وکاس یادو: ’بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی‘

بھارتی حکومت بین الاقوامی سطح پر کئی زاویوں سے سوالات کے گھیرے میں

0

ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی

جو کام پچھلے ستر سالوں میں نہ ہوسکا وہ آج ہوگیا
وزیر اعظم نریندر مودی نے حلف برداری کے ایک سال بعد کینیڈا کا دورہ کیا تو دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کی 42 سال کے بعد پہلی ملاقات ہے تو ششی تھرور نے یاد دلایا کہ پانچ سال قبل تو وزیر اعظم منموہن سنگھ کینیڈا جاچکے ہیں اور اس وقت ایک مشترکہ بیان بھی شائع ہوا تھا۔ جواب میں ان کو بتایا گیا کہ وہ جی-20 کے اجلاس میں شرکت کے لیے کیا جانے والا دورہ تھا اور یہ مخصوص ملاقات ہے۔ اس دورے پر مودی نے ریاضی کے ایک فارمولے کی مدد سے اپنی بات سمجھائی تھی جسے وہ بعد میں بھی دہراتے رہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ اے جمع بی اگر ایک بریکیٹ میں ہوں اور اس کا مربع نکالا جائے تو صرف ایک مربع جمع بی مربع نہیں بلکہ دو فاضل اے ضرب بی بھی نکل آتے ہیں۔ انہوں نے سوال کیا تھا کہ یہ دو اے بی کہاں سے آتے ہیں؟ دونوں ممالک کے سیدھے سادے لوگوں نے سوچا کہ شاید مودی ’ہم دو ہمارے دو‘ کا فلسفہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آگے چل کر پتہ چلا کہ مودی اور شاہ کا یہ مربہ اگر اڈانی اور امبانی کی ڈبل روٹی پر لگا کر کھایا جائے تو ناشتے کا مزہ دوگنا ہو جاتا ہے۔
اس فارمولے میں لوگوں نے اے کی تلاش شروع کی تو سب سے پہلے امیت شاہ کا نام سامنے آیا مگر پھر وہ سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔ اڈانی بھی آئے اور ان کے ساتھ امبانی بھی تھے اور اب تو اجیت ڈوول کا نام بھی اس میں شامل ہوگیا لیکن ’بی‘ ایک معمہ تھا۔ دور کی کوڑی لانے والوں کو بہت دوڑ بھاگ دوڑ کے بعد بھاگوت ہاتھ آئے لیکن سرسنگھ چالک تو مودی کے بریکیٹ میں بیٹھتے ہی نہ تھے بلکہ وہ موقع بموقع مودی کے لیے مسائل کھڑے کر رہے تھے۔ کبھی ان کی انا کو ٹھیس پہنچاتے ہوئے آہنکار چھوڑنے کی تلقین کر دیتے تھے تو کبھی انہیں بھگوان بننے سے روک دیتے تھے۔ اس لیے انہیں فارمولے کے فریم میں فِٹ کرنا مشکل ہو رہا تھا لیکن اب کینیڈا کے ساتھ دوستی سے پیدا ہونے والی فاضل توانائی ’دو اے بی‘ کا راز پوری طرح کھل گیا ہے۔ اس فارمولے میں اے کے ساتھ بشنوئی یعنی لارنس بشنوئی کا بی ہے۔ اس نے ایسا کباڑہ کیا کہ مودی اور ٹروڈو کے بے ہنگم تعلقات پر ایک نغمہ صادق آ گیا۔ کینیڈا کے تناظر میں اب اسے اس طرح پڑھا جاسکتا ہے کہ
اے بی نہ رہا اور اسکوائر نہ رہا
اب تو فارمولے کا بھی اعتبار نہ رہا
مودی نے وہ فارمولا غلط ملک میں پیش کیا کیونکہ بھارت کا نام تو بی سے آتا ہے مگر کینیڈا کے نام سے پہلے سی ہے۔ وہ اگر امریکہ میں جا کر ریاضی کا یہ ریاض کرتے تو فارمولا بالکل پرفیکٹ بیٹھتا لیکن وہاں ایک اور سی یعنی چنوں کے قتل کی سازش نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا ہے۔ اس معاملے میں پہلے نکھل گپتا پھنسا۔ اس کے بعد بات آگے بڑھی تو وکاس یادو تک پہنچی۔ وکاس یادو کے تار سی آر پی ایف سے نکل کر "رآ” سے جڑ گئے تو حفاظتی امور کے صلاح کار اجیت ڈوول لپیٹ میں آگئے اور اب امیت شاہ کا نام بھی زیر بحث آگیا ہے۔ اس طرح ایک دائرہ بن گیا ہے۔ سابرمتی ایکسپریس سے سابر متی جیل۔ وہاں موجود منشیات کی اسمگلنگ معاملے میں گرفتار لارنس بشنوئی۔ اس کے نام سے دہلی میں تاوان وصول کرنے والا وکاس یادو جو گرفتاری کے بعد ضمانت پر ہے لیکن لاپتہ ہے۔ دہلی میں ہی منشیات کے اسمگلر نکھل گپتا کا اپنے مقدمات سے نجات کے لیے وکاس یادو کا آلہ کار بن جانا۔ نکھل گپتا کا امریکی حراست میں سارے راز اگل دینا۔ اس طرح شک کی سوئی کا وکاس یادو سے ہوتے ہوئے اجیت ڈوول اور امیت شاہ بلکہ وزیر اعظم کے دفتر تک پہنچ جانا۔ اسی چکرویوہ میں پھنسی ہوئی سرکار نکلنے کے لیے ہاتھ پیر مار رہی ہے۔
مذکورہ بالا معاملہ اس قدر آگے بڑھ گیا ہے کہ امریکہ کے محکمہ انصاف نے پہلی بار اپنے شہری کے ‌قتل کی سازش کا الزام لگا کر ہندوستان کی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالیسز ونگ ’رآ‘ کے ایجنٹ وکاس یادو کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کر دیا ہے۔ اس وارنٹ میں ایجنٹ کا نام، تصویر اور دفتر کا پتہ بھی درج کردیا گیا ہے۔ اس سے قبل عدالت میں داخل کردہ فرد جرم میں اس ایجنٹ کو ’سی سی 1‘ کوڈ نام کے تحت سرکاری ملازم بتایا گیا تھا لیکن اب ایجنٹ کا نام مخفی رکھنے کا لحاظ و تکلف بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس بے تکلفی کا اظہار ایسے وقت میں کیا گیا ہے جبکہ ہندوستان سے ایک تفتیشی ٹیم اس معاملے میں امریکی تفتیش کاروں سے اشتراک کے لیے واشنگٹن کے دورے پر ہے۔ ان کی موجودگی میں اس وارنٹ کے جاری ہونے کا پیغام بہت صاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال کو پریس کانفرنس میں یہ صفائی پیش کرنی پڑی کہ اب وکاس یادو سرکاری ملازمت میں نہیں ہے۔ یہ ایک سچائی ہے کہ چند روز قبل وکاس یادو کو سی آر پی ایف میں واپس کرکے ملازمت سے نکال دیا گیا تھا۔ اگر ارتکابِ جرم کے وقت وہ زیر ملازمت تھا تو پھر یہ لیپا پوتی کیوں؟
وکاس یادو کے معاملے میں امریکہ کے ارادے ٹھیک نہیں لگتے اسی لیے کہ اس نے ایک چھوڑ دو دو فردِ جرم داخل کر دی ہے۔ نیویارک میں جنوبی ضلع کے اٹارنی جنرل کا بیان کہتا ہے کہ ’شہر میں ایک امریکی شہری کے قتل کی (ناکام) سازش کے معاملے میں وکاس یادو عرف وکاس عرف امانت نامی ہندوستانی سرکاری ملازم کے خلاف کرایے کے قاتل کی خدمات حاصل کرنے اور منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کا مقدمہ درج کیا گیا ہے‘۔امریکی تفتیشی ایجنسی ایف بی آئی نے وکاس یادو کو مطلوبہ افراد کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے اس کے خلاف 10 اکتوبر 2024 کو گرفتاری کے وارنٹ جاری ہونے کا ذکر کیا اور ملزم کی تفصیلات شائع کردی۔ اس میں وکاس یادو کی تصویر کے ساتھ اس کی جائے پیدائش پران پورہ، ہریانہ اور عمر 39 برس، قد 5 فٹ 10 انچ سے 6 فٹ 1 انچ اور وزن تقریباً 175 پاؤنڈز بھی درج ہے۔ بالوں کا کالا اور آنکھوں کا بھورا رنگ اس لیے بتایا گیا تاکہ ایف بی آئی کے مقامی دفتر یا قریب ترین امریکی سفارتخانے یا قونصل خانے کو اس کی اطلاع دی جائے۔
دوسری فرد جرم میں وکاس یادو کے خلاف الزامات کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ اس میں بتایا گیا کہ وکاس یادو پر امریکہ کے شہری اور سکھ علیحدگی پسند لیڈر گرپتونت سنگھ پنوں کے قتل کی سازش کرنے اور انہیں قتل کرانے کے لیے ایک اور ہندوستانی شہری نکھل گپتا کے توسط سے شوٹر (یعنی کرائے کا قاتل) مہیا کرنے کا الزام ہے۔ پہلے یہ باتیں واشنگٹن پوسٹ اخبار میں چھپی تھیں مگر اب تو آفیشل ہوگئی ہیں۔ نکھل گپتا کو ایف بی آئی نے نومبر میں جمہوریہ چیک کے دارالحکومت پراگ میں اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ کرایے کے قاتل سے رقم کے بارے میں بات چیت کر رہا تھا۔ وہ ہٹ مین دراصل ایف بی آئی کا خفیہ ایجنٹ تھا۔ نکھل گپتا کو قانونی کارروائی پوری کرنے کے بعد امریکہ لا کر نیویارک کی جیل میں رکھا گیا ہے۔ اس معاملے میں اب وکاس یادو کو نکھل گپتا کا شریک ملزم بنا دیا گیا ہے۔
یادو کے خلاف تیار کی جانے والی یہ فرد جرم اس کی پوری جنم پتری کھول کر رکھ دیتی ہے۔ اس کے مطابق ’یادو ہندوستانی وزیر اعظم کے دفتر میں موجود حکومت کی کابینی سکریٹریٹ کا ملازم ہے۔‘ یہ معاملہ وزیر اعظم تک اس لیے پہنچ گیا کیونکہ ’رآ‘ نامی ایجنسی کیبینٹ سکریٹریٹ کے تحت کام کرتی ہے۔فردِ جرم کے مطابق یادو کا تعارف ایک سینئر فیلڈ آفیسر کے طور پر کرایا گیا اور سیکورٹی، مینجمنٹ اور خفیہ کارروائی کو اس کی ذمہ داریوں میں شمار کیا گیا۔ وکاس یادو کی بابت یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ وہ سب سے بڑے نیم فوجی دستے سنٹرل ریزرو پولیس فورس میں اسسٹنٹ کمانڈنٹ کے طور پر کام کر چکاہے اور اس نے کاؤنٹر انٹیلجنس، جنگی ہتھیار چلانے اور پیراٹروپر کی بھی تربیت لے رکھی ہے۔فرد جرم میں کہا گیا ہے کہ وہ ہندوستانی شہری ہے اور وہیں سے امریکہ میں پنوں کے علاوہ ایک اور شخص کے قتل کی سازش سے متعلق ہدایت دے رہا تھا۔
یہ تو خیر امریکی الزامات ہیں جن سے متعلق بھاگوت جیسے لوگ کہہ سکتے ہیں کہ وہ عالمی سطح پر بڑھتے ہوئے رسوخ سے پریشان ہے مگر وکاس یادو کے خلاف دہلی میں درج ہونے والی شکایت کا کیا کیا جائے؟ اس کو تو امیت شاہ کے تحت کام کرنے والی دہلی پولیس نے بھی ہفتہ وصولی کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ اس لیے اسے چند مہینے جیل میں گزارنے پڑے تھے۔ ایف آئی آر کے مطابق دہلی میں روہینی کا رہنے والا راج کمار والیہ موتی نگر میں ایک کیفے اور لانج چلاتا ہے۔ والیہ کے بقول گزشتہ سال ۱۱؍ دسمبر کو وہ اپنے دوست ابھیجیت کے ہمراہ یادو سے ملنے این آئی اے کے دفتر پہنچا تو اس نے اس کو کار میں دھکیل کر زد وکوب کرنے کے بعد لارنس بشنوئی کے نام پر رقم کا مطالبہ کیا۔ ایف آئی آر میں گردن پر ضرب لگا کر سادہ چیک پر دستخط کرانے اور خاموش رہنے کی دھمکی دینے کا الزام ہے۔ اس کے ساتھ کیفے سے پچاس ہزار روپے چرانے کی بھی شکایت کی گئی ہے۔اس طرح گویا یادو نے خود کو این آئی اے میں ملازم اور خفیہ ایجنٹ بتا کر دفتر کے باہر ملاقات کرنے کے بعد تاوان وصول کیا۔ آگے چل کر وکاس کی گرفتاری ہوئی اور فی الحال وہ ضمات پر ہے۔
امیت شاہ کی زیر نگرانی دہلی کی یہ حالت ہے تو ملک بھر میں قانون کا کیا حال ہوگا؟ عآپ کے منیش سسودیا نے دہلی میں سی آر پی ایف اسکول کے باہر دھماکے پر یہی سوال کیا۔ یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ دھماکے کرنے کے لیے سی آر پی ایف اسکول کا انتخاب کیا گیا اور یادو بھی سی آر پی ایف میں ملازم تھا۔ وکاس یاود کی دہلی میں گرفتاری زیر بحث نہیں ہے مگر امریکی الزامات کو اس کے گھر والے پوری طرح مسترد کرتے ہیں۔ وکاس کے عم زاد بھائی اویناش یادو کے مطابق خاندان کو اس کے جاسوسی ایجنسی کے لیے کام کرنے کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ اویناش یادو کے لیے تو وہ اب بھی فیڈرل سنٹرل ریزرو پولیس فورس(سی آر پی ایف) کا ملازم ہے جس میں وہ 2009 میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اویناش یادو کو اس نے بتایا تھا کہ وہ ڈپٹی کمانڈنٹ ہے اور اسے پیراٹروپر کے طور پر تربیت دی گئی تھی۔ اویناش یادو نے نامہ نگار کو ایک منزلہ مکان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ “اتنے پیسے کہاں سے آئیں گے؟ کیا آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس گھر کے باہر کوئی آڈی اور مرسڈیز قطار میں کھڑی ہے؟‘
وکاس یادو کے ایک اور کزن 41 سالہ امیت یادو نے نامہ نگار سے کہا کہ وکاس یادو کتابوں اور ایتھلیٹکس میں دلچسپی رکھنے والا خاموش طبع قومی سطح کا نشانے باز ہے۔ یہ تو صرف حکومت ہند اور وکاس ہی جانتے ہیں کہ کیا ہوا ہے؟لیکن اس کے ساتھ یہ بھی پوچھا کہ اگر حکومت ایک نیم فوجی افسر کو چھوڑ دیتی ہے تو پھر ان کے لیے کون کام کرے گا؟ امیت یادو چاہتے ہیں کہ ہندوستانی حکومت ان کی حمایت کرے اور بتائے کہ کیا ہوا، ورنہ وہ کہاں جائیں گے؟ اویناش یادو نے بتایا کہ وہ نہیں جانتا کہ وکاس یادو کہاں ہے لیکن انہیں تو بس اتنا پتہ ہے کہ وہ اپنی بیوی اور ایک بیٹی کے ساتھ رہتا ہے جس کی پیدائش گزشتہ سال ہوئی تھی۔ حکومتِ ہند نے الزامات کی تحقیقات کرنے کا اعلان کیا اور یہ کہا کہ وکاس یادو اب سرکاری ملازم نہیں ہے لیکن اس کے انٹیلیجنس افسر ہونے کی توثیق کی نہ تردید۔
سرکاری اہلکاروں نے یادو کے ٹھکانے پر بھی کوئی تبصرہ نہیں کیا جبکہ واشنگٹن پوسٹ نے امریکی حکام کے حوالہ سے خبر دی کہ وہ اب بھی ہندوستان میں ہے اور امریکہ اس کی حوالگی کا مطالبہ کرے گا۔ ملزم کی 65 سالہ ماں سدیش یادو صدمے میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’میں کیا کہہ سکتی ہوں؟ مجھے نہیں معلوم کہ امریکی حکومت سچ کہہ رہی ہے یا جھوٹ؟‘ دراصل نکھل گپتا کی گرفتاری اور گواہی نے اس معاملے کو بری طرح الجھا دیا ہے اور اس کے تار نہ صرف اجیت دوول اور وزارت داخلہ بلکہ وزیر اعظم کے دفتر تک سے جوڑ دیے ہیں۔ اس طرح کزان میں برکس+ کی میٹنگ سے قبل امریکہ نے حکومتِ ہند پر زبردست دباو ڈالا ہوا ہے۔ اس دباو کا مقابلہ کرنا وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے بہت بڑی اگنی پریکشا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس میں سے کیسے گزرتے ہیں، خود اپنی اور ملک کی ساکھ کیسے بچاتے ہیں؟ کیونکہ وکاس یادو کی حوالگی سے نکلنے والی بات بہت دور تلک جائے گی۔ اس معاملے میں مودی سرکار کی خاموشی پر کفیل آذر کی یہ نظم یاد آتی ہے جس میں شاعر اپنے محبوب کو جو تاکید کرتا ہے بعید نہیں کہ وزیر اعظم مودی کو بھی کسی نے وہی مشورہ دیا ہو :
بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی
لوگ بے وجہ اداسی کا سبب پوچھیں گے
یہ بھی پوچھیں گے کہ تم اتنے پریشاں کیوں ہو
لوگ ظالم ہیں ہر اک بات کا طعنہ دیں گے
باتوں باتوں میں مرا (یادو کا) ذکر بھی لے آئیں گے
ان کی باتوں کا ذرا سا بھی اثر مت لینا
ورنہ چہرے کے تأثر سے سمجھ جائیں گے
چاہے کچھ بھی ہو سوالات نہ کرنا ان سے
میرے بارے میں کوئی بات نہ کرنا ان سے
بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی
وزیر اعظم نریندر مودی ایک زمانے میں بار بار یہ دعویٰ کیا کرتے تھے کہ جو کام پچھلے ستر سالوں میں کسی نے نہیں کیا وہ انہوں نے کر دکھایا ہے لیکن اب تو ان کے ناقدین بھی اعتراف کر رہے ہیں کہ واقعی موصوف نے وہ کارنامہ انجام دیا ہے کہ جس کا تصور بھی محال تھا۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس کہہ کر آنے والے مودی کے بھکتوں نے وکاس کی تلاش میں دس سال گنوا دیے اور اب امریکی حکومت بھی وکاس (یادو) کو تلاش کرنے میں لگ گئی ہے۔ اس نے موسٹ وانٹیڈ وکاس یادو کا پوسٹر چھاپ دیا ہے۔ یہ معاملہ چونکہ پہلی بار مودی کی قیادت میں انجام پایا اس لیے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اس پر امریکہ بہادر کو لال آنکھیں دکھانے کے بجائے نظریں جھکا کر وکاس یادو کی حوالگی پر تیار ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ تو اچھا ہوا کہ یہ کام مودی کے انتخاب ہارنے کے بعد نہیں ہوا ورنہ بی جے پی والے کہتے کہ مودی کی مدت کار میں کسی کی مجال نہیں تھی کہ وہ ہندوستان کی جانب نظر اٹھا کر دیکھتا۔ ساری دنیا ان سے ڈرتی تھی اور اجیت ڈوول کی نگرانی میں کی جانے والی بین الاقومی کارروائیوں کے خلاف کوئی زبان کھولنے کی ہمت نہیں کرتا تھا۔ راہل گاندھی کی کمزوری کو موردِ الزام ٹھیرا کر انہیں ملک کو کمزور کرنے کا مجرم قرار دیا جاتا اور مودی کو شیر بنا کر پیش کیا جاتا، لیکن اب تو ساری دنیا نے مودی کو امریکہ کے آگے بھیگی بلی بنتے دیکھ لیا ہے۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***

 

یہ بھی پڑھیں

***

 امریکہ کے محکمہ انصاف نے پہلی بار اپنے شہری کے ‌قتل کی سازش کا الزام لگا کر ہندوستان کی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالیسز ونگ ’رآ‘ کے ایجنٹ وکاس یادو کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کر دیا ہے۔ اس وارنٹ میں ایجنٹ کا نام، تصویر اور دفتر کا پتہ بھی درج کردیا گیا ہے۔ اس سے قبل عدالت میں داخل کردہ فرد جرم میں اس ایجنٹ کو ’سی سی 1‘ کوڈ نام کے تحت سرکاری ملازم بتایا گیا تھا لیکن اب ایجنٹ کا نام مخفی رکھنے کا لحاظ و تکلف بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس بے تکلفی کا اظہار ایسے وقت میں کیا گیا ہے جبکہ ہندوستان سے ایک تفتیشی ٹیم اس معاملے میں امریکی تفتیش کاروں سے اشتراک کے لیے واشنگٹن کے دورے پر ہے۔ ان کی موجودگی میں اس وارنٹ کے جاری ہونے کا پیغام بہت صاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال کو پریس کانفرنس میں یہ صفائی پیش کرنی پڑی کہ اب وکاس یادو سرکاری ملازمت میں نہیں ہے۔ یہ ایک سچائی ہے کہ چند روز قبل وکاس یادو کو سی آر پی ایف میں واپس کرکے ملازمت سے نکال دیا گیا تھا۔ اگر ارتکابِ جرم کے وقت وہ زیر ملازمت تھا تو پھر یہ لیپا پوتی کیوں؟


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 اکتوبر تا 2 نومبر 2024