وہ ایک چراغ جو نسلوں کو روشن کر گیا

ایک سبق آموز تاریخی واقعہ

0

عبدالستار فہیم

’’اے برگزیدہ بزرگ! میں نے نادانستگی میں آپ کے باغ کا ایک پھل کھا لیا مجھ سے غلطی ہو گئی، براہِ کرم مجھے معاف کر دیجیے۔‘‘ بزرگ نے گہری نگاہ سے نوجوان کو دیکھا اور کہا ’’معافی کی ایک شرط ہے۔ اگر تم میری بیٹی سے نکاح کر لو، تو میں تمہیں معاف کر دوں گا۔‘‘
یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب انسانیت اپنے تاریخ کے روشن ترین دور میں داخل ہو چکی تھی۔ وہ دور جب نورِ نبوت کی ضیاء انسانی روحوں کو جلا بخش رہی تھی اور عرب کی سرزمین علم و حکمت کا مرکز بن چکی تھی۔ شہر کوفہ میں ایک فارسی النسل نوجوان ثابت بن زوطہ رہتا تھا جو حسنِ سیرت، ذہانت اور بلند حوصلگی کا مجسمہ تھا۔
ثابت اپنی جوانی کے آغاز ہی سے عظمت کے خواب دیکھنے لگا تھا۔ وہ خواب جن میں کامیاب زندگی، پاکیزہ رفیقۂ حیات اور اخلاقی سربلندی کے نقوش تھے۔ اس کی ذہانت تدبیر و منصوبہ بندی میں صرف ہوتی اور صحبت ایسے صالحین کی تھی جو فکر و عمل میں بلند مقام رکھتے تھے۔ ایک روز اس نے امیر المومنین علیؓ سے ملاقات کی تاکہ ان کی صحبت اور دعاؤں کا فیض حاصل کرے۔ درسِ حکمت کا یہ انمول موتی اسے دستیاب ہوا کہ ’’تدبیر کا ہاتھ جب تقدیر سے جڑ جائے، تو قدرت بھی اپنا کرم نچھاور کر دیتی ہے۔‘‘
یہی نصیحت ثابت کی زندگی کی بنیاد بن گئی۔ وہ کردار و گفتار میں حسن پیدا کرتا رہا اور تجارت کے میدان میں اپنی محنت سے عزت و مقام حاصل کرنے لگا۔ اسے یقینِ محکم تھا کہ دنیا کا اصل سرمایہ سچائی، امانت اور اخلاص ہے، اور ان تینوں اصولوں کے ساتھ اگر انسان زندگی گزارے تو کامیابی اس کے قدم چومتی ہے۔
ایک آزمائش کا آغاز
ایک دن وہ تجارتی سفر پر نکلا۔ صحرا کی تپش، تھکن اور پیاس سے نڈھال ہو کر ایک چھوٹے سے باغ کے سائے میں جا رکا۔ پیاس بجھانے کے بعد اس کی نظر درخت پر پڑی جس کی شاخوں سے رسیلے پھل لٹک رہے تھے۔ بے خیالی میں اس نے ایک پھل توڑا اور چند لقمے کھا لیے۔
مگر… اس کے زندہ ضمیر نے اسے جھنجوڑا : یہ پھل تمہارا نہیں! نہ تم نے خریدا ہے، نہ اجازت لی ہے۔
اسی لمحے احساسِ ندامت کے ساتھ وہ باغ کے مالی کی تلاش میں نکلا۔ ایک سیاہ فام شخص ملازم نکلا، جس نے کہا: ’’نہ میں یہ پھل تمہیں بیچ سکتا ہوں اور نہ معاف کر سکتا ہوں، میں صرف خادم ہوں۔ مالک شیخ عدنان ہیں جو یہاں سے ایک دن کی مسافت پر رہتے ہیں۔‘‘
ثابت نے چند لمحے تذبذب میں گزارے، مگر پھر اسے نبی کریم ﷺ کا فرمان یاد آیا:
’’کلُّ جَسَدٍ نَبَتَ مِنْ سُحْتٍ فَالنَّارُ أَوْلَى بِهِ‘‘
’’جو جسم حرام کی غذا سے پروان چڑھے، وہ جہنم کی آگ کے لائق ہے۔‘‘
یہ سوچ کر اس نے فیصلہ کیا: مجھے تلافی کرنی ہے، چاہے کتنا ہی طویل سفر کیوں نہ ہو۔ وہ روانہ ہوا۔ راستے بھر سوچتا رہا: زمین کی ہر مخلوق پست ہے، صرف انسان ہی ہے جسے اللہ نے سیدھی اور اونچی قامت عطا کی ہے۔ انسان کو اختیار دیا گیا ہے کہ یا تو نرا جانور بن کر رہے یا زندگی کے اعلٰی مقاصد کو اپنا کر سعادت اور کامیابی کی بلند منزلیں تلاش کرے۔
معافی کی شرط
جب وہ قریہ پہنچا تو شیخ عدنان سے ملا اور سارا واقعہ سنایا۔ شیخ نے غور سے سنا پھر کہا ’’میں تمہیں معاف تو کر سکتا ہوں لیکن ایک شرط ہے۔ تمہیں میری بیٹی سے نکاح کرنا ہوگا۔‘‘
ثابت چونکا۔ پوچھا: ’’آپ کی بیٹی کیسی ہے؟‘‘ شیخ عدنان نے کہا: ’’دین دار ہے، مگر اندھی، بہری اور گونگی ہے۔‘‘
یہ سن کر ثابت ششدر رہ گیا۔ شیخ نے مزید کہا: ’’دو ہفتے کا وقت ہے، سوچ کر فیصلہ کرو۔‘‘
ثابت نے واپسی کا سفر اختیار کیا لیکن اس کے قدموں میں اب پہلے جیسا اطمینان نہ تھا۔ ایک طرف ضمیر کی پکار تھی اور دوسری طرف عملی زندگی کی تلخ حقیقتیں۔
دل کی کشمکش
واپسی پر ثابت نے اپنے بزرگ عبدالرحمن سے مشورہ کیا۔ انہوں نے کہا: ’’بیٹا! بعض اوقات زندگی ہمیں چھوٹے مفادات چھوڑ کر عظیم مقاصد اپنانے کا موقع دیتی ہے۔ اللہ نے فرمایا:
‘وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا…’
یعنی زوجین ایک دوسرے کی تکمیل کے لیے بنائے گئے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ تم اس لڑکی کے لیے آنکھ، کان اور زبان بن جاؤ… اور وہ تمہارے لیے روحانی روشنی بن جائے۔
عبدالرحمن نے مزید کہا: ’’یہ دنیا آزمائش کی جگہ ہے۔ بعض راستے کانٹوں بھرے ہوتے ہیں مگر ان کا انجام پھولوں سے سجا ہوتا ہے۔ تم نے جو راستہ چنا ہے، وہ قربانی کا ہے، ایثار کا ہے، مگر یہ اللہ کی رضا کی طرف لے جانے والا ہے۔‘‘
انہوں نے استخارہ کا مشورہ دیا اور دل کو اللہ کے سپرد کرنے کی تلقین کی۔
انکشاف کا لمحہ
بالآخر نکاح ہو گیا۔ ثابت جب دلہن کے پاس پہنچا تو بلند آواز میں سلام کیا — یہ جانتے ہوئے کہ وہ سن نہیں سکتی، تاہم فرشتے تو سن سکتے لیکن اچانک اسے جواب ملا: ’’وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ۔‘‘
ثابت حیران! پوچھا: ’’آپ سن سکتی ہیں؟ بول سکتی ہیں؟ آپ کے والد نے تو کہا تھا………‘‘
دلہن نے پردہ ہٹایا، چہرہ نور سے چمک رہا تھا: ’’میرے والد نے سچ کہا: – میں اندھی ہوں، ان مناظر سے جو اللہ کو ناپسند ہیں۔ – میں بہری ہوں ان آوازوں سے جو اللہ نے منع کیں۔ – میں گونگی ہوں ان باتوں سے جو اللہ کو ناراض کرتی ہیں۔‘‘
یہ سن کر ثابت کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ اس کے لبوں پر کلماتِ شکر جاری ہو گئے۔ اس نے سوچا: یہ عورت میرے رب کا انعام ہے، یہ میرے روح کی روشنی ہے، یہ میری آئندہ نسل کی تربیت کا سرچشمہ ہے۔
ایک نسل کی روشنی
یہ محض ایک نکاح کی کہانی نہیں، بلکہ ایک نسل سازی کی تاریخ ہے۔ ایک ایسا واقعہ جس میں حلال و حرام کی تمیز، تقویٰ کا معیار اور حیا و عفت کی تاثیر کی داستان ہے۔ یہ اس ازدواجی رشتہ کی سچی حکایت ہے جس نے نسلوں کا مقدر بدل ڈالا۔ ماں کا کردار صرف گود میں جسمانی پرورش دینے تک محدود نہیں، بلکہ کردار اور روح کی تشکیل تک پھیلا ہوتا ہے۔ اس حقیقت کو  علامہ اقبال نے اپنے حکیمانہ انداز میں یوں پیش کیا ہے
مکالماتِ افلاطون نہ لکھ سکی لیکن
اسی کے شعلہ سے ٹوٹا شرارِ افلاطوں
امام ابو حنیفہؒ کی والدہ ایک عام گھریلو خاتون تھیں، جن کا نہ کوئی مکتب تھا نہ قلم و قرطاس سے رشتہ۔ وہ کسی علمی حلقے کی صدر نہ تھیں، نہ انہوں نے کوئی ’’مکالمات‘‘ تحریر کیے۔ وہ فلسفہ یا فقہ کی مجلسوں میں نمایاں نہ تھیں۔
لیکن…!
ان کے وجود کی روشنی، دل کی پاکیزگی، کردار کی عظمت اور روح کی بلندی نے ایسا بیٹا پیدا کیا، جو فکری و فقہی تاریخ کا افلاطون بن گیا — بلکہ افلاطون سے بھی بڑھ کر۔
وہ خاتون جس نے خود کوئی کتاب نہیں لکھی مگر جس کی دعا، تربیت اور باطنی فراست سے علم کا ایسا مینار اٹھا کہ آج بھی فقہ حنفی دنیا کے لاکھوں کروڑوں انسانوں کی فکری و عملی زندگی کو منور کر رہا ہے۔
ثابت ابن زوطہ کی زندگی کا یہ تاریخی واقعہ تربیتِ اولاد کا زریں اصول سکھاتا ہے کہ جو اپنے نفس کی چھوٹی لغزشوں پر بھی کانپ جائے اس کے آنگن میں علم، کردار اور عظمت کی ایسی شمع روشن ہوتی ہے جو صدیوں تک بجھتی نہیں۔ ثابتؒ کا چراغ آج بھی زمانے کو اجالا دے رہا ہے۔ یہ وہ چراغ ہے جو نسلوں کو روشن کر گیا۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 جون تا 05 جولائی 2025