موہن بھاگوت کے تبصروں پر بحث کے سبب وی ایچ پی لیڈر کو اس کے ہی ایک ساتھی نے گولی ماری
نئی دہلی، فروری 13: ٹائمز آف انڈیا کی خبر کے مطابق ہفتہ کے روز اتر پردیش کے مراد آباد میں ایک جھگڑے کے بعد وشو ہندو پریشد کے ایک رہنما کو مبینہ طور پر ایک شخص نے گولی مار دی۔
ملزم رجت شرما مبینہ طور پر بھارتیہ جنتا پارٹی کا رکن ہے۔ شرما نے 8 فروری کو راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت کے خلاف ایک احتجاج میں حصہ لیا تھا اور مبینہ طور پر بھاگوت کے بارے میں توہین آمیز تبصرہ کیا تھا۔
جس کے بعد وی ایچ پی لیڈر سنتوش پنڈت نے سوشل میڈیا پوسٹس شیئر کرتے ہوئے شرما کو ’’پارٹی قیادت کے خلاف کام کرنے‘‘ کے لیے برطرف کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
اخبار کے مطابق ہفتہ کی شام پنڈت اور شرما میں جھگڑا ہوا، جس کے نتیجے میں وی ایچ پی لیڈر کو گولی مار دی گئی۔
دی انڈین ایکسپریس کے مطابق مرادآباد کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ہیمراج مینا نے بتایا ’’اپنے بیان میں اس نے [پنڈت] نے دعویٰ کیا کہ رجت شرما نے اس پر گولی چلائی تھی۔ شرما اور پنڈت دونوں ایک دوسرے کو جانتے تھے اور کسی معاملے پر بحث کے بعد ملزمان نے پنڈت پر حملہ کیا۔ شرما نے دیسی ساختہ پستول سے فائرنگ کی تھی اور وہ فی الحال فرار ہے۔‘‘
پولیس اہلکار نے کہا کہ پنڈت کی ہنگامی دیکھ بھال کی جا رہی تھی، لیکن گولی سے کسی اہم عضو کو نقصان نہیں پہنچا ہے۔
وی ایچ پی کے مغربی اتر پردیش کے علاقے کے رہنما کمل گپتا نے اس بات کی تصدیق کی کہ پنڈت تنظیم کا ایک سرگرم کارکن ہے، لیکن گپتا نے شرما کے تنظیم سے وابستہ ہونے کی تردید کی۔
نوبھارت ٹائمز کی خبر کے مطابق بھاگوت کے خلاف احتجاج اکھل بھارتیہ برہمن مہاسبھا نام کی ایک تنظیم نے کیا تھا۔ دی ہندو کے مطابق تنظیم نے بھاگوت کے اس بیان کے خلاف 5 فروری کو مظاہرہ کیا تھا، جس میں بھاگوت نے کہا تھا کہ پنڈتوں، ایک عام اصطلاح جو برہمن برادری کے لیے استعمال ہوتی ہے، نے ذات پات کا نظام بنایا تھا۔
آر ایس ایس کے سربراہ نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا تھا کہ پنڈتوں نے شاستروں یا صحیفوں کی بنیاد پر جو کچھ کہا وہ جھوٹ تھا۔
بھاگوت کے بیانات پر تنقید کے بعد آر ایس ایس کے پبلسٹی چیف سنیل امبیکر نے 6 فروری کو دعویٰ کیا تھا کہ بھاگوت کے بیانات کا غلط مطلب لیا گیا ہے اور پنڈتوں سے بھاگوت کی مراد دانشور تھے۔
امبیکر نے مزید کہا ’’وہ مراٹھی میں بول رہے تھے اور جو کچھ انھوں نے کہا اسے صحیح طریقے سے سمجھنا چاہیے۔‘‘