
وقف املاک کے سروے کے نام پر ڈر اور الجھن پیدا کرنے کی کوشش
مسلم مخالف بیانیہ جھوٹ اور فریب پر مبنی
شہاب فضل، لکھنؤ
صرف چار ریاستوں میں ہی ہندو ٹرسٹ کی زمینیں پورے ملک میں اوقاف کی زمینوں سے زیادہ ہیں
اوقاف کے تحفظ اور ان کی عوامی افادیت بڑھانے کی اشد ضرورت
وقف ترمیمی بل 2024 نے ملک میں وقف کے معاملے پر کافی ہنگامہ برپا کیا ہے اور ہندوتوا نواز سیاسی اور غیرسیاسی عناصرنے وقف کے نام پر مسلم مخالف بیانیہ تشکیل دینے کی پوری کوشش کی ہے۔ دوسری طرف وقف ترمیمی بل پر جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ اور بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ جگدمبیکا پال پر اپوزیشن کے اراکین نے تحریری اعتراضات کو حذف کرنے کے جو الزامات لگائے اور پھر جس جلدبازی میں کمیٹی کی رپورٹ کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پیش کیا گیا اس سے یہ اندیشہ قوی ہوا کہ مخالف آرا کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی اور پارلیمانی کمیٹی کی مشاورت اتفاق رائے کے حصول کے بجائے پہلے سے طے شدہ فیصلوں کو دستاویزی شکل دینے کے لیے تھی۔
وقف ترمیمی بل پر عوامی سطح پر جاری بحث و مباحثہ کے درمیان حکومت اترپردیش سمیت مختلف ریاستوں نے اپنے یہاں وقف املاک کے سروے کا عمل شروع کردیا، یہ پتہ لگانے کے لیے کہ کون سی اور کتنی سرکاری زمینیں وقف املاک کے طور پر درج ہیں اور یہ اندراج کب اور کیوں کیا گیا۔
اترپردیش کے تقریباً 75 اضلاع میں فزیکل سروے اور تصدیق کا یہ عمل کیا جارہا ہے، جن میں سے بعض اضلاع میں مکمل ہوچکا ہے اور بعض میں ابھی جاری ہے جس میں ضلعی حکام کو یہ ہدایت دی گئی کہ وہ یہ پتہ لگائیں کہ کہیں سرکاری زمین کو دھوکہ سے وقف جائیداد کے طور پر تو نہیں درج کیا گیا ہے۔ اہلکاروں کے مطابق تصدیق کے دوران اگر یہ پتہ چلتا ہے کہ سرکاری زمین کو وقف جائیداد کے طور پر درج کیا گیا ہے تو اسے سرکاری زمین ڈیکلیئر کرتے ہوئے ضروری کارروائی کی جائے گی۔
سماجی ادارے وقف ویلفیئر فورم ٹرسٹ کے چیئرمین جناب احمد جاوید نے بتایا کہ حکومت اترپردیش نے وقف رولز 2024 کو پچھلے سال نومبر میں نافذ کیا۔ اترپردیش میں وقف املاک کا آخری سروے 1985 میں ہوا تھا۔ گزشتہ چالیس برسوں سے کوئی سروے نہ ہونے سے وقف جائیدادوں کی تعداد موجودہ ریکارڈوں سے بہت زیادہ ہوسکتی ہے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اترپردیش سنی سنٹرل وقف بورڈ کو حکومت کے اس اقدام کو عدالت میں چیلنج کرنا چاہیے تھا لیکن بورڈ نے ایسا نہیں کیا جس کی وجہ سے اترپردیش میں اوقاف کو لے کر شش و پنج کی کیفیت ہے۔ وقف بورڈ اور ریونیو کے ریکارڈ میں فرق ہے اور ریکارڈوں کا کمپیوٹرائزیشن پورا نہ ہونے کی وجہ سے دونوں کو ملانا اور تصدیق کرنا ایک مشکل عمل ہے۔
جناب احمد جاوید نے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے لکھنؤ بنچ میں دائر کردہ ایک مقدمے تسلیم حسن خاں بنام بورڈ آف ریوینو کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ دراصل پیلی بھیت کی ایک وقف جائیداد کے تنازعہ میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شری پرکاش سنگھ نے دسمبر 2023 میں ریونیو محکمہ کو ایک اعلیٰ انکوائری کمیٹی کی تشکیل کرکے یہ پتہ لگانے کا حکم دیا تھا کہ پیلی بھیت سمیت اترپردیش کے دیگر اضلاع میں کتنی جائیدادیں ایسی ہیں جنہیں وقف کے نام پر غلط طریقہ سے درج کیا گیا ہے۔ جج موصوف نے یہ رپورٹ حکومت اترپردیش کو دینے اور ہائی کورٹ میں بھی پیش کرنے کی ہدایت دی تھی۔ اس معاملہ میں یہ بھی حکم دیا گیا تھا کہ جس ریونیو افسر کی غلطی پائی جائے اس پر حکومت کارروائی کرے۔ یہ مقدمہ ابھی زیر سماعت ہے۔
جناب احمد جاوید کے بقول وقف بورڈ نے اس سروے پر اپنا کوئی موقف عدالت میں نہیں رکھا جو غلط ہے۔ انہوں نے کہاکہ وقف بورڈ وقف جائیدادوں کا کسٹوڈین ہے اور اسے وقف ایکٹ 1995 کے قواعد کی روشنی میں اپنی بات عدالت کے سامنے رکھنی چاہیے تھی۔ انہوں نے کہا کہ ریونیو محمکہ کی جانب سے اوقاف کی جائیدادوں کا سروے کرنا غلط ہے، اوقاف کے سروے کا کام وقف کمشنر کی ہدایت کی روشنی میں ہونا چاہیے ۔ اس سلسلہ میں وہ ہائی کورٹ میں پٹیشن داخل کرنے کی تیاری کررہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ سروے کے نام پر لوگوں میں ڈر و خوف پیدا کیا جارہا ہے۔
ضلع بجنور کے ایک ریونیو افسر نے بتایا کہ ضلع میں وقف املاک کا سارا ڈیٹا آن لائن موجود ہے مگر حکومت کی ہدایت پر از سر نو جانچ کرائی جارہی ہے۔ یہ سروے 1359 فصلی کی بنیاد پر ہورہا ہے جس میں یہ دیکھا جارہا ہے کہ کن سرکاری زمینوں کو وقف جائیداد کے طور پر درج کیا گیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق جو سرکاری زمینیں بطور وقف درج کی گئی ہیں ان کا نام، ان کی جگہ، رقبہ اور گاٹا نمبر بھیجنے کو کہا گیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ کئی ضلع مجسٹریٹوں نے اپنے اپنے ضلع میں ایسی سرکاری زمینوں کی تعداد ریاستی حکومت کو ارسال کی ہے جو وقف بورڈ کے ریکارڈ میں وقف جائیداد کے طور پر درج ہیں۔ کئی اضلاع میں متعدد وقف جائیدادوں کا سرکاری زمینوں پر ہونا بتایا گیا ہے جن میں مساجد، عیدگاہ، قبرستان اور درگاہ ومزار شامل ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اس کی تصدیق کیسے کی گئی کہ فلاں جائیداد پہلے سرکاری زمین تھی، بعد میں وہ وقف میں درج کی گئی؟ حقیقت میں معاملہ اس کے برعکس بھی ہوسکتا ہے اور یہی سوال اترپردیش میں لوگوں کے ذہنوں میں گونج رہا ہے۔ 21 جنوری 2025 کو وقف ترمیمی بل سے متعلق جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کی میٹنگ جب لکھنؤمیں ہوئی تو اس میں حکومت اترپردیش کی طرف سے بتایا گیا کہ ریاست میں وقف بورڈوں کی 78 فیصد زمین سرکاری ہے، وقف کی نہیں ہے ۔ ایڈیشنل چیف سکریٹری اقلیتی بہبود محترمہ مونیکا ایس گرگ نے میٹنگ میں بتایا کہ اترپردیش میں 14 ہزار ہیکٹیئر وقف اراضی ہے جس میں سے گیارہ ہزار ہیکٹر سے زیادہ آراضی ریونیو ریکارڈوں میں سرکاری ہے۔ ریونیو افسروں کے مطابق 58 ہزار وقف جائیدادیں ایسی ہیں جو ریونیو ریکارڈ میں کیٹیگری 5 اور 6 کی ہیں۔ ان دونوں زمروں میں سرکاری اور گرام سبھا کی زمینیں درج ہوتی ہے۔ افسروں نے کمیٹی کو یہ بھی بتایا کہ وقف املاک کے سلسلہ میں حکومت نے نئے ضوابط جاری کیے ہیں۔ اس کے مطابق وقف بورڈ کے ذریعہ کسی جائیداد پر دعویٰ کیے جانے پر اس کو 1952 کے ریونیو ریکارڈ سے ملایا جاتا ہے۔ اس کے بعد ہی ناجائز قبضہ ہٹانے کی ہدایت پر عمل کرنے کا جوازہے۔ یہ پورا معاملہ اس مثال سے بھی تھوڑا واضح ہوجاتا ہے جو ریونیو افسران نے اس میٹنگ میں پیش کی۔ افسروں نے کہا کہ لکھنؤ کا بڑا امام باڑہ، چھوٹا امام باڑہ اور ایودھیا میں واقع بیگم کا مقبرہ سرکاری زمین پر ہیں، حالانکہ وقف بورڈ کے نمائندوں نے اس کی تردید کی۔
وقف کے سلسلہ میں پنجاب، ہریانہ ہائی کورٹ کے فیصلہ کی معنویت
پنجاب، ہریانہ ہائی کورٹ نے نومبر 2024 میں ایک فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ریونیو ریکارڈ میں کسی زمین کو تکیہ، قبرستان اور مسجد ڈیکلیئر کیا گیا ہے تو وہ وقف جائیداد ہے۔ ہائی کورٹ نے اس سلسلہ میں اس سے قبل وقف ٹربیونل کی جانب سے زمین کو وقف جائیداد قرار دینے کے فیصلہ کو درست بتایا اور یہ بھی کہا کہ مسلم طبقہ کی جانب سے چاہے طویل عرصہ سے وہ زمین استعمال نہ کی جارہی ہو اس کے باوجود وہ وقف کی زمین ہوسکتی ہے اور اس کا تحفظ ضروری ہے۔
دراصل کپورتھلہ کی بدھو پنڈیر گرام پنچایت نے وقف ٹربیونل کے اس فیصلے کو چیلنج کیا تھا جس کے تحت ٹربیونل نے ایک زمین کو وقف جائیداد قرار دیا تھا۔ یہ زمین مہاراجہ کپورتھلہ نے 1922 میں صوبہ شاہ کے بیٹوں نکّے شاہ اور سلامت شاہ کو عطیہ کی تھی اور اسے تکیہ، قبرستان اور مسجد ڈیکلیر کیا گیا تھا۔ تقسیم ہند کے وقت شاہ برادران پاکستان چلے گئے اور اس زمین کو گرام پنچایت کے نام پر درج کردیا گیا۔ 1966 میں جب وقف جائیدادوں کا از سر نو سروے کیا گیا تو ملکیت کے کالم میں ریاست کو اس زمین کا مالک اور زمرہ کے کالم میں گرام پنچایت کی مسجد، قبرستان اور تکیہ لکھا گیا۔ اس زمین کو وقف ٹربیونل نے مسجد، تکیہ اور قبرستان کی شکل میں وقف جائیداد ڈیکلیر کیا۔ اس کے خلاف جب گرام پنچایت کے لوگ ہائی کورٹ پہنچے تو عدالت نے پنچایت کی اس دلیل کو خارج کردیا کہ وقف ٹربیونل کو متنازعہ فیصلہ دینے کا اختیار نہیں ہے۔ ہائی کورٹ نے کہا کہ متعلقہ ریوینیو ریکارڈوں میں موجودہ شاملات دیہہ (گاؤں کے فائدے کے لیے استعمال کی جانے والی عام زمین) کے طور پر اندراج کی کوئی قانونی اہمیت نہیں ہے اور اس معاملے کی سماعت کا اختیار پنجاب وقف ایکٹ کے تحت ٹربیونل کو حاصل ہے۔
اس فیصلے سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ریونیو ریکارڈ اور وقف بورڈ کے ریکارڈ میں تال میل کی ضرورت ہے اور وقف بورڈ یک طرفہ طور پر کسی زمین کے بارے میں اگر کوئی فیصلہ کرلیتا ہے تو اس کا یکساں طور سے اندراج ریونیو ریکارڈ میں بھی کرایا جانا چاہیے تاکہ حکومت کے دو محکموں میں ٹکراؤ سے بچا جاسکے۔
اوقاف کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈہ اور منفی بیانیہ عام کرنے کی کوشش
ابھی زیادہ دن نہیں گزرے جب وزیر اعلیٰ اترپردیش یوگی آدتیہ ناتھ نے پریاگ راج مہاکمبھ میں ایک پروگرام کے دوران تلخ سوالیہ لہجے میں کہا ‘‘یہ وقف بورڈ ہے یا زمین مافیا! یہ زمین مافیا بورڈ ہوگیا ہے، ہم ان سے ایک ایک انچ زمین واپس لیں گے’’۔ اسی موقع پر وزیر اعلیٰ نے کہا تھا کہ اترپردیش میں وقف کے ضابطوں میں ترمیم کی جارہی ہے اور ریونیو ریکارڈوں کی جانچ کی جارہی ہے۔ انہوں نے اعلان کیا ‘‘وقف کے غیر قانونی قبضہ والی زمین لے کر ہم ہسپتال اور تعلیمی ادارے بنائیں گے’’۔
وقف بورڈ حالانکہ ایک سرکاری محکمہ ہے مگر اسے نشانہ بنانے سے ایک تیر سے کئی نشانے لگتے ہیں۔ عوامی بیانوں میں وزیر اعلیٰ کا تلخ و ترش لہجہ ان کی شبیہ کے عین مطابق تھا جو ظاہر ہے کہ ان کے ووٹ بینک کو اپیل کرتا ہے۔ یہ وقف کے بہانے مسلمانوں کو یکا و تنہا کرتا ہے اور لوگوں کی نظروں میں انہیں برا بھی بناتا ہے۔
ان حالات میں وقف بورڈوں کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ریکارڈ درست کریں اور اپنی شبیہ بہتر کرنے کی کوشش کریں۔ ساتھ ہی یہ بھی لازم ہے کہ وہ ممکن حد تک وقف جائیدادوں کو عوامی مفاد میں استعمال کے لائق بنائیں۔
یہی منفی بیانیہ تھا جس نے ملک میں ریلوے اور فوج کے بعد وقف بورڈوں کو سب سے زیادہ زمینوں کا مالک بتایا اور اس کا خوب پروپیگنڈہ کیا گیا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سن 2008 میں وقف کی جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی نے وقف ریکارڈوں کو کمپیوٹرائز کرنے کی اسکیم شروع کی تھی۔ اسی کے بعد وامسی یعنی وقف اسیٹ مینجمنٹ سسٹم آف انڈیا کا پورٹل وجود میں آیا جس پر اوقاف کا ڈیٹا موجود ہے۔ کچھ ریاستوں میں وقف جائیدادوں کی جی آئی ایس میپنگ بھی کرائی گئی ہے۔
وامسی پورٹل کے مطابق پورے ملک میں وقف جائیدادیں تقریباً 9 لاکھ 40 ہزار ایکڑ اراضی پر محیط ہیں۔ اس کے مقابلے اگر صرف ملک کی چار ریاستوں تمل ناڈو، آندھراپردیش، تلنگانہ اور اڑیسہ کو دیکھیں تو یہاں پر ہندو ٹرسٹ کی زمینیں 10 لاکھ ایکڑ سے بھی زیادہ ہیں۔ اس طرح سے یہ پروپیگنڈہ کھوکھلا ثابت ہوجاتا ہے کہ ریلوے اور محکمہ دفاع کے بعد سب سے زیادہ زمینیں وقف بورڈ کے پاس ہیں۔
***
***
وامسی پورٹل کے مطابق پورے ملک میں وقف جائیدادیں تقریباً 9 لاکھ 40 ہزار ایکڑ اراضی پر محیط ہیں۔ اس کے مقابلے اگر صرف ملک کی چار ریاستوں تمل ناڈو، آندھراپردیش، تلنگانہ اور اڑیسہ کو دیکھیں تو یہاں پر ہندو ٹرسٹ کی زمینیں 10 لاکھ ایکڑ سے بھی زیادہ ہیں۔ اس طرح سے یہ پروپیگنڈہ کھوکھلا ثابت ہوجاتا ہے کہ ریلوے اور محکمہ دفاع کے بعد سب سے زیادہ زمینیں وقف بورڈ کے پاس ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 مارچ تا 08 مارچ 2025