ڈاکٹر عبدالسلام صدیقی
لونی، غازی آباد
حیدرآباد کا ذکر ہوتے ہی ذہن میں بہت سی علمی، دینی، مذہبی و تاریخی آثار و نقوش سامنے آجاتے ہیں۔ حیدرآباد کی وہ آخری مسلم آصف جاہی ریاست جس کا انضمام ۱۹۴۸ء میں ہوا، جامعہ عثمانیہ، دائرۃ المعارف، جامعہ نظامیہ، رسالہ ترجمان القرآن، مولانا سید مناظر احسن گیلانی (۱۹۵۶-۱۸۹۲) مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی (۱۹۷۹-۱۹۰۳) وغیرہ۔
مولانا سید مناظر احسن گیلانی سے ایک خاص نسبت ہونے کی وجہ سے حیدرآباد سے انسیت، محبت اور جذباتی وابستگی ایک فطری امر ہے۔ مولانا گیلانی کی عمر کا نصف حصہ جامعہ عثمانیہ کے شعبہ دینیات سے وابستہ رہا اور ان کی علمی و دینی معارف کا فیض اہل علم و دانش کے لیے سامان تسکین فراہم کرتا رہا۔ مسئلہ سود پر رسالہ ترجمان القرآن میں شائع ہونے والے مولانا مناظر احسن گیلانی کے مضامین اور مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کے جوابی مضامین بھی اہل علم و تحقیق کے لیے قابل ذکر واقعات میں سے ایک ہے۔
وادی ہدیٰ کا ذکر
جماعت اسلامی ہند سے وابستگی کے فیصلہ کے بعد امیر حلقہ دہلی انجنیئر سلیم اللہ خان سے دفتر حلقہ دہلی میں پہلی ملاقات بھی سہ روزہ اجتماع ارکان (عدل و قسط) وادی ہدیٰ میں جانے کا محرک بنی۔ وادی ہدیٰ پہاڑی شریف، حیدرآباد کے ذکر کے بعد اس کے تعلق سے دل و دماغ میں خوش نما جذبات و خیالات پیدا ہونے لگے۔ محل وقوع، طول و عرض، شاہراہ و عمارات، وسیع و کشادہ میدان، سرسبز و شاداب، سلسلہ کوہ سار، چشمہ و آبشار، گرمی و سردی، تحریک اسلامی کے آثار و نقوش، بزرگ، جواں مرد و خواتین، نونہال و معصوم بچے، غرض طرح طرح کے خوش کن خیالات ذہن میں ابھرنے لگے۔
وادی ہدیٰ کا نظارہ
وادی ہدیٰ پہاڑی شریف میں سہ روزہ اجتماع ارکان (عدل و قسط) میں شرکت کے بعد دل میں جو خوش گوار جذبات اور خیالات ابھرے تھے اور جو نقوش ذہن میں نقش ہوئے تھے ان کا حقیقتاً مشاہدہ ایک دل کو سکون دینے والا تجربہ تھا۔ پہاڑی کے دامن میں مسجد جامعہ کا وسیع صحن، جس میں ایرانی آرٹ اور قرآنی آیات سے مرصع خوش نما محراب نے ایک روحانی محفل کا منظر پیش کیا۔ مسجد جامع سے متصل بیت المقدس کا حسین ماڈل اور قبلہ اول، مسجد اقصیٰ کا منظر بھی نظر آ رہا تھا جو اپنی معنویت میں بہت گہرا تھا۔
اس کے علاوہ تحریک اسلامی کا پوسٹ آفس، پہاڑی کی بلندی سے گرتے آبشار، اور ان سب کے دامن میں ایک روح پرور اجتماع، مسجد جامع فاطمہ، جامعہ دارالہدیٰ، ہدیٰ ہائی اسکول، مسلم جنرل ہاسپٹل اور ادراک تحریک شوکیس کا منظر ایک مکمل اور ہم آہنگ معاشرتی نظام کی عکاسی کر رہا تھا۔ ان سب کے بیچ میں آراستہ سڑکیں، بہترین نقل و حمل، معیاری انتظامات، مکمل نظم و ضبط، بہتر قیام و طعام، مثالی حسن انتظام، طہارت اور پاکیزگی کی فضائیں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا کر رہی تھیں۔
یہ سب عناصر تحریک اسلامی کے آثار، نقوش اور شخصیات کی نمائش کر رہے تھے جو ہر دل میں جذبات کی ایک نئی لہر پیدا کر رہے تھے۔ ان سب کی موجودگی میں ایک ایسا ماحول پیدا ہو رہا تھا جو نہ صرف ذہنی طور پر اثر انداز ہو رہا تھا بلکہ دلوں میں ایک نیا جذبہ اور عزم پیدا کر رہا تھا۔
علمی و فکری تربیت
۱۵، ۱۶، ۱۷ نومبر ۲۰۲۴ء کو "عدل و قسط” کے عنوان سے سہ روزہ اجتماع کا انعقاد نہ صرف شرکاء کو ذہنی اور فکری سامان فراہم کرنے کا باعث بنا۔ منتظمین نے شرکاء کی ذہنی و فکری استعداد کے مطابق تربیت کے لیے ماحول، مواقع اور وسائل فراہم کر کے اپنی دینی، علمی اور انتظامی مہارت کا ثبوت دیا۔
موجودہ عالمی اور ملکی تناظر میں عدل و قسط کا بحران سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ خود ساختہ مہذب اور متمدن ممالک بھی دنیا کے انسانی بحرانوں میں ننگے اور کنگال نظر آتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں اقامت دین کے داعیوں کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے کیونکہ ان کے پاس عدل و قسط کا علمی اور عملی سرمایہ موجود ہے۔ اس سرمایہ کو دنیائے انسانیت کے سامنے پیش کرنے اور اس کے عملی اظہار کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔
نئی ملاقاتیں اور تجربات
وادی ہدیٰ کی چھاؤں میں رہتے ہوئے اطراف و جوانب کے تعلق سے دل میں تجسس ہونا فطری بات ہے۔ بالا آخر ۱۷ نومبر کی صبح بعد نماز فجر بانکا (بہار) کے ساتھی برادر شکیل احمد کے ساتھ مولانا کوثر فلاحی (مقیم حیدرآباد) کی رہنمائی میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی (بانی المعہد الاسلامی و صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ) کے ادارہ المعہد الاسلامی تعلیم آباد، قبا کالونی میں حاضری ہوئی۔ معہد کی عالی شان مسجد و عمارات اور حسین مناظر روح افزا تھے۔ کسی دینی ادارے میں سائنسی تحقیق کے مرکز کا پہلی بار مشاہدہ کیا۔ ادارہ میں سوشل میڈیا ہاؤس بھی دیکھا۔
المعہد العالی الاسلامی کے بعد مرکز تبلیغی جماعت شاہین نگر پہنچا۔ وہاں تبلیغی جماعت کے ذمہ داروں نے والہانہ استقبال کیا۔ دوران گفتگو جماعت اسلامی، مولانا مودودی، مولانا محمد یوسف کاندھلوی (۱۹۶۵-۱۹۱۷) کا خاص ذکر ہوا۔ ایک ذمہ دار نے رسائل و مسائل کے حوالہ سے مولانا مودودی کی اخلاص للّٰہیت و انفرادیت کا خاص طور پر ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ مولانا مودودی نے اپنی ذات پر تنقید اور حملہ کا کبھی جواب نہیں دیا اور نہ دفاع کیا۔ ہاں، باطل طاقتوں اور نظریات کے اسلام پر تنقید اور حملوں کے جواب و دفاع کے لیے ان کی شمشیرو قلم ہمیشہ تیار رہتے تھے۔
علی گڑھ کے حوالہ سے پروفیسر ڈاکٹر ثناء اللہ خان کا بھی ذکر ہوا، موصوف ایک زبردست داعی اور مبلغ ہیں۔ فاتح فرانس بھی ان کا لقب ہے۔ علی گڑھ میں مدرسہ تعمیر ملت ان کی یادگار ہے۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 دسمبر تا 14 دسمبر 2024