وزیراعظم نریندرمودی کا دورہ امریکہ

بھارت امریکہ سے اربوں ڈالر کا اسلحہ اور جدید ترین F-35بمبار خریدے گا

0

مسعودابدالی

بھارتی تارکینِ وطن سے بدسلوکی پر مودی خاموش
مشترکہ اعلامیے میں پاکستان پر دہشت گردوں سے سہولت کاری کا الزام
نیتن یاہو، جاپانی وزیراعظم اشیبا اور اردن کے شاہ عبداللہ چہارم کے بعد نریندر مودی چوتھے غیر ملکی سربراہ ہیں جنہوں نے ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد واشنگٹن کا دورہ کیا۔ جناب مودی کے ساتھ وزیرخارجہ جے شنکر اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوال بھی امریکہ آئے تھے۔
جمعرات 13 فروری کو واشنگٹن پہنچتے ہی جناب مودی نے امریکہ کی انٹلیجنس سربراہ شریمتی تلسی گیباڑد سے ملاقات کی۔ کملا ہیریس امریکی تاریخ کی پہلی ہندو نائب صدر ہیں، جبکہ تلسی جی پہلی ہندو رکن کابینہ ہیں۔ فرق یہ ہے کہ کملا واجبی سی ہندو ہیں، جبکہ تلسی انتہائی راسخ العقیدہ۔ اس کے بعد ہندوستانی وزیراعظم نے صدر ٹرمپ کے مشیر خصوصی اور حکومتی مشنری میں بہتری لانے کے لیے نو تراشیدہ ادارے DOGE کے سربراہ ایلون مسک سے ملاقات کی۔ مودی-ٹرمپ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران جب اس ملاقات کے بارے میں کسی صحافی نے سوال کیا تو امریکی صدر نے کہا، "مجھے نہیں معلوم کہ ایلون مسک مودی سے کیوں ملے اور کیا باتیں ہوئیں۔ میرا خیال ہے کہ مسک ہندوستان میں کاروبار کرنا چاہتے ہیں۔” بھارتی وزارت خارجہ کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ہندوستانی وزیراعظم نے ایلون مسک سے جدت طرازی، خلائی تحقیق، مصنوعی ذہانت اور پائیدار ترقی میں ہندوستانی اور امریکی اداروں کے درمیان تعاون کو مضبوط بنانے پر تبادلہ خیال کیا۔ وزیراعظم مودی نے ہندوستانی نژاد ارب پتی اور ریپبلکن پارٹی کے صدارتی ٹکٹ کے سابق امیدوار ووک راماسوامی سے بھی ملاقات کی، جو مودی جی سے ملنے سرکاری مہمان خانے بلئیر ہاؤس (Blair House) آئے تھے۔
مودی کے اس دورے کا بنیادی مقصد تجارتی معاملات پر دونوں ملکوں کے درمیان ہم آہنگی کا حصول اور پاک-ہند تعلقات کے تناظر میں تزویراتی ہدف اسلام آباد کے خلاف دہشت گردی کے الزامات پر امریکہ کی حمایت حاصل کرنا تھا۔ بھارتی وزیراعظم نے انتہائی یکسوئی سے اپنی توجہ ان دو معاملات تک محدود رکھی اور گزشتہ دنوں غیر قانونی تارکین وطن کو جس شرمناک انداز میں پیشہ ور مجرموں کی طرح ہتھکڑیاں لگا کر ہندوستان بھیجا گیا، اس جانب مودی نے ہلکا سا اشارہ تک نہیں کیا۔
جہاں تک باہمی تجارت کا سوال ہے تو اس وقت امریکہ کے لیے ہندوستانی برآمدات کا حجم 60 ارب ڈالر کے قریب ہے، جبکہ امریکہ 38 ارب ڈالر کی مصنوعات ہندوستان بھیجتا ہے۔ توازنِ تجارت میں 22 ارب ڈالر کا خسارہ صدر ٹرمپ کے لیے قابل قبول نہیں۔ فولاد اور المونیم پر صدر ٹرمپ 25 فیصد درآمدی محصول عائد کرچکے ہیں، جس کی وجہ سے ان دو دھاتوں کی ہندوستانی برآمدات پونے تین ارب ڈالر سے سکڑ کر ایک ارب ڈالر سے بھی کم رہ جانے کا امکان ہے۔ اس ملاقات کے دوسرے دن جاری ہونے والے صدارتی حکم نامے میں صدر ٹرمپ نے دنیا کے تمام ملکوں سے برابری کی بنیاد پر یا Reciprocal محصولات وصول کرنے کا حکم دیا ہے۔ توازنِ ادائیگی کے بارے میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ اس معاملے میں وہ ہر ملک کا انفرادی طور پر جائزہ لیں گے اور ان کے لیے اس باب میں کسی قسم کا خسارہ ناقابل برداشت ہے۔
توازنِ ادائیگی کو بہتر بنانے کے لیے ملاقات سے پہلے ہی ہندوستان نے امریکی موٹر سائیکلوں پر درآمدی محصول ختم کردیا، اور 14 فروری کو رندانِ ہند کو ویلنٹائن کا تحفہ دیتے ہوئے مکئی سے نچوڑی مشہور زمانہ امریکی Bourbon وہسکی پر درآمدی محصولات ڈیڑھ سو فیصد سے کم کرکے سو فیصد کردیے گئے۔ امریکہ سے ہندوستان کو برآمد کی جانے والی وہسکی کا حجم 25 لاکھ ڈالر سالانہ ہے۔
ملاقات کے دوران ہندوستانی وزیراعظم نے باہمی تجارت کے توازنِ ادائیگی کو بہتر کرنے کے لیے امریکہ سے اسلحہ، ہوائی جہازوں کے انجن اور LNG خریدنے کا ایک منصوبہ امریکی صدر کو پیش کیا۔ اسی کے ساتھ انہوں نے امریکی درآمدات پر محصول میں بھاری کٹوتی کا وعدہ بھی کیا۔ تجارتی معاملات کے ساتھ ہندوستانی وزیراعظم نے سرحد پار دہشت گردی اور اس میں پاکستان کے "ملوث” ہونے پر امریکی صدر سے گفتگو کی۔ وزیراعظم کے مشیر برائے سلامتی اجیت دوال کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ امریکی صدر نے ان معاملات پر ہندوستانی وزیراعظم کے موقف کی تائید کی۔ مودی نے بہت زور دے کر بمبئی حملے المعروف 26/11 کے مبینہ ملزم تہور علی رانا کی ہندوستان حوالگی کا مطالبہ کیا۔ تہور علی رانا پاکستانی فوج کی میڈیکل کور میں کپتان تھے۔ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد کینیڈا منتقل ہوگئے اور ایمگریشن و ویزے کا کام شروع کیا۔ ان کے دفاتر شکاگو، امریکی دارالحکومت اور ٹورنٹو میں تھے۔ رانا 2009 میں گستاخانہ کارٹون شائع کرنے والے ڈنمارک کے اخبار Jyllands-Posten پر حملے کی سازش کے الزام میں شکاگو سے گرفتار ہوئے اور دورانِ تحقیق ان کی فردِ جرم میں بمبئی حملے کا الزام بھی شامل کیاگیا، جس کی بنیاد حملے کے وقت ان کی تاج محل پیلس ہوٹل میں موجودگی تھی۔ تہور رانا کا کہنا ہے کہ وہ کینیڈا آنے کے خواہشمندوں سے بات چیت کرنے اپنی اہلیہ کے ساتھ بمبئی گئے تھے۔ کچھ عرصہ قبل امریکی سپریم کورٹ نے تہور علی رانا کی ہندوستان حوالگی کی منظوری دی تھی۔
ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں صدر ٹرمپ کا لہجہ پرجوش تھا۔ انہوں نے کہا کہ مسٹر مودی اور ہندوستان کے ساتھ ہمارا ایک "خاص رشتہ” ہے۔ ہندوستانی وزیراعظم کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو، جن سے کہیں زیادہ سخت مذاکرات کار ہیں۔ تاہم، باہمی تجارت کے بارے میں ٹرمپ نے صاف طور پر کہا کہ بھارت کے ساتھ ویسا ہی ٹیرف ہوگا جیسا وہ امریکا پر عائد کرتا ہے۔
امریکی صدر نے بھارت کو تیل اور گیس فراہم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے پاس بہت تیل اور گیس ہے جو ہم بھارت کو دے سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایف 35 طیاروں سمیت کئی ارب ڈالر کا فوجی سامان بھارت کو دیں گے۔ گویا امریکہ، اسرائیل، برطانیہ، اٹلی، ہالینڈ، آسٹریلیا، ناروے، جاپان اور جنوبی کوریا کے بعد ہندوستان جدید ترین F35 غیر مرئی (Stealth) بمبار رکھنے والا دسویں ملک بن جائے گا۔
امریکی صدر نے دہشت گردی کے خلاف مل کر کام کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ ٹرمپ نے تہور رانا کی بھارت حوالگی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ میری انتظامیہ نے 2008 کے ممبئی دہشت گردانہ حملے کے ایک منصوبہ ساز اور دنیا کے انتہائی برے لوگوں میں سے ایک کی حوالگی منظور کرلی ہے اور انصاف کا سامنا کرنے کے لیے اسے ہندوستان بھیجا جا رہا ہے۔
اس موقع پر پرچیوں پر لکھا بیان پڑھتے ہوئے مودی نے کہا کہ ڈونالڈ ٹرمپ نے امریکا بھارت تعلقات کو متحرک کیا ہے، ٹرمپ امریکہ کو عظیم (MAGA) بنانا چاہتے ہیں اور ہم بھارت کو عظیم (MIGA) بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔ بھارتی وزیراعظم نے امریکا سے تجارتی تعاون بڑھانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور بھارت مصنوعی ذہانت (AI)، جوہری توانائی، سیمی کنڈکٹرز ٹیکنالوجی میں مل کر کام کریں گے اور 2030 تک دو طرفہ تجارت کا حجم 500 ارب ڈالر تک بڑھا دیا جائے گا۔ دفاعی تعاون کا ذکر کرتے ہوئے مودی نے کہا کہ ہند بحرالکاہل خطے میں امن کے قیام کے لیے امریکہ اور بھارت مل کر کام کریں گے۔ دہشت گردی کے خلاف امریکہ اور ہندوستان کی فکر اور طرز عمل ایک ہے۔ نریندر مودی نے کہا کہ سرحد پار دہشت گردی ختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان ممبئی اور پٹھان کوٹ حملوں کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچائے اور اپنی سرزمین کو سرحد پار دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دے۔
مشترکہ اعلامیے پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے پاکستانی وزارت خارجہ نے پاکستان سے متعلق حوالے کو یک طرفہ، گمراہ کن اور سفارتی اقدار کے منافی قرار دے دیا۔ ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ کسی مشترکہ بیان میں ایسے حوالے کو شامل کروا کر بھارت کی جانب سے دہشت گردی کی سرپرستی، محفوظ پناہ گاہوں اور اپنی سرحدوں سے باہر نکل کر ماورائے عدالت قتل کی وارداتوں پر پردہ نہیں ڈالا جا سکتا۔
صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے وزیراعظم مودی کو ان کے دورے پر ایک البم بطور تحفہ پیش کیا۔ ‘قدم بقدم’ یا Our Journey Together کے عنوان سے اس البم میں صدر ٹرمپ کے دورِ اول سے آج تک کی ہندوستان سے متعلق تصاویر شامل کی گئی ہیں۔ البم پر صدر ٹرمپ نے اپنے ہاتھ سے لکھا:
"Mr Prime Minister, you are great”
***

 

***

 مودی کے دورے امریکہ کا بنیادی مقصد تجارتی معاملات پر دونوں ملکوں کے درمیان ہم آہنگی کا حصول اور ہند ۔ پاک تعلقات کے تناظر میں تزویراتی ہدف اسلام آباد کے خلاف دہشت گردی کے الزامات پر امریکہ کی حمایت حاصل کرنا تھا۔ بھارتی وزیراعظم نے انتہائی یکسوئی سے اپنی توجہ ان دو معاملات تک محدود رکھی اور گزشتہ دنوں غیر قانونی تارکین وطن کو جس شرمناک انداز میں پیشہ ور مجرموں کی طرح ہتھکڑیاں لگا کر ہندوستان بھیجا گیا، اس جانب مودی نے ہلکا سا اشارہ تک نہیں کیا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 فروری تا 01 مارچ 2025