وقف ترمیمی بل جے پی سی کے حوالے۔ دس سال بعد حکومت بیک فٹ پر

یو پی میں کانوڑ یاتریوں کی ہنگامہ آرائی۔کسان ترنگا یاترا نکالنے سے بھی محروم!

محمد ارشد ادیب

شمالی ہند میں بارش کے موسم کی گرمی اور امس نے عوام کا جینا محال کر دیا ہے۔ کہیں سیلاب کی طغیانی ہے اور کہیں بارش کو ترستی خشک زمین اوپر سے مہنگائی اور بے روزگاری کی مار۔ تاہم صاحبان اقتدار ان سب سے بے پروا سیاسی چال بازیوں میں مصروف ہیں جبکہ عوام ترکاریوں کو بھی ترس رہے ہیں۔
پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس میں پیش کردہ وقف ترمیمی ایکٹ 2024 اس کی بہترین مثال ہے۔ فی الحال ایوان میں اپوزیشن جماعتوں کی پرزور مخالفت اور ایوان کے باہر مسلمانوں کی سماجی اور ملی تنظیموں کے ممکنہ رد عمل کے بعد اسے جے پی سی یعنی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ لیکن ایوان میں بحث کے دوران مجوزہ بل کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان پر مسلمانوں کے ساتھ دیگر اقلیتوں اور انصاف پسند رہنماؤں کے کان کھڑے ہو گئے ہیں۔
کانگریس لیڈر کے سی وینو گوپال نے ایوان کی بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ اس ترمیمی بل میں وقف کونسل میں غیر مسلم ارکان کو نامزد کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ یہ پولرائزیشن کے مقصد سے کیا جا رہا ہے۔ یہ مسلمانوں کے مذہبی معاملوں میں مداخلت ہے اور عوام کو تقسیم کرنے کے مقصد سے اس بل کو لایا گیا ہے۔سیاسی مبصرین کے مطابق اگر یہ بل پاس ہو گیا تو مسلمانوں کے علاوہ دیگر اقلیتوں کے مذہبی حقوق بھی خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ اس ترمیمی بل کی مخالفت کرنے والے دلیل دے رہے ہیں کہ کیا سکھ گردوارہ پربندھک کمیٹی یا چار دھام بورڈ میں کسی مسلمان کو رکھا جا سکتا ہے؟ اگر نہیں تو وقف بورڈ میں غیر مسلم ممبر کیسے بن سکتا ہے؟ یہ مذہبی مساوات کے اصول کے منافی ہے۔
رام پور سے سماجوادی پارٹی کے نو منتخب رکن پارلیمنٹ محب اللہ ندوی نے بھی ایوان زیریں کی بحث میں حصہ لیتے ہوئے وقف ترمیمی بل کے خلاف زوردار دلائل پیش کیے۔ انہوں نے کہا کہ میرے مذہبی معاملات میں کسی دوسرے کو دخل دینے کی ضرورت نہیں ہے۔مرکزی وزیر پارلیمانی و اقلیتی امور کرن رجیجو نے اپوزیشن کی پرزور مخالفت کے بعد موجودہ ترمیمی بل کو مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے حوالے کرنے کا اعلان کیا، بل کی حمایت میں بولتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس بل سے خواتین بچوں غریب اور پسماندہ مسلمانوں کا فائدہ ہوگا اور کروڑوں لوگوں کی دعائیں ملیں گی۔ انہوں نے 1976 کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اوقاف کی تمام جائیدادیں متولیوں کے قبضے میں ہیں، انہیں منضبط کرنے کے لیے مناسب اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ مانسون اجلاس کے آخری دن مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے 31 ارکان نامزد کر دیے گئے ہیں ان میں اپوزیشن کی طرف سے 15 اور برسر اقتدار محاز کی جانب سے 15 نام دیے گئے ہیں جبکہ ایک رکن کو سرکار نے نامزد کیا ہے۔
دراصل اوقاف کی جائیدادیں ہی اس مسئلے کی جڑ ہیں۔ بھارت میں فوج اور ریلوے کے بعد سب سے زیادہ اراضی وقف بورڈوں کے پاس ہے۔ ایک اندازے کے مطابق وقف بورڈوں کے کنٹرول میں پونے نو لاکھ سے زیادہ جائیدادیں ہیں جن کی قیمت اندازاً ایک اعشاریہ دو لاکھ کروڑ روپے ہے۔ سب سے زیادہ اراضی اتر پردیش سنی و شیعہ سنٹرل وقف بورڈ کے پاس ہے۔ یو پی سنی وقت بورڈ کے پاس دو لاکھ 17 ہزار 161 جبکہ شیعہ وقف بورڈ کے پاس 15 ہزار 386 غیر منقولہ جائیدادیں وامسی پورٹل پر درج ہیں۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ پورے ملک میں یہ غلط فہمی پھیلائی جا رہی ہے کہ وقف بورڈ دستور اور آئین سے ہٹ کر چلائے جا رہے ہیں جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ ہمارے بزرگوں نے اپنی ذاتی جائیدادیں مذہبی اور تعلیمی اور رفاہی کاموں کے لیے وقف کی ہیں۔ ان میں 70 فیصد سے زیادہ مسجد مدرسے اور قبرستان ہیں جنہیں نہ تو خریدا جا سکتا ہے اور نہ ہی بیچا جا سکتاہے، ان سے آمدنی حاصل کرنے کے بجائے مقامی کمیٹیاں ان کی دیکھ ریکھ پر اپنا پیسہ خرچ کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت اس ترمیمی بل کے خلاف ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ساتھ اس میں مسلمانوں کی چھوٹی بڑی سبھی سماجی و ملی تنظیمیں شامل ہیں لیکن کچھ افراد ایسے بھی ہیں جو وقف ترمیمی بل کی حمایت میں حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں، انہی میں سے ایک بریلی کے مولانا شہاب الدین رضوی ہیں۔ انہوں نے اپنی تنظیم آل انڈیا مسلم جماعت کی جانب سے وزیراعظم نریندر مودی کو وقف ترمیم بل کی حمایت میں ایک مکتوب بھیجا ہے۔ ہفت روزہ دعوت سے فون پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ اوقافی جائیدادوں کی خرد برد اور لوٹ کھسوٹ سے بچانے کے لیے اس بل کی حمایت کر رہے ہیں۔ انہوں نے مختلف وقف بورڈوں میں خرد برد کا الزام لگاتے ہوئے اوقاف کے نظام میں شفافیت لانے کی وکالت کی تاہم، وقف کونسل میں غیر مسلم ارکان کو شامل کرنے کی تجویز سے وہ بھی متفق نہیں ہیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں حکومت سے ترمیم کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
یو پی کے حالیہ بجٹ اجلاس میں سرکاری اراضی سے متعلق نزول بل کو مخالفت کے بعد سلیکٹ کمیٹی کو بھیج دیا گیا تھا اور اب وقف ترمیمی بل کو مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس بھیجا گیا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق مودی حکومت کے سامنے پچھلے دس سالوں میں پہلی بار ایسی نوبت آئی ہے جب کسی بل کو جے پی سی کے حوالے کیا گیا ہے۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ این ڈی اے کی حلیف جماعتوں کی حمایت کے باوجود مودی حکومت میں وہ پہلے جیسا دم باقی نہیں ہے۔ تاہم، وہ ہندتو کے ایجنڈے پر مسلسل کاربند ہے بھلے ہی اسے سبکی کا سامنا کرنا پڑے۔
یو پی میں بلڈوزر بابا کی انہدامی کارروائی اس کی تازہ مثال ہے۔ ایودھیا میں سماجوادی پارٹی کے ایک مسلم لیڈر پر عصمت دری کا الزام لگا، ایف آئی آر درج ہوتے ہی بابا کے بلڈوزر نے معید خان نام کے اس لیڈر کی بیکری کو منہدم کر دیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ دراصل عصمت دری کا الزام معید خان کی بیکری میں کام کرنے والے ملازم راجو پر ہے۔ معید خان کے اہل خانہ کہہ رہے ہیں کہ راجو تھانے میں چلا چلا کر کہتا رہا کہ معید چچا کی کوئی غلطی نہیں ہے انہیں صرف سماجوادی پارٹی کے مسلم لیڈر ہونے کی وجہ سے پھنسایا جا رہا ہے۔ اب 70 سالہ معید خان کے ڈی این اے ٹیسٹ سے یہ طے ہوگا کہ انہوں نے اس عمر میں یہ گھناؤنا جرم کیا ہے کہ نہیں؟ مقامی صحافیوں کے مطابق بی جے پی ایودھیا پارلیمانی سیٹ کی شکست کو ابھی تک ہضم نہیں کر سکی ہے اسی لیے ایک مجرمانہ واردات کو پولرائزیشن کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ واضح رہے کہ یو پی میں دس اسمبلی حلقوں میں ضمنی انتخابات ہونے والے ہیں، ان میں ایک سیٹ ایودھیا کی ملکی پروی ہے جو اودھیش پرساد کے رکن پارلیمان منتخب ہونے کے سبب خالی ہوئی ہے۔ اس سیٹ پر بی جے پی امیدوار کو جتانے کی ذمہ داری وزیراعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے بذات خود لے رکھی ہے۔
یو پی کے ضلع بلند شہر سے ایک انوکھی تصویر سامنے آئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق محکمہ صحت نے دھرپا کے سرکاری ہسپتال کا معائنہ کیا تو کولڈ چین کے ایک باکس میں ٹیکوں یا ادویات کی جگہ شراب کی ٹھنڈی کین برآمد ہوئیں۔ اسی طرح بریلی میں کانوڑیوں کے جلوس میں ہنگامہ کی شکایت پر جب پولیس موقع پر پہنچی تو کانوڑیے نشے کی حالت میں پولیس پر ہی چڑھ دوڑے، نتیجے میں پولیس کو لاٹھی چارج کر کے اپنا بچاؤ کرنا پڑا۔ ساون کے مہینے میں کانوڑیے بابا جی کی بوٹی پی کر مست ہو جاتے ہیں جبکہ عوام اور کسان پریشان ہیں۔ کسانوں نے 19 اگست کو اپنے مطالبات کے لیے ترنگا ریلی نکالنی چاہی تو مختلف اضلاع میں انہیں روک دیا گیا۔
تو صاحبو! یہ تھا شمال کا حال۔ آئندہ ہفتہ پھر ملیں گے کچھ تازہ اور دلچسپ احوال کے ساتھ۔ تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر سلا
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 اگست تا 24 اگست 2024