وقت رہتے اقدامات کیے جائیں ۔۔۔

پارلیمانی انتخابات کے تناظر میں ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی حکمت عملی

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد ،حیدرآباد

مسلمان صرف ووٹ بینک نہ بنیں سیاسی قیادت کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہیں
ہندوستانی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کے لیے ہونے والے حالیہ انتخابات کے نتائج نے ملک کے رائے دہندوں میں خوشی و اطمینان کی ایک لہر دوڑادی ہے۔ ان نتائج نے ثابت کر دیا کہ بجا طور پر ابھی ہندوستان میں جمہوریت کا چراغ ابھی گُل نہیں ہوا ہے اوریہاں کے عوام اب بھی جمہوری اقدار اور تکثیری نظریات کو پسند کرتے ہیں۔ اٹھارویں لوک سبھا کے ان انتخابات میں فسطائی طاقتوں نے اپنے ابلاغی پروپیگنڈے کے ذریعہ عوام کو گمراہ کرکے ووٹ بٹورنے کا ہر حربہ اختیار کیا لیکن رائے دہندگان نے اس پروپیگنڈے کا کوئی اثر قبول کیے بغیر فرقہ پر ستی اور نفرت کی سیاست کرنے والوں کو یکسر مسترد کر دیا اور بی جے پی کا 400+ والا نعرہ محض ایک خواب بن کر رہ گیا۔ نریندرمودی کی قیادت میں جو این ڈی اے کی حکومت گز شتہ دنوں تشکیل پائی ہے اسے عوامی مینڈیٹ نہیں ملا بلکہ جوڑ توڑکی سیاست کو اپناتے ہوئے بی جے پی راج سنگھاسن پر قابض ہو گئی۔ 2024 کا یہ الیکشن دو نظریات کے بیچ رہا۔ ایک طرف وہ طاقتیں تھیں جنہوں نے ببانگ دہل اعلان کر دیا تھا کہ اگر انہیں تیسری مرتبہ کامیابی ملتی ہے تو وہ مرکز میں بر سر اقتدار آتے ہی ملک کے دستور کو بدل دیں گے۔ ملک میں یکساں سول کوڈ نافذ کردیں گے اور ایک قوم ایک الیکشن کے نظریہ کو عملی جامہ پہنائیں گے۔ دوسری طرف اپوزیشن پارٹیوں کا وہ متحدہ محاذ تھا جس نے اپنی ساری انتخابی مہم کے دوران جمہوریت کے تحفظ اور دستور کی بالادستی کا نعرہ دیا۔ ملک کے رائے دہندوں نے ان دو نظریات کو سامنے رکھتے ہوئے انڈیا الائنس کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ انڈیا الائنس مرکز میں حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکا لیکن رائے دہندوں نے اسے اتنی طاقت ضرور بخشی کہ وہ این ڈی اے حکومت کو من مانی کرنے نہیں دے گا۔ پچھلے کئی دہوں کے بعد ملک کی پارلیمنٹ میں ایک طاقتور اپوزیشن کو ابھرنے کا موقع ملا ۔ یہ خود سیکولر پارٹیوں کے لیے باعث اطمینان بات ہے کہ اب ان کی آواز ایوان میں صدا بہ صحرا ثابت نہیں ہو سکتی۔ 2014 اور 2019 میں بی جے پی کو جو زبردست کا میابی ملی تھی اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی آواز کو کچل دیا گیا تھا ۔ ان دس سالوں کے دوران پارلیمنٹ میں اکثریت کی بنیاد پر من مانی قوانین بنائے جاتے رہے۔ ان میں کسانوں کے مفادات کے خلاف قوانین کے ساتھ دیگر قوانین بھی شامل ہیں۔ لیکن اب بی جے پی کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔ حزب اختلاف کو اعتماد میں لیے بغیر حکومت چلانا ممکن نہیں ہے۔ اسی کے ساتھ این ڈی اے کے حلیفوں کو بھی مطمئن رکھنا وزیراعظم نریندرمودی کے لیے ایک بڑی آزمائش ہے۔ چار سو پار کا دعویٰ کرنے والوں کو 543 رکنی لوک سبھا میں 272 نشستیں بھی حاصل نہیں ہو سکیں۔ تلگو دیشم ، جنتا دل ( یو) و دیگر حلیف پارٹیوں کا ساتھ لے کر نریندمودی تیسری مرتبہ وزارت عظمی کے عہدے پر فائز ہوئے ہیں۔ جس دن حلیف پارٹیاں بالخصوص مذکورہ دو پارٹیاں بی جے پی سے ناراض ہوں گی حکومت کا تختہ الٹ جائے گا۔ ملک میں مخلوط حکومت کا یہ جو منظر نظر آرہا ہے یہ دراصل ہندوستانی ووٹر کے بدلتے ہوئے مزاج کی غمازی کر تا ہے۔ ان انتخابات میں ملک کے تمام طبقوں نے ملک کی جمہوریت کی نیّا کو پار لگانے اور اس کے دستور کی اہمیت کو باقی و بر قرار رکھنے کے لیے سیکولر پارٹیوں پر اعتماد کرتے ہوئے ان کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کیا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس ملک کے با شعور رائے دہندوں نے اپنے ووٹ کے ذریعہ ملک کے مستقبل کو تباہ و تاراج ہونے سے بچا لیا۔
2024 کے لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کے بڑھتے ہوئے طوفان کو روکنے اور سیکولر پارٹیوں کو کامیابی دلانے میں مسلم رائے دہندوں کا کلیدی رول رہا۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ بی جے پی کو جس ناقابل یقین شکست سے دوچار ہونا پڑا اس کی اصل وجہ مسلم رائے دہندوں کا سیکولر پارٹیوں کے حق میں متحدہ ووٹ کا استعمال ہے۔ملک کے مسلم رائے دہندوں نے اپنی سیاسی بصیرت سے کام لیتے ہوئے فرقہ پر ست طاقتوں کو شکست دینے کے مقصد سے سیکولر پارٹیوں کا ساتھ دیا۔ اس کے لیے ملک کی اہم ریاست اترپردیش کے نتائج کو سامنے رکھا جائے تو بات واضح ہو جائے گی۔ یوپی میں لوک سبھا کی کل 80 سیٹیں ہیں۔ بی جے پی کو یقین تھا کہ وہاں اسے بڑی کا میابی ملے گی۔ لیکن جب 4 جون کو نتائج آئے تو یوپی میں بی جے پی کو صرف 33 حلقوں میں کامیابی مل سکی۔ سماجودای پارٹی نے37 نشستوں پر کا میابی حاصل کرکے بی جے پی کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ کانگریس نے بھی یوپی میں بہتر مظاہرہ کرتے ہوئے بی جے پی کے بڑھتے قدموں کو روک دیا۔ اتر پردیش میں سماجوادی پارٹی ہو یا کانگریس ان کو جو کامیابی ملی وہ یوپی کے مسلم ووٹوں کا نتیجہ ہے۔ اتر پردیش میں مسلم رائے دہندوں نے بی جے پی کی ذلت آ میز شکست میں کلیدی رول ادا کیا۔ اسی طرح ملک کی دیگر ریاستوں میں بھی مسلم رائے دہندوں نے فرقہ پر ستی کے خلاف اپنے جمہوری حق کا استعمال کرتے ہوئے فسطائی طاقتوں کو کیفر کردار تک پہنچایا۔ ان انتخابی نتائج نے یہ بات بھی ثابت کردی کہ ملک کی 15 فیصد آبادی کو نظر انداز کرکے کوئی بھی پارٹی زیادہ دنوں تک ملک پر راج نہیں کر سکتی۔ بی جے پی نے تو یہ طے کرلیا تھا کہ اس ملک کے مسلمانوں کو سیاست سے ہی بے دخل کر دیا جائے۔ اس لیے بارہا یہ کہا گیا کہ پارٹی کومسلمانوں کے ووٹوں کی ضرورت نہیں ہے۔ مسلمانوں کو حاشیہ پر لانے کا نتیجہ سامنے آ چکا ہے۔ لیکن اس کے باجود اس حقیقت کو قبول کرنے سے انکار کیا جارہا ہے۔ تیسری مرتبہ اقتدار پر آنے کے بعد یہ توقع کی جا رہی تھی کہ بی جے پی اپنی امیج کو بہتر بنائے گی لیکن پھر سے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا سلسہ شروع ہو چکا ہے۔ ملک کے کئی مقامات پر ہجومی تشدد کے واقعات دن بہ دن بڑھتے جا رہے ہیں۔ مسلمانوں کی مساجد اور ان کی املاک کو بلڈوزر لگا کر مسمار کر دیا جا رہا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب سیاسی انتقام کے طور پر کیا جا رہا ہے تاکہ مسلمان ڈر اور خوف کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوجائیں۔ اس سے بین الاقوامی سطح پر ملک کی ساکھ متاثر ہو گی۔ گز شتہ دنوں امریکی سکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن نے ہندوستان میں ہیٹ اسپیچ اور مخالف تبدیلی مذہب قوانین کے نفاذ اور اقلیتوں کے مکانات و عبادت گاہوں کے غیرقانونی انہدام پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان پر قابو پانے کی حکومت ہند کو تلقین کی ہے۔ ہندوستانی حکومت نے امریکی سکریٹری کے الزامات کو اگرچکہ مسترد کر دیا ہے لیکن میڈیا کے اس ہوش ربا دور میں ہر چیز کو چھپانا ممکن نہیں ہے۔ بی جے پی اپنی شکست کے اسباب کا جائزہ لینے کے بجائے اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں پر اپنا نزلہ اتارتی ہے تو یہ خود اس کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔ بائیس کروڑ کی آبادی کو اپنا دشمن سمجھنا اور انہیں قومی ثمرات سے محروم رکھنا ملک کے مقدر کو بدلنے میں ایک اہم رکاوٹ ہوگی۔ افسوس کی بات ہے کہ وزیراعظم نریندرمودی کی 71 رکنی کابینہ میں ایک بھی مسلم وزیر نہیں ہے۔ انہوں نے ملک کے تمام طبقوں بشمول سکھ اور عیسائی اقلیت کو اپنی کابینہ میں جگہ دی لیکن مسلمانوں کو دور رکھا۔ حالیہ لوک سبھا الیکشن میں بھی بی جے پی نے صرف ایک مسلمان کو پارٹی ٹکٹ دیا لیکن وہ بھی الیکشن ہار گئے۔ اس طرح بی جے پی دور میں مسلمانوں کو نہ صرف حاشیہ پر لایا گیا بلکہ اب منصوبہ بند انداز میں ان کا قومی زندگی سے اخراج عمل میں آرہا ہے۔
حالات کے اسی پس منظر میں فاشسٹ قوتوں کو ٹھکانے لگانے کے مقصد سے مسلمانوں نے سیکولر پارٹیوں کے حق میں نہ صرف اپنے ووٹ کا استعمال کیا بلکہ اس کے لیے منظم انداز میں مسلم جماعتوں، تحریکوں، اداروں کے علاوہ مسلم علماء و دانشوروں نے ہر سطح پر مہم چلائی تاکہ فاشزم سے ملک کو بچایا جا سکے اور ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا ماحول پروان چڑھ سکے۔ ان تمام کی متحدہ کوششوں کے نتیجہ میں انڈیا الائنس کو حیرت انگیز کا میابی نصیب ہوئی۔ مسلم رائے دہندوں کی اس سیاسی حکمت عملی کی وجہ سے آج ملک میں ایک خوش آئند اور امید افزاء صورت حال پیدا ہوئی ہے۔ لیکن باد سموم کے جھونکے اب بھی چل رہے ہیں۔ فاشسٹ قوتوں کو سیاسی طور پر شکست تو ہوئی ہے لیکن ہندوتو کا نظریہ ختم نہیں ہوا ہے۔ اس کے لیے ایک طویل جدوجہد کی ضرورت ہے۔ ملک میں جمہوریت کا تحفظ اور انصاف و مساوات کا قیام اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ اقتدار ان ہاتھوں میں نہ آئے جو واقعی اس بارے میں مخلص ہوں۔ سیکولر پارٹیوں میں بھی ایسے قائدین موجود ہیں جو فرقہ وارانہ مزاج رکھتے ہیں۔ کانگریس میں بہت کچھ سدھار آیا ہے لیکن ابھی یہ پارٹی پوری طرح سے فرقہ پر ستی سے پاک نہیں ہو سکی ہے۔ کانگریس کی قیادت کو ان عناصر پر نظر رکھنی ہو گی جو بی جے پی کے سخت ہندتو کے مقابلے کے لیے نرم ہندتوکی بات کرتے ہیں۔ یہ بات بھی باعث تشویش ہے کہ حالیہ لوک سبھا الیکشن میں سیکولر پارٹیوں کو اس بات کا اطمینان تو تھا کہ مسلم ووٹ ان کی جھولی میں پڑنے والے ہیں لیکن اس کے باوجود ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت کسی بھی سیکولر پارٹی نے مسلمانوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ کانگریس نے صرف 19مسلمانوں کو ٹکٹ دیا۔ ان میں بھی بعض حلقے ایسے تھے جہاں سے کا میابی کی کوئی امید نہیں تھی۔ اس میں حیدرآباد کا پارلیمانی حلقہ بھی شامل ہے۔ حیدرآباد سے کل ہند مجلس اتحادالمسلمین 1984 سے لوک سبھا الیکشن میں کامیابی حاصل کررہی ہے۔سماجودادی پارٹی نے صرف چار مسلمانوں کو ٹکٹ دیا۔ شکر ہے کہ یہ چاروں کا میاب ہو گئے۔سیکولر پارٹیوں کا یہ ادعا ہے کہ مسلمانوں کو ٹکٹ دیا جائے تو وہ کامیاب نہیں ہوتے اس لیے ان کو امیدوار نہیں بنایا جاتا ہے۔ یہ منطق اس لیے قابل قبول نہیں ہے کہ ملک میں 80 تا 100حلقے ایسے ہیں جہاں مسلمان کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ملک میں ایسی فضا بنادی گئی کہ سیکولر پارٹیوں کے مسلم امیدوار کو ہندو رائے دہندے ووٹ نہیں دیتے۔ اس کے برعکس مسلمان کسی ہندو کو کا میاب کرانے کے لیے جان توڑ محنت کرتے ہیں۔ سیکولر پارٹیوں کو یہ رجحان ختم کرناہوگاورنہ بی جے پی کا یہ الزام سچ ثابت ہوگا کہ سیکولر پارٹیاں مسلمانوں کو صرف ووٹ بینک کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔
2024کے اس عام انتخابات میں مسلمانوں نے جو سیاسی حکمت عملی اختیار کی ہے یہ بہرحال ایک رد عمل کی سیاست کا حصہ ہے۔ اسے کوئی انقلابی اقدام قرار دینا خوش فہمی کہلائے گا۔ ملک کی سیاست کے رخ کو پھیرنے میں مسلمانوں نے جو کلیدی رول ادا کیا وہ یقینی طور پر ملک کے حق میں بہتر ثابت ہوگا۔ لیکن مسلمان کسی پارٹی کی جیت یا کسی کی ناکامی کو دیکھ کر خوش ہونے لگیں تو اس سے انہیں کوئی فائدہ ہونے والا نہیں ہے۔ مسلمان جب تک ملک کی سیاسی حصہ داری کے حق دار نہیں ہوں گے ان کے مسائل بڑھتے ہی جائیں گے۔ 543 رکنی لوک سبھا میں محض 24ارکان کا ہونا ہماری سیاسی بے وقعتی اور بے وزنی کا کھلا ثبوت ہے۔ آج ملک کے تمام طبقے سیاسی طور پر متحد ہیں لیکن مسلمان آزمائشوں کے دور سے گزرتے ہوئے بھی منتشر رہتے ہیں تو آنے والے دنوں میں سیاسی جِلا وطنی ان کا مقدر ہوسکتی ہے۔جو قومیں زمانے کی گردشوں اور ٹھوکروں سے درس بصیرت نہیں لیتیں وہ زمانے کے ہاتھوں روند دی جاتی ہیں اورتاریخ میں نمونہ عبرت بن کر رہ جاتی ہیں ۔

 

***

 2024کے اس عام انتخابات میں مسلمانوں نے جو سیاسی حکمت عملی اختیار کی ہے یہ بہرحال ایک رد عمل کی سیاست کا حصہ ہے۔ اسے کوئی انقلابی اقدام قرار دینا خوش فہمی کہلائے گا۔ ملک کی سیاست کے رخ کو پھیرنے میں مسلمانوں نے جو کلیدی رول ادا کیا وہ یقینی طور پر ملک کے حق میں بہتر ثابت ہوگا۔ لیکن مسلمان کسی پارٹی کی جیت یا کسی کی ناکامی کو دیکھ کر خوش ہونے لگیں تو اس سے انہیں کوئی فائدہ ہونے والا نہیں ہے۔ مسلمان جب تک ملک کی سیاسی حصہ داری کے حق دار نہیں ہوں گے ان کے مسائل بڑھتے ہی جائیں گے۔ 543 رکنی لوک سبھا میں محض 24ارکان کا ہونا ہماری سیاسی بے وقعتی اور بے وزنی کا کھلا ثبوت ہے۔ آج ملک کے تمام طبقے سیاسی طور پر متحد ہیں لیکن مسلمان آزمائشوں کے دور سے گزرتے ہوئے بھی منتشر رہتے ہیں تو آنے والے دنوں میں سیاسی جِلا وطنی ان کا مقدر ہوسکتی ہے۔جو قومیں زمانے کی گردشوں اور ٹھوکروں سے درس بصیرت نہیں لیتیں وہ زمانے کے ہاتھوں روند دی جاتی ہیں اورتاریخ میں نمونہ عبرت بن کر رہ جاتی ہیں ۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 جولائی تا 13 جولائی 2024