وقف املاک پر جبری قبضے کی کوششیں

پارلیمنٹ میں پیش ہونے والا وقف ترمیمی ایکٹ بی جے پی اور سنگھ پریوار کے مسلم مخالف پروپیگنڈہ کا حصہ

نور اللہ جاوید، کولکاتا

نئے ترمیمی ایکٹ کے قانون بننے کی صورت میں ایگزیکٹیو کے ذریعہ وقف املاک پر قبضہ کی راہ ہموارہوگی
عجب اتفاق ہے کہ پانچ سال قبل ہی 5اگست2019کو مرکزی حکومت نے ڈرامائی انداز میں پارلیمانی اصول و ضوابط کو پامال کرتے ہوئے جموں و کشمیرکے خصوصی درجہ کو ختم کرتے ہوئے ریاست کو دو مرکزی زیرانتظام علاقوں میں تقسیم کردیا تھا۔ گزشتہ پانچ برسوں میں جموں و کشمیر میں کیا تبدیلیاں ہوئیں ، مرکزی حکومت اپنے مقاصد کی تکمیل میں کس حدتک کامیاب ہوئی یہ الگ سوالات ہیں، مگر 5اگست 2019کی تاریخ اس معنیٰ میں آزاد بھارت کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے کہ عددی قوت سے لیس کوئی بھی مرکزی حکومت وقافی ڈھانچہ اور اس کے تقاضے کو پامال کرتے ہوئےکسی بھی ریاست کے جغرافیائی ہیئت کو تبدیل کرسکتی ہے۔جب کہ یہ آئینی اصول و ضوابط کے سراسر خلاف ہے۔ایک بار پھر 5اگست کو ہی نریندر مودی کی زیر قیادت حکومت پارلیمانی اصول و ضوابط سے قطع نظر اور متعلقہ فریقین کی رائےلیے بغیرہی وقف ترمیمی ایکٹ بل کو پارلیمنٹ سے پاس کرانے کی تیاری کررہی ہے۔ دو دن قبل ہی مودی کابینہ نے وقف ترمیمی ایکٹ بل کو منظوری دے دی ہے۔یہ بل جن حالات ، جن دعوؤں اور جس طریقے سے لایا جارہا ہے یہ اپنے آپ میں کئی سوالات کھڑا کرتا ہے اور مودی حکومت کی منشا کو بھی ظاہر کرتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہےکہ وقف جائیداد کی حفاظت کے لیے تمام قانونی تبدیلیاں موثر ثابت نہیں ہوئی ہیں ۔2013میں وقف ایکٹ 1995میں ترمیم کیے جانے کےباوجود وقف جائیداد کی بازیابی اور حفاظت کا مسئلہ حل نہیں ہوسکا بلکہ وقف جائیدادوں پر غیر قانونی قبضے ، بدعنوانی اور کرپشن کا سلسلہ دراز ہے۔وقف جائیدادوں کے نظام میں اصلاحات کی شدید ضرورت تھی ۔اس کے علاوہ وقف جائیدادوں سے مسلم کمیونیٹی کی فلاح و بہبود اور تعلیمی نظام میں بہتری لانے کے لیے موثر اقدامات کی بھی ضرورت تھی،مگر مودی حکومت نے اب جو وقف ایکٹ 1995 میں40تبدیلیاں تجویز کی ہیں، اس کے پیچھے مقاصد کیا ہیں اور کیا اس ترمیم کا مقصد وقف جائیداد کی حفاظت کے نظام اصلاحات، شفافیت اور جائیداد کے غیر قانونی استعمال کا سلسلہ روکنا مقصود ہے؟
اس وقت مودی کابینہ نے وقف ترمیمی ایکٹ میں جو ترامیم کی تجاویزپاس کی ہیں، اس کی بازگشت لوک سبھا انتخابات سے قبل ہی سنی جانے لگی تھی ۔سابق اقلیتی امور کی وزیر سمرتی ایرانی نے دعویٰ کیا تھا کہ وقف جائیدادوں میں بدعنوانی اور وقف بورڈس کے ذریعہ من مانی کی شکایتیں موصول ہورہی ہیں اور مسلم سماج سے ہی وقف قوانین میں اصلاحات کے مطالبات آرہے ہیں ۔تاہم مودی حکومت کے ذریعہ وقف ترامیم کا جائزہ لینے سے قبل بی جے پی کی نظریاتی سرپرست آرایس ایس اور اس سے وابستہ تنظیموں کی سوچ و فکر اور نظریات کو سمجھنا اس لیے ضروری ہے کہ بی جے پی حکومت کا ہرایک قدم دراصل اپنے سیاسی سرپرست کی منشا اور منصوبے کی تکمیل کے لیے ہی ہوتا ہے۔دراصل آر ایس ایس اور سنگھ پریوار وقف جائیدادوں کےسراسر خلاف ہے۔ان کا موقف ہے کہ ملک میں وقف بورڈ کی ضرورت نہیں ہے۔اپنی اس سوچ کو ثابت کرنے کے لیے حالیہ برسوں میں آر ایس ایس نے بڑے پیمانے پر کئی پروپیگنڈے کیے ہیں جن میں سب سے بڑا پروپیگنڈہ یہ ہے کہ وقف بورڈ کے اختیارات کو گزشتہ دو ترامیم کے ذریعہ اس قدر مضبوط کردیا گیا ہے کہ وقف بورڈ جس جائیداد پر چاہے دعویٰ کرسکتا ہے کہ یہ جائیداد وقف کی ہوئی ہے۔وقف بورڈ ٹربیونل کے فیصلے کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ ہندتو کے حامی نیوز ویب سائٹ پر شائع ہونے والے اسٹوریوں میں یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا رہا ہے کہ وقف بورڈ کی جائیدادوں میں سال بہ اسال اضافہ ہورہا ہے۔ ’’دی ہندو پوسٹ‘‘ نامی ویب سائٹ میں اعداد وشمار کے ذریعہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ 2013کے مقابلے میں 2022میں وقف جائیداد کی تعداد دوگنی ہوگئی ہے۔دہلی ہائی کورٹ میں کئی عرضیاں اس وقت زیر سماعت ہیں جس میں وقف جائیداد کی ملکیت پر سوالات اٹھائے گئے ہیں ۔
حکومت کی طرف سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ وقف بورڈ کی اراضی کے دعویٰ کو لے کر وقف بورڈ کے اختیارات کو محدود کرنا ، بورڈ کی تشکیل نواور وقف جائیداد کا درست تصدیقی عمل مقصود ہے۔اس کے علاوہ وقف بورڈ کے ممبران میں صنفی مساوات قائم کرنا بھی مقصود ہے۔صنفی مساوات کے نام پر مسلمانوں کو بدنام کرنابی جے پی کا شیوہ رہا ہے۔شبری مالا مندر کے معاملے میں صنفی مساوات اور سپریم کورٹ کے فیصلے کو بے شرمی سے نظرانداز کرنے والی مودی حکومت کو صرف مسلمانوں میں صنفی امتیازنظر آتا ہے۔حکومت کا کوئی بھی ایسا محکمہ نہیں ہے جو صنفی مساوات کا آئینہ دار نہ ہو ۔اس لیے وقف بورڈ میں صنفی نمائندگی کا سوال سیاسی ہتھکنڈے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔
وقف وہ جائیداد ہے جسے اللہ کے نام پر مذہبی اور خیراتی مقاصد کے لیے وقف کیا جاتا ہے جیسے مسجد، درگاہ، قبرستان، مسافر خانے، تعلیمی ادارے وغیرہ شامل ہیں۔ہندتو تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ قرآن اور اسلام کے ابتدائی برسوں میں وقف کا کوئی تصور نہیں تھا ۔وقف کا تصور بعد کے سالوں میں آیا ہے۔ظاہر ہے کہ یہ ہندتو طاقتوں کی جہالت اور گمراہی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔وقف کا تصور اسلام کے ابتدائی سالوں سے ہے اور ہردور میں مسلم اہل خیرحضرات اپنی جائیدادوں کو اللہ کے لیے وقف کرتے رہے ہیں ۔خلیفہ سوئم حضرت عثمان غنیؓ نے زمانہ نبوت میں کئی کنوؤں کو خرید کر وقف کیا تھا اور 1400برس بعد ہی یہ وقف جائیدادیں آج بھی محفوظ ہیں۔بھارت میں ہزاروں وقف املاک ہیں۔ تاریخی طور پر بھارت میں وقف املاک کا انتظام انفرادی طور پر متولیوں کے ذریعے کیا جاتا تھا اور مغل حکومت کے دوران شرعی قانون کے مطابق قاضیوں کی نگرانی میں وقف جائیداد کی حفاظت ہوتی تھی۔تاہم، مغلیہ سلطنت کے زوال اور برطانوی راج کے آغاز کے ساتھ، حکم رانی کے طریقوں میں اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں۔آزادی کے بعد ملک کے اولین وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے دور میں 1954میں وقف بورکی تشکیل ہوئی اور 1964میں مرکزی وقف کونسل کی تشکیل ہوئی تمام وقف جائیداد کی حفاظت کی ذمہ داری تمام وقف بورڈ کو سونپ دی گئی ۔ وقف ایکٹ 1995 کے ذریعہ ملک بھر میں وقف جائیداد کی حفاظت کے لیے اقدامات کیے گئے اور 2013میں اس قانون میں ترمیم کرکے وقف بورڈ کے اختیارات کو مزید مضبوط کیا گیا ۔
موجودہ وقف ترمیمی ایکٹ کا سب سے بڑا مقصد وقف بورڈ کے اختیارات کو محدود کرنا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا وقف بورڈ کسی بھی جائیداد پر دعویٰ کرسکتا ہے؟ ۔کیا وقف بورڈ کے فیصلے کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ظاہر ہے کہ یہ پروپیگنڈہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔وقف بورڈ صرف ان اراضیات پر دعویٰ کرسکتا ہے جو تقسیم سے پہلے محکمہ ریونیو کے ریکارڈ میں درج ہوں۔ بورڈ کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ زمینیں دراصل وقف جائیداد ہیں۔موجودہ وقف املاک کے انتظام کے ساتھ ساتھ، بورڈ کسی بھی وقف کی جائیداد کی بازیابی کے لیے بھی اقدامات کرتا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ضائع ہو سکتے ہیں۔ وقف ایکٹ 1995 کی دفعہ 40 کے مطابق (جیسا کہ 2013 میں ترمیم کی گئی) ریاستی وقف بورڈ کو کسی بھی ایسے سوال کا فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہے جس میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا کوئی خاص جائیداد وقف ہے یا نہیں یا سنی وقف ہے یا شیعہ وقف ہے؟ وقف بورڈ نوٹس کی بنیاد پر انکوائری کرنے کے بعد ہی فیصلہ کرسکتا ہے۔وقف بورڈ کے فیصلے کو ٹربیونل میں چیلنج کیا جاسکتا ہےاور ٹربیونل وقف کے فیصلے جو منسوخ اور ترمیم کرنے کا مکمل اختیار رکھتا ہے۔دوسرا دعویٰ یہ کیا جارہا ہے کہ مسلم ممالک میں وقف بورڈ جیسا کوئی ادارہ نہیں ہے بلکہ مسلم ممالک کی حکومتیں ان جائیدادوں کی نگرانی کرتی ہیں تو پھر بھارت میں وقف جائیدادوں پر حکومت کا کنٹرول کیوں نہیں ہے؟ یہ دعویٰ دراصل آدھی ادھوری معلومات کا نتیجہ ہے ۔بیشتر مسلم ممالک میں وزارت اوقاف مستقل وزارت ہے اور وزارت کے ذریعہ تمام وقف جائیدادوں کی نگرانی کی جاتی ہے اور وقف املاک سے آنے والی آمدنی سے خیر و فلاح کا کام کیا جاتا ہے۔وزارت اوقاف کے تحت بڑے پیمانے پر فلاحی ادارے کام کرتے ہیں ۔
سابق مرکزی وزیر اقلیتی امور کے آر رحمان خان حکومت کی منشا اور نیت پر سوال کھڑا کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مودی حکومت اس وقت جو ترامیم لارہی ہے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔وقف بورڈ کے اختیارات سے متعلق جو دعوے کیے جارہے ہیں وہ بے بنیاد ہیں۔وقف بورڈ کی تشکیل میں بھی حکومت کا کردار ہوتا ہے۔اس کے علاوہ 2013کے ایکٹ میں بھی ضلع کلکٹر کا کردار ہے اور سروے کے لیے افسران کی تقرری بھی حکومت کے ذریعہ ہوتی ہے۔مگر اب حکومت کی منشا یہ ہے کہ مکمل طور پر وقف بورڈ کے اختیارات کو ختم کر دیا جائے تاکہ افسر شاہی کے ذریعہ وقف املاک کی بندر بانٹ کی جاسکے ۔کے رحمان خان کہتے ہیں پنجاب، ہریانہ اور دہلی میں بہت ساری قیمتی وقف جائیدادیں کارپوریٹ گھرانوں اور زمین مافیاؤں کے قبضے میں ہیں حکومت اس ترمیم کے ذریعہ ان قبضوں کو جواز بخشنے کی کوشش کررہی ہے۔
مسلم پرسنل لا بورڈ کاموقف
اس پورے معاملے میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈنے واضح کیا ہے کہ وقف ایکٹ 2013 میں کوئی ایسی تبدیلی جس سے وقف جائیدادکی حیثیت و نوعیت تبدیل ہوجائے یا پھر حکومت یا کسی فرد کے لیے اس کو ہڑپنا آسان ہوجائے، ہرگز قابل قبول نہیں ہوگی۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نےبتایا کہ اس وقت یہ اطلاعات آرہی ہیں کہ حکومت ہند وقف ایکٹ 2013 میں تقریباً 40 ترمیمات کے ذریعہ وقف جائیدادوں کی حیثیت اور نوعیت کو بدل دینا چاہتی ہے تاکہ اس پر قبضہ کرنا اور انہیں ہڑپ لینا آسان ہوجائے۔انہوں نے کہا کہ وقف جائیدادیں مسلمانوں کے بزرگوں کے دیے ہوئے وہ عطیات ہیں جنہیں مذہبی اور خیراتی کاموں کے لیے وقف کیا گیا ہے۔ حکومت نے بس انہیں ریگولیٹ کرنے کے لیے وقف ایکٹ بنایا ہے۔انہوں نے کہا کہ وقف ایکٹ اور اوقافی جائیدادوں کو دستورہند اور شریعت اپلیکیشن ایکٹ 1937 بھی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اس لیے حکومت ہند اس قانون میں کوئی ایسی ترمیم نہیں کرسکتی جس سے ان جائیدادوں کی نوعیت اور حیثیت ہی بدل جائے۔ڈاکٹر قاسم رسول الیاس نے کہا کہ ہم این ڈی اے میں شریک جماعتوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے جذبات کا خیال رکھیں۔ڈاکٹر قاسم رسول الیاس نے ہفت روزہ دعوت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وقف بورڈ کے ذریعہ اختیارات سے تجاوز اور غیر وقف جائیداد پر دعویٰ کرنے سے متعلق جو الزامات ہیں وہ بے بنیاد ہیں ۔دراصل ہندتو تنظیموں کے ذریعہ اس طرح کے الزامات کے ذریعہ ماحول سازی کی گئی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اس وقت بھی ہزاروں جائیدادیں ایسی ہیں جن پر غیر قانونی تجاوزات ہیں اور اس کا فائدہ مسلمانوں کو نہیں مل رہا ہے۔
2023 میں بی جے پی لیڈر اشونی کمار اپادھیائے نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کی تھی جس میں وقف ایکٹ 1995 کی دفعات کے جواز کو چیلنج کرتے ہوئے استدلال کیا تھا کہ ہندو مت، بدھ مت، جین مت، سکھ مت، یہودیت، بہائی مت، زرتشت اوردیگر مذاہب کے ماننے والوں کے لیے ایک جیسے قوانین نہیں ہیں۔انہوں نے الزام عائد کیا کہ اس ایکٹ میں وقف بورڈ کو کسی بھی جائیداد کو وقف جائیداد کے طور پر رجسٹر کرنے کے بے لگام اختیارات دیتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر یہ ایکٹ آرٹیکل 25-26 کے تحت ضمانت شدہ بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے بنائے گئے ہیں تو انہیں آرٹیکل 14-15 کے مطابق ہونا چاہیے۔ سپریم کورٹ نے اپریل 2023میں بی جے پی لیڈر کی اس عرضی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس ایکٹ کی وجہ سے عرضی گزار کے حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہورہی ہے۔اس معاملے کی سماعت موجودہ سی جے آئی ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس سوریہ کانت کی سربراہی والی بنچ نے کی۔ بنچ نے ریمارکس دیے کہ یہ ایک طے شدہ اصول ہے کہ کوئی بھی عدالت پارلیمنٹ سے منظور قانون میں مداخلت نہیں کرسکتی ہے۔سپریم کورٹ نے ماضی بھی اس بات کو تسلیم کیا کہ وقف جائیداد کا مالک ’’اللہ‘‘ ہے ۔ انسانوں کو اختیار نہیں ہے کہ اس جائیداد کی نوعیت کو تبدیل کردیں۔
مجوزہ ترمیمی بل سے متعلق جو حقائق سامنے آئے ہیں اس میں دو بنیادی باتیں ہیں ۔پہلی، وقف بورڈ کے اختیارات کو کم کرنا اور دوسری، بورڈ کی تشکیل میں صنفی امتیازات کا خاتمہ ۔ان ترامیم کے ذریعہ وقف جائیداد پر ناجائز قبضہ ، وقف املاک کو ڈیولپ کرکے مسلمانوں کی ترقی جیسے کوئی ایجنڈا نہیں ہے۔وقف املاک کی تصدیق میں کلکٹر کے کردار کو اہم بنادیا گیا ہے۔اب کلکٹر کی منشا کے بغیر کوئی بھی وقف جائیداد کی بازیافت نہیں ہوسکتی ہے۔ظاہر ہے کہ یہ صورت حال واقف کی منشا کے خلاف ہے۔کیوں کہ ایک بار جب کسی پراپرٹی کو وقف کردیا جاتا ہے تو یہ ناقابل منتقلی ہوجاتا ہے ۔یہ خدا کی ملکیت ہوجاتی ہے۔ظاہر ہے کہ خداکی ملکیت کو ختم کرنے کا اختیار کسی کو نہیں ۔جہاں تک سوال وقف بورڈ کے غیر معمولی اختیارات کا ہے تو یہ بات ذہن نشیں رکھنے کی ضرورت ہے کہ وقف بورڈ ایک قانونی ادارہ ہے جو جائیداد کے حصول ، انعقاد اور حفاظت کا ذمہ دار ہے۔ اس پرعدالت میں مقدمہ چلا یا جا سکتا ہے۔ ہر ریاست میں ایک وقف بورڈ ہوتا ہے جس کا سربراہ چیئرمین ہوتا ہے، جس میں ریاستی حکومت کے نامزد افراد، مسلم قانون ساز، پارلیمنٹیرینز، اسٹیٹ بار کونسل کے ممبران، اسلامی اسکالرز اور متولی افراد جن کی سالانہ آمدنی ایک لاکھ روپے یا اس سے زائد ہوتی ہے وہ اس بورڈ کا حصہ ہوتے ہیں۔
آزادی کے بعد سے ہی وقف بورڈ کے ممبروں پر غبن اور بدعنوانی کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ بنگال، مہاراشٹر، کرناٹک اور ملک کے دیگر ریاستوں میں کروڑوں کی جائیدادوں کو وقف بورڈ کے ممبروں نے غلط کاری اور بدنیتی کے ذریعہ پرائیوٹ کمپنیوں کے ہاتھوں سونپ دیا۔2009میں کے رحمن کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں اس بدعنوانی کی نشاندہی کی تھی ۔اسی طرح بنگال میں یک رکنی جسٹس بھٹاچاریہ کمیٹی نے گھپلے کی نشاندہی کی تھی۔بنگلورو میں بی جے پی کے دور میں ہی قائم اقلیتی امور کی کمیٹی نے دو لاکھ کروڑ روپے کے گھوٹالے کی نشاندہی کی تھی۔ سیاست دانوں،پولیس، بیوروکریٹس اور لینڈ مافیا کی ملی بھگت سے ان گھوٹالوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔
راجیہ سبھا کےسابق چیئرمین کے رحمان خان کی سربراہی میں مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بھارت میں اراضی کے لحاظ سے وقف جائیداد ناقابل تصور حد تک بہت وسیع ہے – تقریباً چار لاکھ رجسٹرڈ جائیدادوں اور تقریباً چھ لاکھ ایکڑ اراضی پر مشتمل ہے۔خان کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تقریباً 70 فیصد وقف املاک پر قبضہ کیا گیا ہے اور بقیہ میں صریح بدعنوانی کے کیسز بہت زیادہ ہیں۔ عمارتوں، بازاروں، ہوٹلوں، مالز یا صنعتوں کو ناقابل تصور حد تک حیران کن حد تک کم کرایہ پر اراضی کو سونپ دیا گیا ہے۔دہلی میں77 فیصد وقف ملکیت پر غیر قانونی قبضہ کیا گیا ہے، جس میں سی جی او کمپلیکس، جواہر لال نہرو اسٹیڈیم، دہلی ہائی کورٹ، دہلی پبلک اسکول (متھرا روڈ)، اینگلو عربک اسکول، بہادر شاہ پر اخبارات کے دفاتر شامل ہیں۔ ظفر مارگ کے علاوہ مرکزی حکومت کے بے شمار دفاتر وقف جائیداد پر قائم ہیں۔یہ تمام جائیدادیں ضائع ہوئیں کیونکہ وقف انتظامی قوانین ناکافی تھے اور سنٹرل وقف کونسل بغیر دانتوں کا ادارہ تھا۔رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ستم ظریفی یہ ہے کہ تجاوزات، ناجائز قابضین اور وقف املاک پر ناجائز قبضے کے مرتکبین افراد کی فہرست میں اہم شخصیات کے نام شامل ہیں جیسے دہلی کی جامع مسجد کے امام احمد بخاری، مولانا معظم احمد، نائب امام، شاہی مسجد، فتح پوری، دہلی اور کچھ معروف تنظیمیں اور افراد بھی شامل ہیں۔ وقف بورڈ کس طرح بدعنوانی کی دلدل میں دھنسی ہوئی ایک اسٹیبلشمنٹ بن گئی ہے اس کا اندازہ کچھ زمینی گھوٹالوں سے لگایا جا سکتا ہے جیسے مہاراشٹرا وقف بورڈ کا ایک گھوٹالا جس نے مکیش امبانی کو اعلیٰ ترین ماؤنٹ روڈ میں 4, 535مربع میٹر دیا تھا۔ اس کا 27 منزلہ اپارٹمنٹ۔ اسی طرح بنگلور میں 600 کروڑ روپے سے زیادہ مالیت کا ونڈسر منور ہوٹل محض 12000روپے ماہانہ کے حساب سے لیز پر دیا گیا ہے۔
ظاہر ہے کہ یہ صورت حال انتہائی خراب ہے۔مرکزی حکومت ایک طرف دعویٰ کرتی ہے کہ اگر ملک میں اتنے بڑے وقف جائیدادیں ہیں تو پھر مسلمان پسماندگی کے شکار کیوں ہیں؟ دوسری طرف حکومت وقف جائیدادوں پر قبضے کو قانونی حیثیت دینے کی کوشش کررہی ہے۔ظاہر ہے کہ یہ فکر و عمل کا تضاد ہی نہیں بلکہ بدنیتی اور مسلم دشمنی کا بھی مظہر ہے۔حکومت کی منشا واضح ہے کہ مسلمانوں سے وقف جائیداد چھین لی جائے۔بابری مسجد، گیان واپی جامع مسجد ، متھرا شاہی عیدگاہ سے جو سلسلہ شروع ہوا ہے وہ اب دراز ہوسکتا ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ آگے کا راستہ کیا ہے؟ یہ سوال بھی اہم ہے کہ جب کہ 2023میں ہی حکومت نے وقف قوانین میں تبدیلی کا ارادہ کرلیا تھا تو اس وقت مسلم تنظیمیں اور مسلم شخصیات تماش بین کیوں بنی ہوئی تھیں؟ آخر ہماری آنکھیں اتنی تاخیر سے کیوں کھلتی ہیں؟ اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ آگے کا راستہ کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ نے این ڈی ا ے میں شامل سیاسی جماعتوں سے رابطہ قائم کرنے اور ان سے وقف ترمیمی ایکٹ سے متعلق مسلمانوں کے تحفظات سے آگاہ کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے،وہ ایک بہترین طریقہ ہے اور اس رابطہ مہم کو جلد سے جلد شروع کرنے کی ضرورت ہے۔
وقف املاک کی بدانتظامی ایک اہم مسئلہ ہے، وقف بورڈ اکثر ان اثاثوں کی حفاظت کی ذمہ داری پورا کرنے میں ناکام ثابت ہوا ہے۔وقف اراضی کو غیر قانونی طریقے اور بہت ہی کم معاوضےکے عوض ڈیویلپروں اور پرائیویٹ خریداروں کو فروخت کیے جانے کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق نصف سے زیادہ وقف املاک پر ایسے افراد کا قبضہ ہے جو قانونی طور پر مالک نہیں ہیں۔اس لیے جب ہم حکومت کی ترامیم کے خلاف مہم چلائیں تو اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جانا چاہیے ۔اس لیے وقف املاک کے تحفظ کے لیے قانونی، انتظامی اور کمیونٹی پر مبنی اقدامات پر مشتمل کثیر جہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ چنانچہ حکومت کی ترامیم کی مخالفت کے ساتھ مسلم تنظیموں اوراداروں کو متبادل نقطہ نظر بھی پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ایسا نقطہ نظر جس میں ملک کے تمام مسلمانوں کے جذبات اور ان کے تحفظات کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔وقف املاک کے تحفظ اور انتظام میں مقامی کمیونٹیوں، مذہبی رہنماؤں، اور وقف اسٹیک ہولڈروں کو شامل کرنا ضروری ہے۔ وقف املاک کی اہمیت اور مسلمانوں کو ان سے فائدہ پہنچانے کے لیے ان کے تحفظ کے بارے میں لوگوں میں بیداری لانے، وقف کے قوانین، حقوق اور ذمہ داریوں کے بارے میں انہیں آگاہ کرنے کے لیے میڈیا مہم، ورکشاپس، اور آؤٹ ریچ پروگراموں کے انعقاد کی ضرورت ہے۔
***

 

***

 وقف ایکٹ 2013 میں کوئی ایسی تبدیلی جس سے وقف جائیدادکی حیثیت و نوعیت تبدیل ہوجائے یا پھر حکومت یا کسی فرد کے لیے اس کو ہڑپنا آسان ہوجائے، ہرگز قابل قبول نہیں ہوگی۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نےبتایا کہ اس وقت یہ اطلاعات آرہی ہیں کہ حکومت ہند وقف ایکٹ 2013 میں تقریباً 40 ترمیمات کے ذریعہ وقف جائیدادوں کی حیثیت اور نوعیت کو بدل دینا چاہتی ہے تاکہ اس پر قبضہ کرنا اور انہیں ہڑپ لینا آسان ہوجائے۔انہوں نے کہا کہ وقف جائیدادیں مسلمانوں کے بزرگوں کے دیے ہوئے وہ عطیات ہیں جنہیں مذہبی اور خیراتی کاموں کے لیے وقف کیا گیا ہے۔ حکومت نے بس انہیں ریگولیٹ کرنے کے لیے وقف ایکٹ بنایا ہے۔انہوں نے کہا کہ وقف ایکٹ اور اوقافی جائیدادوں کو دستورہند اور شریعت اپلیکیشن ایکٹ 1937 بھی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اس لیے حکومت ہند اس قانون میں کوئی ایسی ترمیم نہیں کرسکتی جس سے ان جائیدادوں کی نوعیت اور حیثیت ہی بدل جائے۔
ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس ، ترجمان مسلم پرسنل لا بورڈ


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 اگست تا 17 اگست 2024