وقف کا معاملہ اور ہماری ذمہ داری

اوقاف کے سلسلے میں امت کو متحد ہوکر کام کرنے کی ضرورت

محمد آیت اللہ قادری،پٹنہ

وقف اراضی کے صحیح استعمال سے مسلمانوں کے متعدداجتماعی مسائل حل ہوسکتے ہیں
مرکزی این ڈی اے حکومت نے پارلیمنٹ میں وقف ترمیمی بل 2024 کے نفاذ کا جو فیصلہ کیا ہے اسی وقت سے ملک میں تمام مسلم تنظیمیں اس بل کے خلاف کام کر رہی ہیں۔ مختلف شہروں میں جلسے بھی منعقد ہو رہے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ موجودہ وقت میں حکومت کی نظریں مسلمانوں کی زمین جائیداد اور مالی اقتصادیات پر جمی ہوئی ہیں۔ مدرسوں، خانقاہوں ،درگاہوں و مقبروں کو ہم سے چھیننے کی مذموم کوشش کی جا رہی ہے، اس لیے اب ہمیں چین سے بیٹھنے کی نہیں بلکہ اپنے حقوق اور جائیداد کی حفاظت کے لیے جدوجہد کی ضرورت ہے۔ اب ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے، ہمیں متحد ہو کر اپنے اوقاف کی حفاظت کے لیے شیشہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑا ہونا ہے۔ وقف ترمیمی بل 2024 کے خلاف اجتماعی طور پر اظہار رد عمل ضروری ہے، کیونکہ یہ مسلمانوں کا اجتماعی مسئلہ ہے۔ مسلمانوں کے اجتماعی مسائل کے حل کے لیے ہمہ وقت کمر بستہ رہنا ہر مسلمان کا ایک مذہبی فریضہ ہے لہٰذا ہر فرد اپنی حیثیت کے مطابق اس میں حصہ لے۔
یہ وقت ایک قوم کو جگانے اور ہندتوا کے ظلم اور فاشزم کے خلاف بیدار ہونے کا ہے، یہ وقت بیداری کا ہے، بار بار انتظار کرنے یا خاموش رہنے کا نہیں، مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کی انتہا ہو چکی ہے، مسلم رہنماؤں اور علما کو چاہیے کہ قوم میں انقلاب کی روح پھونکیں اور اس فاشسٹ حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں، خواہ ہمارے پاس وسائل کم ہوں یا زیادہ، ہمیں انصاف حاصل کرنے کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھنی ہوگی۔گزشتہ ماہ ۸؍ اگست ۲۰۲۴ء کو مرکزی حکومت میں اقلیتی فلاح و بہبود کے وزیر کرن رجیجو نے مجوزہ وقف ترمیمی بل پارلیمنٹ میں پیش کیا ہے جس کی اپوزیشن نے مخالفت کی، بعض سرکار کی حلیف پارٹیوں نے بھی اس کو اسٹینڈنگ کمیٹی کے سپرد کرنے کا مطالبہ کیا۔ اپوزیشن کی زبردست مخالفت پر بل جے پی سی کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ جو بل پیش ہوا ہے اس کی دفعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت نے پورے ہوم ورک کے بعد اپنے پوشیدہ خطرناک عزائم کو پورا کرنے اور وقف کی املاک پر اپنا شکنجہ کسنے کے لیے یہ قانون بنانے کی کوشش کی ہے، مسلمانوں کی بڑی ذمہ داری اور وقت کا اہم فریضہ ہے کہ اس بل کی مخالفت کریں اور اس کو موجودہ صورت میں کسی بھی حال میں پاس نہ ہونے دیں۔اس بل کو روکنے اور اس کی نا منظوری کے لیے عوامی سطح اور حکومتی سطح پر لائحۂ عمل تیار کریں۔ اگر اس کی مخالفت و تردید میں کوئی لاپروائی برتی گئی اور بل منظور ہو گیا تو پورے ملک میں اوقاف پر تنازعات سامنے آئیں گے، اسلام کے نظام عبادت اور شعائر اسلام میں بے جا مداخلت ہوگی، اوقاف کی حیثیت ختم ہو کر رہ جائے گی اور مسلمانوں کے ہاتھوں سے ہزاروں املاک وقف نکل جائیں گے۔
اس بل کی مخالفت کے لیے اولاًملک میں عوامی بیداری لائی جائے اور مخالفین کی طرف سے جو غلط فہمیاں پھیلائی جا رہی ہیں اور عدالتوں میں متعدد ایسی عرضیاں زیر سماعت ہیں جس میں وقف جائیداد کی ملکیت پر سوالات اٹھائے گئے ہیں، ان سب کا اطمینان بخش جواب دیا جائے، وقف کی تعریف، اس کی شرعی حیثیت، واقف کی منشا، وقف کے منافع اور فوائد کو مدلل و محقق طور پر عوام و ایوان میں پیش کیا جائے اور بتایا جائے کہ صرف دین اسلام میں ہی وقف کی مثال ملتی ہے،کسی دوسری قوم میں اس کا تصور بھی نہیں ہے۔
قرآن و حدیث میں انفاق فی سبیل اللہ اور مخلوق کے ساتھ خیر خواہی اور بھلائی کرنے پر آمادہ کیا گیا ہے، راہ خدا میں خرچ کرنے پر بار بار توجہ دلائی گئی ہے، جا بجا انفاق فی سبیل اللہ کے بے شمار فوائد و فضائل بتا کر لوگوں کو وقف پر ابھارا گیا ہے، سب سے پہلے عہد نبوی میں اس پر عمل ہوا، خود حضور اکرم ﷺ راہ خدا میں دونوں ہاتھ سے خرچ کیا کرتے تھے، آپ کی اتباع میں صحابہ کرامؓ نے اللہ کی راہ میں اپنی عزیز ترین اشیاء کو وقف کر دیا۔ عہد نبوی میں جب پینے کے لیے پانی کی قلت ہوئی اور لوگ پریشان ہوئے تو خلیفۂ سوم حضرت سیدنا عثمانؓ نے کئی کنویں اور کئی باغات رفاہ عام کے لیےخرید کر وقف کر دیے جن کی آمدنی آج بھی بیت المال میں جمع ہوتی ہے۔ اس سے غرباء، فقراء، مساکین اور محتاجوں کی مدد کی جاتی ہے اور بچی ہوئی رقم حرمین شریفین کی تعمیر و ترقی میں صرف ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ اس دور سے اب تک قائم ہے۔
آج بھی اللہ کے لیے خرچ کرنا مسلمانوں کا شیوہ ہے، خدمت خلق اور لوگوں کی بھلائی کا جو جذبہ مسلمانوں میں پایا جاتا ہے، دوسرے مذاہب کے لوگوں میں اس کی مثال بمشکل نظر آتی ہے۔ ہمارے ملک میں بھی ہزاروں وقف املاک ہیں جو مسلمانوں کے جذبۂ ایثار و انفاق فی سبیل اللہ کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں۔ یہاں کے مسلمانوں نے اللہ کی رضا کے لیے ہر دور اور ہر علاقے میں ایسی بڑی بڑی جائیدادیں وقف کی ہیں، جن کی دوسری قوموں میں جن کی نظیر نہیں ملتی۔
جو چیزیں اللہ کی راہ میں خرچ کی جاتی ہیں ان میں بعض تو وقتی ہیں اور بعض میں دوامی ہیں۔ جو چیزیں وقتی طور پر خرچ کی جاتی ہیں، ان کا فائدہ بھی وقتی ہوتا ہے لیکن جو دوامی ہیں ان کا فائدہ بھی تسلسل کے ساتھ جاری رہتا ہے۔ انہی دوامی صدقات میں ایک وقف بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا و خوش نودی کے لیے کسی زمین، جائیداد یا دیر پا چیز کو اس کی اصل کو باقی رکھتے ہوئے اس کے منافع کو خاص کرنا ’’وقف‘‘ کہلاتا ہے، وقف کی شرعی حیثیت یہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنی جائیداد وقف کرتا ہے تو اس کا مالک اللہ تعالیٰ ہو جاتا ہے اور واقف اس جائیداد کی ملکیت سے دست بردار ہو جاتا ہے، اب اس میں کسی طرح کا ذاتی تصرف جائز نہیں، اسے خریدا جا سکتا ہے نہ بیچا جا سکتا ہے، نہ اسے کسی کو ہدیہ و ہبہ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس میں وراثت جاری ہوسکتی ہے۔ اس کا استعمال صرف مفاد عامہ میں ہی ہو سکتا ہے جس کی صراحت واقف نے کی ہے۔ واقف کی منشا کے خلاف وقف کا استعمال بالکل جائز نہیں ہے۔ شرعی اعتبار سے وقف املاک سے آنے والی آمدنی سے خیر و فلاح کا کام کیا جاتا ہے، واقف کی منشا کے مطابق موقوفہ جائیداد سے منافع حاصل کیے جاتے ہیں اور وقف املاک کی نگرانی اور دیکھ بھال کے لیے متولی مقرر کیا جاتا ہے۔ وقف کی املاک کا مالک صرف اللہ تعالی ہے، متولی کی حیثیت فقط نگراں کی ہے، وقف کی املاک میں اس کو من مانی تصرف کا کوئی حق نہیں ہے۔
بھارت میں مسلمانوں کی ہزاروں وقف املاک ہیں، جن کی حفاظت کی غرض سے باضابطہ قانون سازی کی گئی ہے۔ آزادی سے قبل سب سے پہلا وقف قانون انگریزوں کے ذریعے مسلمان وقف ایکٹ 1923ء بنایا گیا پھر جب یہ ملک آزاد ہوا تو وقف کے ملک کے اولین وزیر اعظم کے دور میں وقف بورڈ کی تشکیل ہوئی اور وقف املاک کے تحفظ کے لیے مؤثر اقدامات کیے گئے۔ چنانچہ آزادی کے چند سال بعد 1954 میں حکومت نے پارلیمنٹ میں وقف ایکٹ پاس کر کے وقف بورڈ کا محکمہ قائم کر دیا جس کے بعد تمام وقف املاک کی نگرانی ایک بورڈ کے سپرد کر دی گئی۔ چونکہ وقف بورڈ حکومت کی زیر نگرانی تھا اس لیے اس کے عہدے دار بھی ہمیشہ حکومت کے زیر اثر رہے، ان کی آنکھوں کے سامنے اوقاف پر قبضے ہوتے رہے اور وہ خاموش تماشائی بنے رہے، بعض عہدیدار تو اس بدعنوانی میں بذات خود ملوث ہوئے اور اوقاف کی جائیداد کو نیلام کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ خاص طور پر گزشتہ بیس سالوں میں جس قدر اوقاف کو لوٹا گیا اس کی نظیر نہیں ملتی۔ 1964 میں سنٹرل وقف کونسل قائم کی گئی تاکہ وقف کی جائیدادوں کو بےجا قبضوں سے بچایا جاسکے، پھر وقف کی حفاظت کو یقینی بنانے کی غرض سے 1995 وقف ایکٹ نافذ کیا گیا اور 1954 وقف ایکٹ کو اس نئے وقف ایکٹ کے ذریعے کالعدم قرار دیا گیا۔ وقف ایکٹ 1995 نے بہت حد تک وقف کی جائیدادوں کو محفوظ کر دیا۔ 2013 میں ایک بار پھر ترمیم ہوئی جس کے ذریعے وقف بورڈ کو ناجائز قبضہ ختم کرانے کی طاقت عطا کی گئی تھی اور یہ واضح کیا گیا تھا کہ جس جائیداد پر جائزہ لے کر وقف بورڈ دعویٰ کرے کہ یہ وقف کی جائیداد ہے تو اس وقف بورڈ کا دعویٰ قابل قبول ہوگا اور وقف کے بارے میں وقف ٹریبونل کا فیصلہ حتمی ہوگا۔
لیکن 8؍ اگست 2024ء کو بی جے پی کی مرکزی حکومت نے وقف ترمیمی بل 2024 متعارف کرایا تو اس بل کے ذریعے وقف ایکٹ 1955 کی صورت ہی بدل کر رہ گئی اور اس نے وقف کی نوعیت اور حیثیت ہی تبدیل کر دی ہے، اس جدید بل کے ذریعے 1995 کے ایکٹ میں سو سے زائد ترمیمات کی گئیں، جن میں سے بیشتر قابل اعتراض اور اوقاف کے لیے نقصان دہ ہیں، جیسے اس بل میں کہا گیا ہے کہ زبانی وقف قابل اعتبار نہیں ہوگا، واقف کا کم از کم پانچ سال سے مسلمان ہونا ضروری ہے، وقف بائی یوزر کی شق ختم کر دی گئی ہے، وقف بورڈ کے کم از کم دو ارکان لازمی طور پر غیر مسلم ہوں گے، وقف جائیداد کے سلسلے میں ڈسٹرکٹ کلکٹر کو غیر معمولی اختیارات دے دیے گئے ہیں، اسی کی صوابدید پر اب یہ بات منحصر ہوگی کہ وہ ایسی اوقافی جائیدادوں کو جو زبانی ہیں یا جن کے دستاویزات موجود نہیں ہے لیکن وہ صدیوں سے مسلمانوں کے قبضے میں ہیں اور وقف کے طور پر استعمال ہو رہی ہیں، ان کو چاہے تو کالعدم قرار دے۔ اسی طرح اس میں متعدد ایسی خامیاں ہیں جو آئندہ وقف کی حیثیت کو ختم کر دیں گیں۔ جو بل پارلیمنٹ میں پاس کیا گیا ہے وہ کسی حکومت کا تیار کردہ نہیں بلکہ یرقانی تنظیموں کا مرہون منت ہے۔ وہ بھگوا گروہ جو ملک میں مسلمانوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ مسلمانوں کی املاک کو برداشت کر پائے گا؟ اس بل پر ملک بھر کے مسلمانوں میں زبردست ناراضگی دیکھی جا رہی ہے اور ایسا ہونا بھی چاہیے، کیونکہ نئے وقف ترمیمی ایکٹ کے ذریعے وقف میں تبدیلی کا مطالبہ کرنا شریعت میں مداخلت کرنے کے مترادف ہے۔
مجوزہ ترمیمات غلط اور قابل واپسی ہیں، جنہیں ہم ہرگز قبول نہیں کریں گے، اس بل کی منظوری کی صورت میں مسلمانوں پر اس کے نہایت مضر اثرات مرتب ہوں گے، اس کی آڑ میں مسلمانوں کو وقف املاک سے محروم کیا جا سکتا ہے، حکومت اس بل کے ذریعے بورڈ کے اختیارات کو ختم کر دینا چاہتی ہے، حکومت کا مقصد اس بل سے وقف کو تحفظ فراہم کرنا نہیں بلکہ مختلف حیلوں اور بہانوں اور مختلف قوانین کا سہارا لے کر اوقاف پر قبضہ کرنا ہے، زمین مافیاؤں کے قبضے میں جو قیمتی وقف جائیدادیں ہیں، اس بل کے ذریعے ان قبضوں کو جواز بخشنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ وقف ترمیمی بل مسلم مخالف پروپگنڈا ہے، اس ایکٹ کے تحت وقف املاک پر قبضوں کی راہ ہموار کی جا رہی ہے، اس لیے موجودہ وقف ایکٹ میں کسی قسم کی ترمیم ہم برداشت نہیں کریں گے جس سے وقف جائیداد کی نوعیت تبدیل ہو جائے یا کسی کے لیے وقف املاک پر ناجائز قبضہ آسان ہو جائے۔ اگر یہ بل قانون بن گیا تو نہ صرف مسلمانوں کے اوقاف کی زمینوں پر ناجائز قبضوں کی راہ ہموار ہوگی بلکہ پورے ملک میں نئے جھگڑے کھڑے ہوں گے۔ اس لیے یہ بل کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے، جے پی سی کے ممبروں سے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس بل کو کالعدم قرار دیا جائے اور 1995 کے ایکٹ کو باقی رکھا جائے جو کہ 2013 کی ترمیم کے ساتھ وقف کی املاک کے تحفظ کے لیے بہت جامع اور مناسب ایکٹ ہے۔
اس وقت مرکز میں این ڈی اے کی حکومت ہے، اس لیے این ڈی اے کی حلیف پارٹیوں کے لیڈروں، خصوصاً بہار کے وزیر اعلی سے ملاقات کی جا رہی ہے، اس سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے اس بل کے خطرناک شقوں کی طرف ان کی توجہ مبذول کرانے کی مزید ضرورت ہے جو مجوزہ بل میں شامل کی گئی ہے۔
آج جو مسائل درپیش ہیں اس میں وقف بورڈ کی خامی اور بد انتظامی کا بھی بڑا دخل ہے، وقف بورڈ اکثر وقف املاک کے تحفظ کی ذمہ داری کو انجام دینے میں ناکام ثابت ہوا ہے، آج مسلمانوں کو مدارس، اسکولوں، کالجوں اور ہسپتالوں کی سخت ضرورت ہے۔ دور حاضر میں وقف املاک کے تحفظ اور ان سے مسلمانوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے وقف بورڈ کی اصلاح ضروری ہے، اس کے تحت کام کرنے والے افراد میں نیک نیتی اور قوم کے لیے بے لوث خدمت کرنے کا جذبہ ہونا بھی نہایت ضروری ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 ستمبر تا 05 اکتوبر 2024