وارانسی میں بیرونی عقیدت مندوں سے اسکول کے معصوم بچے بھی محفوظ نہیں؟

نئی دلی ریلوے اسٹیشن پر بھگدڑ سے عقیدت مندوں کی موت۔ مہا کمبھ پر بھاری پڑا 144 سال بعد کا عدد

0

محمد ارشد ادیب

میلے کی بد انتظامی پر سوالات اٹھانے والوں پر مقدمات درج، اکھلیش یادو نے یوپی کی بدنامی کے لیے یوگی کو ذمہ دار قرار دیا
خوشی نگر کی مدنی مسجد میں انہدامی کارروائی سے مسلمانوں میں تشویش۔بہرائچ اورسنبھل کے بعد خوشی نگر پر ناپاک نگاہیں
وارانسی میں ایک طالبہ کی مشتبہ حالت میں خودکشی، مین پوری میں عصمت ریزی کے الزام میں مہنت گرفتار
شمالی بھارت میں ان دنوں مہاکمبھ میلے کا خمار ایسا چڑھا ہوا ہے کہ عقیدت مند جان کی بازی لگانے کے لیے بھی تیار ہیں ، پچھلے دنوں نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر عقیدت مندوں کی بھیڑ میں بھگدڑ سے ڈیڑھ درجن سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے اور درجنوں زخمی ہیں۔ یہ لوگ پریاگراج کی خصوصی ٹرین میں سوار ہونے آئے تھے لیکن پلیٹ فارم پر ریلوے کی بد انتظامی کا شکار ہو گئے۔ عینی شاہدین کے مطابق پلیٹ فارم بدلنے کے اعلان سے بھگدڑ مچ گئی۔ مرنے والوں میں خواتین اور بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے 18 میں سے 16 خواتین اور بچے شامل ہیں۔ در اصل یوگی حکومت نے بڑے پیمانے پر اس بات کی تشہیر کی کہ یہ مہاکمبھ 144 سال بعد آیا ہے اور دوبارہ اتنے ہی سالوں بعد آئے گا ۔ اس جادوئی عدد کے چکر میں ہندوستان کے مختلف حصوں سے بڑی تعداد میں عقیدت مند پریاگ راج کا رخ کر رہے ہیں حالانکہ کئی مذہبی پیشواؤں نے اس عدد پرتنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مہاکمبھ ہر 12 سال بعد آتا ہے اور اس میں ایسا کچھ بھی انوکھا نہیں ہے۔ میلہ انتظامیہ نےدعویٰ کیا ہے کہ 13 فروری کو ہونے والے شاہی اشنان تک کروڑوں عقیدت مند سنگم میں عقیدت کی ڈبکی لگا چکے ہیں اور یہ سلسلہ 26 فروری تک جاری رہے گا۔ میلے میں آنے والی اتنی بھاری تعداد پریاگراج سمیت آس پاس کے ایک درجن سے زیادہ اضلاع کے لیے آزمائش ثابت ہو رہی ہے۔ ایودھیا میں آنے والے عقیدت مندوں کی تعداد محدود کرنے کے فیصلے کے بعد عقیدت مند کاشی کی طرف مڑ گئے جس سے شہر وارانسی میں جام جیسے حالات پیدا ہو گئے۔ وارانسی میں درجہ آٹھ تک کے اسکولوں کو 14 فروری تک کے لیے بند کرنا پڑا ۔اس کا مطلب کہیں یہ تو نہیں کہ باہر سے آنے والے عقیدت مندوں کی وجہ سے اسکول کے بچوں کے سلسلے میں انتظامیہ عدم تحفظ کے احساس کا شکار ہے؟ صحافی سے فلم ساز بننے والے ونود کاپڑی نے ایکس پوسٹ میں اس خبر پر طنز کرتے ہوئے لکھا "اچھا ہے, اسکولوں کو ہمیشہ کے لیے بند کر دینا چاہیے” بد انتظامی کا یہ عالم ہے کہ یو پی کے اپوزیشن لیڈر اکھلیش یادو نے 10 جنوری کو ایکس پر تفصیلی پوسٹ لکھا "پریاگراج میں چو طرفہ جام کی وجہ سے نہ تو کھانے پینے کے لیے راشن سبزی اور مصالحے دستیاب ہیں اور نہ ہی دوائی اور پٹرول ڈیزل۔ جس طرح صوبوں میں دستوری نظام فیل ہو جانے پر کمان کسی اور کو دے دی جاتی ہے اسی طرح مہاکمبھ میں بد انتظامی کو دیکھ کر کمان کسی ایسے شخص کو دی جانی چاہیے جو اس کا اہل ہو” ۔اکھلیش یادو نے لکھنو میں پریس کانفرنس کرکے بتایا کہ کمبھ میلے میں پھیلی ہوئی بد انتظامی کی وجہ سے پوری دنیا میں اتر پردیش کی بدنامی ہو رہی ہے۔ افسران وزیراعلی کو بےوقوف بنا رہے ہیں۔انہوں نے بھگدڑ کے دوران عقیدت مندوں کی ہر ممکن مدد اور تعاون کرنے کے لیے پریاگراج کے مسلمانوں کا شکریہ بھی ادا کیا۔
یو گی حکومت کے دعوے اور حقیقت
اتر پردیش کی یوگی حکومت نے کمبھ میلے کے آغاز میں کروڑوں عقیدت مندوں کی آمد کی تیاری کا دعویٰ کیا تھا اور اس کے لیے بھاری بھرکم بجٹ مختص کیا گیا۔ وزیراعلی خود اعتراف کر چکے ہیں کہ مہاکمبھ میلے پر 1500 کروڑ روپے خرچ کیے گئے ہیں۔اب اپوزیشن والے سوال پوچھ رہے ہیں کہ کیا یہ بجٹ صرف وی آئی پیوں کی آؤ بھگت میں خرچ کیا گیا؟ کیونکہ زمینی حقیقت تو اس کے برعکس ہے۔ صدر جمہوریہ بھلے ہی ایک گھنٹے میں دلی سے سنگم پہنچ کر اشنان کر لیتی ہوں عام آدمی تو دس گھنٹوں میں دس میل کی مسافت بھی طے نہیں کر پا رہا۔ ٹریفک نظام سے لے کر کراؤڈ مینجمنٹ تک سب بھگوان کے بھروسے ہیں۔ البتہ وی آئی پیوں کی خوب آؤ بھگت ہو رہی ہے۔ اڈانی سے لے کر امبانی تک اور صدر جمہوریہ سے لے کر گلی محلے کے لیڈروں تک کسی کو کوئی پریشانی نہیں ہوئی سب کے سب پریاگراج کے سنگم میں "امرت اشنان” کر کے خوش ہیں ۔
اسی درمیان یو پی کے ترقیاتی بجٹ کو لے کر ایک روزنامہ نے ایسی رپورٹ شائع کر دی جسے اپوزیشن لیڈر اکھلیش یادو کو اپنے ایکس ہینڈل سے شیئر کرنا پڑا۔ اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یو پی کے موجودہ مالی سال میں منظور شدہ بجٹ کی صرف 94 فیصد رقم جاری کی گئی ہے اس میں سے تقریبا 98 فیصد بجٹ خرچ بھی ہو چکا ہے اب صرف ڈیڑھ ماہ بچا ہے اس میں 46 فیصد بجٹ کب جاری ہوگا اور کیسے خرچ ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق صحت و تعلیم کے ساتھ محکمہ تغذیہ اور فوڈ سپلائی تک میں بجٹ کی قلت ہے۔ تاہم وزیراعلی دعوی کر رہے ہیں کہ مہاکمبھ میلے سے ان کی معیشت کو تین لاکھ کروڑ روپے کا فائدہ ہونے والا ہے۔ اگر یہ اندازہ درست ہے تو ریاستی حکومتوں کو سرمایہ کاری کرانے کے لیے پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ہر سرکار کو اسی طرح کے میلے لگانے چاہئیں تاکہ صوبائی حکومتوں کو بھی سرمایہ ملتا رہے اور عوام بھی روحانی طور پر فضیاب ہوتے رہیں۔
مہا کمبھ کے انتظامات پر سوال اٹھانے والوں پر مقدمات
قومی میڈیا میں مہاکمبھ میلے کے کوریج پر خصوصی بلیٹن نشر کیے جا رہے ہیں جبکہ سوشل میڈیا اس کے برعکس میلے کی بد نظمی اجاگر کرنے میں مصروف ہے۔ گزشتہ دنوں ٹریفک نظام کی ابتری کے علاوہ ٹرینوں اور بسوں میں عقیدت مندوں کی دھکم پیلی اور شیشے توڑنے کی ویڈیو وائرل ہوئے تو غازی پور کے رکن پارلیمان افضال انصاری نے کمبھ پر تبصرہ کر دیا، نتیجے میں ان کے خلاف غازی پور کے شادی آباد تھانے میں مقدمہ درج ہو گیا۔ اس کے علاوہ سماج وادی پارٹی کے ایکس ہینڈل پر دعویٰ کیا گیا ہے کہ پانچ دنوں میں پانچ لیڈروں پر مقدمے درج ہو چکے ہیں ان میں پارٹی ترجمان منوج کاکا سمیت دیگر لیڈر شامل ہیں۔ سوشل میڈیا میں بنارس والے مشرا جی کے نام سے مشہور ہریش مشرا پر بھی مقدمہ درج ہو گیا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں حکومت اتر پردیش پر حقائق چھپانے کا الزام لگا رہی ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق بد انتظامی پر نکتہ چینی کرنا اپوزیشن کے ساتھ ہر باشندے کا دستوری حق ہے تاہم کسی کی آستھا یا عقیدت کا مذاق اڑانا مناسب نہیں ہے۔
ایک عبرت آموز واقعہ
مہا کمبھ سے سبق اموز واقعات بھی آنے شروع ہو گئے ہیں۔ پریاگراج کی ریکھا دویدی انہی میں سے ایک ہیں۔ 80 برس کی ریکھا دویدی کے چار بیٹے ہیں ان میں ایک الٰہ آباد ہائی کورٹ کے سینئر وکیل ہیں دوسرے لیکچرار اور باقی دو نجی کمپنیوں میں اچھے عہدوں پر کام کرتے ہیں۔ لیکن ماں کی کفالت اور دیکھ بھال کے لیے کسی کے پاس وقت نہیں ہے۔ کمبھ میں تین دن بھٹکنے کے بعد انہیں ایک ہسپتال میں بھرتی کرایا گیا۔ بیٹوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن کوئی بھی ماں کی ذمہ داری اٹھانے کے لیے تیار نہیں تھا۔ ریکھا دویدی کی طرح بہت سے ضعیف مرد و خواتین میلے میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیے جاتے ہیں ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔یہی آج کے سماج کی سچائی ہے۔ کلپواس کے بعد ہر کمبھ میلے میں اس طرح کے واقعات پیش آتے ہیں۔ ایکس کے ایک صارف نے اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا جو اپنے ماں باپ کا خیال نہیں رکھ سکتا وہ چاہے کتنے بھی کمبھ نہا لے کوئی فائدہ نہیں۔
خوشی نگر کی مدنی مسجد میں انہدامی کارروائی
خوشی نگر کے ہاٹا قصبے میں واقع مدنی مسجد کے ایک حصے کو غیر مجاز بتا کر منہدم کر دیا گیا ہے۔ مقامی بلدیہ کا دعوی ہے کہ مسجد کی تعمیر سرکاری زمین پر کی گئی ہے جبکہ مسجد کمیٹی کا کہنا ہے کہ اس کے پاس زمین کی خریدی کی دستاویز ات موجود ہیں۔ معاملہ ہائی کورٹ میں زیر التواء ہے۔ اس کے باوجود مقامی انتظامیہ نے مسجد کے ایک حصے پر بلڈوزر چلا دیا۔ شب برات کے موقع پر مسجد کے آس پاس پولس کا کڑا پہرا لگایا گیا لیکن جمعہ کی نماز ادا کرنے بڑی تعداد میں نمازی پہنچ گئے۔ ایک شخص پر بھیڑ کو اکسانے کا بھی الزام لگا جس کے خلاف مقامی تھانے میں مقدمہ درج ہو چکا ہے۔سماجوادی پارٹی کا ایک وفد مسجد کا دورہ کر چکا ہے۔ وفد نے یوپی حکومت پر خوشی نگر میں سنبھل جیسے حالات پیدا کرنے کا الزام لگایا۔کانگریس کے صوبائی صدر اجے رائے نے بھی اس سلسلے میں گورنر کو مکتوب لکھ کر وزیراعلی سے وضاحت طلب کرنے کی مطالبہ کیا ہے۔ کانگریس لیڈر انل یادو نے ہفت روزہ دعوت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کانگریس کے موجودہ صدر اجے رائے کے علاوہ سابق صدر اجے کمار للو بھی خوشی نگر کا دورہ کر چکے ہیں۔ پارٹی اسے یوگی سرکار کی منافرت پر مبنی فرقہ وارانہ حکمت عملی کی توسیع مانتی ہے پہلے بہرائچ پھر سنبھل اور اب خوشی نگر کا معاملہ سرکاری کرتوتوں کو اجاگر کرتا ہے۔ اس سے مسلمانوں کے ساتھ دوسرے طبقات بھی فکرمند ہیں۔ اجئےرائے نے نوٹس دیے بغیر مدنی مسجد کے انہدامی کارروائی کو حکومت کی پولرائزیشن پالیسی کی زندہ مثال بتایا ۔
سنبھل میں فساد ملزمین کے پوسٹر چسپاں
سنبھل میں جامع مسجد کے سروے کے بعد ہونے والے پرتشدد واقعات میں چار نوجوان مارے گئے تھے۔ یہ نوجوان پولیس کارروائی میں مارے گئے یا کسی اور گولی کے شکار بنے اس پر ضلع انتظامیہ اور مقامی باشندوں کی رائے میں اختلاف ہے۔ تاہم انتظامیہ مسلمانوں کو ہی ذمہ دار قرار دیتی ہے، چنانچہ ان کی گرفتاری کے لیے شہر کے مختلف مقامات پر 74 مشتبہ لوگوں کے پوسٹر چسپاں کیے گئے ہیں۔ ان کا سراغ دینے والوں کو انعام کا لالچ دینے کے ساتھ نام خفیہ رکھنے کا وعدہ بھی کیا گیا ہے۔ رینو بھاٹیا نام کے ایک صارف نے ایکس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ قانونی عمل کا لحاظ ضروری ہے قصورواروں کو سزا ملے لیکن بغیر کسی بھید بھاؤ اور نفرت کے۔ مقامی لوگ پولیس کی کارروائی کو امتیازی سلوک بتا رہے ہیں۔
طالبہ کا جنسی استحصال اور مشتبہ انداز میں خود کشی
وزیراعظم نریندر مودی کے پارلیمانی حلقے وارانسی کے گرلز ہاسٹل میں ایک طالبہ کی لاش پھانسی کے پھندے سے لٹکتی ہوئی ملی۔ لڑکی بہار کے ضلع روہتاس کے ساسارام تکیہ کے باشندے سنیل کشواہا کی بیٹی ہے۔ والد کے مطابق ان کی بیٹی اسنیہا کی عمر 17 برس تھی، وہ رامیشورم ہاسٹل میں رہ کر نیٹ کی تیاری کر رہی تھی، اس معاملے میں ہاسٹل کے مالک رامیشورم پانڈے کے خلاف بھیل پور تھانے میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اسنیہا کی ماں نے بیٹی کے لیے انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا سرکار تو کہتی ہے کہ بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ لیکن اگر ایسا ہونے لگے گا تو کون بیٹی کو پڑھنے کے لیے بھیجے گا؟ اسنیہا کی ماں نے بیٹی کی عصمت ریزی کے بعد قتل کا اندیشہ ظاہر کرتے ہوئے وزیراعظم سے انصاف دلانے کی اپیل کی کہ ان کی بیٹی کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ پولیس معاملے کی چھان بین کر رہی ہے۔ لڑکی کے گھر والے پولیس پر زبردستی آخری رسومات ادا کروانے کا الزام لگا رہے ہیں۔ ان کے مطابق ان کے شکایت پر پولیس توجہ نہیں دے رہی ہے۔
مہنت عصمت ریزی کے الزام میں گرفتار
یو پی کے ضلع مین پوری میں ایک مہنت اجے داس کو تقریباً 20 ماہ بعد عصمت ریزی کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ اجے داس نے ایک خاتون کو آشرم میں بلا کر اس کی عزت لوٹ لی تھی۔ متاثرہ خاتون کے مطابق مہنت کے بھائی نے بھی اس کی عزت لوٹی ہے اور بیٹے کو اغوا کر کے دھمکی دی کہ اگر شکایت واپس نہ لی تو بیٹا نہیں ملے گا۔ یہ واردات اپریل 2023 میں ہوئی تھی۔ متاثرہ خاتون اور اس کے شوہر اس ظلم کے خلاف لڑتے رہے اس دوران انہیں جان سے مارنے کی دھمکی بھی ملی لیکن دونوں نے ہمت نہیں ہاری اور پولیس سے برابر رابطہ کرتے رہے۔ آخر کار مہنت کو گرفتار کرنا پڑا۔ اطلاعات کے مطابق مہنت خواتین کو آشرم میں گاڑی کرائے پر لگانے اور دیگر بہانوں سے جھانسا دے کر بلاتا تھا۔ یو پی میں خواتین کے خلاف جنسی ہراسانی اور عصمت دری کے واقعات آئے دن ہوتے رہتے ہیں لیکن پولیس ان کے خلاف فوری کاروائی کرنے کے بجائے چھپانے میں لگی رہتی ہے۔ اس سے پہلے بنارس ہندو یونیورسٹی میں ایک طالبہ کے ساتھ بھی اجتماعی عصمت ریزی کی واردات ہو چکی ہے جس میں برسر اقتدار جماعت سے جڑے لوگوں کے نام سامنے آئے تھے لیکن ابھی تک اس معاملے میں بھی انصاف نہیں ہوا ہے۔ فاسٹ ٹریک کورٹ میں معاملہ زیر سماعت ہے، تین ملزمین ہائی کورٹ سے ضمانت پر چھوٹ چکے ہیں ۔
تو صاحبو! یہ تھا شمال کا حال، آئندہ ہفتے پھر ملیں گے کچھ تازہ اور دلچسپ احوال کے ساتھ، تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر سلا۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 فروری تا 01 مارچ 2025