت عطا کی ہے۔
محمد نورالدین، سابق امیر حلقہ مغربی بنگال کہتے ہیں کہ سنہ 1998 میں مجھے جماعت اسلامی ہند کی رکنیت حاصل ہوئی۔ رکن بننے کے چند ہی دنوں بعد آل انڈیا ارکان اجتماع حیدرآباد کے دار الہدیٰ کیمپس میں منعقد ہوا۔ یہ میری زندگی کا پہلا آل انڈیا ارکان اجتماع تھا، جو میرے لیے ایک خواب کی مانند تھا۔ اجتماع کی خبر آتے ہی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ ریاستی سطح پر تمام اراکین کے لیے ٹکٹوں کا انتظام کیا گیا۔ امیرِ حلقہ ڈاکٹر رئیس الدین صاحب نے مجھے ٹکٹ بک کرنے کی ذمہ داری دی۔ اس وقت ریلوے ٹکٹ بُک کرنا آج کی طرح آسان نہ تھا۔ ریلوے کے مخصوص فارم بھر کر کاؤنٹر پر گھنٹوں لائن میں کھڑا ہونا پڑتا تھا۔ ایک فارم میں ایک شخص زیادہ سے زیادہ چھ افراد کے ٹکٹ بُک کر سکتا تھا۔ ہم آٹھ تا دس افراد صبح سویرے کاؤنٹرز پر جا کر کھڑے ہوگئے۔ سب کے ٹکٹ بُک کرنے میں کافی محنت کرنی پڑی۔ بالآخر تقریباً تین سو اراکین کے لیے ہاوڑہ سے سکندرآباد تک فلک نما ایکسپریس میں ٹکٹ بُک ہوئے۔ سفر میں ہمیں جن لوگوں کا ساتھ نصیب ہوا ان میں سے بہت سے اب اللہ کے مہمان بن کر اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں، جیسے مولانا یعقوب غولائی، مولانا عبدالرفیق، محمد مناف اور دیگر بزرگ۔ ٹرین کا یہ سفر نہایت خاص تھا، پورے سفر کے دوران دینی گفتگو، اسلامی ترانے اور قرآن کی تلاوت سے ماحول سرشار رہا۔ ہم لوگ جب سکندرآباد اسٹیشن پہنچے تو وہاں رضاکاروں کی سرگرمی دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ نہایت محبت سے خوش آمدید کہا،وہاں سے ہم بس کے ذریعے وادیِ ہدیٰ کی طرف روانہ ہوگئے۔پہاڑوں سے گھری وادیِ ہدیٰ نے میری خیالی دنیا میں مدینہ کی تصویر بنادی۔ ہم سندربن علاقے کے رہائشی جہاں دریا اور جنگلات ہیں، پہاڑ ہمارے لیے ایک خاص کشش رکھتے ہیں۔ اجتماع سے میں نے جماعت کی تنظیمی نظم و ضبط کو سمجھا۔امیرِ جماعت مرحوم مولانا سراج الحسن کی آواز میں اسلامی رنگ میں رنگنے کا پیغام دل کو چھو گیا۔ اس کے بعد ایک اور آل انڈیا ارکان اجتماع مرکز ابو الفضل انکلیو دہلی میں ہوا۔ اس اجتماع میں جمعیت علمائے ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی شریک ہوئے۔ ان کا ایک جملہ آج بھی میرے دل میں محفوظ ہے، انہوں نے کہا کہ "جماعت اسلامی کے ہر کارکن کی مثال ایک ادارے کی طرح ہے۔” جماعت اسلامی کے کارکنوں کی صلاحیتیں ملک اور ملت کی ترقی میں معاون ثابت ہوں گی۔2015 میں آل انڈیا ارکان اجتماع حیدرآباد میں ہوا۔ یہ اجتماع میرے لیے خاص اہمیت رکھتا تھا کیونکہ میں اس وقت جماعت اسلامی ہند مغربی بنگال کا امیر تھا۔ یہاں کی بک اسٹال سے میں نے یوسف القرضاوی کی کتاب "نظرات فی فکر الامام المودودی” حاصل کی اور اسی اجتماع کے دوران میں نے اس کا ترجمہ کرنا شروع کر دیا۔ الحمد للہ، یہ میری زندگی کا ایک اہم کام تھا۔لیکن یہ امر افسوسناک ہے کہ جماعت اسلامی ہند کے اجتماعات کی وسعت کے باوجود عوام میں اس کا اتنا اثر نظر نہیں آتا اور لوگ جماعت اسلامی کے اجتماع کو تبلیغی جماعت کے اجتماع کے ساتھ گڈمڈ کر دیتے ہیں۔ 2015 کے اجتماع کے دن میں بیدر سے حیدرآباد جا رہا تھا۔ راستے میں بس کے انتظار میں تھا کہ ایک پرائیویٹ کار میرے سامنے آکر رکی اور مجھے بٹھایا۔ ڈرائیور نے مجھے اجتماع تک پہنچایا اور کرایہ لینے سے انکار کر دیا، کہنے لگے "آپ لوگوں نے گھر بار چھوڑ کر جماعت میں شرکت کی، آپ سے کرایہ لینا ٹھیک نہیں ہوگا۔ مجھے آپ کی تبلیغی جماعت بہت پسند ہے۔” میں اس
وقت انہیں جماعت اسلامی اور تبلیغی جماعت کا فرق سمجھانے کا موقع نہ پا سکا لیکن اس بات پر خوشی محسوس کی کہ لوگوں میں اسلام کے لیے اب بھی کشش پائی جاتی ہے۔
معروف جرنلسٹ، سابق مدیر اعلیٰ سہ روزہ دعوت اور سابق رکن مجلس شوریٰ پرواز رحمانی کہتےہیں کہ سفر کی مشکلات یا دوران اجتماع ہونے والی مشکلات ہمیں حوصلہ بخشتی ہیں اور تحریک سے اپنی وابستگی کے اظہار کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سابقہ زیادہ تر اجتماعات عموماً ماہ نومبر میں منعقد ہوئے ہیں، اس مہینے کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں موسم معتدل ہوتا ہے اور شرکاء کو آسانی ہوتی ہے۔1967 میں پہلی مرتبہ آل انڈیا اجتماع میں شرکت کا مجھے موقع ملا تو اس وقت جماعت کی تمام قیادت نے شرکت کی، مولانا ابواللیث، مولانا محمد یوسف اور مولانا جلال الدین انصر عمری بھی اس موقع پر شریک ہوئے تھے اور میں نے پہلی مرتبہ انہیں دیکھا تھا۔ 1965 میں میری جماعت میں شمولیت ہوئی اور 1967 کے اجتماع میں قصبہ آکوٹ، اکولہ، مہاراشٹر سے رفقاء کے ساتھ شرکت ہوئی۔ہم لوگ اجتماع کے دوران لوگوں سے ملاقات کرتے، تعارف حاصل کرتے، ماحول بہت ہی خوشگوار اور اپنائیت کا تھا۔لگتا تھا کہ اپنے لوگوں کا اجتماع ہے،جس سے بات کی جاتی وہ ایسے ہی ملتا جیسے بہت پرانے تعلقات ہیں۔یہ اجتماع جماعت اسلامی ہند کے تعارف کا ذریعہ بنا تھا۔اس کا پس منظر یہ بھی تھا کہ اس سے کچھ عرصے پہلے دارالعلوم دیوبند نے ایک فتویٰ جاری کیا تھا کہ جس میں کہا گیا تھا کہ یہ جماعت صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے خلاف ہے، لیکن اس اجتماع میں بہت تفصیل سے صحابہ پر گفتگو ہوئی۔اس موقع پر سیف الدین سوز، الٰہ آباد سے شریک ہوئے تھے انہوں نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ لوگوں کا سوال ہے کہ جماعت کا نصب العین خواب و خیال پر مبنی ہے لیکن ہمارا کہنا ہے کہ یہ جماعت،اس نظام کے قیام کی کوشش کرتی ہے جو مطلوب ہے ساتھ ہی ہم وہ جماعت یعنی الجماعت نہیں ہیں، بلکہ اس جماعت کو قائم کرنے کی ہم کوشش کررہے ہیں۔اس اجتماع میں جماعت کا مکمل تعارف بہت تفصیل کے ساتھ سامنے آیا کیونکہ ہم نئے نئے تھے اس لیے ہمیں بہت تفصیل سے جماعت کو سمجھنے کا موقع ملا۔میں 1965 میں جماعت سے وابستہ ہوا تھا اور اس وقت سے آج تک جماعت ہی میں ہوں اگرچہ میں نے ٹٹولا بہت، لوگوں سے بات کی، خطوط لکھے، شمس پیر زادہ جب الگ ہوئے تو میں نے ان سے ملاقات کی، اس موقع پر ان سے پوچھا کہ آپ جماعت سے الگ کیوں ہوئے؟ یہ جو الیکشن کا مسئلہ ہے تو یہ مسئلہ جماعت سے الگ ہونے میں رکاوٹ نہیں بن سکتا۔اس دوران انہوں نے ہم سے بہت سی باتیں کی لیکن سب سے اہم بات یہی کہی کہ دراصل جماعت ہے تو یہی جماعت اسلامی ہے، تم اگر اس سے الگ ہوکے کسی دوسری جماعت کو تلاش کروگے تو متبادل تم کو ملے گا نہیں لہٰذا اس سے چمٹ کے رہو۔
1981 کے اجتماع میں آیت اللہ خمینی کو مدعو کیا گیا تھا اور انہوں نے دعوت کو دل سے قبول بھی کیا تھا لیکن بعض وجوہات کی بناپر وہ شریک نہیں ہوسکے البتہ انہوں نے کہا کہ سگرچہ میں شریک نہیں ہو پا رہا ہوں لیکن اپنے دست راز آیت اللہ خامنہ ای کو بھیج رہا ہوں۔ یہ تو ان کے احساسات تھے لیکن جب ہم پرواز رحمانی صاحب کے گھر ان سے ملنے گئے تو ایک ٹیبل کے سامنے انہوں نے ہم کو بٹھایا، اس کے برابر میں ان کا ڈبل بیڈ تھا، درمیان میں پردہ پڑا ہوا تھا، ساتھ ہی ڈبل بیڈ پر ان کی اہلیہ بھی موجود تھیں۔ ان کی اہلیہ کہہ رہی تھیں کہ "آپ اس قدر بیماری میں مبتلا ہوتے ہوئے اجتماع میں شرکت کے لیے کیوں جارہے ہیں؟ میرا کہنا ہے کہ آپ مت جائیے۔ کیا آپ کو یاد نہیں جب آپ گزشتہ دنوں کیرالا گئے تھے (مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں) اس وقت بھی آپ کی طبعیت بہت بگڑ گئی تھی، کتنے دن آپ ہسپتال میں زیر علاج رہے”۔ اہلیہ کہہ رہی تھیں کہ "آپ کی طبعیت کے بارے میں ہم سے زیادہ کون جانتا ہے، صبح اٹھتے ہیں تو بے ہوشی کی حالت میں رہتے ہیں، وہاں جائیں گے تو کون خیال رکھے گا؟” غالباً ان کی اہلیہ کو نہیں معلوم تھا کہ پردہ کی دوسری جانب ہم موجود ہیں۔ لیکن اہلیہ کی پریشانی اور فکر مندی کو دیکھتے ہوئے پرواز صاحب کہہ رہے تھے "ارے وہ تو ہمارا اجتماع ہے، ہر فرد ہمارا ہے، جماعت کے لوگ بہت خیال رکھتے ہیں، وہاں میں اپنے آپ کو اکیلا محسوس نہیں کروں گا، ٹکٹ بک ہو گیا ہے، شرکت ہوگی ان شاء اللہ اور کوئی پریشانی بھی لاحق نہیں ہوگی، آپ بے فکر رہیں”۔
پہلے آندھرا پردیش،پھر بنگلور اور بعد میں چنئی منتقل ہونے والے سید ریاض الحق جو اسلامک فاؤنڈیشن ٹرسٹ اور اسلامک سنٹر ویلور کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں، کہتے ہیں کہ اگرچہ میں فی الوقت چنئی میں نہیں ہوں،چھ مہینے سے دبئی میں ہوں اور میرا حافظہ بھی ساتھ نہیں دے رہا ہے لیکن میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ میرا پہلا اجتماع زیبا باغ، حیدر آباد میں سنہ1967 کا تھا جس میں مَیں نے شرکت کی تھی۔ اس کی خصوصیت یہ تھی کہ اس وقت سترہ سو ارکان ہندوستان میں تھے جن میں سے چودہ سو لوگوں نے شرکت کی اور میری رکنیت منظور نہیں ہوئی تھی، میں امید وار رکن تھا۔ اجتماع کا ایک اہم واقعہ مولانا ابواللیث اصلاحی، امیر جماعت اسلامی ہند کی دعا تھی جو بہت متاثر کن تھی۔ مولانا دعا کر رہے تھے اور کرتے کرتے ان کی کیفیت یہ ہوگئی کہ آنکھوں سے بری طرح آنسو جاری ہوگئے، ہچکیاں بندھ گئیں، جس نے پورے کیڈر کو حد سے زیادہ نہ صرف متاثر کیا بلکہ زاد راہ کے طور پر بعد میں سرگرم عمل رہنے کا حوصلہ بھی بخشا۔ان دنوں گفتگو کے دوران بہت سے اردو کے الفاظ استعمال کیے جارہے تھے اور چونکہ میں اردو کا طالب علم نہیں تھا تو مجھے سمجھ میں بھی نہیں آرہے تھے لیکن میں نے پورے تحمل کے ساتھ ہر بات کو سننے اور سمجھنے کی کوشش کی۔اپنی تحریکی زندگی میں اب تک تمام اجتماعات میں، مَیں نے شرکت کی ہے لیکن افسوس ہے کہ 15 تا 17 نومبر 2024 کے اجتماع میں حد درجہ خرابی صحت کی بنا پر شرکت نہیں کر پاؤں گا۔
محمد جاوید اقبال، سابق منیجر مرکزی مکتبہ اسلامی،نئی دہلی گفتگو کا آغاز اس شعر سے کرتے ہیں:
اللہ کی رحمت ہے، کرم کی گھٹا ہے
پر نور جو انوار سے وادی ہدیٰ ہے
میرا تعلق جماعت اسلامی ہند سے 1958 سے ہے۔ 1960 میں پریڈ گراؤنڈ دہلی میں آل انڈیا اجتماع منعقد ہوا جس میں مجھے بھی شرکت کی سعادت حاصل ہوئی۔ نظم و ضبط بہت شاندار تھا۔ اجتماع میں ہونے والی تقاریر میں سید حامد حسین صاحب کی بھی تقریر تھی، میں نے محمد علی جوہر کے بارے میں سنا تھا کہ وہ بہت اچھے مقرر تھے،جب سید حامد حسین کی تقریر سنی تو اندازہ ہوا کہ کتنی اچھی تقریر اور کتنی اچھی خطابت تھی ان کی، اس وقت مجھے مولانا محمد علی جوہر یاد آگئے۔پھر عبدالزاق لطیفی صاحب کی تقریر ہوئی وہ بھی بہت اچھی تھی اور درس حدیث مولانا محمد عزیر صاحب کا ہوا،بہت شستہ زبان بولتے تھے، معلوم ہوتا تھا کہ منہ سے پھول جھڑ رہے ہوں۔ تقریریں زیادہ تر مجھے یاد ہوگئیں اور جب میں اجتماع کے ختم ہونے کے بعد اپنے وطن گیا تو میں نے اپنے دوستوں کو تقاریر کے بہت سے حصے سنائے اور اسی کے بعد میں نے ڈاڑھی بھی رکھ لی۔چنانچہ میرے والد صاحب نے اعتراض کیا لیکن میں نے اس تعلق سے خاموشی اختیار کی، وہ خود بھی بہت متاثر ہوئے اور کچھ دن بعد انہوں نے بھی ڈاڑھی رکھ لی۔1974 کے اجتماع میں معلوم ہوا کہ اس میں مولانا سید ابوالاعلی مودودی بھی تشریف لارہے ہیں، اخباروں میں بھی کافی چرچے تھے، لیکن آخر وقت میں معلوم ہوا کہ وزیر اعظم پاکستان نے پاسپورٹ کینسل کردیا۔اس اجتماع میں بین الاقوامی بہت سے قائدین آئے تھے۔ جاپان سے جناب عمر میتا آئے تھے جو جاپان کی مسلم اسوسی ایشن کے ڈائرکٹر تھے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے قرآن کے انگریزی ترجمہ سے اس کا جاپانی زبان میں ترجمہ کیا۔1981 کے اجتماع کی خاص بات یہ تھی کہ دوران اجتماع قرآن مجید کے 14 زبانوں میں ترجموں کا اجراء ہوا۔ اس موقع پر زینب الغزالی نے بھی شرکت کی تھی، بے انتہا متاثر کن خاتون تھیں، انہوں نے مولانا محمد یوسف صاحب، امیر جماعت سے گزارش کی کہ مجھے بھی اسٹیج سے تقریر کرنے کی اجازت دیں، تو مولانا نے کہا کہ حکمت نہیں ہے کہ ہم مردوں کے سامنے خواتین کو اسٹیج پر نمایاں کریں، البتہ انہوں نے تقریر کی جو بہت متاثر کن تھی لیکن پردے کے پیچھے سے ان کی تقریر ہوئی۔ اس اجتماع کا ایک اور واقعہ یہ ہے کہ کھانے کے دوران ایک حلقہ کے کھانے کے ہال میں کھانا کچھ کم پڑ گیا اور شور بھی مچنے لگا تو مولانا ابواللیث اصلاحی، اگرچہ اس وقت امیر جماعت نہیں تھے لیکن اپنی چھڑی لیے ہوئے کھانے کے ہال میں پہنچ گئے،لوگوں کو کنٹرول کیا اور اس وقت واپسی کی جب تمام چیزیں کنڑول میں آگئیں۔
جناب مجتبیٰ فاروق، سابق امیر حلقہ مہاراشٹر، رکن شوریٰ جماعت اسلامی ہند اور بے شمار محاذوں پر خدمات انجام دینے والی شخصیت ہیں وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ میرا تعلق انتظامی امور سے رہا ہے لیکن میرا ماننا ہے کہ جماعت اسلامی ہند ایک کیڈر بیسڈ تنظیم ہے۔ جہاں تک کیڈر کی بات ہے تو میرا ماننا یہ ہے کہ جس دن بھی ہم اسے صحیح رخ دے سکے، اس دن یہ بہت ہی مؤثر اثرات ظاہر کرسکتا ہے۔جہاں تک اجتماع کے انتظامی امور کی بات ہے، یہاں میں اپنے دو احساسات پیش کرنا چاہتا ہوں۔ کوئی بھی اجتماع ہو اس میں بیش تر کام ہم اپنے کارکنان اور والینٹرس سے کرواتے ہیں،بہت کم کام ایسے ہوتے ہیں جو ہم لیبر سے لیتے ہیں۔اس سے ہمارے کیڈر کی تربیت ہوتی ہے ۔ایک مثال یہ ہے کہ ٹوائلٹس کی صفائی کے لیے ہم نے باہر کے لیبر کو بلایا تھا لیکن جب وہ نہیں آئے تو خود میں اور ہماری ٹیم اس کی صفائی میں لگ گئے، یہ منظر دیکھ کر دیگر لوگ بھی رکے نہیں بلکہ انہوں نے بڑھ کے تمام ٹوائلٹس اس خوبی کے ساتھ صاف کیے کہ دیکھنے کے لائق تھے، تو میری دعائیں ان ساتھیوں کے لیے ہیں جنہوں نے بے انتہا خلوص کے ساتھ مسئلہ کو فوراً حل کر دیا۔ اسی طرح اجتماع گاہ میں جھاڑو لگانے اور اس کے فرش کو صاف کرنے کی بات تھی،اس موقع پر بھی میں نے جب جھاڑو سنبھالی تو دیگر ساتھیوں نے بھی پوری دلچپسی کے ساتھ اس میں حصہ لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اتنا بڑا اجتماع گاہ کا ہال صاف ہو گیا۔ تو ان مثالوں سے میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اللہ کے رسول حضرت محمد ﷺ سے ہم نے یہی سیکھا ہے کہ وہ صرف احکامات صادر نہیں کیا کرتے تھے بلکہ جو مسائل سامنے آتے اس کو خود ٹیک اَپ کرتے، بلکہ دیگر لوگوں سے زیادہ کرتے اور اس کی واضح مثال اگر سیرت سے میں دوں تو وہ غزوہ خندق کی ہے کہ جب خندق کے کھودنے میں اچھے اچھے صحابہ اور بہادر صحابہ سے بن نہیں پڑا تو وہ آپ کے پاس آئےاور آپ نے اس کام کو کرکے دکھایا۔ تو ہم کو جب کوئی مسئلہ درپیش ہو تو ہمیں چاہیے کہ اس کی جستجو کریں اور دوسروں کے لیے مثال بنیں۔ رفقاء اس پر جان نچھاور کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔دوسرا احساس یہ ہے کہ ہم اجتماع میں یہ سب غور و فکر تو کرتے ہیں کہ اجتماع کا تھیم وغیرہ طے ہو لیکن میقات کے دوران کافی اتار چڑھاؤ آنے کی بنا پر کچھ چیزیں کرنی ہوتی ہیں۔ تحریک کے ناطے ہم چاہتے تو یہ ہیں کہ ہم عوامی بنیں اور عوام کا ذہن ہموار کریں لیکن اس کے لیے جس طرح اجتماعات کو عوامی بنانے کی جانب توجہ دینا چاہیے، اس تعلق سے بھی منصوبہ بنائیں تاکہ کیڈر کے باہر بھی عوام میں اجتماعات اور اس کے جملہ پیغام کو عام کرنے میں یہ اجتماعات معاون ہوں۔
متذکرہ مشاہدات اور احساسات کی روشنی میں امید کی جاتی ہے کہ قاری کو مثبت حوصلہ فراہم ہوگا اور جن کمزوریوں سےآج ہم دوچار ہیں، انہیں بھی یہ حوصلہ افزاء مثالیں دور کرنے کا ذریعہ بنیں گی، کیونکہ ہم ایک ایسی اسلامی جماعت کا حصہ ہیں یا بحیثیت مسلم اس امت کا حصہ ہیں جہاں ہمارے لیے اللہ کے رسول حضرت محمد ﷺ ان کے اصحاب اور بعد میں آنے والے خیرِ امت اصحاب میں بے شمار نظیریں موجود ہیں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی حیثیت سے واقفیت بہم پہنچائے اور جس مقصد عظیم کے لیے اس نے ہمیں برپا کیا ہے اس کا حق ادا کرنے کے لیے ہمہ وقت سرگرم رہنے کی توفیق و صلاحیت عطا فرمائے آمین۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 نومبر تا 23 نومبر 2024