وشاکھا اسٹیل کو دھمکیاں دینے پر اتر آیا اڈانی گروپ

چھوٹی سی رقم کے لیے کروڑہا روپے کا مال بندرگاہ پر روکے رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

ویزاگ اسٹیل کی جانب سے درآمد کردہ کوکنگ کول جو دو بحری جہازوں سے لایا جا رہا تھا انہیں گنگاورم بندرگاہ پر ہی روک دیا گیا ہے۔ ان جہازوں کو برتھ نہیں دیا جا رہا ہے۔ اس بندرگاہ کے انتظامات اڈانی گروپ کے پاس ہیں۔ جس طرح ریل گاڑی پلاٹ فارم پر رکتی ہے اسی طرح بحری جہازوں کو ساحل پر لنگر انداز ہونے کے لیے ایک جگہ مختص کی جاتی ہے، اسی کو برتھ کہتے ہیں۔ ان دو جہازوں میں ہزاروں ٹن کوکنگ کوئلہ لدا ہوا ہے اور بندرگاہ کے ذمہ داران انہیں لنگر انداز ہونے نہیں دے رہے ہیں۔ ایک جہاز جس میں ایک لاکھ پچھتر ہزار ٹن کوکنگ کوئلہ لدا ہوا ہے، امریکہ سے درآمد کیا گیا ہے جبکہ دوسرے جہاز پر تقریباً اسی ہزار ٹن کوئلہ لدا ہوا ہے وہ روس سے آ رہا ہے۔ یہ دونوں جہاز گنگاورم بندرگاہ پر رکے ہوئے ہیں۔ آخر ان جہازوں کے بندرگاہ پر رکے رہنے کی کیا وجوہات ہیں؟ کیا ویزاگ اسٹیل کو اس کی ضرورت نہیں ہے، یا اس کے پاس اس کوئلے کو اتارنے کی فرصت نہیں ہے، یا اسے اپنے پاس رکھنے کے لیے جگہ میسر نہیں ہے؟
یہ درآمد کردہ کوکنگ کوئلہ بہت ہی اہمیت کا حامل ہے جو اسٹیل کی پیداوار میں انتہائی اہم عنصر مانا جاتا ہے، اس خام کوئلے کے بغیر اسٹیل کی پیداوار ممکن نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ویزاگ اسٹیل کے پاس خام کوئلہ اسٹاک میں بھی نہیں ہے، کیوں کہ ویزاگ اسٹیل کوئلہ کا ذخیرہ نہیں کرتا، جتنی اسے ضرورت ہوتی ہے اتنا ہی کوئلہ وہ درآمد کرتا ہے۔ کوئلہ زیادہ مقدار میں ذخیرہ نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ویزاگ اسٹیل پچھلے کچھ عرصے سے سرمایہ کی قلت کا شکار ہے۔ اس کمپنی کی حالت پہلے کی طرح نہیں ہے کہ وہ اپنے پاس ایک دو ماہ کی ضرورت کا کوئلہ ذخیرہ کر سکے۔ ایسی صورت میں جو ضرورت کا کوئلہ ہے وہ گنگاورم بندرگاہ پر رکا ہوا ہے اور گنگاورم بندرگاہ اڈانی گروپ کے زیر انتظام ہے۔ کوئلے سے لدے ہوئے ان جہازوں کو اس لیے لنگر انداز ہونے نہیں دیا جا رہا ہے کیوں کہ بندرگاہ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ویزاگ اسٹیل کمپنی، بندرگاہ کو اکیاون کروڑ روپے باقی ہے، جبکہ ویزاگ اسٹیل کا کہنا ہے کہ ان بقایا جات کے معاملے پر تنازعہ ہے۔ دوسری طرف اڈانی گروپ کے زیر انتظام گنگاورم بندرگاہ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ مابقی رقم اکیاون کروڑ نہیں بلکہ اس کہیں زیادہ ہے، اسی لیے جہازوں کو برتھ نہیں دیا جا رہا ہے۔
اب ایک مسئلہ اور درپیش ہے، وہ یہ کہ اگر جہازوں سے کوئلہ نہیں اتارا گیا تو جہاز بندرگاہ پر کہیں دور رکے ہوئے ہوں گے اور ایسی صورت میں کمپنی کو جہازوں کو روکے رکھنے پر کچھ چارجز ادا کرنے پڑیں گے، یہ چارجز بھی کوئی معمولی نہیں ہوتے ہیں بلکہ کمپنی کو روزانہ تقریباً تیس تا چالیس لاکھ روپے ادا کرنے ہوں گے۔ اگر یہ جہاز کوئلہ خالی کیے بغیر واپس چلے جاتے ہیں تو واپسی کے بھی اخراجات ہوں گے۔ غور کرنے والی بات یہ ہے کہ ویزاگ اسٹیل کوئی معمولی کمپنی نہیں ہے بلکہ لاکھوں کروڑوں کی جائیداد کی مالک کمپنی ہے اور وہ عوامی شعبے کی کمپنی ہے۔ محض اکیاون کروڑ روپے باقی ہونے کی وجہ سے اس کے کروڑوں روپے کی مالیت والے کوئلے کے جہازوں کو برتھ نہیں دینا انتہائی اوچھے پن کا مظاہرہ معلوم ہوتا ہے۔ کیا یہ کوئی کارپوریٹ کمپنی ہے کہ جو باقی رکھ کر فرار ہو جائے گی یا یہ کوئی نجی ادارہ ہے کہ جس کے مالکین بیرون ملک فرار ہو جائیں گے؟ اڈانی کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ ایک حکومتی باوقار ادارہ ہے۔ اس کی لاکھوں کروڑوں روپے کی جائیدادیں ہیں، بیس ہزار ایکڑ اراضی کی مالک کمپنی ہے، ان کی کمپنی کی طرح بینکوں کی مقروض نہیں ہے، دیر سویر وہ رقم تو ادا ہو ہی جائے گی، اتنی چھوٹی سی رقم کے لیے کروڑہا روپے کا مال بندرگاہ پر روکے رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
کیا اڈانی نے اپنی حیثیت اور اپنے اثاثوں سے زیادہ رقم بینکوں سے بطور قرض نہیں لی ہے؟ ان کی کمپنیوں نے سرکاری بینکوں سے قرض لیا ہے اور بے تحاشا قرض لیا ہے۔ لیکن وہ اتنے کم ظرف نکلے کہ ایک سرکاری کمپنی کے کوئلہ کے جہازوں کو بندرگاہ پر لنگر انداز ہونے نہیں دیتے، محض اس وجہ سے کہ وہ معمولی سی رقم باقی ہے۔ آج کئی بینک اپنے صارفین کو اوور ڈرافٹ کی سہولت دیتے ہیں، اڈانی کی کمپنیوں کو بھی تو اپنے اثاثوں سے زیادہ قرض دیا گیا ہے۔ انہیں بھی دوسروں کے ساتھ، خاص کر سرکاری کمپنیوں کے ساتھ تو نرمی برتنا چاہیے تھا۔
ان کی اس حرکت سے ان کی نیت میں خلل نظر آتا ہے، سازش نظر آتی ہے۔ کہیں ان کی نیت یہ تو نہیں کہ کوئلے سے لدے ان جہازوں کو روک کر کمپنی کی پیداوار کو روک دیا جائے تاکہ وہ مزید بحران کا شکار ہو جائے اور پھر اس کے بعد ایک گدھ کی طرح اس پر حملہ کر کے اسے کوڑیوں کے دام میں خرید لیا جائے یا پھر انہی کی ہی طرح کسی منافق کے لیے اس کمپنی کو خرید لینے کے راستے ہموار کیے جائیں؟
ایک اور قابل غور بات یہ ہے کہ آخر یہ گنگاورم بندرگاہ کا وجود کہاں سے ہوا جبکہ بندرگاہ کی جو زمین ہے وہ خود ویزاگ اسٹیل کی ملکیت ہے۔ اس وقت کی تلگو دیشم حکومت نے گنگاورم بندرگاہ کی تعمیر کے لیے ایک ہزار ایکڑ سرکاری زمین کے ساتھ گیارہ سو ایکڑ اراضی ویزاگ اسٹیل سے لی تھی، یہ خطہ زمین ڈی وی راجو کنسورشیم کو دی گئی تب جا کر اس بندرگاہ کی تعمیر مکمل ہوئی۔ کیسی عجیب بات ہے کہ ویزاگ اسٹیل جو خود اس جگہ پر اپنی ضروریات کے لیے بندرگاہ تعمیر کرنے کا منصوبہ رکھتا تھا اور اس نے حکومت کو اس کا تعمیری منصوبہ پیش بھی کیا تھا، لیکن تلگو دیشم حکومت نے اسے مسترد کر دیا، کیوں کہ اگر ویزاگ اسٹیل وہاں پر بندرگاہ تعمیر کرتا تو ان سیاستدانوں کی جیبیں کیسے بھرتیں؟ انہیں اس میں کوئی فائدہ نظر نہیں آیا۔ پھر بعد میں اسی حکومت نے جبراً ویزاگ اسٹیل سے زمین لے کر ایک خانگی کمپنی سے بندرگاہ کی تعمیر کروائی۔ جب ویزاگ اسٹیل نے زمین دینے سے انکار کیا تو اسے دھمکایا گیا، بلیک میل کیا گیا۔ کہا گیا کہ اگر گیارہ سو ایکڑ زمین حکومت کو نہیں دی گئی تو جگیا پیٹ میں جاری کانکنی کو روک دیا جائے گا، کانکنی کے لائسنس کو منسوخ کر دیا جائے گا اور ہوا بھی یہی، اس کے لائسنس کو رینیول نہیں کیا گیا۔ اسی دباؤ کے تحت ویزاگ اسٹیل کی زمین پر قبضہ کیا گیا۔ سیاست دانوں نے اپنی جیبیں بھرنے کے لیے ملک کی بحری فوج کے اعتراض کو بھی نظر انداز کر دیا گیا۔ یہ بندرگاہ بحری اڈے سے متصل ہی واقع ہے، اور جبکہ قریب ہی میں وشاکھا پٹنم بندرگاہ بھی موجود ہے۔
لطف کی بات یہ ہے کہ چوں کہ جو زمین دی گئی تھی اس میں نو سو ایکڑ سرکاری زمین تھی، باقی گیارہ سو ایکڑ ویزاگ اسٹیل کی تھی، اس گیارہ سو ایکڑ زمین کے بدلے میں ویزاگ اسٹیل کو ایک پہاڑ دے دیا گیا جسے ویزاگ اسٹیل نے آج تک استعمال نہیں کیا، کیوں کہ وہ پہاڑ اس کے لیے کارآمد نہیں ہے۔ پھر چوں کہ اس میں سرکاری زمین بھی ہے اسی لیے حکومت کو اس بندرگاہ میں دس فیصد کی حصہ داری بھی دی گئی، باقی حصہ داری ڈی وی یس راجو کنسورشیم کی تھی۔ کچھ عرصے قبل تک حکومت کے پاس اس کی دس فیصد کی حصہ داری تھی۔ موجودہ جگن موہن ریڈی حکومت نے اسے اڈانی کو فروخت کر دیا اور باقی حصہ داری بھی اڈانی نے ڈی وی ایس کنسورشیم سے حاصل کرلی۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ اڈانی حصہ داری کیسے خریدتے ہیں۔ وہی پرانا آزمودہ فارمولا، یعنی ای ڈی والا فارمولا، جو وہ اپنے تمام مخالفوں پر آزماتے ہیں۔ ای ڈی کے ذریعے ڈی وی یس راجو کنسورشیم کے ذمہ داروں پر دباؤ ڈالا گیا، پھر کیا تھا ساری بندرگاہ پر ان کا قبضہ ہو گیا۔ نوی ممبئی کی بندرگاہ بھی انہوں نے اسی طرح حاصل کی۔ جی وی کے نے جب بندرگاہ فروخت کرنے سے انکار کیا تو اس کے اداروں پر سی بی آئی اور ای ڈی کے دھاوے بولے گئے۔ یہ کہانی ملک کا ہر شہری جانتا ہے، یہ جگ ظاہر ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ جس زمین پر گنگاورم بندرگاہ کھڑی ہوئی ہے وہ خود ویزاگ اسٹیل کی زمین ہے۔ یعنی ویزاگ اسٹیل کو اپنی زمین پر بنائی گئی بندرگاہ پر اپنے ہی جہازوں کو لنگر انداز ہونے نہیں دیا جا رہا ہے؟ جب تک اس بندرگاہ میں حکومت کی حصہ داری تھی اس وقت تک ویزاگ اسٹیل کو اپنے سامان سے لدے ہوئے جہازوں کو لنگر انداز ہونے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی تھی، سارے معاملات بحسن و خوبی انجام پا رہے تھے، لیکن اڈانی ایک صبح سویرے اٹھ کر اپنے خانگی چارٹرڈ طیارے میں جگن موہن ریڈی سے ملاقات کرتے ہیں اور بات چیت کے بعد جگن موہن ریڈی حکومت طے کرتی ہے کہ سرکاری حصہ داری کو محض چھ سو کروڑ روپے میں ملک کے سب سے ایمان دار تاجر اڈانی صاحب کو فروخت کر دی جائے، چنانچہ معاملہ طے پاتا ہے اور ہزاروں کروڑ کی حصہ داری محض چھ سو کروڑ روپے میں فروخت کر دی جاتی ہے۔ اب جبکہ ساری بندرگاہ اڈانی کی ہو گئی تو وہ جو چاہیں گے کریں گے۔ ایسی حرکتیں کس بات کی غمازی کرتی ہیں؟ یہ اس بات کی غماز ہیں کہ مرکزی حکومت ہماری ہے، وہ ہماری پشت پر ہے، ہم جو چاہیں وہ کریں ہمیں کوئی نہیں پوچھ سکتا ہے، کس کے پاس اتنی ہمت ہے کہ ہم سے سوال کرے؟
دھونس دھاندلی اور تفتیشی اداروں کے ذریعے سے ملک کی خدمت انجام دینے والے اداروں تک سے زمینیں ہتھیا لینے کا ریکارڈ اگر کسی حکومت کے پاس ہے تو وہ اسی موجودہ حکومت کے پاس ہے۔ اس طرح ملک کی تاریخ کی سب سے بدترین حکومت اگر کوئی ہو سکتی ہے تو وہ یہی حکومت ہے۔
***

 

***

 جس زمین پر گنگاورم بندرگاہ کھڑی ہوئی ہے وہ خود ویزاگ اسٹیل کی زمین ہے۔ یعنی ویزاگ اسٹیل کو اپنی زمین پر بنائی گئی بندرگاہ پر اپنے ہی جہازوں کو لنگر انداز ہونے نہیں دیا جا رہا ہے؟ جب تک اس بندرگاہ میں حکومت کی حصہ داری تھی اس وقت تک ویزاگ اسٹیل کو اپنے سامان سے لدے ہوئے جہازوں کو لنگر انداز ہونے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی تھی، سارے معاملات بحسن و خوبی انجام پا رہے تھے، لیکن اڈانی ایک صبح سویرے اٹھ کر اپنے خانگی چارٹرڈ طیارے میں جگن موہن ریڈی سے ملاقات کرتے ہیں اور بات چیت کے بعد جگن موہن ریڈی حکومت طے کرتی ہے کہ سرکاری حصہ داری کو محض چھ سو کروڑ روپے میں ملک کے سب سے ایمان دار تاجر اڈانی صاحب کو فروخت کر دی جائے، چنانچہ معاملہ طے پاتا ہے اور ہزاروں کروڑ کی حصہ داری محض چھ سو کروڑ روپے میں فروخت کر دی جاتی ہے۔ اب جبکہ ساری بندرگاہ اڈانی کی ہو گئی تو وہ جو چاہیں گے کریں گے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 30 جولائی تا 05 اگست 2023