ویژینری شخصیت کے خوابوں کی تعبیر، ایک عظیم درسگاہ

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا اپنے بانی سر سید احمد خاں کو شایان شان خراج عقیدت

علی گڑھ (دعوت نیوز ڈیسک)

”سرسید احمد خاں نے انگریزوں کی ملازمت کی اور اسی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی رہنمائی کی تاکہ وہ جدید تعلیم حاصل کریں اور دیگر ترقی یافتہ قوموں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں۔ سرسید کی ہمہ جہت شخصیت کے یہ دو ایسے پہلو ہیں جو انہیں حقیقی رہنما بناتے ہیں اور عصر حاضر کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے آج بھی ان کی معنویت و اہمیت کو ثابت کرتے ہیں“۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز فلم ساز، مصنف اور فنکار مظفر علی نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں منعقدہ جشن یوم سرسید سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اے ایم یو کے بانی اور جدید بھارت کے معماروں میں سے ایک سر سید احمد خاں کے 207 ویں یوم پیدائش کے موقع پر یہ تقریب اے ایم یو کے گلستانِ سید میں منعقد کی گئی۔
مظفر علی نے کہا کہ اگر سر سید احمد خاں 1857 کی جدوجہد اور بغاوت کے اسباب نہ لکھتے تو بھارتیوں اور برطانوی حکومت کے درمیان تعلقات تلخ ہی رہتے۔ انہوں نے کہا کہ سرسید احمد خاں نے بھارت اور برطانوی سلطنت کے درمیان مکالمے کا راستہ کھولا اور بے شمار نشیب و فراز کے باوجود اس سے دونوں فریقوں میں مفاہمت کی راہ ہموار ہوئی۔
مظفر علی نے کہا ”سرسید احمد خاں نے مغلوں کے دربار اعلیٰ کو چھوڑنے اور برطانوی خدمات میں شامل ہونے سے لے کر اپنے دور کی رفتار کو بخوبی سمجھ لیا تھا اور پھر اپنے ہم مذہبوں اور بالعموم بھارتی لوگوں کی تعلیمی اور سماجی ترقی کی راہ ہموار کرنے کے لیے کام کیا اور یہی چیز ان کی شخصیت کو نیا زاویہ عطا کرتی ہے“۔
مہمان اعزازی محترمہ اسنیہ لتا شریواستو (سبکدوش آئی اے ایس آفیسر اور سابق سکریٹری، وزارت قانون و انصاف اور سکریٹری جنرل، لوک سبھا) نے اپنے خطاب میں کہا کہ یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ سرسید احمد خاں کے پاس خواتین کی تعلیم سے لے کر سائنسی علوم تک تعلیمی میدان میں انقلاب لانے کا اتنا بڑا وژن تھا جو اس تاریخی ادارے کے قیام کے سو سال سے زائد عرصے کے بعد بھی اہمیت رکھتا ہے۔
انہوں نے یونیورسٹی کے مختلف نظاموں کی جدید کاری پر زور دیا جو نہ صرف موجودہ دور کی ضروریات اور تقاضوں کے مطابق ہوگا بلکہ اس میں مستقبل کے مسائل سے نمٹنے کا بھی مادّہ ہوگا۔ انہوں نے طلبہ پر زور دیا کہ وہ اطمینان کی کیفیت میں نہ رہیں بلکہ سرگرم رہ کر محنت کریں اور صبح جلدی اٹھنے کی عادت اپنائیں جو زندگی کو صحت مند اور مستعد بنانے کے لیے روحانی طاقت فراہم کرتی ہے۔
مہمان اعزازی محترمہ جیہ ورما سنہا (سبکدوش آئی آر ٹی ایس اور سابق چیئرپرسن، ریلوے بورڈ آف انڈیا) نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سرسید احمد خاں سماجی اصلاحات، سماجی انصاف، خواتین کی تعلیم اور ناخواندگی کے خاتمے کے لیے پرعزم تھے۔ آج ہم تعلیم میں سرسید احمد خاں کی خدمات کا جشن منا رہے ہیں، ان کے نظریات پر گفتگو کر رہے ہیں اور اس پر یقین رکھتے ہیں کہ وہ عصری چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ہماری رہنمائی کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا ”جب میں یہاں کے طلبہ کو دیکھتی ہوں تو یہ امید پیدا ہوتی ہے کہ آپ مستقبل کے رہنما، تبدیلی کے نقیب اور سرسید کی میراث کے مشعل بردار ہیں۔ اے ایم یو میں آپ کی تعلیم آپ کی کامیابی کی راہ ہموار کرے گی اور آپ کو معاشرے میں تبدیلی کا نقیب بننے کے لیے بااختیار بنائے گی“۔
انہوں نے کہا کہ حقیقی کامیابی صرف ہماری پیشہ ورانہ کامیابیوں میں ہی نہیں بلکہ معاشرے کی بہتری اور اپنے اردگرد کے لوگوں کی بہتری کے لیے ہماری کاوشوں میں مضمر ہے۔ اے ایم یو کے طلبہ اپنی فکر، ثقافت اور تجربے کے تنوع کے ساتھ ایک ترقی یافتہ بھارت کے مستقبل کی نمائندگی کرتے ہیں۔
دہلی پولیس کے اسپیشل کمشنر (ٹریف) مصنف اور اے ایم یو سے فارغ التحصیل مسٹر اجے چودھری آئی پی ایس نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اے ایم یو محض عمارتوں کا ڈھانچہ نہیں ہے بلکہ سماجی خدمت کے جذبہ سے پروان چڑھنے والا ادارہ ہے جو ملک اور سماج کی رہنمائی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہندو روایات کو استعمال کرنے کی اجازت دی جاتی تو سرسید کو ایک اوتار قرار دیا جاتا جنہوں نے معاشرے میں متعدد زاویوں سے مثبت تبدیلیوں کی راہ ہموار کی۔
مسٹر چودھری نے اے ایم یو میں اپنی طالبعلمی کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہاکہ آج وہ جو کچھ بھی ہیں اس میں ان کے والد، والدہ اور بڑے بھائی کے ساتھ اے ایم یو کا بہت بڑا کردار ہے جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے بہترین دن گزارے اور 1990 کے برسوں میں بھی اطمینان و سکون کے ساتھ یہاں مقیم رہے۔
اپنے صدارتی کلمات میں اے ایم یو وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون نے سرسید کے ویژن، مشن اور علم و تحقیق کے تئیں ان کی مسلسل جستجو کو خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے ناقدانہ فکر و ذہن کی آبیاری پر سرسید کے ویژن کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ اے ایم یو کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنایا جا رہا ہے۔ میسیو اوپن آن لائن کورسز (موکس) پروگرام کے تحت 31 نئے کورسز لانچ کیے گئے ہیں۔ انہوں نے سرسید کے جمہوری کام کاج کے انداز کی بھی ستائش کی اور اسے معیاری تعلیم فراہم کرنے، اختراع کو فروغ دینے، انٹرپرینیورشپ اور انکیوبیشن سپورٹ کے اے ایم یو کے عزم کے ساتھ جوڑا۔
انہوں نے یونیورسٹی کے طلبہ، اساتذہ اور دیگر افراد کی لگن، محنت اور یونیورسٹی کو حقیقی معنوں میں قومی اہمیت کا حامل ادارہ بنانے کی کوششوں پر شکریہ ادا کیا۔
انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی نے نیشنل ایجوکیشن پالیسی 2020 کی سفارشات کو نافذ کیا ہے اور یہ خوشی کی بات ہے کہ ہمیں نیک سے اے پلس سرٹیفیکیشن ملا اور این آئی آر ایف نے بھارتی یونیورسٹیوں میں آٹھواں رینک عطا کیا ہے۔
نیویارک سے آن لائن خطاب کرتے ہوئے اس سال کے بین الاقوامی سر سید ایکسیلینس ایوارڈ سے سرفراز یافتہ پروفیسر فرانسس ڈبلیو پریچیٹ نے اس باوقار ایوارڈ کے لیے اپنے انتخاب پر اے ایم یو کا شکریہ ادا کیا۔
غالب کے ایک شعر کے حوالہ سے انہوں نے کہا کہ سرسید اپنے اردگرد رونما ہونے والے واقعات کو باریکی سے سمجھتے تھے اور پھر ان واقعات کا انتہائی تعمیری انداز میں جواب دیتے تھے۔ انہوں نے طلبہ پر زور دیا کہ وہ زندگی میں ہمیشہ مثبت رہیں اور معاشرے کو امن ورواداری کا گہوارہ بنانے کے لیے اپنی پوری کوشش کریں۔
غالب انسٹیٹیوٹ، نئی دہلی کی جانب سے قومی سرسید ایکسیلینس ایوارڈ قبول کرتے ہوئے انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ادریس احمد نے کہا کہ قومی اہمیت کے حامل ایک ادارے کی جانب سے با وقار ایوارڈ حاصل کرنا ایک تاریخی لمحہ ہے۔
سر سید احمد خاں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے پروفیسر زہرہ محسن (شعبہ امراض نسواں، اے ایم یو) نے کہا کہ سرسید احمد خاں اپنے وقت سے بہت آگے تھے۔ انہوں نے تعلیم و صحت کی اہمیت کو محسوس کیا اور اس حوالے سے اپنی ساری زندگی بھارتی عوام کے لیے وقف کردی۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم بہترین میراث ہے جسے والدین اپنے بچوں کے لیے چھوڑ سکتے ہیں اور سرسید احمد خاں کی اس میراث کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے۔
پروفیسر شافع قدوائی نے سرسید احمد خاں کے ویژن اور مشن کی معنویت پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سرسید احمد خاں کی شخصیت کی وضاحت دو خوبیوں کے حوالے سے کی جا سکتی ہے: ایک ہمدردی کا جذبہ اور دوسرے رہنمائی کا مزاج، جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے معروف مصنفہ قرۃ العین حیدر نے انہیں خضر کا خطاب دیا جو بھٹکے ہوئے لوگوں کو راستہ دکھاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سرسید احمد خاں نے 1857 کے بعد کے مشکل حالات میں مسلم کمیونٹی کو راستہ دکھانے کا کام کیا۔ انہوں نے تعلیم کو ہر قسم کی ترقی کا ہتھیار بنایا اور اس کی ترویج کی۔
اس موقع پر یونیورسٹی کے طلبہ زنیرہ حبیب علوی اور صارم ایوبی نے بھی سرسید احمد خاں کے فلسفہ اور مشن پر تقریریں کیں۔
مسٹر مظفر علی اور پروفیسر نعیمہ خاتون نے انگریزی، ہندی اور اردو میں کل ہند مضمون نویسی مقابلے کے فاتحین کو انعامات سے نوازا۔
اس موقع پر مسٹر مجیب اللہ زبیری (کنٹرولر امتحانات) پروفیسر محمد محسن خان (فائنانس آفیسر) اور پروفیسر محمد وسیم علی (پراکٹر) سمیت دیگر معززین موجود تھے۔ قبل ازیں اے ایم یو کے رجسٹرار مسٹر محمد عمران نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ ڈین اسٹوڈنٹس ویلفیئر پروفیسر رفیع الدین نے اظہار تشکر کیا۔
پروگرام کی نظامت ڈاکٹر فائزہ عباسی اور ڈاکٹر شارق عاقل نے کی۔
یوم سرسید پر دن کی سرگرمیوں کا آغاز یونیورسٹی کی مسجد میں نماز فجر کے بعد قرآن خوانی اور سرسید کی قبر پر چادر پوشی سے ہوا۔
اس کے بعد سرسید اکیڈمی میں منعقدہ تقریب میں وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون نے مسٹر مظفر علی، پروفیسر ایم شافع قدوائی، ڈائریکٹر، سرسید اکیڈمی اور دیگر معززین کے ساتھ الطاف حسین حالی کی تصنیف ”حیات جاوید“ کے جدید ایڈیشن، میر ولایت حسین کی ”آپ بیتی یا ایم اے او کالج کی کہانی میر ولایت حسین کی زبانی“، ”سر سید کا قیام میرٹھ“ از معصوم مرادآبادی، ”سر سید کا قیام مراد آباد“ از ڈاکٹر راحت ابرار، ”سرسید کا قیام بنارس“ از ڈاکٹر اسعد فیصل فاروقی، ”سرسید کی بین الاقوامی بصیرت“ از پروفیسر سعود عالم قاسمی اور تہذیب الاخلاق کے خصوصی سرسید نمبر کا اجراء کیا۔
انہوں نے مولانا آزاد لائبریری اور سرسید اکیڈمی کے زیر اہتمام سرسید احمد خاں پر کتابوں کی نمائش کا بھی افتتاح کیا۔
دیگر پروگراموں کی ایک جھلک
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں’جشن یوم سر سید‘ کے علاوہ یونیورسٹی کے دیگر مراکز، کالجوں، اقامتی ہالوں اور اسکولوں میں ”یوم سرسید“ روایتی جوش و خروش کے ساتھ منایا گیا اور بانی درسگاہ کو خراج عقیدت پیش کیا گیا جس کی مختصر روداد ملاحظہ کیجیے :
اے ایم یو سنٹر ملا پورم، کیرالا میں جشن یوم سر سید کا افتتاح کرتے ہوئے راجیہ سبھا کے رکن اور اے ایم یو کورٹ کے ممبر مسٹر اے اے رحیم نے سیکولرزم اور عقلیت پسندی کے تئیں اے ایم یو کی وابستگی پر زور دیتے ہوئے ہمہ جہت تعلیم کے علم بردار کے طور پر ان کے کردار کو اجاگر کیا۔ افتتاحی خطاب کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر پروفیسر محمد شکیل نے سرسید احمد خاں کی خدمات پر ایک بصیرت افروز تقریر کی۔ انہوں نے حاضرین کو سر سید احمد خاں کی میراث کو محفوظ رکھنے کی تلقین کی۔
مہمان خصوصی سید منور علی شہاب تھنگل نے طلبہ پر زور دیا کہ وہ سر سید احمد خاں کے مشن کو اپنائیں۔ انہوں نے ملا پورم میں اے ایم یو سنٹر کے قیام اور پیش رفت کا بھی ذکر کیا اور مسلمانوں کی ترقی کے سلسلہ میں سر سید احمد خاں کی کوششوں اور اعلیٰ و معیاری تعلیم کے تئیں ان کے ویژن پر روشنی ڈالی۔اپنی صدارتی تقریر میں سنٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فیصل کے پی نے روایت اور جدیدیت کے درمیان ہم آہنگی اور کثرت میں وحدت کے عظیم نظریات کو برقرار رکھنے میں موجودہ دور میں سرسید احمد خاں کی اہمیت و معنویت کا ذکر کیا۔انہوں نے کہا کہ اے ایم یو سنٹر، ملا پورم کو اس شاندار میراث کا حصہ بننے پر فخر ہے۔ اپنے قیام کے بعد سے یہ سنٹر سرسید احمد خاں کے افکار و نظریات کی ترویج و اشاعت کے لیے انتھک محنت کر رہا ہے۔یوم سرسید تقریب کے کنوینر مسٹر غالب نشتر نے سر سید کی زندگی کا ایک جائزہ پیش کیا۔ اس موقع پر شعبہ قانون کی ڈاکٹر نسیمہ پی کے نے بھی خطاب کیا۔ اسسٹنٹ رجسٹرار مسٹر محمد اعظم خان نے مہمانوں کا خیر مقدم کیا۔ تقریب کے جوائنٹ کنوینر ڈاکٹر محمد بشیر کے نے شکریہ کی تجویز پیش کی۔ ڈاکٹر بلیسیتھا قمرالدین اور سید احمد سعد نے پروگرام کی نظامت کی۔
دوسری طرف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے عبداللہ ہال میں سر سید احمد خاں کی شاندار وراثت کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے یوم سرسید منایا گیا۔ اے ایم یو کی وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون، کرنل (پروفیسر) نیلیما گپتا، وائس چانسلر، ڈاکٹر ہری سنگھ گوڑ یونیورسٹی، ساگر، مدھیہ پردیش، اور پروفیسر مسعود انور علوی، پرنسپل، ویمنس کالج، اے ایم یو اس موقع پر بطور خاص موجود رہے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مہمان خصوصی پروفیسر نیلیما گپتا نے علی گڑھ کے ساتھ اپنی طویل وابستگی اور یونیورسٹی کے قیام سے لے کر ایک باوقار ادارے کے طور پر اس کی ترقی پر روشنی ڈالی۔
قبل ازیں خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے عبداللہ ہال کی پرووسٹ ڈاکٹر غزالہ ناہید نے کہا کہ تعلیم، سرسید کی میراث کو برقرار رکھنے اور ترقی کرنے کا سب سے طاقتور ذریعہ ہے۔اس موقع پر طالبات نے نظم اور غزل بھی پیش کی، جب کہ فلک ناز نے سر سید احمد خاں کی زندگی اور میراث پر ایک بصیرت انگیز تقریر کی۔پروگرام کا اختتام انشراح قیوم کے کلمات تشکر کے ساتھ ہوا۔
اے ایم یو کے احمدی اسکول برائے نابینا طلبہ میں منعقدہ جشن یوم سر سید میں اے ایم یو کی وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون بھی شریک ہوئیں۔ انہوں نے طلبہ سے بات چیت کی اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے پروگرام کے دوران ان کی پیشکش کو سراہا۔
اسکول میں 10 اکتوبر سے ”سرسید ہفتہ“ کے تحت پروگرام شروع ہوگئے تھے۔ اس میں مختلف ادبی، ثقافتی اور کھیلوں کی سرگرمیاں بشمول مضمون نویسی، کوئز، اسپیلنگ بیز، بیت بازی، انتاکشری، شاٹ پٹ، دوڑ اور کرکٹ میچ شامل تھے۔ لہٰذا 17 اکتوبر کی شام کو ایک بہترین تقریب منعقد کی گئی جس میں اسکول کے طلبہ بھی بہترین کارکردگی پیش کی ۔
اے ایم یو سٹی گرلز ہائی اسکول (قاضی پاڑہ) میں بھی یوم سر سید جوش و خروش کے ساتھ منایا گیا۔ اسکول کے قائم مقام پرنسپل محمد جاوید اختر کی سرپرستی میں اس موقع پر ایک خاص پروگرام کا اہتمام کیا گیا۔ جناب رضوان الرحمان، سابق ڈائریکٹر، منسٹری آف پاور، حکومت ہند نے بطور مہمانِ خصوصی اور پروفیسر عابد علی خاں، ڈپٹی ڈائریکٹر، ڈائریکٹریٹ آف اسکول ایجوکیشن، اے ایم یو نے بطور مہمانِ اعزازی شرکت کی۔اسکول کے پرائمری درجات کی طالبات نے مہمانان کا استقبال کرتے ہوئے استقبالیہ نظم ایکشن کے ساتھ پیش کی۔ مہمانِ خصوصی جناب رضوان الرحمان نے طالبات کو اپنے قیمتی مشورے سے نوازتے ہوئے تعلیم نسواں پر زور دیا۔ طالبات سے مخاطب ہوتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج کل خواتین بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں، حکومتیں چلا رہی ہیں، خلا میں جا رہی ہیں، یہاں تک کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی موجودہ وائس چانسلر ایک خاتون ہیں تو آپ بھی تعلیم حاصل کر کے ترقی کر سکتی ہیں اور اعلیٰ مقام پا سکتی ہیں۔
مہمانِ اعزازی پروفیسر عابد علی خان نے کہا کہ سر سید احمد خاں نے علم کا بیج بویا تھا، آج ہم سب اسی درخت کا حصہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج کل کے زمانے میں تعلیم تو موبائل فون سے بھی حاصل کی جا سکتی ہے لیکن ایک درسگاہ کا مقصد بچوں کی تخلیقی سوچ کو فروغ دینا ہے۔پروگرام کا اختتام یونیورسٹی ترانہ اور قومی ترانہ کے ساتھ ہوا۔ پروگرام کی نظامت زرین ناز اور سحر نقوی نے کی جب کہ عروجہ خان نے اظہار تشکر کیا۔
آفتاب ہال میں طلبہ اور عملہ کے اراکین نے عظیم سماجی مصلح اور یونیورسٹی کے بانی سر سید احمد خاں کو ایک یادگاری پروگرام میں شاندار خراج عقیدت پیش کیا۔
اس موقع پر مہمان خصوصی کے طور پر خطاب کرتے ہوئے آئی پی ایس افسر مسٹر انشومان یادو نے اے ایم یو میں اپنی طالب علمی کے دنوں کو یاد کیا۔ وہ اے ایم یو اسٹوڈنٹس یونین کے عہدیدار کی حیثیت سے مختلف ادبی و ثقافتی سرگرمیوں میں شریک رہے۔انہوں نے طلبہ سے کہا کہ وہ یونیورسٹی کے تعلیمی وسائل سے استفادہ کریں۔ انہوں نے طلبہ کو اپنی تحریری صلاحیتوں کو بہتر بنانے کا مشورہ دیا جیسا کہ خود انہوں نے مسٹر پرویز دیوان کے مشورے پر عمل کیا تھا، جنہوں نے ان کے عہد میں اے ایم یو میں لیکچر دیا تھا۔مسٹر یادو نے کہا کہ جب انہیں مسٹر فیاض الرحمن کا علی گڑھ آنے کا فون آیا تو وہ نا نہیں کہہ سکے کیونکہ اے ایم یو ان کے لیے ماں کی طرح ہے اور کوئی بھی اپنی ماں کو نا نہیں کہہ سکتا۔ انہوں نے کہا کہ 1990 کی دہائی میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے بدترین وقت میں وہ اے ایم یو کیمپس میں رہے اور خود کو مکمل طور پر محفوظ محسوس کیا۔ انہوں نے طلبہ پر زور دیا کہ وہ اپنے پاس موجود تمام چیزوں کے لیے شکر گزاری کا جذبہ رکھیں۔
اس موقع پرمہمانوں کا خیرمقدم کرتے ہوئے ہال کے پرووسٹ پروفیسر فیاض الرحمن نے ہال میں مقیم طلبہ کی گزشتہ برسوں کی حصولیابیوں پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے صاحبزادہ آفتاب احمد کی زندگی اور خدمات پر بھی روشنی ڈالی جن کے نام سے یہ ہال موسوم ہے۔ انہوں نے کہا کہ صاحبزادہ آفتاب احمد نے اپنے ابتدائی دور میں یونیورسٹی کی ترقی کے لیے بہت کام کیا، جب سرسید کا انتقال ہو چکا تھا اور محمڈن اینگلو اورینٹل کالج ایک عبوری دور سے گزر رہا تھا۔ انہوں نے طلبہ کی رضاکارانہ تنظیم ”انجمن الفرض“ یا ڈیوٹی سوسائٹی کے قیام میں اہم کردار ادا کیا اور 1924-26 میں وائس چانسلر کے طور پر خدمات انجام دیں۔
پروگرام کے انعقاد میں سینئر ہال عبدالمعید، سینئر فوڈ طحہ حسن جعفری اور ہال ایڈمنسٹریٹر فیروز احمد نے کلیدی کردار ادا کیا۔ مسٹر صارم ایوبی نے پروگرام کی نظامت کی جبکہ ڈاکٹر ناصر اے صلاتی نے شکریہ ادا کیا۔
الغرض ’یوم سر سید‘ کی مناسبت سے مزید کئی پروگرامس منعقد کیے گئے، تمام کا کا احاطہ دشوار ہے اس لیے نمونے کے طور پر چند جھلکیاں پیش کی گئیں۔مشت نمونہ از خروارے ۔۔۔۔
***

 

یہ بھی پڑھیں

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 اکتوبر تا 2 نومبر 2024