وقف ترمیمی بل مسلمانوں کے مذہبی حقوق پر حملہ : امیر جماعت اسلامی ہند

اوقافی جائیداوں پر ’کلکٹر راج‘؟ حکومت سے متنازعہ قانون سازی ترک کرنے کا مطالبہ

نئی دلی:(دعوت نیوز ڈیسک)

جماعت اسلامی ہند کے امیر جناب سید سعادت اللہ حسینی نے پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے والے وقف ترمیمی بل 2024 کو جسے اب جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی سے رجوع کیا گیا ہے، ناقابل قبول قرار دیا اور کہا کہ ’’امت مسلمہ اسے قطعی قبول نہیں کرے گی۔ ہم اس نئی ترمیم UWMEED ( انٹیگریٹیڈ وقف مینجمنٹ امپاورمنٹ ایفیشینسی اینڈ ڈیولپمنٹ) کے ذریعے وقف ایکٹ 1995 میں مجوزہ ترامیم کی مخالفت کرتے ہیں۔ اس میں بظاہر مثبت پہلو دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے مگر اس کا اصل مقصد نظام اوقاف کی خود مختاری کو کم اور عام عوام کو اوقاف کے فوائد سے محروم کرنا ہے۔ یہ نیا مجوزہ قانون، وقف کے لیے پہلے سے موجود قانونی ڈھانچے کو ختم کرنے کی کوشش محسوس ہوتا ہے۔ آئین میں تمام مذہبی اقلیتوں کو اپنے بزرگوں کے ورثے کو سنبھالنے اور مذہبی طریقے پر استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ مگر مجوزہ بل میں ضلع کلکٹروں کو اس کے تصرف کا مکمل اختیار دے دیا گیا ہے۔ یہ نہ صرف وقف ایکٹ میں دی گئی خود مختاری کے خلاف ہے بلکہ وقف کرنے والوں کے مقصد و منشا یعنی مسلمانوں کی فلاح وبہبود کے بھی خلاف ہے ۔ موجودہ قانون میں وقف املاک سے متعلق کسی بھی تنازع کو ایک سال کے اندر تصفیہ کرنے کی بات کہی گئی ہے جبکہ نئے مجوزہ بل میں اس کی مدت کو بڑھا دیا گیا ہے جس سے ابہام اور قانونی تنازعات کے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔ نئے مجوزہ قانون میں متولیوں کی زبانی تقرری کی شق بھی ہٹا دی گئی ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ متعلقہ افراد کے ساتھ مشورہ کیے بغیر ہی اس بل کو تیار کیا گیا ہے۔ اگر وقفی مسائل سے متعلق کسی ماہرکے ساتھ صلاح و مشورہ کرلیا جاتا تو واضح ہوجاتا کہ اس مسئلے کا تعلق مسلم پرسنل لاء سے ہے جس پر الگ سے کوئی قانون بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میڈیا کے ذریعے یہ پروپیگنڈہ بھی کیا جاتا ہے کہ وقف بورڈ ایکٹ سے دیگر مذہبی کمیونیٹیوں کی زمینوں پر قبضہ کرنے کی راہ کھلتی ہے، یہ سراسر جھوٹا الزام ہے اور ہم اس کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔وقف بورڈ حکومت کے منظور شدہ قوانین کے تحت ہی کام کرتا ہے اور حکومت اس کی نگرانی کرتی ہے اس لیے اس قسم کے الزامات کی کوئی حقیقت نہیں ہے‘‘۔
امیر جماعت نے مزید کہا کہ ’’یہ ترمیم استعماری قوانین سے متاثر نظر آتی ہے جس میں ضلع کلکٹر کو حتمی اختیارات دے دیے گئے ہیں۔ اس سے تو مسلمانوں کا اپنے مذہبی اوقاف کے انتظام کا بنیادی حق ہی سلب ہو جائے گا۔ اس ترمیم میں ریاستی حکومتوں کو وقف بورڈ کے تمام اراکین کی تقرری کا اختیار دیا گیا ہے۔ اس سے بورڈ میں مسلم کمیونیٹی کے کم سے کم دو ارکان کے ہونے کی لازمی شرط بھی ختم ہوجائے گی۔اس ترمیم کے بعد’ سنٹرل وقف کونسل‘ میں مسلم ارکان پارلیمنٹ، ججوں اور وکلاء کی چنداں ضرورت باقی نہیں رہ جائے گی ، اس میں دیگر مذہبی برادریوں کے ارکان بھی شامل کیے جا سکتے ہیں، یہ انتہائی قابل تشویش امر ہے‘‘۔
امیر جماعت نے کہا کہ ’’ چونکہ یہ بل مسلم کمیونٹی ، مسلم ممبران پارلیمنٹ یا متعلقہ افراد سے مشورہ کیے بغیر تیار کیا گیا ہے، اس لیے یہ فائدہ مند ہونے کے بجائے نقصان دہ ہوگیا ہے ، لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ اس بل کو واپس لے۔ ہم اپوزیشن سمیت این ڈی اے کے اتحادیوں جیسے جے ڈی یو اور ٹی ڈی پی سے توقع کرتے ہیں کہ وہ اس طرح کے قوانین کی مخالفت کریں گے اور اسے نافذ ہونے سے روکیں گے۔ اگرچہ کہ اس قانون میں مجوزہ بعض تبدیلیاں جیسے بورڈ میں خواتین، شیعہ، بوہرہ جماعت یا دیگر مکاتب فکر کی شمولیت کی گئی ہے لیکن مجموعی حیثیت سے یہ بل نا مناسب ہے۔ ہم حکومت سے کہنا چاہتے ہیں کہ وہ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے قوانین بنائے اور جو لوگ اس قانون سے متاثر ہوسکتے ہیں، انہیں بھی مشاورت کے عمل میں شامل کرے‘‘۔ امیر جماعت نے مزید کہا کہ ’’ اگر ضرورت پیش آئی تو مسلمان سپریم کورٹ سے بھی رجوع کر سکتے ہیں ۔ یہ بل وقف املاک کی حفاظت کےبجائے ان کی تباہی کا باعث بن سکتا ہے، اس لیے اس کو روکنا بہت ضروری ہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 اگست تا 24 اگست 2024