
اتر پردیش میں ‘ویاپم’ گھپلے کی بازگشت
بھرتیوں اور نظام تعلیم پر تسلط اجارہ داری، برہمنی نظام کے غلبہ کی کوششوں کا حصہ
شہاب فضل، لکھنؤ
مساوات کے لیے جدوجہد کرنے والے جہد کار ریزرویشن کے ضابطوں کی خلاف ورزی پر چراغ پا
ملک کی مختلف ریاستوں میں داخلہ امتحانات اور ملازمت کے لیے بھرتیوں کی صورت حال ابتر
اترپردیش کے سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں اساتذہ کی بھرتی کا معاملہ عدالتی داؤ پیچ میں الجھا ہوا ہے۔ ایک طرف اسکولوں اور کالجوں میں اساتذہ کی کمی اور دیگر اسباب کے تئیں تعلیم سخت بحران سے دوچار ہے تو دوسری طرف حکومت پر سرکاری بھرتی میں ریزرویشن کے ضوابط کی خلاف ورزی کا بھی الزام ہے۔ حالانکہ یہ معاملہ صرف اتر پردیش تک محدود نہیں ہے بلکہ ملک کی مختلف ریاستوں سے بھی بھرتیوں میں دھاندلی اور گھپلے کی شکایات سامنے آتی رہتی ہیں۔ مؤقر داخلہ امتحانات میں پیپر لیک کے معاملات اس پر مستزاد ہیں، جن سے یہ اندازہ لگانا دشوار نہیں کہ منظم طریقہ سے داخلہ امتحانات اور بھرتیوں کو متاثر کرکے پورے سسٹم کو چوپٹ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اتر پردیش، بہار، مدھیہ پردیش، راجستھان، تلنگانہ اور گجرات میں گزشتہ پانچ برسوں میں پیپر لیک کے متعدد کیسیز سامنے آچکے ہیں۔ ملک میں اس طرح کی حرکات کو برہمنی نظام کے غلبہ کو جاری رکھنے کی کوششوں کا ایک حصہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر دلت مفکرین اسی رخ پر کھل کر لکھ رہے ہیں۔
اگر ہم ماضی قریب میں دیکھیں تو 1997 اور 2021 میں آئی آئی ٹی جے ای ای کے پیپر لیک ہوئے تھے جس کی تفتیش میں سی بی آئی نے اپنی چارج شیٹ میں کچھ کوچنگ اداروں کے سربراہوں سمیت روس کے ایک ہیکر پر بھی کیس درج کیا تھا۔ ملک کے مختلف شہروں میں انیس مقامات پر سی بی آئی نے چھاپے مارے تھے۔ میڈیکل کے مؤقر داخلہ امتحان نیٹ میں بھی وسیع پیمانے پر گڑبڑیاں ہوئیں جس سے امتحان منعقد کرانے والی نیشنل ٹسٹنگ ایجنسی (این ٹی اے) کی ساکھ بری طرح مجروح ہوئی ہے۔
بہار میں 2024 میں ٹیچر بھرتی اور سب انسپکٹر بھرتی امتحان کو پیپر لیک کے باعث معطل کر دیا گیا تھا۔ یہاں سینئر گریڈ ٹیچر بھرتی کا اشتہار 2022 میں اور سب انسپکٹر و پلاٹون کمانڈر بھرتی امتحان کے اشتہارات بالترتیب 2022 اور 2021 میں جاری ہوئے تھے۔ 2024 میں اترپردیش میں پولیس کانسٹبل بھرتی کے پیپر بھی لیک ہوئے۔ پولیس کے مطابق اس کے ماسٹر مائنڈ وہی لوگ تھے جو مدھیہ پردیش اور ہریانہ میں اس طرح کے واقعات میں ملوث تھے۔ گجرات سب آرڈینیٹ سروس سلیکشن امتحان 2021 اور اترپردیش ریویو آفیسر ابتدائی امتحان 2024 کا بھی یہی حشر ہوا۔ اشتہار جاری ہونے کے دو چار سال بعد ہونے والے امتحانات میں جب ایسے گھپلے ہوں گے تو ان امیدواروں پر کیا گزرے گی جنہوں نے دن رات محنت کی ہو گی، اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
اس سے قبل مدھیہ پردیش کے ویاپم گھپلہ (مدھیہ پردیش پروفیشنل ایگزامنیشن بورڈ) نے امتحان اور بھرتی کے گھپلوں کا ریکارڈ توڑ دیا تھا۔ میڈیکل، انجینئرنگ اور مینجمنٹ جیسے پیشہ ورانہ کورسیز کے داخلہ امتحانات اور بھرتیوں میں گھپلے کا یہ سلسلہ 1990 کی دہائی سے شروع ہوا اور کافی تاخیر سے 2015 میں ایس ٹی ایف اور سی بی آئی کی جانچ میں جب اس کا انکشاف ہوا تو اس میں کئی لیڈروں، سینئر اور جونیئر افسروں اور کاروباری افراد کی گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ اس گھپلے کی پردہ پوشی میں کئی قتل بھی ہوئے۔ اس دوران شیو راج چوہان کی قیادت والی بی جے پی حکومت مسلسل سوالات کے گھیرے میں رہی۔ انٹرنیشنل میڈیا میں بھی ویاپم گھپلہ نے سرخیاں بٹوریں۔
اترپردیش کا ویاپم!
انگریزی آن لائن اخبار دی پرنٹ نے بڑے داخلہ امتحانات اور بھرتیوں میں ماضی کے گھپلوں کے حوالے سے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اترپردیش میں اساتذہ کی بھرتی کا گھپلہ ‘ویاپم’ جیسا ہی ثابت ہو رہا ہے، جب کہ سوشل میڈیا پر اسے ویاپم سے بھی بڑا گھپلہ قرار دیا جارہا ہے۔
دراصل اترپردیش میں دسمبر 2018 میں سرکاری پرائمری اسکولوں میں 69 ہزار اسسٹنٹ ٹیچروں کی بھرتی کا اشتہار نکلا تھا جس پر 4.31 لاکھ امیدواروں نے فارم جمع کیے تھے۔ جنوری 2019 میں بھرتی کا امتحان ہوا جس میں 4.10 لاکھ امیدوار شامل ہوئے۔ مئی 2020 میں اس کے نتائج آئے جس میں ایک لاکھ 47 ہزار امیدواروں کو کامیاب بتایا گیا۔ جنرل زمرہ کے امیدواروں کے لیے پاس کٹ آف 67.11 فیصد جب کہ اوبی سی امیدواروں کے لیے کٹ آف 66.73 تھا۔ مئی 2020 میں ریزرویشن کے ضابطوں کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے ہوئے الٰہ آباد ہائی کورٹ میں پٹیشن داخل کی گئی۔ مارچ 2023 میں سنگل بنچ کے فیصلے کے بعد اب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
یہ الزام عائد کیا جارہا ہے کہ اس بھرتی میں ریزرویشن کے ضابطوں کی صریح خلاف ورزی کی گئی ہے۔ بارہ بنکی سے کانگریس کے رکن پارلیمنٹ تنج پُنیا نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ 69 ہزار امیدواروں میں 18500 سیٹیں ایس سی، ایس ٹی اور اوبی سی امیدواروں کے لیے محفوظ ہونی چاہیے تھیں، لیکن صرف دو ہزار 637 سیٹوں پر ہی ریزرویشن دیا گیا، باقی 18500 سیٹیں جنرل زمرہ کو دے دی گئیں۔ یہ راست طور سے سماجی انصاف کے اصولوں اور ریزرویشن کے ضابطوں کے خلاف ہے۔
بھرتی میں ریزرویشن کی بے ضابطگی کا معاملہ جب قومی کمیشن برائے پسماندہ اقوام (این سی بی سی) میں پہنچا تو کمیشن نے بھی مانا کہ کوٹا کے نفاذ میں بے ضابطگی ہوئی ہے۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ میں تقریباً 90 پٹیشن اس بھرتی کے سلسلہ میں داخل کی گئیں۔ بے ضابطگیوں کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے عدالت نے حکم دیا کہ پرانی سلیکشن لسٹ کو خارج کرکے حکومت تین مہینے کے اندر نئی لسٹ تیار کرے۔ اس فیصلے کے خلاف جنرل زمرہ کے امیدواروں نے سپریم کورٹ میں اپیل داخل کردی۔ 9 ستمبر 2024 کو اس وقت کے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی قیادت والی بینچ نے ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگادی۔ اب سپریم کورٹ کو اس پر قطعی فیصلہ کرنا ہے۔
متاثرہ امیدواروں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت چاہے تو وہ اس معاملے کو حل کر سکتی ہے لیکن اس کا رویہ ڈھیلا ڈھالا ہے۔ یہ معاملہ 6 سال سے لٹکا ہوا ہے۔ 2019 میں امتحان میں پیپر لیک کا بھی الزام عائد کیا گیا تھا۔ امیدواروں نے دھرنا دے کر مظاہرہ کیا، پولیس کی لاٹھیاں کھائیں اور اب وہ عدالت کے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔
برہمنی نظام کے غلبہ کی کوششوں کا ایک حصہ
اس طرح کے گھپلوں کو نظام تعلیم کو برباد کرنے اور برہمنی نظام کے غلبہ کی کوششوں کے ایک حصہ کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔ قابل غور ہے کہ ملک کی چالیس سنٹرل یونیورسٹیوں میں ایک بھی وائس چانسلر ایس سی، ایس ٹی یا اوبی سی زمرہ سے نہیں ہے۔ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن، یونین پبلک سروس کمیشن وغیرہ میں بھی ان طبقات کی نمائندگی نہیں کے برابر ہے۔ لیٹرل انٹری اسکیم جس سے یونیورسٹیوں اور ایڈمنسٹریٹیو سروسیز میں ایکسپرٹس کی تقرری مقصود ہے اس میں تو ریزرویشن کا کوئی فارمولا ہی نہیں ہے۔ اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ تعلیم میں ہر سطح پر برہمن یا اعلیٰ ذاتوں کی اجارہ داری ہے۔ سیاست، میڈیا اور دیگر شعبوں میں بھی یہی حال ہے۔ ہندو دھرم میں ورن نظام تو باقاعدہ اونچ نیچ کے تصور پر مبنی ہے۔ اسی نظام کو غالب رکھنے کو برہمنی نظام اور منوواد کے تسلط سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کرانتی کمار کی یہ پوسٹ اترپردیش میں اساتذہ کی بھرتی کے حوالہ سے قابل غور ہے کہ ‘‘دن دھاڑے ریزرویشن پر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے۔ طلبہ اور اساتذہ آندولن کر رہے ہیں لیکن اوبی سی، ایس سی ایس ٹی لیڈر خاموش ہیں۔ آپ کے ادھیکار کو، آپ کی نوکری کو سرکار نے آپ سے چھین کر کسی اور کو دے دیا ہے’’۔ اسی طرح منیش جیکی، ایکس پر لکھتے ہیں ‘‘دھرم کے نام پر پیسہ کمانے اور لوٹنے کا کاروبار صرف ایک خاص ذات سے متعلق لوگوں کا رہا ہے، جنہوں نے اپنے مفاد کے لیے ذات پرستی کا ایک مضبوط نظام بنایا ہے۔ اس نظام کے تحت انہوں نے نہ صرف سماج میں نابرابری پیدا کی ہے بلکہ خود کو اعلیٰ اور دیگر ذاتوں کو نچلے عہدوں پر رکھا ہے۔ اس کا مقصد صرف اپنی طاقت اور املاک کو بڑھانا تھا، جس سے وہ مذہب اور سماج کے نام پر اپنی انفرادی بھلائی کے لیے کروڑوں روپے کماتے رہیں۔ سمجھیے کہ ملک میں یہ کیا چل رہا ہے’’۔
تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے اس مسئلہ کا ایک اور پہلو آشکارا کیا ہے۔ مرکزی حکومت پر انہوں نے تمل ناڈو میں ہندی اور سنسکرت تھوپنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ہندی ایک نقاب ہے اور سنسکرت چھپا ہوا چہرہ ہے۔ ان کی حکومت تمل زبان اور تمل ثقافت کا تحفظ کرے گی اور ہندی،سنسکرت تھوپے جانے کی مخالفت کرے گی۔
دراصل اسٹالن نے قومی تعلیمی پالیسی کے ایک حصہ کے طور پر سہ لسانی فارمولے کے ذریعہ ہندی تھوپنے کا الزام لگایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شمالی ہند کی پچیس سے زائد زبانیں ہندی۔سنسکرت کے حملے سے تباہ ہوگئی ہیں۔ ان کے بقول ایک صدی قدیم دراوڑ تحریک نے تمل ثقافت کی حفاظت کا فریضہ انجام دیا ہے۔ سہ لسانی فارمولے کے نام پر کئی ریاستوں میں صرف سنسکرت کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے جسے برداشت نہیں کیا جائے گا۔ سنسکرت چونکہ ہندوؤں کے اعلیٰ طبقہ اور ویدوں کی زبان رہی ہے اس لیے اس پر اعلیٰ ذات کا لیبل چسپاں ہے۔
ملک کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں سنگھ پریوار سے قربت رکھنے والوں کی تقرری کی بات جگ ظاہر ہے۔ وائس چانسلر سمیت مختلف عہدوں پر یہ تقرریاں کی جارہی ہیں اور انہی لوگوں کی تقرری کی جارہی ہے جو آر ایس ایس کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں۔ ہندوتوا کی علم بردار نظریاتی تنظیم آر ایس ایس منوواد کے فلسفہ پر عمل پیرا ہے جس کا اظہار مختلف سطحوں پر ہوتا رہتا ہے۔
دلت مفکرین و دانشور اور مساوات و برابری کے لیے کام کرنے والے سماجی جہدکار تعلیمی نظام پر تسلط، اعلیٰ عہدوں پر اجارہ داری اور بھرتیوں میں گھپلوں اور بدعنوانیوں کو ایک ہی سلسلہ کی کڑی قرار دیتے ہیں اور اس کے خلاف آواز بلند کرتے رہتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ حکومت کے حلیف چنندہ دلت لیڈر اس پر اپنا منھ بند رکھے ہوئے ہیں لیکن پر عزم اور مخلص جہد کار خاص طور پر سوشل میڈیا کے توسط سے برہمنی نظام کے قدموں کی آہٹ سے خبردار کرتے رہتے ہیں۔ انہیں نظام تعلیم پر سناتنی غلبہ کسی بھی قیمت پر قبول نہیں، کیونکہ انہیں اس بات کا احساس ہے کہ اگر یہ غلبہ قدیم شکل میں دوبارہ واپس آیا تو بھارتی آئین میں دیے گئے تحفظات ختم ہو جائیں گے، جس میں ان کے سماج کا نقصان ہی نقصان ہے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 مارچ تا 15 مارچ 2025