!وقت نہیں، کام کا معیار اہم ہے

بھارت میں ملازمین سے 12 گھنٹے کام لینے کی تیاری

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

! محنت کشوں کے حقوق پر ضرب!۔’’ملک کا نام لو، مزدور کا خون پسینہ نچوڑو’’۔ سرمایہ داروں کا نیا کھیل
لارسن اینڈ ٹوبرو (L&T) کے چیئرمین ایس این سبرامنین نے اپنے ملازمین کو آن لائن میٹنگ کے دوران ہفتے میں 90 گھنٹے کام کرنے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو کمپنی اتوار کو بھی کام لے گی، کیونکہ یہ اربوں ڈالر کمانے کے لیے اپنے ملازمین کو ہفتے کے دن بھی دفتر بلاتی ہے۔ انہیں اس وقت خوشی ہوگی جب آپ اتوار کو بھی کام پر آئیں اور خود کو کوئی کریڈٹ نہ دیں۔ کم از کم میں تو اتوار کو کام کرتا ہوں۔ تاہم، انہوں نے اپنی تنخواہ کے بارے میں کچھ نہیں بتایا کہ وہ سالانہ کتنی رقم وصول کرتے ہیں۔
اس سے قبل انفوسس کے بانی نارائن مورتی بھی ہفتے میں 70 گھنٹے کام کرنے کا مشورہ دے چکے تھے۔ دونوں کا ایک ہی بیانیہ تھا کہ ملک کو معاشی طور پر نمبر ون بنانے کے لیے لوگوں کو زیادہ گھنٹوں تک محنت کرنا ہوگی۔
مسٹر سبرامنین نے ایک بھونڈے انداز میں سوال کیا کہ آپ اپنی اسکرین پر کتنی دیر تک نظریں جما کر دیکھ سکتے ہیں؟ اور پھر کہا کہ آپ آئیں اور اتوار کو کام شروع کریں۔ دراصل، سبرامنین نے چین کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں کے ملازمین 90 گھنٹے کام کرتے ہیں، اسی لیے وہ دنیا میں آگے ہیں۔ تاہم، چین میں 90 گھنٹے کام کرنے کا دعویٰ غلط ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی معاشی قوت، امریکہ میں تو ہفتے میں 50 گھنٹے سے بھی کم کام کیا جاتا ہے۔
انفوسس کے چیئرمین نارائن مورتی نے 70 گھنٹے فی ہفتہ کام کرنے کی وکالت کرتے ہوئے کہا تھا کہ دنیا میں بلندی پر پہنچنے کے لیے ہمیں اپنی امنگوں (Aspiration) کو بلند رکھنا ہوگا، کیونکہ ہمارے ملک میں 80 کروڑ لوگ مفت راشن پر گزارا کرنے پر مجبور ہیں، اور یہ انتہائی غریب لوگ ہیں کیونکہ وہ محنت نہیں کرنا چاہتے۔ حالیہ دنوں میں بھی مسٹر مورتی نے 70 گھنٹے کام کرنے کی بات دہرائی اور کہا کہ نوجوانوں کو کڑی محنت کرنی ہوگی تاکہ ہمارا ملک بلندی پر جا سکے۔
سی این بی سی گلوبل لیڈر سمٹ میں انہوں نے اعادہ کیا کہ انہیں افسوس ہے کہ انہوں نے اپنا نظریہ تبدیل نہیں کیا، اور وہ اسے قبر تک لے جائیں گے۔ 1986 میں جب چھ دن کے ورکنگ ہفتے کو کم کرکے پانچ دن کیا گیا تو وہ مایوس تھے۔ انہوں نے مودی کی ہفتے میں سو گھنٹے کام کرنے کی مثال دی اور کہا کہ یہ قابلِ تقلید ہے۔ ایلن مسک بھی زیادہ کام کروانے کے حق میں ہیں۔ یہ غلامی کی نئی شکل ہے۔
کارپوریٹ کے خوف سے "لال بجھکڑ” ملک کو ٹاپ پر پہنچانے کی وکالت کر رہے ہیں، مگر دراصل یہ ان کا استحصالی مزاج ہے۔ لوگوں کو کتنے گھنٹے کام کرنا چاہیے، یہ آج سے 100 سال قبل ہی طے کر دیا گیا تھا۔ 1921 میں انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO) کے معاہدے کے مطابق ہفتے میں 48 گھنٹے کام کا معیار مقرر کیا گیا تھا، اور 1935 میں مغربی ممالک نے اپنے ملازمین کے لیے یہ دورانیہ 40 گھنٹے فی ہفتہ کر دیا۔ مگر ہمارا ملک آج بھی مزدوروں سے 48 گھنٹے کام کراتا ہے۔ ILO کے اپریل 2023 کے ڈیٹا کے مطابق، اوسط بھارتی مزدور ہفتے بھر میں 48 گھنٹے سے زیادہ کام کرتا ہے اور ہم دنیا کے ممالک میں ساتویں نمبر پر ہیں۔ ہمارے ملک کے ملازمین کمر توڑ محنت کرتے ہیں مگر ہماری پیداواری صلاحیت (Productivity) کم ہے۔
اسی طرح گامبیا دوسرے نمبر پر ہے، جہاں مزدوروں سے ہفتے میں 50 گھنٹے کام لیا جاتا ہے، مگر پھر بھی وہاں کی معیشت بدتر ہے، فی کس آمدنی کم ہے اور پیداواریت (Productivity) بھی بہتر نہیں ہے۔ غربت بھارت سے بھی زیادہ ہے۔ کامیابی کے لحاظ سے گامبیا دنیا بھر میں فی کس آمدنی کی درجہ بندی میں 172ویں نمبر پر ہے، جبکہ ہمارا ملک اس معاملے میں 140 ویں سے بھی اوپر ہے، کیونکہ ہماری معاشی پالیسی ایسی ہے کہ محنت کشوں کو ان کا جائز معاوضہ نہیں ملتا۔
واضح رہے کہ ترقی یافتہ ممالک کے محنت کش ہفتے میں صرف 35 گھنٹے کام کرتے ہیں۔ ناروے کی پیداواری صلاحیت دنیا میں سب سے زیادہ ہے، جہاں کے مزدور محض 33 گھنٹے کام کرتے ہیں۔ دیگر ترقی یافتہ ممالک میں بھی کام کے اوقات کم ہونے کے باوجود وہ معیشت میں اونچائی پر ہیں۔
ملک کی ترقی اسی وقت ممکن ہے جب سب کے ساتھ عادلانہ طرزِ عمل اختیار کیا جائے، مگر یہ ملک کی ترقی کے ٹھیکیدار بے تکی باتیں کرتے ہوئے مزدوروں اور محنت کشوں کے استحصال پر تُلے ہوئے ہیں، کیونکہ یہ زیادہ کام کا تو مطالبہ کرتے ہیں لیکن بدلے میں محنتانہ دینے کی بات نہیں کرتے۔
اکنامک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق وائر نے بتایا کہ سبرامنین کی سالانہ تنخواہ 51 کروڑ روپے ہے۔ وہ یومیہ 14 لاکھ روپے کماتے ہیں جو عام مزدوروں کے مقابلے میں 534 گنا زیادہ ہے۔ مگر یہ چالاک کارپوریٹ لوگ یہ نہیں بتاتے کہ اگر وہ اپنے ملازمین سے 90 گھنٹے کام کروائیں گے تو ان کی تنخواہوں میں کتنا اضافہ ہو گا؟
ملک کے تقریباً 90 فیصد مزدور غیر منظم شعبوں سے وابستہ ہیں اور حکومت کے پورٹل پر 28 کروڑ مزدور رجسٹرڈ ہیں۔ ان میں سے 94 فیصد مزدوروں اور محنت کشوں کی ماہانہ آمدنی 10 ہزار روپے سے بھی کم ہے۔ ہمارے ملک کے مزدور اوسطاً روزانہ تقریباً 10 گھنٹے، ہفتے کے سات دن کام کرتے ہیں۔ اسی طرح 86 فیصد کسانوں کے پاس دو ایکڑ سے بھی کم زمین ہے۔ وہ کھیت میں یا کھیت سے باہر کتنے گھنٹے کام کرتے ہیں۔ ان کی ماہانہ آمدنی بمشکل 3 سے 4 ہزار روپے ہی ہوتی ہے، مگر اس کے باوجود ملک کی جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ 15 سے 17 فیصد کے درمیان برقرار رہتا ہے۔
ایس این سبرامنین (SNS) کے بیان پر بجاج آٹو کے منیجنگ ڈائریکٹر راجیو بجاج نے کہا کہ کام کے گھنٹوں کی نہیں بلکہ کام کے معیار کی اہمیت ہوتی ہے۔ سی این بی سی ٹی وی 18 کی رپورٹ کے مطابق مسٹر بجاج نے کہا کہ اگر کسی کو 90 گھنٹے کام کرنا ہے تو اسے اوپر سے شروع کرنا چاہیے۔ انہوں نے کام اور زندگی کے توازن کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ اگر کوئی ہفتے میں 70 سے 90 گھنٹے کام کرتا ہے تو اس کا اثر صحت اور خاندانی زندگی پر لازماً پڑے گا۔
جب SNS کا ویڈیو ریڈٹ پر وائرل ہوا تو کئی صارفین نے اس بیان کو غیر منصفانہ قرار دیا۔ آنند مہندرا کا کہنا ہے کہ کام کے گھنٹوں سے زیادہ اس کے معیار کی اہمیت ہوتی ہے۔ اسی طرح آدار پونا والا (سیرم انسٹیٹیوٹ کے بانی) کا بھی یہی مؤقف ہے۔
مشہور اداکارہ دیپیکا پڈوکون نے اپنے ایکس (سابقہ ٹویٹر) پر لکھا کہ کارپوریٹس کے اعلیٰ عہدیدار کا یہ بیان چونکا دینے والا ہے۔
آج کارپوریٹس کے استحصال کی وجہ سے مزدوروں کی اجرت نہیں بڑھی، لیکن ان کا منافع چند سالوں میں چار گنا سے زیادہ ہو چکا ہے۔ "ملک کا نام لو اور لوگوں سے کام کرواؤ”— اس پالیسی کے اثرات شہروں میں واضح طور پر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ شہری آبادی کا قرض بے تحاشا بڑھ رہا ہے، ان کی بچت کم ہو رہی ہے اور کریڈٹ کارڈ ڈیفالٹ کے کیسز بڑھتے جا رہے ہیں۔
جس دن خود غرض سرمایہ دار 40 سے 48 گھنٹوں کے کام کے علاوہ اضافی گھنٹوں کے لیے مناسب اجرت دینا شروع کر دیں گے تبھی ملک کی پیداواریت میں حقیقی اضافہ ہوگا۔
ادھر آسٹریلوی حکومت نے اپنے شہریوں کے لیے Right to Disconnect (کام کے بعد بلاوجہ رابطے سے انکار کا حق) نافذ کر دیا ہے۔ اب کوئی صنعت کار اپنے ملازمین کو کام کے اوقات کے بعد بلا نہیں سکتا اور اگر کسی ہنگامی ضرورت کے تحت بلائے تو اسے اس کا معاوضہ دینا ہوگا۔
بھارت میں بھی 1948 کے فیکٹری ایکٹ کے تحت کسی سے 48 گھنٹوں سے زیادہ کام نہیں کروایا جا سکتا اور اگر کروایا جائے تو اوور ٹائم کی ادائیگی دو گنی شرح پر کرنا ہوگی۔ اسی قانون کے تحت 240 دنوں کے بعد محنت کشوں کو Paid Leave دینا بھی لازم ہے۔ لیکن کارپوریٹ ورکروں کے لیے ایسا کوئی قانون موجود نہیں، کیونکہ موجودہ حکومت کارپوریٹ سیکٹر کی جیب میں ہے۔
2022 میں نیا لیبر قانون لایا گیا جو کارپوریٹ دوستوں کے مفاد میں ہی بنایا گیا تھا۔ سی ایم آئی ای کی ستمبر 2024 کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں بے روزگاری کی شرح 7.8 فیصد ہے اور کمپنیاں کم اجرت پر ملازمین بآسانی حاصل کر رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کارپوریٹ لیڈرز ایسی بے بنیاد باتیں کر رہے ہیں اور ملازمین سے حد سے زیادہ مطالبات کیے جا رہے ہیں۔
گلوبل لائف-ورک بیلنس انڈیکس 2024 کے مطابق اگر ہم ورکنگ دنوں کو کم کر دیں اور ملازمین کو چھٹیاں دیں تو Productivity (پیداواری صلاحیت) میں کمی نہیں آتی۔ بہتر نتائج کے لیے ہمیں Deep Work کے اصولوں کو اپنانا ہوگا تاکہ کم وقت میں زیادہ کام کیا جا سکے۔ مگر اب کارپوریٹ سیکٹر کی ملی بھگت سے ملک کے لیبر قوانین میں ترمیم کر کے آٹھ گھنٹے کی بجائے 12 گھنٹے کا ورکنگ ڈے متعارف کرایا جا رہا ہے۔
اس کے علاوہ، مستقل اور غیر مستقل ملازمت کے فرق کو ختم کر کے روزگار کے نئے ماڈلز متعارف کرائے جا رہے ہیں، جنہیں "پارٹنر”، "ٹرینی” اور "انٹرن” جیسے دل کش نام دیے جا رہے ہیں تاکہ مزدوروں کو آسانی سے نوکری سے نکالا جا سکے اور برخاستگی کی صورت میں معاوضہ بھی دینا نہ پڑے۔
ہمارے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ بھارت کے کارپوریٹ کلچر میں اختلافِ رائے کا مکمل فقدان ہے۔ کسی باس سے اختلاف رکھنے کا مطلب اپنی نوکری اور مستقبل کو خطرے میں ڈالنا ہے۔ L&T کے داخلی زوال کی ایک مثال یہ ہے کہ کسی نے بھی اس ویڈیو میں ایس این سبرامنین کو چیلنج نہیں کیا۔
یہ مسئلہ نہیں کہ ویڈیو لیک ہو گیا، اصل مسئلہ یہ ہے کہ کسی نے ایس این ایس سے یہ سوال تک نہیں کیا کہ وہ ایسا بیان دینے کے مجاز کیسے ہیں؟
ملک کی نئی نسل کی رہنمائی اور ان کی تخلیقی سوچ کے بہتر استعمال کے لیے پرانی نسل کو یہ سیکھنا ہوگا کہ وہ اتنے غیر معمولی نہیں جتنا وہ خود کو سمجھتے ہیں۔
***

 

***

 بھارت میں کارپوریٹ سیکٹر کے بڑے نام مزدوروں سے ہفتے میں 70 سے 90 گھنٹے تک کام کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، مگر ان کی اپنی تنخواہیں اور مراعات آسمان کو چھو رہی ہیں۔ ایس این سبرامنین کی 51 کروڑ سالانہ تنخواہ اور عام مزدور کی قلیل اجرت کا موازنہ واضح کرتا ہے کہ کارپوریٹ کو صرف اپنا منافع بڑھانے میں دل چسپی ہے، جبکہ اپنے ملازمین کی فلاح کی ان کو کوئی فکر نہیں ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 جنوری تا 01 فروری 2025