وزارت اقلیتی امور کے فنڈ میں کٹوتی۔اسکالرشپبند
اقلیتی کمیشن کے بعد مرکزی وزارت اقلیتی امور بھی عُضوِ معطل
(دعوت نیوز کولکاتہ بیورو)
مسلمانوں کے ایک ہاتھ میں قرآن دوسرے ہاتھ میں سائنس کا خواب دکھانے والی حکومت کا متعصبانہ رویہ
2014 میں پارلیمانی انتخابات سے قبل وزیر اعظم نریندر مودی کے دو جملے (دو وعدے) کافی مشہور ہوئے تھے ’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘‘ اور ’’مسلمانوں کے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں سائنس دیکھنا میرا خواب ہے‘‘۔ ان دو جملوں میں آخری جملہ اس لیے کافی اہم تھا کہ 2002 میں گجرات فسادات اور اس کے بعد نریندر مودی کے بیانات اور طرز عمل کی وجہ سے ان کی مسلم مخالف شبیہ بن گئی تھی، مگر جب انہیں 2013 میں وزیر اعظم کے عہدہ کے لیے امیدوار بنایا گیا تو انہوں نے اپنی شبیہ کو بہتر کرنے کے لیے سب سے پہلے گاندھی نگر میں ملک بھر کے مسلم دانشوروں اور علمائے کرام کے ساتھ میٹنگ کی اور ہندوستانی مسلمانوں کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا۔ 2013 میں ہی سابق مرکزی وزیر مختار عباس نقوی کی قیادت میں بی جے پی نے سچر کمیٹی کے بعد مسلمانوں کے اقتصادی و سماجی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی کی تشکیل دی۔ کمیٹی کی تشکیل کے بعد لیے گئے ایک انٹرویو میں مختار عباس نقوی نے دعویٰ کیا تھا کہ نریندر مودی کھلے دل کے ساتھ مسلمانوں کی جامع ترقی کے لیے پرعزم ہیں، وہ مسلمانوں کے استحصال اور محض ووٹ بینک کے خلاف ہیں۔ بعد میں عباس نقوی کی قیادت والی اس کمیٹی کا کیا بنا کسی کو نہیں معلوم۔
2014 کے پارلیمانی انتخابات سے قبل نریندر مودی نے اردو کے دو مشہور صحافیوں کو انٹرویو دیتے ہوئے بھی انہی عزائم کا اعادہ کیا تھا مگر 2014 میں وزارت عظمیٰ کے عہدہ پر متمکن ہونے کے ساتھ ہی دیگر وعدوں کی طرح اس وعدے کو بھی فراموش کردیا اور گزشتہ آٹھ سالوں میں کوئی ایک لمحہ بھی ایسا نہیں گزرا جس میں وزیر اعظم مودی اپنے اس انتخابی وعدے کو پورا کرنے کے لیے پرعزم دکھائی دیے ہوں بلکہ اس کے برعکس وہ مسلسل ایسے اقدام کر رہے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی ترقی اور پسماندگی کا خاتمہ ان کے ایجنڈے میں کبھی رہا ہی نہیں۔ گزشتہ آٹھ سالوں میں موب لنچنگ، نفرت انگیز مہمات، مسلمانوں کے گھروں کی بلڈوزروں کے ذریعے مسماری، شہریت ترمیمی ایکٹ کا نفاذ اور خود وزیر اعظم مودی کے مسلمانوں سے متعلق متنازع بیانات اور جامعہ ملیہ اسلامیہ و علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبا پر حملوں کے واقعات اس کا ثبوت ہیں۔ اب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے فنڈز میں کٹوتی اور مسلم یونیورسٹی کے اسٹڈی سنٹرس کو جس طریقے سے نظر انداز کیا گیا ہے اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی تعلیمی مسائل سے مودی حکومت نے منھ موڑ لیا ہے۔ ’’ہفت روزہ دعوت‘‘ کے انہی صفحات میں ہم نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اسٹڈی سنٹرس کا تفصیلی جائزہ پیش کیا تھا۔ اب مولانا آزاد فیلوشپ اور پری میٹرک طلبا کے اسکالرشپ کو بند کرنے کا فیصلہ بتاتا ہے کہ وزارت اقلیتی امور بے فیض وزارت بنتی جا رہی ہے۔ یہ بھی کسی المیہ سے کم نہیں ہے کہ ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت میں کوئی ایسی شخصیت نہیں ہے جسے مودی حکومت وزارت اقلیتی امور کا قلمدان سونپ سکے۔
نیشنل سیمپل سروے (این ایس ایس) کے 68ویں دور کے اعداد و شمار کے مطابق 4.43 فیصد مسلم بچے اسکولوں کے باہر ہیں۔ تعلیم، صنفی مساوات اور روزگار کے مواقع میں ہیومن ڈیولپمنٹ میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو تعصب کا سامنا ہے۔ وزارت تعلیم کی سالانہ رپورٹ کے ملک کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے والوں طلبا میں مسلمان پانچ فیصد سے بھی کم ہیں۔ دوسری کمیونیٹیوں کے مقابلے میں مسلمانوں میں ڈراپ آوٹ کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ مولانا آزاد فیلو شپ ان اقلیتی طلبا کے لیے ایک بڑا سہارا تھا جو مالی تنگ دستی کی وجہ سے پی ایچ ڈی جیسے پروگرام میں داخلہ نہیں لے سکتے تھے۔ مولانا آزاد فیلو شپ بند ہونے کی وجہ سے یونیورسٹیوں میں ریسرچ اسکالروں میں مسلم طلبا کی تعداد کم ہونے کا خدشہ ہے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کے خاتمے کے لیے اسکالر شپ پروگرام شروع کیا گیا تھا اور یو پی اے۔11 کے دور میں مسلم نوجوانوں کو ہنرمند بنانے کی ٹریننگ کے پروگرام شروع کیے گئے تھے۔ہنر مندی کی ٹریننگ پروگرام سے فائدہ حاصل کرنے والوں میں زیادہ تر خواتین تھیں۔1992میں قومی اقلیتی کمیشن قائم کیا گیا تھا اور اس کا مقصد اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت اور شکایات دور کرنا تھا، جبکہ وزارت اقلیتی امور کی ذمہ داری اقلیتوں کی ترقی و فلاح و بہبود ہے۔ ایسے میں اگر کانگریس کے ممبر پارلیمنٹ ڈاکٹر محمد جاوید وزارت اقلیتی امور کو ختم کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں تو اس کے پیچھے یہی وجوہات ہیں ۔ڈاکٹر محمد جاوید کہتے ہیں کہ 2014میں بی جے پی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد وزارت کے مینڈیٹ اور دائرہ کار میں مسلسل کمی واقع ہوتی جارہی ہے۔ کشن گنج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اسٹڈی سنٹر سے متعلق ڈاکٹر محمد جاوید کہتے ہیں کہ سابقہ حکومت کے دور میں اس سنٹر کے لیے 136کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے۔مگر اب تک صرف 10کروڑ روپے ہی جاری کیے گئے ہیں۔ ہم مسلسل آواز بلند کر رہے ہیں مگر کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا ہے۔
ابتدا میں وزارت اقلیتی امور کا بجٹ 144 کروڑ روپے تھا جو سال بہ سال 2013تک بجٹ میں اضافہ ہوکر 3,531کروڑ روپے تک پہنچ گیا۔ گزشتہ آٹھ سالوں میں 3,531 کروڑ روپے سے اضافہ ہوکر 5,020 کروڑ روپے تک پہنچ گیا ہے۔ اگر وزارت اقلیتی امور کے بجٹ میں اس اضافے کا موازنہ اگر دیگر شعبوں سے کیا جائے تو اندازہ ہو گا کہ یہ اضافہ مہنگائی ضرورت اور تقاضوں کے اعتبار سے بہت ہی معمولی تھا۔سماجی انصاف و امپاورمنٹ کی وزارت کا بجٹ 2021-22 میں 11,689.39 کروڑ روپے تھا، جبکہ اس کے پچھلے مالی سال (2021-2020) میں یہ بجٹ 8,207.56 کروڑ روپے تھا یعنی 28 فیصد اضافہ کیا گیا تھا۔2014-15 میں ٹرانسپورٹ اور ہائی ویز وزارت کا بجٹ 33,048 کروڑ روپے تھا۔ 2022-23 میں وزارت سڑک و ٹرانسپورٹ کا بجٹ اضافہ ہوکر 1,99,107.71 کروڑ روپے ہو گیا ہے جو اضافہ میں 400 فیصد ہے۔
2021-22 کے بجٹ میں اقلیتوں کا کوئی ذکر نہیں تھا اور نہ ہی ان کے لیے کوئی نئی ترقیاتی اسکیم کا اعلان کیا گیا ہے۔ انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اینڈ ایڈووکیسی کی ایک رپورٹ کے مطابق 2021-22 کے کل مرکزی بجٹ کا 0.2 فیصد سے بھی کم حصہ اقلیتوں کی ترقی کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ 2021-22 میں وزارت اقلیتی امور کا بجٹ 4,346.45 کروڑ روپے تھا۔ 2022-23 میں اس بجٹ میں 647.50 کروڑ روپے کا اضافہ کر کے 5,020.5 کروڑ روپے کیا گیا تو اس وقت کے مرکزی وزیر مختار عباس نقوی نے کہا تھا کہ یہ ’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواش کی طرف ایک قدم ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وزارت اقلیتی امور کے نمایاں پروگرام کے فنڈنگ میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا ہے۔ مولانا آزاد ایجوکیشن فاونڈیشن (MAEF) کے فنڈ میں پہلے 2021-22 کے مقابلے میں 99 فیصد کٹوتی کی گئی اور اب اس پروگرام کو ہی منسوخ کر دیا گیا ہے۔ اقلیتوں کی ترقی و فلاح وبہبود کی ترقی کے لیے بنائے گئے پروگرام جیسے ’’اسکل ڈیولپمنٹ اینڈ لائیو ہوڈ‘‘، نئی منزل اور اقلیتی خواتین میں لیڈرشپ پروگرام میں کمی کردی گئی ۔
2016میں مودی حکومت کے دو سال مکمل ہونے پر وزارت اقلیتی امور نے ’’دو سالوں کے اقدامات اور کامیابیوں کے عنوان سے ایک رپورٹ جاری کی جس میں ان پروگراموں کا تفصیل سے ذکر تھا۔ اس وقت نجمہ ہبت اللہ وزارت اقلیتی امور کی وزیر تھیں۔ ’’سنٹر فار بجٹ اینڈ گورننس اکاونٹیبلیٹی (سی بی جی اے) کی 2022 کی ایک رپورٹ بعنوان ’’جامع وصولی کی تلاش میں‘‘ (In Search of Inclusive Recovery) میں بتایا گیا ہے کہ 2011کی مردم شماری کے مطابق ملک میں اقلیتوں کی کل آبادی 21فیصد ہے۔ 2022-23کے بجٹ میں اقلیتوں کی نمائندگی کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2012-13کے بعد سے ہی اقلیتوں کی ترقی کے لیے مختص مجموعی بجٹ کے اخراجات میں کمی کا رجحان جاری ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2018 میں وزارت اقلیتی امور کے ملٹی سیکٹرل ڈیولپمنٹ پروگرام (MsDP) پروگرام کے لیے محض چار فیصد فنڈ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس اسکیم کے تحت درخواست گزار اور مختص رقم میں نمایاں فرق ہے۔
2019 میں وعدہ کیا گیا تھا کہ ایک کروڑ اقلیتی طلبا کو اسکالر شپ دی جائے گی مگر محض 58 لاکھ طلبا کو ہی اسکالر شپ دی گئی۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 47 فیصد درخواست گزاروں کی درخواستوں کو رد کردیا گیا ہے۔ 2006 میں 75 ہزار اقلیتی طلبا کو اسکالر شپ دی گئی جو 2013تک بڑھ کر 70لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ سے قبل اقلیتوں کی ترقی فلاح و بہبود کا کام سماجی انصاف و زارت کے تحت کیا جاتا تھا۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ نے اقلیتوں بالخصوص مسلم اقلیت کے ساتھ ناانصافیوں کا تفصیل کے ساتھ ذکر کرنے کے ساتھ اقلیتوں کے مسائل اور ان کی تعلیمی ترقی کے لیے علیحدہ وزارت قائم کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ چنانچہ اقلیتی برادری کی ترقی کے لیے وزارت کی تشکیل کی گئی جس کا مقصد ’’مجموعی پالیسی کی تشکیل اور منصوبہ بندی، کوآرڈینیشن، تشخیص اور ریگولیٹری فریم ورک کا جائزہ اور اقلیتی برادریوں کے فائدے کے لیے ترقیاتی پروگرام‘‘ مرتب کرنا تھا۔
مرکزی حکومت اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والے کلاس اول سے آٹھویں تک کے طلبا کے لیے پری میٹرک اسکالرشپ اور مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ (MANF) بند ہونے کی وجہ سے ہزاروں اقلیتی طلبا کی اونچی اڑان پر بریک لگ جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ مرکزی حکومت نے آخر اچانک یہ فیصلہ کیوں کیا۔ دراصل دائیں بازو کی جماعتیں مستقل وزارت اقلیتی امور کے وجود پر سوالیہ نشان لگارہی ہیں۔ 2017 میں وشو ہندو پریشد کے ممبر سریندر جین نے اقلیتوں کی ترقی کے لیے وزارت اقلیتی امور کے وجود پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے کہا تھا کہ وزارت اقلیتی امور اور قومی اقلیتی کمیشن اقلیتوں میں علیحدگی کے احساسات پیدا کرتے ہیں۔تمام شہریوں کے تحفظ کے لیے قومی انسانی حقوق کمیشن ہی کافی ہے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 جنوری تا 04 فروری 2023