وہ بستی جو بسائی گئی تھی ۔۔

غزالہ اطہر

دنیا میں کسی بھی منصوبے کا خاکہ بنانا، نقشے تیار کرلینا یا خوابوں کی دنیا سجالینا نسبتاً آسان کام ہے لیکن ان خوابوں کو حقیقت کی زمین پر اتارنا جواں مردی کا متقاضی ہوتا ہے۔
چٹیل میدان، ناہموار زمین، جھاڑیوں سے بھرا ہوا سنسان علاقہ وہ جگہ جہاں تحریک کے وابستگان نے ایک بستی بسانے کا خواب دیکھا تھا۔ وہ لمحہ آج بھی یاد ہے جب ہمیں بلایا گیا اور بتایا گیا کہ اس مقام پر وہ بستی آباد کرنی ہے جو یادگار بنے گی۔ اس وقت یہ محض ایک خواب تھا لیکن ہمیں اسے تعبیر کی شکل دینی تھی۔
اس دن ہم نے اس ویران جگہ کا دورہ کیا۔ ذمہ داران نے نشان دہی کی کہ یہاں آڈیٹوریم ہوگا، وہاں طعام گاہ بنے گی اور کسی کونے میں بچوں کا کارنر ہوگا۔ ان خوابوں کے بیچ پیدل چلتے ہوئے دل میں سوال اٹھا "کیا یہ ممکن ہے؟ کیا اتنی ویران وادی کو آباد کیا جا سکتا ہے؟”
لیکن دیکھنے والوں نے دیکھا کہ وہ خواب حقیقت بن گیا۔ وہ بستی جو کبھی ہمارا مستقبل تھی، پھر ہمارا حال بنی اور اب ہمارا ماضی بن چکی ہے۔
بستی کے بسانے والے
یہ بستی دن رات کی انتھک محنت کا نتیجہ تھی۔ کتنے ہی لوگوں نے اپنی توانائیاں، وقت اور نیندیں قربان کیں۔ اجتماع کے آغاز سے چند دن پہلے پورے ہندوستان سے لوگ یہاں پہنچنے لگے۔ ہر فرد کے قیام اور طعام کا منظم انتظام کیا گیا۔
14 نومبر کو ہم بھی وہاں پہنچے۔ فارماسسٹ ہونے کے ناطے مجھے صحت کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ قیام گاہ میں سامان رکھا، ذمہ داریوں کی تفصیلات معلوم کیں اور فوراً کلینک میں خدمات سر انجام دینا شروع کیں۔ ابتدا میں گمان تھا کہ شاید یہ کام آسان ہوگا لیکن جلد ہی احساس ہوا کہ صحت کے مسائل دائمی ہیں اور لوگوں کی مدد کے لیے ہر لمحہ مستعد رہنا ہوگا۔
دوسرے دن جمعہ کی صبح اجتماع کا آغاز ہوا۔ درس قرآن، خطبہ استقبالیہ اور محترم امیر جماعت کا کلیدی خطاب، ہر سیشن معلومات اور روحانی طاقت سے بھر پور تھا۔ میں اپنی تفویض کردہ ذمہ داریوں کے ساتھ اجتماع کی کارروائی کا بھی حصہ رہی۔ ہر مقرر نے اپنی گفتگو سے دلوں کو گرمایا اور فکری جہتوں کو وسعت دی۔
تیسرے دن اجتماع کے اختتامی سیشن کے متعلق تو میں یہ کہوں گی کہ لفظوں میں یہ قوت نہیں کہ ان کیفیات کا احاطہ کریں جو اس وقت آڈیٹوریم میں موجود افراد میں تھیں۔
قراردادیں، عہد نامہ اور امیر جماعت کی جانب سے عطا کردہ زادِراہ اور کیا چاہیے تھا گویا "حاصل” تو یہی تھا۔ عہد نے لرزہ طاری کر دیا کہ "اللہ کو حاضر و ناظر جان کر” تجدید عہد کا یہ موقع، کئی آنکھوں سے نکلنے والے وہ آنسو گویا ایک کیفیت تھی جس کو لفظ دینا مجھے صحیح نہیں لگتا۔
وہ دعا جو امیر جماعت نے کی، اہل اسلام، اہل جماعت اور اہل فلسطین کے لیے… طبیعت بڑی گداز ہو گئی۔ مومن کو ہی گویا یہ شان عطا کی گئی ہے کہ مشرق و مغرب، شمال و جنوب کے جس علاقے میں بسنے والا جو بھی کلمہ گو ہے وہ اس کا بھائی ہے… اس کا درد ہم سب کا درد ہے، اس کی تکلیف، ہم سب کی تکلیف ہے، اسلام کی آفاقیت کا یہ عظیم الشان تصور۔
آڈیٹوریم سے نکلتے وقت محسوس ہوا کہ کہیں بائیں طرف سے کچھ خواتین کے کراہنے کی آوازیں آ رہی ہیں ۔ قریب جا کر معلوم کیا تو پتہ چلا کہ یہ اندور، مدھیہ پردیش سے آئی ہوئی خواتین ہیں۔ اجتماع کے اختتام کا دکھ گویا ان کی آنکھوں میں تھا۔ ان سے رندھی ہوئی آواز میں ملاقات کی، دعائیں لیں، پھر آگے بڑھ گئی۔
اب بستی کے پڑاو کو سمیٹنے کا وقت شروع ہو گیا تھا… لوگ بڑی سرعت سے اپنے سامان جمع کرنے لگ گئے تھے…
کسی کنارے سے بیٹھے تھوڑی دیر سستانے کے لیے (چونکہ تھکن کا احساس غالب تھا) میں سوچنے لگی تھی کہ زندگی کا دورانیہ بھی اتنا ہی مختصر ہے جتنے یہ تین دن… جیسے یہاں سے اپنا سامان اکٹھا کرکے رخصت ہورہے تھے، اس دنیا سے بھی ‘آخرت’ کا سامان کرکے رخصت ہونا ہے…
یَـٰۤأَیُّهَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوا۟ ٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ وَلۡتَنظُرۡ نَفۡسࣱ مَّا قَدَّمَتۡ لِغَدࣲۖ
دوسری طرف دل نے یہ سرگوشی بھی کی کہ دیکھو اتنی محنت سے بسائی گئی بستی ہے لیکن اجڑنا تو گویا طے ہے جیسے دنیا بھی ایک دن ایسے ہی ختم ہو جائے گی اپنی تمام چکاچوند، روشنیوں، عیش سامانیوں کے باوجود…
دل کا اجڑنا سہل سہی بسنا سہل نہیں ظالم
بستی بسنا کھیل نہیں بستے بستے بستی ہے
پھر دل نے رازدارانہ انداز میں کہا:
مجاہدو!! راہِ عزیمت کے مسافر بنو!!

 

***

 کسی کنارے سے بیٹھے تھوڑی دیر سستانے کے لیے (چونکہ تھکن کا احساس غالب تھا) میں سوچنے لگی تھی کہ زندگی کا دورانیہ بھی اتنا ہی مختصر ہے جتنے یہ تین دن… جیسے یہاں سے اپنا سامان اکٹھا کرکے رخصت ہورہے تھے، اس دنیا سے بھی ‘آخرت’ کا سامان کرکے رخصت ہونا ہے…


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 دسمبر تا 14 دسمبر 2024