انتخابات سے قبل صحافیوں، حقوق انسانی کارکنان  کے وہاٹس ایپ کی جاسوسی کی گئی: رپورٹ

وہاٹس ایپ کا تفصیلات دینے سے انکار، سرکردہ صحافیوں، سیاسی لیڈروں نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا

نئی دہلی، سوشل میڈیا پلیٹ فارم وہاٹس ایپ کے بارے میں ایک چونکا دینے والا انکشاف ہوا ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ اس پلیٹ فارم سے انتخابات کے دوران اسرائیل کے جاسوسی سافٹ ویئر کا استعمال کرکے بھارت میں صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی جاسوسی کی گئی تھی۔ یہ نگرانی لوک سبھا انتخابات سے پہلے کی گئی تھی۔

رپورٹ کے مطابق، وہاٹس ایپ کے امریکی  ڈائریکٹر کارل ووگ نے ​​انکشاف کیا ہے کہ اسرائیلی این ایس او گروپ نے اسپائی ویئر پیگاسس کا استعمال کرکے  مئی 2019 تک دو ہفتوں کے لیے بھارتی صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی خفیہ نگرانی کی۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، یہ چونکانے  والا انکشاف منگل کے روز سان فرانسسکو میں امریکی عدالت میں دائر کیے جانے والے مقدمے کے بعد ہوا جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ اسرائیلی این ایس او گروپ کے ذریعہ تقریباً 1400 وہاٹس ایپ صارفین کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

اس انکشاف کے بعد رازداری پر حملے کو لے کر بھارت میں مختلف صحافیوں، سماجی کارکنوں اور سیاستدانوں نے حکومت کی شدید تنقید کی ہے۔

اگرچہ وہاٹس ایپ نے بھارت میں جاسوسی کا نشانہ بنائے گئے افراد کی شناخت اور تعداد ظاہر کرنے سے انکار کردیا ہے، اس رپورٹ کے مطابق، وہاٹس ایپ کے ترجمان نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ وہاٹس ایپ ان ہدف بنائے گئے لوگوں سے واقف تھا اور اس نے ان میں سے ہر ایک کو ان کی پرائیویسی کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق، وہاٹس ایپ کے ترجمان کے بقول ’’بھارتی صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو نگرانی کے ذریعے  نشانہ بنایا گیا ہے۔ میں ان کی شناخت اور درست تعداد ظاہر نہیں کرسکتا لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ تعداد ایسی نہیں کہ اسے نظر انداز کیا جاسکے۔ ‘‘

رپورٹ میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ وہاٹس ایپ نے بھارت میں کم از کم دو درجن ماہرین تعلیم، وکلا، دلت کارکنوں اور صحافیوں سے رابطہ کیا تھا اور مئی 2019 تک دو ہفتوں کی مدت کے لیے ان کے فون کی نگرانی کے لیے ان کو چوکس کیا تھا۔

اس انکشاف پر صحافیوں اور سماجی کارکنوں نے شدید غم و غصہ کا اظہار کیا ہے۔

سوشل میڈیا پر ردعمل

سینئر صحافی رویش کمار اپنے فیس بک وال پر لکھتے ہیں: ’’جو حکومت صحافیوں کے سوالوں کا جواب دینے سے قاصر ہے، جس کے سربراہ فلم سازوں کو بلاکر اپنے انٹرویو کرواتے ہیں، وہی حکومت صحافیوں کے وہاٹس ایپ کال سن رہی ہے۔ عجیب صورت حال ہے۔‘‘

 

سینئر صحافی راج دیپ سردیسائی نے یہ کہتے ہوئے ٹویٹ کیا ہے: ’’یہ خبر  اس بات کی تصدیق کرتی ہے کسی کو خوف تھا، ااسی لیے تو سرائیلی اسپائی ویئر صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں کے وہاٹس ایپ اکاؤنٹس پر نظر رکھتے تھے۔‘‘

صحافی سیما چشتی نے ٹویٹ کیا، ’’وہاٹس ایپ نے اسرائیلی گروپ NSO کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے، اس نے سپائی ویئر کے استعمال پر فوری طور پر بندش لگانے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ کارکنوں، سیاسی مخالفین اور ماہرین تعلیم کی گرفت نہ کی جائے۔ مئی 2019 تک پوری دنیا میں جاسی کرنے والے  چوٹی کے 100 ممالک کی فہرست میں بھارتی بھی ہیں۔‘‘

صحافی سہاسینی حیدر  کا کہنا ہے، ’’ اس سوال کا وہاٹس ایپ کو جواب ضرور دینا چاہیے… کس کے کہنے پر جاسوسی کا حکم دیا گیا تھا؟‘‘

سابق مرکزی وزیر ملند دیوڑہ نے ٹویٹ کیا ہے، ’’وہاٹس ایپ میلویئر حملے نے ڈیٹا کے تحفظ اور بھارتیوں کے رازداری سے متعلق حق کے بارے میں کئی سوالیہ نشان کھڑے کیے ہیں۔ایک نجی اسرائیلی کمپنی نے دو درجن بھارتی صحافیوں اور کارکنوں کے اسمارٹ فون کیوں ہیک کیے؟‘‘

صحافی اوم تھانوی لکھتے ہیں، ’’وہاٹس ایپ نے ایک چونکا دینے والے انکشاف میں کہا ہے کہ بھارت میں صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن اسرائیلی اسپائی ویئر پیگاسس کو استعمال کرنے والے آپریٹرز کی نگرانی کا نشانہ بنے ہیں۔‘‘

سابق مرکزی وزیر اور سپریم کورٹ کے سینئر وکیل کپل سبل نے ٹویٹ کیا: ’’مودی جی کی شفاف حکومت! سرویلینس راج یہی ہے: وہاٹس ایپ کے امریکہ میں مقیم ڈائریکٹر کارل ووگ نے ​​انکشاف کیا ہے کہ اسرائیلی این ایس او گروپ نے مئی 2019 تک 2 ہفتوں تک بھارتی صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو نشانہ بنانے کے لیے اس کے اسپائی ویئر پیگاسس کا استعمال کیا۔ اب کیا ؟ ‘‘