وقف علیٰ الاولاد کے موضوع پر توسیعی خطبہ۔ علامہ شبلی کے اقدامات مشعل راہ

حکومت اوقاف کو تباہ کرنے پر مصر، مسلمان بیک زبان ہوکر آواز بلند کریں؛ پروفیسر اشتیاق احمد ظلی

0

علی گڑھ (دعوت نیوز ڈیسک)

’’وقف کی دو قسمیں ہیں: ایک وقف خیری، جو عام لوگوں کے فائدے کے لیے ہوتا ہے اور دوسرا وقف ذرّی؛ یعنی اپنی نسل اور اپنی اولاد کے لیے۔ عہد رسالت ہی سے مسلم سلطنتوں میں سماج کے تمام طبقات کی ضروریات کی تکمیل کے لیے اس قسم کے اوقاف کا اہتمام ہوتا رہا ہے۔ ‘‘ان خیالات کا اظہار معروف مؤرخ پروفیسر اشتیاق احمد ظلی نے کیا۔
دراصل ملک کے موجودہ حالات کے پیش نظر پچھلے دنوں ادارۂ تحقیق وتصنیفِ اسلامی، علی گڑھ میں اسلام میں وقف کی اہمیت وقف علی الاولاد کا خصوصی مطالعہ کے موضوع پر معروف مؤرخ پروفیسر اشتیاق احمد ظلی نائب صدر ادارہ کا توسیعی خطبہ ہوا۔ مہمان خطیب نے اسلام میں وقف کی اہمیت کا سرسری جائزہ لیتے ہوئے بتایا کہ ہندوستان پر انگریزی قبضہ کی وجہ سے مسلمانوں میں مایوسی کی کیفیت پیدا ہونے لگی تھی۔ زندگی سے مایوس افراد میں یہ رجحان بڑھنے لگا تھا کہ قبل اس کے کہ استبدادی پنجہ ہماری زمین اور جائیداد کو ہڑپ لے، بہتر یہ ہے کہ ان جائیدادوں کو فروخت کردیا جائے اور بقیہ زندگی سکون و آرام سے بسر کی جائے۔ اس طرز فکر کے رد عمل کے طور پر جائیداد کو محفوظ کرنے کے لیے وقف علیٰ الاولاد کا رجحان پیدا ہوا۔
موصوف نے یہ بھی بتایا کہ جب انگریزوں کے زمانے میں وقف علی الاولاد کو اس دلیل کی بنیاد پر غیر درست قرار دیا گیا کہ خیرات کا کام دوسروں کے ساتھ کیا جاتا ہے، اپنوں کے ساتھ نہیں، تو اس وقت علامہ شبلی نعمانیؒ نے اس کے خلاف زبردست تحریک چلائی اور یہ ثابت کیا کہ وقف علی الاولاد ایک مذہبی چیز ہے، عہد رسالت ہی اسے اس کا ثبوت ملتا ہے، یہ عمل سماجی فلاح وبہبود کے لیے نہایت ہی ضروری ہے۔ مزید انہوں نے ‘وقف اولاد’ کے نام سے ایک رسالہ لکھ کر ہندوستان کے تمام علماء کو اس مسئلہ کے مالہ و ما علیہ سے روشناس کرایا، ان کی آراء طلب کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک سال کی کوشش سے ہی ہندوستان کے تمام مسالک سے تعلق رکھنے والے سو علماء نے اپنے دستخط کے ساتھ اپنی اپنی آراء پیش کیں، جس کو پریوی کونسل کے سامنے پیش کیا گیا اور حکومت کو مجبوراً اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔
موجودہ صورت حال پر اظہار خیال کرتے ہوئے مہمان محترم نے کہا کہ حکومت وقف پراپرٹی کو تباہ کرنا چاہتی ہے۔ لہٰذا ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ متحد ہوکر اس کے خلاف آواز اٹھائیں۔ جو تحریکات اس کے لیے کوششیں کر رہی ہیں ان کا ساتھ دیں۔ اگر تنہا علامہ شبلی کی کوشش سے پورے ملک کی فضا ہموار ہو سکتی ہے تو پھر اتنی ساری تحریکات کی کوششیں کیوں کر رنگ نہیں لا سکتی ہیں؟ ساتھ ہی انہوں نے اس پہلو پر افسوس کا بھی اظہار کیا کہ اوقاف کی آمدنی کے ساتھ خود مسلمانوں ہی نے خرد برد کی ہے، اس لیے ایسے افراد کا بھی محاکمہ ہونا چاہیے۔
پروگرام کی صدارت پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی (سابق ڈین فیکلٹی آف تھیالوجی، اے، ایم ، یو علی گڑھ،وممبر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ) نے کی۔ صدراتی خطاب میں انہوں نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی پیش رفت کو واضح کرتے ہوئے بتایا کہ وقف کے سلسلے میں حکومت یا برادران وطن کے جو اعتراضات ہیں، بورڈ کی طرف سے ان کا تفصیلی جواب حکومت کو بھیج دیا گیا ہے۔ انہوں نے اس پر تشویش کا اظہار کیا کہ معاملہ ابھی سپریم کورٹ میں زیر غور ہے، لیکن اس کے باوجود کئی صوبوں میں وقف کے خلاف حکومتی اقدامات کیے جاچکے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کا مقصد وقف کو ہڑپنا ہے، اس کی اصلاح نہیں۔ صدر صاحب نے اوقاف کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ اسلام میں پہلا وقف مخیریق کا ہے، جو اصلاً یہودی تھا۔ دوسرا وقف حضرت عمر فاروقؓ کا ہے۔ چاروں خلفائے راشدین نے وقف کیے ہیں اور حضرت ابوبکرؓ نے وقف علی الاولاد بھی کیا ہے۔ فقہ حنفی کے حوالے سے انہوں نے واضح کیا کہ وقف علیٰ الاولاد کی صورت میں اگر نسل منقطع ہو جائے تو وہ وقف خاص بھی وقف عام ہوجاتا ہے۔ انھوں نے مزید بتایا کہ انگریز ی عہد میں جب وقف کا مسئلہ زیر بحث آیا تو اس سلسلے میں سب سے پہلے سر سید احمد خاں نے مضمون لکھا اور حکومت کی رائے کی مخالفت کی۔ اسی طرح لا فیکلٹی اے ایم یو کے پہلے پروفیسر مولوی کرامت حسین اور مولوی برکت اللہ نے بھی اس موضوع کو ٹیک اپ کیا۔ حکومتی ریشہ دوانیوں پراظہار خیال کرتے ہوئے موصوف نے کہا کہ پہلے ہی یہ مسئلہ حل ہوگیا تھا لیکن ,1953 ,1995 ,2013 اور پھر 2025 میں اس بحث کو دوبارہ چھیڑا گیا ہے۔ اس سے ملک کی جمہوریت کو لاحق خطرے کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
واضح ہو کہ لیکچر کے بعد اوپن ڈسکشن میں شرکا کی طرف سے متعدد سوالات کیے گئے جن کے تشفی بخش جوابات دیے گئے۔ استقبالیہ کلمات سکریٹری ادارہ مولانا اشہد جمال ندوی نے پیش کیے۔ مولانا محمد صادر ندوی کے درس قرآن سے پروگرام کا آغاز ہوا جب کہ نظامت کے فرائض مولانا محمد جرجیس کریمی نے انجا م دیے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 مئی تا 31 مئی 2025