
واحد شیخ : ملزم سے وکیل، اور قید سے بےگناہی کے داعی کا عہد
2006 ممبئی ٹرین بم دھماکے: جیل کی کوٹھری سے شروع، بے گناہ قیدیوں کی رہائی تک کا سفر
محمد وجیہ الدین ،ممبئی
انوسنس نیٹ ورک انڈیا؛ وکھرولی کے چھوٹے سے کمرے سے ایک مضبوط قانونی تحریک کی شروعات
ممبئی کے وکھرولی علاقے میں ایک تنگ و تاریک، بارش کے پانی سے بھری ہوئی پتلی سی گلی ایک چھوٹے سے کمرے تک لے جاتی ہے جو محدود جگہ میں گراؤنڈ فلور پر ہی واقع ہے۔ اندر چند کرسیاں، ایک چٹائی، کتابوں کی شیلفیں اور دیوار پر بھارت اور دنیا کے نقشے آویزاں ہیں۔ یہی سادہ سا کمرہ ’انوسنس نیٹ ورک انڈیا ‘کا ’سکریٹریٹ‘ ہے، وکلاء، قیدیوں کے حقوق کے کارکنان اور سِول سوسائٹی کے گروپوں کا اتحاد یہاں پر قانونی لڑائی کی تیاری کرتا ہے۔ یہ لوگ ان افراد کے لیے کام کرتے ہیں جن پر جھوٹے مقدمات بنائے گئے ہوں یا جنہیں غیر قانونی یا نامناسب سزا دی گئی ہو، خصوصاً دہشت گردی کے الزامات کے تحت جو معصوم لوگ محبوس ہیں ان کے حقوق کے لیے کام کیا جاتا ہے۔
21 جولائی کو جب بامبے ہائی کورٹ نے 2006 کے ممبئی لوکل ٹرین بم دھماکوں (11/7 بم دھماکوں) میں سزا یافتہ تمام 12 افراد کو بری کر دیا تو اس گمنام اتحاد کو بھی اس جدوجہد کا کریڈٹ دیا گیا، جس نے جمعیۃ علماء ہند مہاراشٹر یونٹ کے ساتھ مل کر مسلسل دباؤ بنائے رکھا تھا۔
واحد شیخ، جو اس نیٹ ورک کے بانی ارکان میں شامل ہیں، اپنے دو کمروں کے کرائے کے فلیٹ میں مسرور، مگر پُر عزم انداز میں رہتے ہیں۔ وہ ناگپاڑہ، سنٹرل ممبئی کے ایک اسکول میں استاد ہیں اور اسکول کے بعد کا زیادہ تر وقت ’ایکویٹ انڈر ٹرائل‘(Acquit Under trial) نامی اپنے یوٹیوب چینل کو دیتے ہیں، جہاں وہ غلط طریقے سے ماخوذ افراد کے مقدمات کو اجاگر کرتے ہیں اور بری ہونے والوں کے لیے معاوضے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ فیصلہ آنے سے ایک رات پہلے وہیں بیٹھ کر انہوں نے ملزمین اور ان کے اہل خانہ کے لیے مبارکبادی پیغام ریکارڈ کیا تھا۔
وہ کہتے ہیں، ’مجھے سو فیصد یقین تھا کہ ہائی کورٹ انہیں بری کرے گا۔ میں نے فیصلہ آنے سے پہلے ہی یہ ویڈیو ریکارڈ کر لی تھی۔‘ اور انہیں یقین ہونا بھی چاہیے تھا کیونکہ وہ خود ان 13 افراد میں شامل تھے جنہیں مہاراشٹر کنٹرول آف آرگنائزڈ کرائم ایکٹ (MCOCA) کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ انہوں نے آرتھر روڈ جیل میں نو سال گزارے اور 2015 میں بری ہوئے، اس وقت یہ واحد شخص تھے جنہیں آزاد کیا گیا تھا۔
بری ہونے کے فوراً بعد ان کا کردار ملزم سے وکیل میں بدل گیا۔ جس دن استغاثہ نے آٹھ ملزمین کے لیے سزائے موت اور چار کے لیے عمر قید کی درخواست کی، اس دن واحد شیخ عدالت میں دو ملزمین، احتشام صدیقی اور ساجد انصاری کو ایل ایل بی امتحانات میں بیٹھنے کی اجازت کے لیے عرضی داخل کر رہے تھے۔
انہوں نے اس دن کہا تھا ’یہ اختتام نہیں ہے، ابھی اور دروازے کھٹکھٹانے ہیں، سفر ابھی باقی ہے‘ گزشتہ ایک دہائی میں یہی سفر ان کی زندگی کا مشن بن گیا۔ اسکول کی تدریس کے علاوہ وہ زیادہ تر وقت ایسے قیدیوں اور ان کے اہل خانہ کی مدد میں گزارتے ہیں جو برسوں سے انصاف کے منتظر ہیں۔
ان کا وکالت کی طرف سفر جیل سے ہی شروع ہوا۔ جیل کے اندر ’انڈا سیل‘ میں انہوں نے روزانہ چار زبانوں میں دس اخبار پڑھنے شروع کیے، درجنوں آر ٹی آئی درخواستیں داخل کیں اور دیگر قیدیوں کو اپنے مقدمات کی تیاری میں مدد دی۔ وہ ایل ایل بی اور انگلش میں ایم اے کی ڈگریاں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور ’بے گناہ قیدی‘ کے نام سے اردو میں 400 صفحات پر مشتمل یاد داشت لکھی، جس کا بعد میں ہندی اور انگریزی میں ترجمہ ہوا اور اسے ایک فلم میں بھی ڈھالا گیا۔
2016 میں، اپنی بریت کے دو سال کے اندر واحد شیخ نے انوسنس نیٹ ورک کی باقاعدہ بنیاد رکھی۔ وکلاء، سابق جج صاحبان، سماجی کارکنوں اور فلم سازوں کا ایک اتحاد قائم کیا جو جھوٹے مقدمات اور ناحق طویل قید کے خلاف کام کرتا ہے۔ یہ نیٹ ورک سیمینار، عوامی ٹریبیونل اور بیداری مہمات منعقد کرتا ہے تاکہ دہشت گردی کے الزامات میں پھنسے ہوئے لوگوں کی کہانیاں سامنے لائی جا سکیں۔
واحد شیخ، جن کی عمر اب 48 برس ہے، کہتے ہیں ’انوسنس نیٹ ورک ایک ایسی این جی او ہے جوبے گناہ قرار دیے گئے افراد کے لیے، ان ہی کے ذریعہ اور ان ہی کی نمائندگی میں کام کرتی ہے۔‘ وہ بتاتے ہیں کہ جیل سے داخل کی گئی کئی آر ٹی آئی درخواستیں مقدمے کے دوران ان کے اور دیگر ملزمین کے لیے مددگار ثابت ہوئیں۔
وہ مزید کہتے ہیں ’ہمیں مقدمے کی تیاری جیل کے اندر سے ہی کرنی پڑی۔ یہی چیز بعد کی تمام کوششوں کی بنیاد بنی۔ ہمیں یہ خیال بیرونِ ممالک میں موجود "انو سَنس پروجیکٹس” سے آیا۔ شریک بانی اور اسکالر، ایکٹیوسٹ شارب اقلیم علی کہتے ہیں ’ایسے نیٹ ورکس دنیا کے کئی ممالک میں موجود ہیں۔ جب ہم نے دیکھا کہ ہندوستان میں بھی کئی افراد دہشت گردی کے جھوٹے مقدمات میں پھنسائے گئے اور بعد میں عدالتوں نے ریاست کی ناکامی پر انہیں بری کر دیا تو ہمیں ایسے نیٹ ورک کی ضرورت کا احساس ہوا۔‘
گزشتہ آٹھ برسوں میں انوسنس نیٹ ورک نے موبائل لیگل ایڈ کلینک اور آگاہی مہمات چلائیں۔ لیکن ان کا سب سے نمایاں اقدام ’پیپلز ٹریبیونل‘ رہا ہے۔ یہ ایک شہری سطح کی عوامی سماعت ہے جس میں وہ کہانیاں اجاگر کی جاتی ہیں جو اکثر عدالتوں کی نظروں سے اوجھل رہتی ہیں۔
پہلا پیپلز ٹریبونل دہلی میں 2 اکتوبر 2016 کو منعقد ہوا، جس کی صدارت دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اے پی شاہ نے کی۔ اس میں 15 افراد (جنہیں دہشت گردی کے مقدمات سے بری کیا گیا تھا) نے اپنی گواہیاں پیش کیں۔ فلم ساز سعید مرزا آٹھ رکنی جیوری کا حصہ تھے جس کی تجاویز بعد میں لا کمیشن کی رپورٹ نمبر 277 کا حصہ بنیں۔
دہلی کے وکیل اور نیٹ ورک کے سہولت کار فواز شاہین بتاتے ہیں ’ان سفارشات میں سے ایک یہ تھی کہ بھارت اقوام متحدہ کے کنونشن برائے انسدادِ تشدد (UN Convention Against Torture) کی توثیق کرے، جس پر دستخط تو کیے گئے ہیں لیکن آج تک اسے اپنایا نہیں گیا۔‘ ایک اور اہم سفارش MCOCA کی دفعہ 18 کے خاتمے کی تھی جو پولیس تحویل میں دیے گئے اعترافات کو قابلِ قبول بناتی ہے اور یہی نکتہ 11/7 کے مقدمے میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔
دوسرا عوامی ٹریبونل 2017 میں کولکاتا میں منعقد ہوا جہاں 20 مزید بری ہونے والوں نے اپنی گواہیاں پیش کیں۔ نیٹ ورک نے 11/7 کے ملزمین کے جیل سے لکھے گئے خطوط پر مبنی ایک تفصیلی فائل بھی مرتب کی ہے اور آج بھی آر ٹی آئیز داخل کر کے تفتیشی خامیوں اور پولیس کی زیادتیوں کو بے نقاب کرتا ہے۔ اس اتحاد کی باقاعدہ میٹنگیں منعقد ہوتی ہیں اور یہ مکمل طور پر رضاکارانہ (pro bono) تعاون پر چلتا ہے، جس کی سرپرستی بمبئی ہائی کورٹ کے سابق جج بی جی کولسے پاٹل جیسے رہنما کرتے ہیں۔
جہاں تک ٹرین بم دھماکوں کے مقدمے کا تعلق ہے، قانونی لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے کیونکہ بمبئی ہائی کورٹ کا 12 ملزمین کو بری کرنے کا فیصلہ سپریم کورٹ نے روک دیا ہے۔ اور وکھرولی کے اس چھوٹے سے کمرے سے یہ جدوجہد اب بھی جاری ہے۔
(اردو پیشکش : ابو حرم معاذ عمری)
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 03 جولائی تا 09 اگست 2025