![](https://dawatnews.net/wp-content/uploads/2025/02/20250216-14.jpg)
وقف اراضی کو بچانے کی تمام قانونی طریقے اپنائے جائیں گے: جماعت اسلامی ہند
وقف ترمیمی بل 2024 براہ راست سیاسی مداخلت اور کنٹرول کا باعث بنے گا
نئی دہلی : (دعوت نیوز ڈیسک)
جماعت اسلامی ہند کے مرکز، نئی دہلی میں منعقدہ کانفرنس میں صحافیوں کو خطاب کرتے ہوئے نائب امیر جماعت پروفیسر سلیم انجینئر نے کہا کہ’’ ہم وقف ترمیمی بل 2024 کی شدید مخالفت کرتے ہیں۔ اس بل سے مسلمانوں کے مذہبی اور آئینی حقوق کو خطرہ لا حق ہو گیا ہے۔ جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) نے اپوزیشن کے اعتراضات اورشہریوں کی طرف سے درج کرائے گئے لاکھوں اعتراضات کو بھی نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ بل متعصبانہ جذبات کے تحت لایا گیا ہے۔ یہ بل متولیوں کے کردار کو تبدیل اور وقف بورڈ کی آزادی کو ختم کرتا ہے۔ خاص طور سے سنٹرل وقف کونسل اور وقف بورڈوں میں غیر مسلموں کی بڑی تعداد میں شمولیت کی گنجائش پیدا کر دی گئی ہے جو کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہے‘‘ ۔ انہوں نے ’ وقف بورڈ کے سی ای او‘ کی تقرری کے طریقہ کار پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ اس میں ریاستی حکومتوں کو براہ راست تقرریوں کی اجازت دی جارہی ہے۔ یہ اوقاف پر براہ راست سیاسی مداخلت اور کنٹرول کا باعث بنے گا‘‘۔جماعت اسلامی ہند تمام سیکولر جماعتوں بشمول این ڈی اے اتحادیوں اور دیگر اپوزیشن سے اس بل کی مخالفت کرنے کی اپیل کرتی ہے‘‘ ۔
جماعت اسلامی ہند کے سکریٹری سید تنویر احمد نے پریاگ راج مہا کمبھ میں ہوئی بھگدڑ کے المناک واقعے پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس میں بہت سے معصوم عقیدت مندوں کی جانیں چلی گئیں۔ دکھ کی اس گھڑی میں غمزدہ خاندانوں کے ساتھ ہماری دلی تعزیت ہے۔ ہم ان لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں جنہوں نے اپنے پیاروں کو اس سانحے میں کھو دیا ہے۔ ہم تمام پسماندگان کے لیے صبر اور تحمل کی دعا کرتے ہیں۔ اس پورے واقعے کی ذمہ داری مرکز اور یو پی حکومت کو براہ راست لینی چاہئے۔ افسوس کی بات ہے کہ میڈیا کو ایک بڑے ایونٹ کے انتظام میں موجود خامیوں کا تنقیدی تجزیہ کرنے سے روک دیا جوحکومت اور انتظامیہ کو ان کوتاہیوں کو بروقت دور کرنے، ان کو بہتر بنانے اور کسی بحران سے نمٹنے کے لیے پہلے سے تیار کر سکتا تھا۔ بھگدڑ کے بعد بہت سے شردھالوؤں کو مساجد میں پناہ دی گئی اور انہیں کھانا، کمبل اور دیگر ضروری چیزیں فراہم کرنے کا معقول انتظام کیا گیا۔ یہ کوششیں ایک بار پھر اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ نفرت کے ماحول کے باوجود ملک کے عام شہری بالخصوص مسلمان عوام کی خدمت کے لیے ہمیشہ سنجیدہ رہے ہیں ۔ ہمارے لیڈران اور پوری قوم کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی، بھائی چارہ اور یکجہتی کو برقرار رکھنے کے لیے ایسے افراد سے تحریک حاصل کرنی چاہیے‘‘۔
مرکزی حکومت کے سالانہ مالی بجٹ پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے پروفیسر سلیم انجینئر نے کہا کہ ہم مرکزی حکومت کے بجٹ 2025-26 میں شامل بہت سے مثبت پہلوؤں کا خیر مقدم کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی اس بجٹ سے کئی حوالوں سے ہمیں مایوسی بھی ہے۔ روزگار کے شدید بحران کی وجہ سے نوجوان طبقے میں بڑھتی بے روزگاری، جی ڈی پی کی شرح نمو میں کمی، ایسے مسائل ہیں جس سے سرمایہ اور زرعی نمو کی بنیاد پر وزیر مالیات کے لیے معاشی پالیسی پر نظر ثانی کا ایک اچھا موقع تھا تاکہ سب کو انصاف اور مساوی ترقی کے مواقع مل سکیں۔ہم شدت سے محسوس کرتے ہیں کہ حکومت کو ایک ترقی پسند ریونیو پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے جو عام شہریوں کو ترجیح دے اور مساوی ترقی کے لیے کام کرے۔ انہوں نے کہا کہ قرضوں کے جال میں پھنسنے سے بچنے کے لیے ہمیں ایک جرات مندانہ قدم اٹھانا چاہیے۔ ایکویٹی پر مبنی مالیاتی ماڈل اور اس مقصد کے لیے ہم روایتی بینکوں میں سود سے پاک بینکنگ ونڈو کو متعارف کرکے ایک نئی شروعات کر سکتے ہیں۔ ہم نے یہ تجویز وزارت مالیات کو دی تھی۔ ہمیں مالی اور اقتصادی چیلنجوں کا مقاملہ کرنے میں پیچھے نہیں ہٹنا چاہیئے۔ہمیں امید ہے کہ حکومت متعصبانہ اور ووٹ بینک کی سیاست سے اوپر اٹھ کر اس بجٹ کو معاشی پالیسی میں حقیقی تبدیلی کا ایک ذریعہ بنائے گی جس سے ملک اورعوام کو حقیقی معاشی ترقی حاصل ہو سکے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 فروری تا 22 فروری 2025