وقف ترمیمی قانون : سماجی و سیاسی توازن پر گہرے اثرات متوقع

سماجی مقصد نہیں سرکاری تسلط ! نئی تشریحات کے پیچھے غلط نیت کارفرما

دعوت نیوز، دلی بیورو

وقف ریکارڈ کی درستگی:اب چیلنج نہیں، ایک نئی جنگ ہے
مشہور انگریزی صحافی سیما چشتی نے تازہ مضمون میں لکھا ہے کہ "اگر کسی قانون سے ملک کی 14.2 فیصد آبادی جو 20 کروڑ پر مشتمل ہے، متاثر ہوتی ہے تو اس سے صرف ایک کمیونٹی متاثر نہیں ہوگی بلکہ پورا ملک متاثر ہوگا۔”
بلاشبہ، نئے وقف قوانین سے ملک کی سیاست اور سماجی حیثیت دونوں متاثر ہوں گے، اور اس حقیقت کا ادراک مسلمانوں کے علاوہ جس کمیونٹی نے کیا ہے وہ ملک کی سکھ کمیونٹی ہے۔ چنانچہ پارلیمنٹ میں پنجاب کی تمام سیاسی جماعتوں—کانگریس، عام آدمی پارٹی، اکال تخت اور شرومنی اکالی دل—نے وقف قوانین کی متحدہ مخالفت کی۔ سکھ سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کی تقاریر میں بھی اندیشوں کی جھلک نمایاں تھی۔ شرومنی اکالی دل کی ممبر پارلیمنٹ ہرسی مت کور نے واضح لفظوں میں کہا کہ "وہ سمجھتی ہیں کہ مسلمانوں کے بعد ہمارے مذہبی اداروں کی جائیدادوں کی باری ہے۔” سکھ پرسنل لا کا کہنا ہے کہ ناندیڑ گردوارہ پربندھک کمیٹی، پٹنہ صاحب اور گرو گوبند گردوارہ کی سیکڑوں ایکڑ زمین پر حکومت قبضہ کرچکی ہے۔
تاہم مستقبل کے خطرات کا ادراک کرنے میں عیسائی تنظیمیں، بالخصوص کیتھولک بشپس کانفرنس جو عیسائیوں کی بڑی تنظیم ہے، نے وقف ترامیم کی کھل کر حمایت کی اور بی جے پی حکومت نے ملک کی دو بڑی اقلیتوں کے درمیان تصادم کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی۔
دراصل، بھارت کی جنوبی ریاست کیرالا کے ساحلی شہر کوچی کے مضافاتی علاقے منمبم میں زمین کے تنازع کی وجہ سے کیتھولک چرچ وقف کی بحث میں الجھ گیا ہے۔ عیسائی خاندان 400 ایکڑ کے علاقے میں نسل در نسل آباد ہیں اور مقامی بندرگاہ میں ماہی گیری سے اپنی روزی کماتے ہیں۔ 1950 میں اس اراضی کو وقف املاک کے طور پر نامزد کرتے ہوئے ایک ڈیڈ رجسٹرڈ کیا گیا تھا۔ ماہی گیری کرنے والے خاندان، جو بنیادی طور پر لاطینی کیتھولک ہیں، نے زمین پر قبضہ جاری رکھا اور وقف کے عہدہ میں ابہام پیدا ہونے کی وجہ سے قانونی لڑائیاں شروع ہوئیں۔ 2022 میں کیرالا وقف بورڈ نے زمین کی ملکیت حاصل کرنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے ان عیسائی خاندانوں کے بے دخلی کا ممکنہ خدشہ پیدا ہوگیا۔ کیرالا کی ریاستی حکومت نے مداخلت کی لیکن بورڈ نے کیرالا ہائی کورٹ میں اپیل کی جس نے ریاستی حکومت کے اقدامات کو روک دیا۔
اس سال 29 مارچ کو کیرالا کیتھولک بشپس کونسل نے کیرالا کے ممبرانِ پارلیمنٹ سے وقف (ترمیمی) بل کے حق میں ووٹ دینے کی اپیل کی۔ بی جے پی حکومت کے وزراء نے کونسل کے اس اقدام کا خیر مقدم کیا۔ اس کونسل میں ملک کی تین اہم کیتھولک رسومات—لاطینی، سائرو-مالابار اور سائرو-مالانکارا—کے بشپ شامل ہیں۔ انہوں نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ 1954 سنٹرل وقف ایکٹ میں کچھ دفعات آئین اور ملک کی سیکولر و جمہوری اقدار سے متصادم ہیں۔
مشہور دانشور و سماجی کارکن جان دیال، جن کا تعلق عیسائی سماج سے ہے، نے کیتھولک بشپس کونسل کے ذریعہ وقف ترامیم کی حمایت کے فیصلے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایک ایسے وقت میں جبکہ مسلم سماج کو ہماری جماعت کی ضرورت تھی، ایک مقامی تنازع کی بنیاد پر ایسے ترامیم کی حمایت کرنا جو آئین کی روح کے خلاف اور اسلامو فوبک ہیں، بہت ہی سنگین ثابت ہوسکتا ہے۔
اگرچہ عیسائیوں کے پاس وقف جیسا ادارہ نہیں ہے مگر انگریزوں کے دورِ اقتدار میں چرچ، اسکول اور دیگر مقامات جو شہروں کے قلب میں واقع ہیں، 99 سال کے لیز پر دیے گئے تھے، جو اب ختم ہو رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس کے بعد کیا ہوگا؟
بشپس کونسل نے وقف ترامیم کی اس لیے حمایت کی تھی کہ ہندوتو تنظیمیں ان کے اس "احسان” کو یاد رکھیں گی۔ ظاہر ہے کہ یہ سوچ اپنے آپ میں مضحکہ خیز ہے۔ چنانچہ آر ایس ایس کے اخبار نے وقف ترمیمی بل کے پاس ہونے کے اگلے ہی دن ایک مضمون شائع کیا، جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ملک میں زیادہ زمین وقف کے پاس ہے یا کیتھولک چرچ کے پاس۔ اگرچہ سیاسی جماعتوں کی تنقید کے بعد اس آرٹیکل کو ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا۔
دوسری طرف کیتھولک بشپس کونسل نے بھی وقف ترمیمی ایکٹ کی حمایت کے حوالے سے وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ جھوٹا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ کیتھولک چرچ نے سنگھ پریوار کے ساتھ ہاتھ ملا لیا ہے اور مسلم کمیونٹی کے خلاف اس کے ایجنڈے کی حمایت کر رہا ہے۔ کیتھولک بشپس کونسل کے ڈپٹی سکریٹری جنرل فادر تھامس تھرایل نے کہا کہ چرچ نے وقف ایکٹ سے متعلق مسائل کے پس منظر میں، منمبم کے رہائشیوں کے ساتھ ان کی بقا کے تعلق سے پیدا شدہ تشویش کے تحت کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا۔ کیتھولک چرچ نے ابتدا ہی سے اپنا مؤقف واضح کیا ہے کہ وقف ایکٹ میں ترمیم کے باعث کسی بھی طور پر اقلیتی برادریوں کے حقوق متاثر نہیں ہونے چاہئیں۔
انہوں نے کہا "چرچ بشمول کیتھولک بشپس کونسل (KCBC) کی قیادت ہمیشہ اس مؤقف پر قائم رہی ہے اور اسی مؤقف کو مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (JPC) کے روبرو بھی پیش کیا گیا۔ کیتھولک چرچ کو اس بات پر تشویش ہے کہ اگر اس طرح کے قوانین کو غیر سائنسی انداز میں نافذ کیا گیا تو مستقبل میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اور سماجی پولرائزیشن جیسی سنگین صورت حال جنم لے سکتی ہے۔”
کیتھولک بشپس کونسل کی یہ وضاحت ایسے وقت میں آئی ہے جب بی جے پی اپنے مقصد میں بڑی حد تک کامیاب ہو چکی ہے۔ مقامی تنازع کی وجہ سے ایک ایسے مسئلے پر جس کی زد میں وہ خود بھی آ سکتے ہیں، مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہونے میں وہ ناکام رہے۔ لیکن مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ آگے بڑھ کر عیسائی برادری کو قریب لائیں۔
اس کے علاوہ ملک کی ایک اور اقلیت بدھسٹ کمیونٹی بھی مشکلات سے دو چار ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بودھ گیا وہ مقام ہے جہاں گوتم بدھ نے پندرہ سال کی عمر میں مراقبہ کیا اور روشن خیالی حاصل کی۔ بودھ گیا کا مندر بدھ مت کے ماننے والوں کے لیے عقیدت کا مرکز ہے، جہاں پوری دنیا سے اس کے پیروکار آتے ہیں۔ تاہم حالیہ مہینوں میں ان کا اجتماع عبادت یا روحانیت کے لیے نہیں بلکہ بودھ گیا اور اس کے انتظام پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے ہو رہا ہے۔
2011 کی مردم شماری کے مطابق ملک میں بدھ مت کے ماننے والوں کی تعداد تقریباً 84 لاکھ ہے۔ بودھ گیا مندر ایکٹ 1949 کے تحت، مندر کا انتظام گزشتہ 76 سالوں سے آٹھ رکنی کمیٹی کے ذریعہ کیا جا رہا ہے، جس میں چار ہندو اور چار بدھسٹ شامل ہیں۔ اب اس ایکٹ کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ حالیہ برسوں میں ہندو راہبوں نے کمیونٹی قانون کے تحت حاصل اثر و رسوخ کی بنیاد پر، مندر میں ایسی رسومات انجام دینا شروع کی ہیں جو بدھ مت کی روح کے منافی ہیں۔
بودھ گیا مٹھ جو ایک ہندو مندر ہے، دعویٰ کرتا ہے کہ وہ صدیوں سے مندر کی دیکھ بھال کرتا آ رہا ہے۔ 2012 میں، دو بدھ راہبوں نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کی تھی جس میں 1949 کے قانون کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا، مگر یہ کیس تاحال سماعت کے لیے درج نہیں ہوا۔ حالیہ مہینوں میں بدھ راہبوں نے ریاستی و مرکزی حکومتوں کو میمورنڈم پیش کیے ہیں اور احتجاجی ریلیاں بھی نکالی ہیں۔
وقف املاک میں حکومت کی مداخلت نے تمام اقلیتوں اور قبائلی برادریوں کو جو اپنے جداگانہ مذہبی تشخص کی بنیاد پر مسلسل دائیں بازو کی یلغار کا شکار ہیں، متحد ہو کر رائے عامہ ہموار کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ وقف ترامیم کے بعد پیدا شدہ خطرات کا منظم انداز میں مقابلہ کیا جائے۔
جہاں تک ان ترامیم کے دونوں ایوانوں سے منظور ہونے کے بعد کے سیاسی اثرات کا تعلق ہے تو اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ بی جے پی ان طبقات کو پیغام دینا چاہتی ہے جو آر ایس ایس اور ہندتوا تنظیموں کے پروپیگنڈے سے متاثر ہو چکے ہیں۔ پولرائزیشن کا ماحول بنا کر سیاسی فائدہ اٹھانا بی جے پی کا پرانا ہتھکنڈہ ہے، لیکن وقف ترمیمی ایکٹ نے جو اب قانون بن چکا ہے، ان سیاسی جماعتوں کے چہروں سے نقاب ہٹا دیا ہے جو بی جے پی کے ساتھ کھڑے ہو کر یہ دعویٰ کرتی تھیں کہ وہ بی جے پی کی نظریاتی ہم نوا نہیں ہیں۔
بالخصوص نتیش کمار کی جماعت، جس نے اس بل کی غیر مشروط حمایت کی، اس کے رویّے نے بہار کی سیاست میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔ حالیہ برسوں میں جنتا دل یو کی جانب مسلم ووٹوں کا رجحان کم ہوا ہے لیکن وہ سماجی پسماندگی کے نام پر مسلم ووٹ بینک میں دراڑ ڈالتی رہی ہے۔ لیک اگر موجودہ اضطراب اگر باقی رہا تو جنتا دل یو، بی جے پی کے مقابلے میں کمزور پڑ سکتی ہے۔
اگر ستمبر-اکتوبر میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں این ڈی اے اتحاد کو کامیابی بھی مل جائے تو جنتا دل یو کی حالت وہی ہو سکتی ہے جو مہاراشٹر میں شندے گروپ کی ہوئی۔ آندھرا پردیش میں انتخابات میں اگرچہ وقت ہے مگر چندر بابو نائیڈو بھی نتیش کمار ہی کی طرح مسلمانوں کو دھوکہ دے چکے ہیں۔ ایک طرف وہ عید اور افطار میں شرکت کرتے ہیں اور دوسری طرف آر ایس ایس کے نظریات کی آبیاری میں شریک ہیں۔
آندھرا پردیش کے مسلمانوں نے نائیڈو کی حمایت کی تھی لیکن انہوں نے صرف اپنے اور اپنے بیٹے کے سیاسی مفادات کی خاطر مسلمانوں کو فریب دیا۔ نتیش کمار اور نائیڈو جیسے سیاست داں دراصل وہ مہرے ہیں جو ہمیشہ سیاسی مفادات کے اسیر رہے ہیں۔ مسلمانوں کی یہ خود فریبی رہی کہ وہ ان سے امیدیں وابستہ کیے رہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام، پوٹا جیسے سیاہ قوانین، شہریت ترمیمی ایکٹ اور تین طلاق بل جیسے مسائل پر یہ دونوں بی جے پی کے ساتھ کھڑے تھے۔
دوسری طرف انڈیا اتحاد کی جماعتیں ہیں جنہوں نے اس قانون کی شدت سے مخالفت کی اور بی جے پی کی مسلم مخالف ذہنیت کو بے نقاب کیا، جسے ملک کی عوام نے سنا اور سراہا۔ پچھلی بار تین طلاق بل، سی اے اے، یا جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے وقت اپوزیشن بکھری ہوئی تھی مگر اس بار دونوں ایوانوں میں اپوزیشن کی یکجہتی نظر آئی، جس کا ملک کی سیاست میں مثبت پیغام جائے گا۔
یہاں تک کہ وائس ایس آر کانگریس اور بیجو جنتا دل جیسی جماعتیں بھی اس بار وقف ترمیمات کے خلاف کھڑی ہو گئیں۔ شرومنی اکالی دل نے تو پرزور مخالفت کی۔ سیاسی صف بندی نے نئی امیدیں جگا دی ہیں، مگر اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان خود فریبی سے نکلیں۔ نام نہاد سیکولر جماعتوں کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے ان پارٹیوں کی حمایت کریں جنہوں نے پولرائزیشن کے خدشات کو بالائے طاق رکھ کر مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا حوصلہ دکھایا۔
نتیش کمار، چندرا بابو نائیڈو، چراغ پاسوان، جتن رام مانجھی اور اجیت پوار جیسے لیڈروں کو صاف پیغام دینا ہوگا کہ اگر وہ ہندتوا کے ایجنڈے کو نافذ کرنے میں کردار ادا کریں گے تو مسلمان بھی ان کے خلاف صف آرا ہوں گے۔ ان مذہبی اداروں اور شخصیات کو بھی بے نقاب کرنا ہوگا جو وقتی مفاد کے تحت مسلمانوں کو گمراہ کرتے ہوئے ان سیاسی جماعتوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔
وقف ترمیمی ایکٹ کے قانون بننے کے بعد سب سے بڑا خطرہ یہ پیدا ہو گیا ہے کہ وقف املاک کو متنازع بنا کر ان پر قبضے کی راہ ہموار کر دی گئی ہے۔ ان قبضوں میں وہ لوگ بڑی آسانی سے مددگار بن جاتے ہیں جو سیاسی وفاداری کے صلے میں عہدے حاصل کرتے ہیں۔
مدھیہ پردیش کے اجین میں جب مہا کلیشور مندر کاریڈور کی تعمیر کے لیے وقف املاک پر قبضہ کیا جا رہا تھا تو وقف بورڈ کے چیئرمین، جو بی جے پی لیڈر بھی ہیں، خاموش تماشائی بنے رہے۔ الجزیرہ کے رپورٹر نے جب ان سے سوال کیا کہ قبضے کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی تو انہوں نے کہا: "میں وہی کروں گا جو پارٹی حکم دے گی، کیونکہ میں یہاں پارٹی کی وجہ سے ہوں۔”
1985 کے گزٹ کے مطابق اجین میں 1,014 وقف جائیدادیں تھیں، مگر ان میں سے کوئی بھی ریونیو ریکارڈ میں وقف املاک کے طور پر درج نہیں ہے۔ ان میں سے 368 سرکاری، 454 نجی اور باقی 192 جائیدادوں کا ریکارڈ یا تو نامکمل ہے یا مکمل طور پر غائب ہے۔
2000 کی دہائی کے آخر میں جب زمینی ریکارڈ کی ڈیجیٹلائزیشن کا عمل شروع ہوا تو سافٹ ویئر میں صرف دو کالم (سرکاری و نجی) ہونے کی وجہ سے وقف املاک کو اکثر سرکاری زمرے میں منتقل کر دیا گیا۔ بھوپال کی تاریخی موتی مسجد جو 1857 میں تعمیر ہوئی تھی، آج ایک "سرکاری جائیداد” کے طور پر رجسٹرڈ ہے، جو کہ انتہائی مضحکہ خیز ہونے کے ساتھ ساتھ تشویشناک بھی ہے۔
جون 2023 میں اجین میں پیش آنے والے ایک واقعے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وقف املاک پر سرکاری قبضے کا عمل کوئی نیا معاملہ نہیں ہے۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق، محکمہ محصولات کے ایک افسر نے ریاستی انتظامیہ کی جانب سے وقف زمین پر قبضے کے منصوبے پر اعتراض کیا۔ افسر نے اپنے نوٹ میں تحریر کیا کہ مقامی مکینوں نے انہیں 1985 کا گزٹ نوٹیفکیشن دکھایا، جس سے یہ زمین وقف قرار دی گئی تھی۔ افسر نے تجویز دی کہ اراضی کے حصول کے لیے ریاستی وقف بورڈ سے "نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ” حاصل کیا جانا چاہیے۔ لیکن صرف ایک ماہ بعد، اجین کی ضلعی انتظامیہ نے ایک حکم نامہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ "جب زمین کو سماجی مقاصد کے لیے حاصل کیا جائے تو وقف بورڈ کی اجازت درکار نہیں ہوتی”۔
یہ واقعہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ موجودہ ترمیمی بل سے پہلے بھی حکومتیں وقف اراضی پر بآسانی قبضہ کر لیتی تھیں اور اب یہ راستہ مزید ہموار کر دیا گیا ہے۔ ایسے حالات میں وقف جائیداد کے ریکارڈ کو درست کرنا اور اس کا تحفظ یقینی بنانا کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں ہوگا۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 اپریل تا 19 اپریل 2025