
‘ووٹ چوری’ کے الزام پر میڈیا میں تیز و تند بحثیں، سوشل میڈیا پر پول کھول مہم
الیکشن کمیشن پر جانب داری کے الزامات، بی جے پی سے سانٹھ گانٹھ کا شور
شہاب فضل، لکھنؤ
راہل گاندھی کا دعویٰ: پانچ طریقوں سے ووٹوں کی ڈکیتی ہورہی ہے
الیکشن کمیشن کو انتخابی اصلاحات پر سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت
لوک سبھا میں حزب اختلاف کے رہنما راہل گاندھی کی جانب سے ‘ووٹ چوری’ کے الزامات اور الیکشن کمیشن آف انڈیا کے ‘مخاصمانہ’ رویہ نے ملک میں انتخابات کی غیر جانب داری اور شفافیت پر سوالیہ نشانات لگا دیے ہیں چنانچہ اس پر مین اسٹریم میڈیا سے لے کر سوشل میڈیا پلیٹ فارموں تک تیزو تند بحثیں جاری ہیں۔ الیکشن کمیشن کو راہل گاندھی کے اعتراضات اور دعووں کی غیر جانب داری کے ساتھ گہرائی سے جانچ کرنی چاہیے تھی تاکہ انتخابات کےعمل کی دیانت داری اور الیکشن کمیشن کی شبیہ پر اٹھنے والے سوالات کا جواب مل سکے اور شکوک و شبہات دور ہوں مگر کمیشن نے ایسا نہیں کیا، جس پر مسٹر گاندھی کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ الیکشن کمیشن غریبوں کے ووٹ کے اختیار کو چھیننے کے مقصد سے ووٹ چوری کو انجام دے رہا ہے ، اور وہ مرکز میں حکم راں پارٹی کے ساتھ کھلے عام سانٹھ گانٹھ کررہا ہے۔
معروف ہندی اخبار ’’ہندوستان‘‘ نے اپنے 8 اگست کے اداریہ میں ’’متوں کی چوری‘‘ (ووٹوں کی چوری) کے عنوان سے لکھا ہے کہ ’’لوک سبھا میں حزب اختلاف کے لیڈر راہل گاندھی نے جس طرح سے ووٹوں کی چوری کا عوامی سطح پر انکشاف کیا ہے اس پر جاری بحث مثبت اور لائق خیرمقدم ہے۔ انتخابات کی اصلاح کے لیے جتنی بھی کوششیں کی جائیں کم ہیں اور شکایتوں کو دور کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کو اپنی طرف سے پورا زور لگانا چاہیے۔ ۔۔۔۔ راہل گاندھی نے باقاعدہ ووٹر لسٹ کے اعداد و شمار کے ساتھ بتایا ہے کہ ووٹوں کی چوری کیسے کی جارہی ہے۔ ووٹ چوری کے لیے کیسے پانچ طریقوں کا استعمال ہورہا ہے: فرضی ووٹر، فرضی پتے، ایک پتہ پر کئی ووٹر، غلط فوٹو کا استعمال اور فارم 6 کا غلط استعمال۔‘‘
اخبار نے صاف طور سے لکھا ہے کہ ’’ووٹر لسٹوں اور ووٹنگ کو لے کر جو شکایتیں سامنے آئی ہیں ان کی جانچ الیکشن کمیشن کو ضرور کرنی چاہیے۔ یہاں باقاعدہ طریقہ سے شکایت کرنے کی وکالت کرتے ہوئے تکنیکی بہانہ بنانا درست نہیں ہوگا۔ الیکشن کمیشن کو از خود نوٹس لے کر کرناٹک سے متعلق شکایتوں کو دور کرنا چاہیے۔ اگر کوئی غلطی یا گڑبڑی ہے تو اسے چھپانے کی کوشش کرنا غلط ہے اور اگر کوئی غلطی یا گڑبڑی نہیں ہے تو پھر الیکشن کمیشن کو ناقابل تنسیخ ثبوتوں کے ساتھ سامنے آنا چاہئے۔ یہ جمہوریت ہے، جس میں الیکشن کمیشن کسی ایک فرد کا ادارہ نہیں ہے۔ وہ ایک منظم عمل کا حصہ ہے، پورے انتخابی عمل میں اگر کہیں کوئی کمی ہے تو اسے قبول کرنے کے بعد ہی اصلاح کا حقیقی عمل شروع ہوگا۔ الزامات کو محض زبانی طور سے خارج کردینے سے تنازعہ کا خاتمہ نہیں ہوگا۔‘‘
اخبار نے اس بات کی وکالت کی ہے کہ انتخابی اصلاح کو سیاست کا موضوع نہیں بنانا چاہیے، یہ نظام اور بندوبست کا معاملہ ہے۔ الیکشن کمیشن کو انتخابی اصلاحات کی جانب قدم بڑھانے ہوں گے جیسا کہ ملک کے دوسرے الیکشن کمشنر کے وی کے سندرم اور دسویں الیکشن کمشنر ٹی این سیشن کے دور میں دیکھنے کو ملا تھا۔ یہ ڈیجیٹل دور ہے، یو پی آئی، پِن اور پاس ورڈ کی سیکیورٹی ہے۔ ایسی صورت میں ایک بھی فرضی ووٹر ہمارے انتخابی بندوبست میں کیسے سیندھ مار سکتا ہے؟ کوئی بھی عقل والا انسان یہی کہے گا کہ اگر کہیں سیندھ ماری ہورہی ہے تو اس کا سد باب ہونا چاہیے اور اس میں سبھی سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔
اخبار نے اپنے اداریہ سے مرکزی الیکشن کمیشن کو اس کی ذمہ داری کا احساس دلانے کی کوشش کی ہے مگر ابھی تک ایسی کسی چیز کا اثر ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔ نیوز پورٹل نیوز لانڈری کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ‘ووٹ چوری’ کا الزام لگنے کے بعد الیکشن کمیشن نے ووٹر فہرست کا ڈیجٹیل فارمیٹ ہٹا دیا اور اسے اسکین کاپی میں تبدیل کردیا، جس کی وجہ سے ووٹروں کی فوٹو اور دیگر معلومات ووٹر فہرست سے نکالی نہیں جاسکتیں۔ مائیکروبلاگنگ سائٹ ایکس پر سری نواس وی بی نام کے ایک صارف نے لکھا کہ اب الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر بہار میں اسکین کی ہوئی ووٹر فہرست اپلوڈ کی گئی ہے جسے مشین سے نہیں پڑھا جاسکتا، مطلب یہ کہ دھاندلی نہیں پکڑی جاسکتی۔
ووٹ چوری کے الزام کے پس منظر میں سماجوادی پارٹی کے رہنما اکھلیش یادو نے بھی مائیکروبلانگ سائٹ ایکس پر ایک پوسٹ کے ذریعہ بی جے پی پر انتخابی دھاندلی کے الزامات عائد کیے ۔ انہوں نے لکھا کہ بی جے پی کچھ لوگوں کی ملی بھگت سے کبھی اپنے حامی فرضی ووٹروں کا نام بڑھادیتی ہے، کبھی اپنے مخالف ووٹروں کا نام ہٹوادیتی ہے، کبھی بوتھ پر اپنے چنندہ لوگوں کو بٹھا کر فرضی ووٹ ڈالنے کا ٹارگیٹ دیتی ہے، کبھی بندوق تان کر لوگوں کو ووٹ ڈالنے سے رکواتی ہے، اپنے حامیوں سے کئی کئی ووٹ ڈلواتی ہے، فرضی ووٹنگ کراتی ہے، فورس لگاکر کبھی ای وی ایم تبدیل کراتی ہے، کبھی سی سی ٹی وی کے سامنے اپنے خلاف ڈالے گئے ووٹوں کو خارج بھی کرواتی ہےاور کبھی ڈی ایم سے جیت کا سرٹیفیکٹ بھی بدلوادیتی ہے۔ ایکس پر یہ سب لکھ کر اکھیلیش نے ملکی پور (اجودھیا) اسمبلی حلقہ کے ضمنی انتخاب میں ووٹوں کی ڈکیتی کا الزام دہرایا ہے۔ انہوں نے کئی انتخابات میں سماجوادی پارٹی اور بی جے پی کو ملنے والے ووٹ فیصد کے گراف بھی ساتھ میں پوسٹ کیے ہیں۔
کچھ میڈیا اداروں نے راہل گاندھی کے الزامات کی اپنی سطح سے تصدیق کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ مثال کے طور پر انڈیا ٹوڈے نے کرناٹک میں کئی ووٹروں کے گھروں کا دورہ کیا اور ایک فلیٹ کے پتہ پر 80 ووٹر رجسٹرڈ پائے۔ یہ فلیٹ ایک بی جے پی کارکن کا تھا۔ فرضی ووٹنگ سے متعلق کئی پرانے ویڈیوز وائرل ہورہے ہیں۔ ایک ووٹر کیمرے پر باقاعدہ کہہ رہا ہے کہ اس نے ایک دن میں 6 بار بی جے پی امیدوار کے حق میں ووٹ ڈالے۔
اس طرح کے انکشافات اور بحثوں کی وجہ سے راہل گاندھی کی پریس کانفرنس اور ان کے یوٹیوب چینل کے ناظرین کی تعداد کافی بڑھ گئی ہے اور اس پریس کانفرنس کو لوگ بار بار دیکھ رہے ہیں اور معاملہ کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں، یہاں تک کہ فائنانس کے انفلوئنسرز بھی راہل گاندھی کی باتوں کو سنجیدگی سے لے کر اسے ملک میں جمہوریت اور شفافیت کی بقا کے لیے اہم قرار دے رہے ہیں۔
آلٹ نیوز کے معروف فیکٹ چیکر صحافی محمد زبیر نے ‘ووٹ چوری’ کے معاملے میں الیکشن کمیشن کو بے نقاب کرنے والے کئی پوسٹ کیے ہیں جس پر ملک کے چیف الیکشن کمشنر اور کمیشن کے اہلکاروں کو شرمندگی کا احساس ہوجانا چاہیے تھا۔ مثال کے طور پر انہوں نے نریندر مودی کے وہ ٹویٹ شیئر کیے ہیں جو انہوں نے گجرات کے وزیراعلیٰ رہتے ہوئے الیکشن کمیشن کو آگاہ کرتے ہوئے کیے تھے۔ اس کے علاوہ زبیر نے راہل گاندھی پر ریاست کرناٹک کے انتخابی افسران کے ردعمل کو بی جے پی کے لوگوں کو ٹیگ کیے جانے پر سوال کھڑے کیے ہیں اور ادھ کچے رد عمل کی خامیاں بھی بتائی ہیں۔ اسی طرح انہوں نے خاتون صحافی روبیکا لیاقت کے تجزیہ کی بخیہ ادھیڑتے ہوئے الیکشن کمیشن کی ووٹر فہرست میں ایک ہی شخص کا نام مختلف جگہوں کی ووٹر لسٹ میں شامل ہونا بتایا ہے اور اس کی شناخت کا درست طریقہ بھی بیان کیا ہے۔
ایکس پر آدتیہ گوسوامی نام کے ایک شخص نے میرٹھ حلقہ میں لوک سبھا انتخابات 2024 کے سلسلہ میں بتایا ہے کہ الیکشن سے عین قبل 61365 ووٹروں کے نام ہٹائے گئے اور ایک لاکھ نئے ووٹر جوڑے گئے۔ ووٹر لسٹ کے تجزیہ کے بعد پایا گیا کہ 27 فیصد ووٹر فرضی ہیں، جن کے نام کے آگے پتہ کے کالم میں اترپردیش، جھگی اور نیا جیسے لفظ لکھے ہیں۔ مکمل پتہ کسی کو نہیں معلوم۔
متعدد صارفین نے راہل کے الزامات کی کووریج میں انہیں نظر انداز کیے جانے کی بات بھی کہی ہے۔ مثال کے طور پر ایک صحافی تنشکا سودھی نے ٹائمز آف انڈیا، انڈین ایکسپریس، دی ہندو اور ہندوستان ٹائمز کے صفحہ اول کی تصاویر اپنی ایک پوسٹ پر لگا کر یہ نشان دہی کی ہے کہ صرف ایک قومی نیوز پیپر نے راہل گاندھی کے الزامات کو شہ سرخی بنایا، باقی تین اخبارات نے صفحہ اول پر تو جگہ دی مگر اسے بہت نمایاں نہیں کیا۔ اسی طرح ودیا کانت پانڈے نے معروف ڈیجیٹل صحافی اجیت انجم کا ایک نیوز شو شیئر کیا ہے جس میں وہ یہ بتارہے ہیں کہ بی جے پی کے اشارے پر راہل گاندھی کی پریس کانفرنس کو اولیت نہیں دی گئی اور پرنٹ میڈیا میں اسے اتنی جگہ نہیں ملی جتنی ملنی چاہیے تھی۔
ایکس کے ایک صارف پرکھر دیکشت نے ایک زیادہ سنگین مسئلہ کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ 2023 میں اشوکا یونیورسٹی کے ایک اسسٹنٹ پروفیسر مسٹر داس نے ’’دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں جمہوری اصولوں کا زیاں‘‘ کے عنوان پر ایک مقالہ تیار کیا تھا جس میں انہوں نے 2019 کے لوک سبھا انتخابات کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا اور بتایا کہ حکم راں بی جے پی انتخابی دھاندلی میں ملوث نظر آتی ہے۔ اس میں انہوں نے دو خاص باتوں کی نشاندہی کی: اول یہ کہ ووٹروں کے رجسٹریشن میں گڑبڑی ہورہی ہے اور ووٹر لسٹ سے مسلم ناموں کو کاٹنے کا کام کیا جارہا ہے۔ دوم یہ کہ ووٹنگ فیصد اور ووٹ شماری میں بے ضابطگی برتی جارہی ہے جیسے کہ ای وی ایم ووٹوں کی گنتی میں گڑبڑی کی جارہی ہے اور سخت مقابلے والے انتخابی حلقوں میں بی جے پی کے حق میں زیادہ ووٹنگ کا رجحان نظر آتا ہے۔ مسٹر داس نے اس گڑبڑی کی مزید تحقیق و مطالعہ پر زور دیا تھا۔ اس مقالے کو شائع ہونے سے روکا گیا اور بعد میں اس مقالے کے مصنف نے اشوکا یونیورسٹی کو خیرباد کہہ دیا۔
منیش سنگھ نام کے ایک ایکس صارف نے الیکشن کمیشن کے ماضی کی داستان بیان کرتے ہوئے حال سے اس کا موازنہ کیا ہے۔ انہوں نے کہاںی سال 2002 سے شروع کی ہے جب جے ایم لنگڈوہ ملک کے چیف الیکشن کمشنر تھے۔ منیش کی پوسٹ اپنی معنویت اور اسلوب کی وجہ سے منفرد ہے اس لیے اسے جوں کا توں نقل کرنا ضروری ہے۔
وہ لکھتے ہیں: یہ سال 2002 تھا۔ گجرات کے وزیر اعلیٰ ناراض تھے۔ الیکشن کمیشن، ودھان سبھا انتخابات میں تاخیر کررہا تھا، وقت گزرنے سے گرم ماحول ٹھنڈا ہوجاتا۔ 2001 میں بھج زلزلہ کے بعد گجرات حکومت پر بدعنوانی کے سنگین الزامات لگے۔ یہ الزام اپوزیشن کے نہیں، پارٹی والوں کے تھے۔ نتیجتاً گجرات کے مقبول وزیر اعلیٰ کیشو پٹیل کو استعفیٰ دینا پڑا۔ کیشو پٹیل گجرات میں بی جے پی کو صفر سے کھڑا کرنے والے رہنما تھے۔ 1995 میں جیت کر آنے والی ان کی حکومت کو ان کے ہی ساتھی، شنکر سنگھ واگھیلا نے گرادیا تھا۔ اور سیتارام کیسری والی کانگریس کی حمایت سے وزیر اعلیٰ بن گئے۔ کیسری ڈیڑھ ہوشیار تھے۔ انہوں نے واگھیلا کونکمزور کیا اور کانگریس کو گڑھے میں گرا دیا۔ 1999 کے الیکشن میں بی جے پی جیتی، کیشو پٹیل پھر وزیر اعلیٰ بنے۔ مگر ان کی مدت کار چھوٹی تھی۔ اڈوانی کا ایک چیلا ان کے پیچھے پڑ گیا۔ کیشو پٹیل نے اٹل سے کہہ کر اسے ہٹوایا اور گجرات سے باہر کروا دیا۔ لیکن کیشو پٹیل کی کرسی پر نظر گاڑنے والے شخص نے مٹھی بھر اراکین اسمبلی کو بغاوت کے لیے تیار کرایا، کرپشن کے الزامات لگوائے۔ دوبارہ واگھیلا ایپی سوڈ نہ ہوجائے، اس ڈر سے مرکزی قیادت نے کیشو پٹیل کی کرسی قربان کردی۔
سازش کامیاب رہی، زندگی میں کبھی نہ پارشد، نہ رکن اسمبلی، نہ ایڈمنسٹریٹیو حیثیت والا شخص سی ایم بنا۔ ۔۔۔۔۔ نئے سی ایم کے چھ ماہ میں گجرات میں تاریخی فسادات ہوئے۔ یہ ایک سانحہ تھا مگر موقع بھی تھا۔ فسادات سے زبردست پولرائزیشن ہوا تھا۔ ووٹ کی فصل کاٹی جاسکتی تھی۔ سی ایم نے فوراً اسمبلی تحلیل کرائی تاکہ انتخابات ہوں اور بڑی اکثریت سے حکومت بنے۔ لیکن چیف الیکشن کمشنر نے الیکشن کا اعلان نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ فرقہ وارانہ کشیدگی ہے اور دوران الیکشن تشدد ہو سکتا ہے۔ وزیر اعلیٰ سپریم کورٹ گئے۔ داؤ پیچ لگائے، دلیل دی کہ اسمبلی کے دو سیشن کے درمیان 180 دن کا وقت ہوتا ہے جو ختم ہونے والا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ یہ ضابطہ کسی جاری اسمبلی کے لیے ہے، تحلیل شدہ اسمبلی کے لیے نہیں۔ عدالت نے چیف الیکشن کمشنر کی سنی۔ وزیر اعلیٰ کی عرضی خارج کر دی۔ چیف الیکشن کمشنر کا نام تھا: جے ایم لنگڈوہ۔ وہ میگھالیہ کے کھاسی قبائلی تھے۔ ضلع جج کے بیٹے تھے، ہونہار اور سخت۔ محض 22 سال کی عمر میں آئی اے ایس پاس کیا، بہار کیڈر ملا۔ جلد ہی ایمانداری اور مضبوطی سے ڈٹے رہنے کے لیے مشہور ہوگئے۔ اراضی اصلاحات پر سخت عمل درآمد نے زمینداروں کو اتنا ناراض کردیا کہ ان کا تبادلہ ہوگیا۔ لیکن اقتدار سے ٹکر لینے کی جرأت باقی رہی۔ 1997 میں لنگڈوہ ہندوستان کے تین الیکشن کمشنروں میں سے ایک بنے۔ 2001 میں چیف الیکشن کمشنر مقرر ہوئے اور 2004 تک اس عہدے پر رہے۔ الیکشن کمیشن میں تقرری دیوے گوڑا حکومت نے کی، چیف الیکشن کمشنر اٹل نے بنایا۔ لیکن کھسیائے ہوئے گجرات کے وزیر اعلیٰ نے لنگڈوہ کو خوب کوسا اور ان کا تعلق تب نئی نئی سیاست میں آنے والی ’’سونیا اینٹونیو مائینو‘‘ سے جوڑا۔ 20 اگست 2002 کو وڈودرا کے قریب بودیلی میں ایک جلسہ عام میں وزیر اعلیٰ نریندر مودی چیف الیکشن کمشنر پر بولے۔ ہندو ووٹروں کو اشارہ کیا کہ الیکشن کمیشن ان کی مرضی کے مطابق کام نہیں کررہا ہے، کیوں کہ لنگڈوہ عیسائی ہیں اور اٹلی والی عیسائی سونیا کے اشارے پر چلتے ہیں۔ تاریخ میں پہلی بار الیکشن کمیشن کو ایسے گھسیٹا گیا۔ نریندر مودی اکثر پریس کانفرنس، عوامی جلسوں وغیرہ میں ان کا نام ڈرامائی انداز سے ’’جیمس مائیکل لنگڈوہ‘‘ بولتے، تاکہ ان کے مذہبی پس منظر کو اجاگر کیا جاسکے۔
لنگڈوہ نے اسے ’گھٹیا‘ اور ’نوکروں کی گپ شپ‘ قرار دیا۔ ایک دن اٹل بہاری کی پھٹکار پر مودی نے کہا: واجپئی کی ’ہدایات‘ کے بعد لنگڈوہ سے ان کا ’تنازعہ‘ ختم ہوگیا۔ گجرات کے انتخابات موزوں وقت پر مرکزی سلامتی ایجنسیوں کی موجودگی میں ہوئے۔ بی جے پی کو جیسی امید تھی، ویسی اکثریت نہیں آئی البتہ حکومت ان کی پھر بھی بن گئی۔
ووٹر لسٹ میں سنگین خامیاں اجاگر کرنے کے بعد راہل گاندھی پر بی جے پی کے لوگ حملے کررہے ہیں۔ انہیں آئینی ادارے پر راہل کا حملہ بے حد برا لگ رہا ہے۔ انہیں عوام کے کپڑوں سے پہچاننے والے نیتا کا بیان یاد دلانا ضروری ہے: ’’جیمس مائیکل لنگڈوہ، سونیا اینٹونیو مائینو کے اشارے پر کام کررہا ہے‘‘۔
جے ایم لنگڈوہ، 2004 کے انتخابات سے چند دنوں پہلے ریٹائر ہوئے۔ ان کا اصل چیلنج دہشت گردی کے سایہ میں 2002 میں جموں و کشمیر میں انتخابات کرانا تھا۔ اس کے لیے انہیں 2003 میں سرکاری خدمت کے میدان میں بین الاقوامی ریمن میگسیسے ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ بھارت کے کسی الیکشن کمشنر کو ملنے والا یہ سب سے بڑا بین الاقوامی ایوارڈ ہے۔
یہ طویل پوسٹ الیکشن کمیشن، وزیر اعلیٰ، وزیر اعظم، سیاست کی بدلتی سمت، جمہوری قدروں میں آنے والی تبدیلیوں، جمہوری اداروں کے بدلتی ہوئی شکل اور سیاسی و انتظامی افراد کے اذہان اور رویوں پر روشنی ڈالتی ہے اور یہ اشارہ بھی کرتی ہے کہ اس وقت ملک میں عوام کے دل و دماغ پر اثرانداز ہونے کی جنگ چل رہی ہے اور اقتدار پر براجمان طبقے نے اپنی جڑیں اس حد تک مضبوط کرلی ہیں کہ جمہوری و آئینی ادارے اس کی زد میں آگئے ہیں۔ راہل گاندھی نے ‘ووٹ چوری’ کے بڑے الزامات سے اقتدار کے گلیاروں میں ہلچل اور بے چینی پیدا کردی ہے اور بھارتی ووٹروں اور میڈیا کو سوچنے سمجھنے کے لیے بہت سا مواد دے دیا ہے۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 جولائی تا 23 اگست 2025