ووٹ چوری بنام دراندازی کا بیانیہ

بھارت کی آبادیاتی ساخت کے تبدیلی سے متعلق گمراہ کن دعوے

0

نوراللہ جاوید، کولکاتا

اب عوام کی اکثریت راہل گاندھی کے دھاندلی کے الزامات کو درست ماننے لگی ہے
سرکاری تقریر میں آر ایس ایس کو مرکزی مقام کیوں؟ کیا سنگھ کے صد سالہ سفر کو ’’قومی خدمت‘‘ کہا جا سکتا ہے؟
ایک ایسے وقت میں جب بھارت کی جمہوریت اور اس کاانتخابی نظام سوالوں کی زد میں ہے۔الیکشن کمیشن اپنے وقار، اعتبار اور غیر جانب داری کا پاس و لحاظ کیے بغیر اپوزیشن جماعتوں کے تحفظات پر توجہ دینے کے تیار نہیں ہے۔ ایسے میں امید تھی کہ لال قلعہ کے فصیل سے وزیر اعظم نریندر مودی اپنے بارہویں خطاب میں بھارت میں سماجی اتحاد ، سیاسی اتفاق رائے کے لیے ماحول سازی ، بھارت کی جمہوریت کے بہتر مستقبل اور آئینی اداروں کی خودمختاری اور انتخابی شفافیت کا یقین دلاتے، انہوں نے اپنے طویل ترین خطاب میں انہیں چیزوں کو بار بار دہرایا جو وہ گزشتہ گیارہ برسوں سے بولتے آئے ہیں۔ تاہم اس مرتبہ ان کی تقریر کا مرکزی نقطہ نظر ’’آپریشن سندور‘‘، ’’دراندازی کی وجہ سے بھارت کی آبادیاتی ساخت میں تبدیلی کی سازش سے قوم کو آگاہی‘‘ اور ’’آزاد بھارت کی تاریخ کا سب سے متنازع کردار کی حامل آر ایس ایس کے سو سالہ خدمات کا اعتراف‘‘ تھا۔ آپریشن سندور پر بہت کچھ لکھا اور بولا چکا ہے ۔اسی طرح بھارت کی خود انحصاری، امریکہ سے تعلقات، جی ایس ٹی کے نظام میں اصطلاحات اور روزگار جیسے موضوعات جن پر مودی نےبات کی ہے ۔یہ ایسے موضوعات ہیں جن پر پہلے بھی ہم ان صفحات پر تفصیل سے بات کرتے رہے ہیں اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔آئیے اس سوال پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں کہ کیا واقعی بھارت کی آبادیاتی ساخت کو سازش کے تحت تبدیل کیا جارہا ہے؟ گزشتہ گیارہ برسوں سے سرحد کی حفاظت کی ذمہ داری سنبھالنے کا دعوی کرنے والے وزیر اعظم مودی کیا اس سوال کا جواب دیں گے کہ آپ کی قیادت میں دراندازی کا سلسلہ کیوں نہیں رکا؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا چند ہزار افراد کی در اندازی سے سوا سو کروڑ والے اس ملک کی ڈیموگرافی تبدیل ہوجائے گی؟
لال قلعہ کے فصیل سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے کہا کہ ’’آج میں ملک کو ایک تشویش، ایک چیلنج سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ملک کی ڈیموگرافی تبدیل کی جا رہی ہے، ایک نئے بحران کے بیج بوئے جا رہے ہیں، یہ گھس پیٹھے میرے ملک کے نوجوانوں کی روزی روٹی چھین رہے ہیں۔ یہ گھس پیٹھیے میرے ملک کی بہنوں اور بیٹیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ قبائلیوں اور ان کی زمینوں پر قبضہ کرنے کی کوشش برداشت نہیں کی جائے گی ۔آج لال قلعہ کی فصیل سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم نے ایک بااختیار ڈیموگرافی مشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ مشن یقینی طور پر ہندوستان پر منڈلانے والے سنگین بحران سے نمٹنے کے لیے ایک مقررہ وقت میں سوچ سمجھ کر اپنا کام کرے گا۔ ہم اس سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں‘‘۔
دراندازی یا پھر گھس پیٹھیے کا استعمال وزیر اعظم نریندر مودی کی سیاسی بیان بازی کا نمایاں حصہ رہا ہے۔ بالخصوص بنگال، آسام، جھار کھنڈ اور بہار میں انتخابی مہم کے دوران وہ گزشتہ کئی برسوں سے اس ایشو کو اٹھاتے رہے ہیں۔ ’’آبادیاتی تبدیلی، زمین پر قبضے اور ثقافتی شناخت کو لاحق خطرات کا خوف پیدا کرنا‘‘ وزیر اعظم مودی اور بی جے پی کی سیاسی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔ اگرچہ وہ شاذ و نادر ہی کسی مخصوص گروہ یا پھر مسلم دراندازوں کا براہِ راست نام لیتے ہیں، لیکن ان کی تقریریں اکثر گھس پیٹھیا کو سرحدی سلامتی، قومی سالمیت اور معیشت کے تحفظ کے موضوعات سے جوڑتی ہیں۔ یہ اصطلاح جس طرح وہ استعمال کرتے ہیں، وہ آسام اور مغربی بنگال میں ان کی انتخابی مہم کے دوران خاص طور پر نمایاں ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کا واضح اشارہ بنگلہ دیشی دراندازوں کی طرف ہوتا ہے۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق اگرچہ گھس پیٹھیے کا حوالہ وسیع پیمانے پر دیا جاتا ہے لیکن بنگلہ دیش سے غیر دستاویزی مسلمان تارکینِ وطن اور بعض اوقات روہنگیا پناہ گزین ہی ان کے نشانے پر ہوتے ہیں۔ سیاسی مبصرین کے نزدیک اس طرح کی بیان بازی مذہبی خطوط پر رائے دہندگان کو پولرائز کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے مرکز میں برسرِ اقتدار ہونے کے باوجود نہ بی جے پی کے پاس اور نہ ہی مرکزی حکومت کے پاس دراندازوں کے بارے میں حقیقی اعداد و شمار موجود ہیں۔
تین سال قبل 2022 میں وزارتِ داخلہ نے خود انکشاف کیا تھا کہ اس کے پاس ہندوستان میں مقیم غیر ملکی شہریوں سے متعلق درست اعداد و شمار نہیں ہیں اور اس وجہ سے غیر قانونی تارکینِ وطن کے مالی بوجھ کا پتہ لگانے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ 20 جولائی 2022 کو پارلیمنٹ کے جاری مانسون سیشن کے دوران راجیہ سبھا کے رکن پارلیمنٹ سبھاش چندر بوس پلے نے پوچھا تھا کہ کیا ہندوستان کے پاس پناہ گزینوں سے متعلق پالیسی کا مسودہ تیار کرنے کا منصوبہ ہے اور کیا پناہ گزینوں کی طرف سے ڈالے جانے والے مالی بوجھ کے لیے کوئی تخمینہ دستیاب ہے؟ ان کے سوال کے جواب میں امورِ داخلہ کے وزیرِ مملکت نتیانند رائے نے کہا کہ اس کے لیے موجودہ قوانین موجود ہیں جو غیر ملکی شہریوں سے نمٹنے کے لیے کافی ہیں۔
چونکہ مہاجر ہونے کا دعویٰ کرنے والے غیر ملکی شہری خفیہ طریقے سے اور درست سفری دستاویزات کے بغیر ملک میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں، اس لیے ایسے غیر ملکی شہریوں کے ملک میں قیام کے بارے میں درست اعداد و شمار مرکزی طور پر دستیاب نہیں ہیں۔ اس طرح ان غیر ملکیوں کے مالیاتی بوجھ کا بھی کوئی اندازہ نہیں ہے۔
ایسے میں سوال یہ ہے کہ ایک طرف وزارتِ داخلہ دعویٰ کرتی ہے کہ اس کے پاس کوئی اعداد و شمار نہیں ہیں اور نہ ہی مالی بوجھ سے متعلق کوئی رپورٹ ہے تو پھر وزیر اعظم مودی لال قلعہ کی فصیل سے قوم کو جن خدشات، اندیشوں اور چیلنجوں سے آگاہ کر رہے تھے وہ کس بنیاد پر تھے؟ کیا ان تین برسوں میں وزارتِ داخلہ نے دراندازوں سے متعلق کوئی رپورٹ تیار کی ہے؟
لال قلعہ کی فصیل سے وزیر اعظم کا خطاب کوئی سیاسی یا انتخابی جلسے کا خطاب نہیں ہوتا بلکہ یہ تاریخ کے ایک اہم لمحے، جشنِ آزادی کے موقع پر بھارت جیسے متنوع تہذیب و ثقافت، زبان و کلچر اور مختلف مذاہب کے حامل ملک کے وزیر اعظم کا قومی خطاب ہوتا ہے۔ اس لیے توقع کی جاتی ہے کہ یہ خطاب محض سیاسی نہ ہو بلکہ ملک کو ایک نئی سمت دینے والا ہو۔ اس کے علاوہ ثبوت اور دلیل کے ساتھ کوئی بھی بات کہی جائے۔ مگر وزیر اعظم مودی نے لال قلعہ کی فصیل کو صرف سیاسی بیان بازی اور بیانیہ طے کرنے کے لیے استعمال کیا۔ اس سے بڑھ کر ملک کی بدقسمتی اور کیا ہو سکتی ہے؟
اس وقت ’’ووٹ چور‘‘ انتخابی دھاندلی کے الزامات سرخیوں میں ہیں اور کانگریس کے سینئر لیڈر اور لوک سبھا میں اپوزیشن رہنما راہل گاندھی نے جس طریقے سے کرناٹک کے ایک اسمبلی حلقے میں ووٹر لسٹ میں گڑبڑیوں کی نشان دہی کی ہے اور اب بہار میں ایس آئی آر کے نام پر 65 لاکھ ووٹروں کا اخراج جس طرح کیا گیا ہے اس نے مرکزی حکومت بالخصوص مودی کے سامنے اخلاقی بحران کھڑا کر دیا ہے۔ سوال وزیر اعظم مودی کی اپنی جیت پر بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔ ممکن ہے یہ الزامات غلط ہوں مگر گزشتہ برسوں میں الیکشن کمیشن نے غیر جانب داری اور اپوزیشن کے تحفظات پر توجہ دینے کے بجائے جس جارحانہ انداز میں جواب دیا اور فریق بننے کی کوشش کی اس نے بی جے پی اور کمیشن کے گٹھ جوڑ کا تاثر ضرور پیدا کیا۔ سوال یہ بھی ہے کہ اپنے پسندیدہ الیکشن کمشنرز کی تقرری کے لیے مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ کی ہدایات کو خارج کرنے میں اتنی جلد بازی کیوں کی؟ آخر حکومت کو اپنے من پسند کے الیکشن کمشنروں کی تقرری کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
حال ہی میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق ملک کی اکثریت راہل گاندھی کے الزامات کو درست ماننے لگی ہے اور یہ محسوس کر رہی ہے کہ ووٹر لسٹ میں دھاندلی کی غیر جانب دارانہ جانچ ہونی چاہیے۔ ان حالات میں یہ سوال لازمی ہے کہ کیا وزیر اعظم مودی اپنے اوپر اٹھنے والے سوالات اور اخلاقی بحران سے بچنے کے لیے ایک الگ بیانیہ تشکیل دے رہے ہیں؟ کیا وہ ووٹ چوری کے بیانیے کا مقابلہ کرنے کے لیے در اندازی کے سوال کو بڑا بنا کر پیش کر رہے ہیں؟
لال قلعہ کی فصیل سے ہی وزیر اعظم مودی نے جس پارٹی کے صد سالہ سفر کی تعریف کی اس کے مسلمانوں اور ملک کی دیگر اقلیتی مذہبی اکائیوں سے متعلق جو انتہا پسند نظریات ہیں وہ جگ ظاہر ہیں۔ گوالکر اور ساورکر کھل کر کہتے رہے کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کا اس ملک سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو غیر اور باہر والا ثابت کرنے کی مسلسل کوشش کی جاتی ہے۔ چونکہ آج بی جے پی اقتدار میں ہے اس لیے اپنے اس سیاسی بیانیے کو ثابت کرنے کے لیے اعداد و شمار میں ہیرا پھیری اور اداروں کا استعمال کرکے گمراہ کن رپورٹس پیش کی جاتی ہیں۔
نومبر میں مہاراشٹر کے اسمبلی انتخابات سے عین قبل ٹاٹا انسٹیٹیوٹ آف سوشل سائنس کے پرو وائس چانسلر کی قیادت والی ایک ٹیم نے رپورٹ جاری کی کہ شہر ممبئی کو بنگلہ دیشی دراندازوں سے شدید خطرات لاحق ہیں مگر یہ رپورٹ تحقیقی اصولوں کو نظر انداز کرکے مرتب کی گئی تھی۔ مالیگاؤں، جہاں مسلمان معاشی طور پر مستحکم اور بڑی تعداد میں موجود ہیں، کو بدنام کرنے کے لیے ’’ووٹ جہاد‘‘ کا الزام عائد کیا گیا اور اس کی تصدیق کے لیے 08 جنوری 2025 کو ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم (SIT) تشکیل دی گئی۔ سات ماہ کی تحقیقات کے بعد اگست میں ایس آئی ٹی نے رپورٹ دی کہ مالیگاؤں میں غیر قانونی تارکینِ وطن، بنگلہ دیشی یا روہنگیا کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ رپورٹ میں پیدائشی سرٹیفکیٹ کے اجرا میں کچھ دستاویزی بے ضابطگیاں ضرور پائی گئیں لیکن غیر قانونی تارکینِ وطن کا کوئی ثبوت نہیں تھا۔ یہ رپورٹ اسپیشل انسپکٹر جنرل آف پولیس (ناسک رینج) دتاترے کرالے کو پیش کی گئی، جس نے 08 اگست 2025 کو ریاستی حکومت کو ارسال کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس تحقیقاتی ٹیم نے وزیر اعلیٰ پھڈنویس اور دیگر بی جے پی لیڈروں کے الزامات کی تصدیق کے لیے سیکڑوں شہریوں سے پوچھ گچھ کی مگر کچھ بھی ثابت نہ ہو سکا۔
پہلگام دہشت گرد حملے کے بعد ملک بھر میں مبینہ طور پر بنگلہ دیشی در اندازوں اور روہنگیاؤں کے خلاف مہم شروع کی گئی۔ ’’پش بیک‘‘ کے نام پر درجنوں بنگالی مزدوروں کو بنگلہ دیش میں دھکیل دیا گیا مگر ان میں سے اکثریت مغربی بنگال کے شہری تھے۔ بعد میں زیادہ تر کو واپس لایا گیا۔ حالیہ دنوں میں کلکتہ ہائی کورٹ میں ایک اکیس سالہ امیر شیخ کے بنگلہ دیش میں بھیجے جانے کا معاملہ سامنے آیا، مگر عدالتی کارروائی سے قبل ہی بی ایس ایف اور بنگلہ دیش بارڈر فورس کی مدد سے اسے واپس لایا گیا اور 13 اگست کو وہ اپنے اہلِ خانہ سے جا ملا۔
ملک بھر میں بنگالی تارکینِ وطن کے ساتھ زیادتی اور شہریت ثابت کرنے کا موقع دیے بغیر انہیں سرحد پار دھکیلنے کے خلاف مغربی بنگال مائیگرنٹ ورکر ویلفیئر بورڈ نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی جس پر مرکزی حکومت کو نوٹس جاری ہو چکا ہے۔ آسام میں غیر ملکی شہریوں کا مسئلہ انتہائی پیچیدہ ہے اور گزشتہ سات دہائیوں سے جاری ہے۔ این آرسی پر لاکھوں کروڑ روپے خرچ کیے گئے مگر اب تک حتمی نتیجہ نہیں نکلا۔ 19 لاکھ افراد کے نام این آرسی میں شامل نہیں ہوئے جن میں صرف چھ لاکھ مسلمان بنگالی ہیں۔ آسام معاہدے کے تحت تمام غیر قانونی مہاجرین کو ریاست بدر کیا جانا تھا مگر نشانہ صرف بنگالی مسلمان ہیں۔
اسی طرح جھار کھنڈ اسمبلی کے انتخابات میں بھی در اندازی کا سوال بی جے پی نے شدومد سے اٹھایا اور الزام لگایا کہ در اندازوں کی وجہ سے قبائلیوں کی تعداد کم ہو رہی ہے اور ان کی زمینیں چھینی جا رہی ہیں۔ وزیر اعظم مودی نے اپنی تقریر میں بھی اس کا ذکر کیا۔ بی جے پی لیڈروں پر مشتمل ایک کمیٹی نے اس دعوے پر رپورٹ پیش کی مگر جھار کھنڈ کے قبائلیوں نے اسے مسترد کر دیا اور اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں بی جے پی کے دعوے غلط ثابت کر دیے۔
جہاں تک بنگلہ دیش سے متصل مسلم اکثریتی اضلاع — مرشدآباد، مالدہ، شمالی دیناج پور، جنوبی 24 پرگنہ اور بہار کے سیمانچل — میں آبادی کے اضافے کا تعلق ہے، نیشنل ہیلتھ فیملی سروے واضح کرتا ہے کہ یہ علاقے غربت اور پسماندگی کا شکار ہیں۔ جہاں غربت اور تعلیم کی کمی ہو وہاں شرح پیدائش زیادہ ہوتی ہے۔ اس سروے کے مطابق ان اضلاع میں مسلمانوں اور ہندوؤں دونوں کی شرح پیدائش دیگر علاقوں سے زیادہ ہے۔ اس لیے ان علاقوں میں آبادی کا اضافہ در اندازی سے زیادہ شرحِ پیدائش کی بلند سطح کی وجہ سے ہے۔
آزاد صحافی سرور احمد یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ جب لاکھوں افراد بہار، آسام اور مغربی بنگال سے روزگار کی کمی کی وجہ سے بھارت کی جنوبی اور مغربی ریاستوں میں ہجرت کر رہے ہیں تو بنگلہ دیش سے لوگوں کا ہجوم اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر ان ریاستوں میں کیوں داخل ہوگا اور مستقل طور پر بس جائے گا؟ اس سے بھی بڑھ کر جب کہ بنگلہ دیش کی فی کس آمدنی بھارت کے سرحدی اضلاع کے رہنے والوں سے زیادہ ہے۔ معاشی طور پر پسماندہ لوگ غریب علاقوں سے امیر علاقوں کی طرف بڑے پیمانے پر ہجرت کرتے ہیں۔ پیو ریسرچ سنٹر کی رپورٹ کے مطابق 7.25 لاکھ ہندوستانی امریکہ میں غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں۔ لیکن ہندوستان میں کتنے غیر دستاویزی امریکی ہوں گے؟ بہار کی فی کس آمدنی 785.47 ہے جو بنگلہ دیش کے 2,551 (2023-24 کے اعداد و شمار) کے ایک تہائی سے بھی کم ہے۔ اس لیے جب بی جے پی یا پھر وزیر اعظم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ بنگلہ دیش سے بھارت میں غیر قانونی تارکین وطن کی بڑی تعداد داخل ہو رہی تو انہیں اس دعوے کی حمایت میں ایک معقول دلیل فراہم کرنی چاہیے۔ یہ سوال حکومت سے پوچھنا چاہیے کہ حکومت نے کتنے غیر قانونی تارکین وطن کی نشاندہی کی ہے؟ بی جے پی مرکزی حکومت میں گیارہ سالوں سے اور بہار میں گزشتہ بیس سالوں سے اقتدار میں ہے۔ غیر قانونی تارکین وطن کی شناخت کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ حیرت انگیز طور پر 17 اکتوبر کو الیکشن کمیشن کی پریس کانفرنس میں ایک صحافی نے سوال کیا کہ ایس آئی آر کے عمل کے دوران الیکشن کمیشن نے کتنے بنگلہ دیشی، نیپالی اور غیر ملکی ووٹروں کی شناخت کی ہے؟ اس سوال کا جواب دینے سے الیکشن کمیشن نے گریز کیا۔
سرور احمد کہتے ہیں کہ اگست 2024 میں جب شیخ حسینہ کے طویل اقتدار کا خاتمہ ہوا تو اس وقت مرکزی حکومت بنگلہ دیشیوں کو سالانہ پندرہ سے بیس لاکھ ویزے جاری کر رہی تھی یعنی ہر دن سات سے آٹھ ہزار بنگلہ دیشیوں کو بھارت کے ویزے جاری کیے جا رہے تھے۔بنگلہ دیشی زائرین کی بڑی تعداد علاج و معالجہ، خریداری اور تجارت کے لیے آتی تھی۔ زیادہ تر بنگلہ دیشی زبان و ثقافت کی وجہ سے کولکاتا اور تریپورہ آتے تھے، مگر اس وقت ویزے جاری نہیں کیے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے کولکاتا کے ہوٹل مالکین، ہسپتال اور دیگر تجارتی مراکز نقصانات برداشت کر رہے ہیں۔ لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ بنگال اور دیگر سرحدی اضلاع میں در اندازی اور غیر قانونی سرگرمیاں نہیں ہوتیں۔ سرور احمد کہتے ہیں کہ یہ وہ مسائل ہیں جنہیں حل کیا جانا چاہیے۔ لیکن یہ کہنا کہ مسلمانوں نے ہندوستان میں داخل ہو کر آبادی کا تناسب تبدیل کرنے اور ترنمول کانگریس اور بہار و آسام میں گرینڈ الائنس کو انتخابات جتوانے میں مدد کرنے کے لیے ووٹروں کے طور پر اندراج کیا ہے، ایک عجیب و غریب دعویٰ ہے۔
جہاں تک وزیر اعظم مودی کی تقریر کے اس حصے کا سوال ہے جس میں انہوں نے آر ایس ایس کی تعریف کی اور اس کے صد سالہ سفر کو آئین کی 75ویں سالگرہ سے جوڑا، تو یہ کوئی اتفاق نہیں ہے۔ یہ آر ایس ایس کے نظریات اور فکر کو بھارت پر تھوپنے کی طرف ایک قدم ہے۔ ممکن ہے کہ یہ آر ایس ایس کی قیادت کو خوش کرنے کی حکمتِ عملی بھی ہو، کیونکہ آر ایس ایس کی قیادت چاہتی ہے کہ 75 سال کی عمر کے بعد نریندر مودی وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ اگلی نسل کو سونپ دیں۔ سیاسی حکمتِ عملی اپنی جگہ مگر لال قلعہ کی فصیل سے وزیر اعظم مودی کا آر ایس ایس کا ذکر کرنا سیاسی اعتبار سے ایک بڑی پیش رفت ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ آزادی، آئین اور بھارت کے ترنگے سے آر ایس ایس کا کوئی تعلق نہیں رہا ہے۔
آر ایس ایس نے نہ صرف آزادی کی تحریک کی مخالفت کی تھی بلکہ 14 اگست 1947 کو دستور ساز اسمبلی کی جانب سے اپنائے گئے قومی پرچم کو قبول کرنے سے انکار بھی کیا اور کہا کہ نام نہاد قومی پرچم کو ہندو کبھی قبول نہیں کریں گے۔ "تین” کا لفظ خود ایک شر ہے اور تین رنگوں والا پرچم نفسیاتی طور پر منفی اثر ڈالے گا۔ اگرچہ بعد میں عوامی دباؤ کے نتیجے میں ترنگے کو قبول کیا گیا اور آر ایس ایس کے ہیڈکوارٹر میں بھی پرچم لہرایا جانے لگا۔ وزیر اعظم مودی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’’جب ہم جمہوریت اور آزاد بھارت کی بات کرتے ہیں تو ہمارا آئین ہمارے لیے بہترین رہنما ہے، ہمارا ترغیبی مرکز ہے‘‘۔ مگر سوال یہ ہے کہ وزیر اعظم مودی جس آر ایس ایس کو آئین اور ملک کے وقار سے جوڑ رہے ہیں، کیا وہ اس آئین کا اسی طرح احترام کرتی رہی ہے؟ کیونکہ یہ دستاویزی ثبوت موجود ہیں کہ آر ایس ایس نے 26 نومبر 1949 کو آئین کی منظوری کے چار دن بعد 30 نومبر کو اپنے ترجمان آرگنائزر میں لکھا کہ آئین میں کچھ بھی "بھارتیہ” نہیں ہے۔ آر ایس ایس نے کہا کہ آئین سازوں نے برطانوی، امریکی، کینیڈین، سوئس اور دیگر آئینوں کے عناصر شامل کیے لیکن انہیں منوسمرتی کے قوانین میں کوئی قدر نہیں ملی۔ آئین کے خلاف آر ایس ایس کی یہ مخالفت دہائیوں تک جاری رہی۔
2000-2001 میں آئین کی پچاسویں سالگرہ پر، آر ایس ایس کے سابق سربراہ کے سدرشن نے کرن تھاپر سے کہا کہ بھارت کا آئین بھارتی اخلاقیات اور ثقافت کے لیے اجنبی ہے۔ جب تھاپر نے سوال کیا کہ کیا آپ آج اس آئین سے بندھے ہوئے محسوس کرتے ہیں جو پچاس سال پہلے بنایا گیا تھا؟ انہوں نے جواب دیا کہ اسے مکمل طور پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری کے دور میں بھی آئین میں نظر ثانی کے لیے کمیٹی بنائی گئی تھی مگر اس وقت کے صدر جمہوریہ کے آر نارائن نے اس کی شدید مخالفت کی تو قدم پیچھے ہٹا لیے گئے۔ مودی دور میں بھی بی جے پی اور آر ایس ایس کے لیڈروں نے آئین میں تبدیلی کی وکالت کی ہے۔ حال ہی میں آر ایس ایس کے سکریٹری نے آئین سے "سیکولر” اور "سوشلسٹ” کے الفاظ ہٹانے کی پرزور وکالت کی ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ آر ایس ایس کا لال قلعہ کی فصیل سے ذکر صرف مودی کی کرسی بچانے کی حکمتِ عملی ہے، سراسر غلط ہے۔ اصل میں یہ ایک اشارہ ہے: بھارت کو آر ایس ایس کی سوچ اور نظریات کے مطابق آگے بڑھانے کا۔ در اندازی کے سوال کو بھی اس سے جوڑ کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔
***

 

***

 لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے کہا کہ ’’آج میں ملک کو ایک تشویش، ایک چیلنج سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ملک کی ڈیموگرافی تبدیل کی جا رہی ہے، ایک نئے بحران کے بیج بوئے جا رہے ہیں، یہ گھس پیٹھے میرے ملک کے نوجوانوں کی روزی روٹی چھین رہے ہیں۔ یہ گھس پیٹھیے میرے ملک کی بہنوں اور بیٹیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ قبائلیوں اور ان کی زمینوں پر قبضہ کرنے کی کوشش برداشت نہیں کی جائے گی ۔آج لال قلعہ کی فصیل سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم نے ایک بااختیار ڈیموگرافی مشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ مشن یقینی طور پر ہندوستان پر منڈلانے والے سنگین بحران سے نمٹنے کے لیے ایک مقررہ وقت میں سوچ سمجھ کر اپنا کام کرے گا۔ ہم اس سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں‘‘۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 اگست تا 30 اگست 2025

hacklink panel |
casino siteleri |
deneme bonusu |
betorder |
güncel bahis siteleri |
cratosbet |
hititbet |
casinolevant |
sekabet giriş |
2025 yılının en güvenilir deneme bonusu veren siteler listesi |
Deneme Bonusu Veren Siteleri 2025 |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
taksimbet giriş |
betpas giriş |
bahis siteleri |
ekrem abi siteleri |
betebet giriş |
gamdom |
gamdom |
gamdom giriş |
gamdom |
hacklink panel |
casino siteleri |
deneme bonusu |
betorder |
güncel bahis siteleri |
cratosbet |
hititbet |
casinolevant |
sekabet giriş |
2025 yılının en güvenilir deneme bonusu veren siteler listesi |
Deneme Bonusu Veren Siteleri 2025 |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
taksimbet giriş |
betpas giriş |
bahis siteleri |
ekrem abi siteleri |
betebet giriş |
gamdom |
gamdom |
gamdom giriş |
gamdom |