وزیر اعظم مودی کا دورۂ امریکہ اور کواڈ اجلاس

فلسطین و اسرائیل کے معاملے میں بھارت کی محتاط پالیسی یا کچھ اور!

اسد مرزا
سینئر سیاسی تجزیہ نگار

پی ایم مودی نے پچھلے دنوں امریکی صدر جو بائیڈن، آسٹریلیا کے وزیر اعظم انتونی البانی اور جاپان کے وزیر اعظم فومیو کشیڈا کے ساتھ صدر بائیڈن کے آبائی شہر ولمنگٹن، ڈیلاویئر جوکہ دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی سے سو میل شمال میں واقع ہے، وہاں کواڈ اجلاس میں شرکت کی۔گو کہ اس سال کواڈ سربراہی اجلاس کی میزبانی بھارت کو کرنی تھی لیکن امریکی درخواست کی بنا پر اب وہ یہ میزبانی 2025 میں کرے گا۔ ان رہنماؤں نے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے قبل کواڈ اجلاس میں شرکت کی۔
ڈیلاویئر اجلاس کو صدر بائیڈن کی اس کوشش کے طور پر بھی دیکھا جارہا ہے جس کا مقصد ایک ایسے اتحاد پر حتمی مہر لگانے کی کوشش ہے جو کہ ان کی میراث کے طور پر ہمیشہ قائم رہے اور نئے امریکی صدر بھی اس کو اسی نہج پر آگے لے کر چلیں۔تاہم ٹرمپ کے اقتدار میں واپس آنے کی صورت میں کواڈ کی قسمت کے بارے میں خدشات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔
کواڈ اجلاس
سربراہی اجلاس میں چین اور بحیرہ ٔجنوبی چین میں اس کے اقدامات ایجنڈے میں سرِ فہرست رہے۔گو کہ رہنماؤں نے اجلاس سے قبل کہا تھا کہ اجلاس کا محور علاقائی تعاون رہے گا نہ کہ چین؟ اجلاس سے قبل ان رہنماؤں کا موقف اس وقت واضح ہوگیا جب صدر بائیڈن کو سرگوشی کے انداز میں یہ کہتے سنا گیا کہ میرے خیال میں چینی صدر ژی جن پنگ چین کے مفاد کو جارحانہ انداز میں آگے بڑھانے کے لیے اپنے آپ کو کچھ سفارتی پہل اپنانے پر مجبور کر رہے ہیں اور اس سے علاقے میں چینی جارحیت میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
سربراہی اجلاس کے بعد ایک مشترکہ بیان میں، کواڈ ممالک کے رہنماؤں نے ملک کا نام لیے بغیر کہا کہ وہ بحیرہ جنوبی چین میں علاقائی طاقتوں کی بڑھتی ہوئی کشیدگی پر "شدید فکر مند” ہیں۔بائیڈن نے اس بات پر زور دیا کہ ان کی انتظامیہ بیجنگ کے اقدامات کو ‘حکمت عملی میں تبدیلی’ کے بجائے ‘حکمت عملی کی تبدیلی’ کے طور پر دیکھتی ہے۔ کواڈ لیڈروں نے ہند-بحرالکاہل میں بحری سیکیورٹی تعاون کو تقویت دینے کے لیے ایک اہم حکمت عملی کی بھی نقاب کشائی کی اور یوکرین میں دیرپا امن قائم کرنے کا بھی عہد کیا۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے قومی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے احترام پر زور دیتے ہوئے قواعد پر مبنی عالمی نظم کے لیے کواڈ کے عزم کا اعادہ کیا۔ اپنے خطاب میں مودی نے کہا کہ ایک آزاد، جامع اور خوشحال ہند- پیسفک کواڈ کی مشترکہ ترجیح ہے۔
مزید برآں، بھارت نے 22ستمبر کوتجارتی شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کے مقصد کے لیے صاف اور منصفانہ معیشت پر 14 رکنی، انڈو- پیسیفک اکنامک فریم ورک برائے خوشحالی (IPEF) کے معاہدوں پر بھی دستخط کیے۔ ان معاہدوں سے صاف توانائی اور آب و ہوا کے موافق ٹکنالوجی کی ترقی، رسائی اور تعیناتی میں مدد ملے گی۔ بھارتی وزارت تجارت نے ایک بیان میں کہا کہ سرمایہ کاری کو متحرک کرنے اور انسداد بدعنوانی، ٹیکس کی شفافیت وغیرہ کے لیے اقدامات کو مضبوط کرنے اور کاروباری ماحول کو بہتر بنانے میں ان معاہدوں سے مدد حاصل ہوگی۔
صاف معیشت کے معاہدے کا مقصد توانائی کی حفاظت، GHG (گرین ہاؤس گیس) کے اخراج میں تخفیف، فوسل فیول انرجی پر انحصار کم کرنے کے اختراعی طریقے تیار کرنے، تکنیکی تعاون کو فروغ دینے، صلاحیت سازی کے لیے آئی پی ای ایف کے شراکت داروں کی کوششوں کو تیز کرنے کے علاوہ ترقی، رسائی کے علاوہ تکنیکی تعاون کو فروغ بھی دیا جائے گا۔ساتھ ہی صاف توانائی اور آب و ہوا کے موافق ٹکنالوجی کے استعمال کو بھی تقویت بخشی جائے گی۔
دریں اثنا، صدر بائیڈن کا سب سے ذاتی اعلان کینسر سے لڑنے کے لیے نئی مشترکہ کوششوں پر مرکوز رہا جس کا اعلان اجلاس کے اختتام پر کیا گیا۔اس کے تحت کواڈ لیڈروں نے ایک نئی شراکت داری کا آغاز کیا جس کا مقصد انڈو- پیسیفک میں سروائیکل کینسر کو کم کرنا ہے، اور جو کہ صدر بائیڈن کے دستخط شدہ "کینسر مون شاٹ” اقدام کی عالمی توسیع ہے۔ اس کے ذریعے خطے میں سروائیکل کینسر کی مزید اسکریننگ فراہم کرنے کی کوششوں اور ہیومن پیپیلوما وائرس یا HPV کے لیے ویکسینیشن بڑھانے کی کوششوں کو اور زیادہ بڑھانا ہے کیونکہ HPV سروائیکل کینسر کے بڑھنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ تاہم، چینی اخبار گلوبل ٹائمز نے ایک اداریے میں کواڈ اجلاس پر تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سب جانتے ہیں کہ کواڈ اجلاس کا اصل نشانہ چین ہے، لیکن شرکاء اس پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح چین کے گھیراؤ کو بین الاقوامی میدان میں بہت کم حمایت حاصل ہے۔ اخبار نے لکھا کہ امریکہ چھوٹے اور علاقائی اتحادوں کے ذریعہ چین کو گھیرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن اس میں وہ ناکام رہے گا۔
مودی اور عباس کی ملاقات
دریں اثنا، وزیر اعظم نریندر مودی نے فلسطین کے لوگوں کے لیے بھارت کی ‘‘غیر متزلزل حمایت’’ کا بھی اعادہ کیا جب انہوں نے اتوار (22 ستمبر 2024) کی شام کو فلسطین کے صدر محمود عباس کے ساتھ نیویارک میں بات چیت کی۔ یہ ملاقات ایسے وقت میں ہوئی ہے جب بھارت نے اقوام متحدہ کی اس قرارداد کو مسترد کر دیا تھا جس میں اسرائیل سے اگلے 12 ماہ کے اندر مقبوضہ فلسطینی علاقوں کو خالی کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مسئلہ فلسطین پر بھارت بہت احتیاط کے ساتھ ایک ایسی پالیسی اپنا رہا ہے جس میں کہ وہ نہ تو اسرائیل کا ساتھ چھوڑنا چاہتا ہے اور نہ ہی فلسطینی عوام کی مدد کرنا اور اسی طرح کی گول مول پالیسی اس نے امریکہ کے ساتھ بھی اپنائی ہے۔
مودی کی پبلک ڈپلومیسی
دریں اثنا، وزیر اعظم نے نیویارک کے ناساؤ کولیجیم میں بھارتی تارکین وطن سے بھی خطاب کیا اور انہیں راشٹردوت کا نام دیا۔ انہوں نے کہا ‘‘میں نے ہمیشہ ہندوستانی باشندوں کی صلاحیتوں کو سمجھا ہے۔ میں نے اسے تب بھی سمجھا تھا جب میرے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں تھا…میرے لیے آپ سبھی بھارت کے مضبوط برانڈ ایمبیسیڈر رہے ہیں۔ اس لیے میں آپ کو راشٹردوت کہتا ہوں’’ دراصل بھارتی تارکین وطن سے خطاب اس لیے اہم ہے کیونکہ بھارتی انتخابات کے وقت یہ تارکین وطن بی جے پی اور مودی کی حمایت میں ایک کردار ادا کرتے ہیں اور بھارت میں اپنے خاندان کے افراد پر زور ڈالتے ہیں کہ وہ بی جے پی اور مودی کی حمایت کریں۔
مجموعی طور پر، وزیر اعظم کے امریکی دورے نے ان کی ترجیحات کو کافی واضح کر دیا ہے یعنی وہ ایک ایسی خارجہ پالیسی اپنائے ہوئے ہیں جس میں وہ بالکل آزادانہ طور پر بھارت کا موقف اور اس کی پالیسی قائم کرنا چاہتے ہیں بغیر کسی دوسرے ملک کے دباؤ کے، یا پھر ملک کے اندرونی حلقوں کے دباؤ کے، جیسا کہ انہوں نے یوکرین مسئلہ پر امریکہ کی حمایت نہیں کی ہے اور روس کے ساتھ کھڑے ہوئے، وہیں مسئلۂ فلسطین پر وہ اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں اور لفظی طور پر فلسطینی عوام کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو ان کے دورۂ امریکہ اور کواڈ اجلاس میں شرکت کے باوجود ہندوستان کو کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ اور شاید یہ ماحول اور اس طرح کے تعلقات اس وقت تک جاری رہیں گے جب تک کہ وہ کھل کر امریکہ کی حمایت اور روس کی مخالفت کرنا شروع نہ کردیں۔
***

 

***

 ’’عمومی طور پر صبر، استقامت اور ہنر کا امتزاج سفارتکاری میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے اور کسی ملک کو مشکل ترین صورتِ حال میں بھی بآسانی دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات کو قائم رکھنے میں مدد دیتا ہے۔یہی حربہ بھارت نے امریکہ کے ساتھ بھی اپنایا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کے تحت گزشتہ چار سالوں میں ہند-امریکہ نے سرد اور گرم دونوں کا اثر باہمی تعلقات پر رونما ہوتے دیکھا ہے۔‘‘


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 اکتوبر تا 12 اکتوبر 2024