
اتر پردیش میں سرکاری اسکول ضم کرنے پر عدالت عالیہ نے لگائی مہر، سنگل بینچ نے کی سرپرستوں کی عرضی خارج
محرم کے بعد مانسون کی آمد سے انتظامیہ کی پریشانی میں اضافہ، کانوڑ روٹ پر ہوٹلوں اور دکانوں کے ناموں اور پتوں پر پھر سے تنازعہ
محمد ارشد ادیب
سنبھل کی جامع مسجد اور متھرا کی عید گاہ کو متنازعہ بنانے کی کوشش جاری، ہائی کورٹ سے’ متنازعہ‘ لکھنے کی عرضی خارج
گئو کشی معاملے میں فتح پور پولیس کا دوہرا رویہ، ہندو ملزم کو بتایا دماغی خلل کا شکار
یو پی اور اتر اکھنڈ کے تعمیراتی پروجیکٹس میں گھپلے
شمالی بھارت میں اس بار مانسون آفت لیکر آیا ہے۔ ریگستانی اور پہاڑی علاقوں میں ریکارڈ توڑ بارش ہو رہی ہے۔راجستھان کے ریگزار و نخلستان پانی سے لبالب بھر چکے ہیں، پہاڑی کوہسار بھی کم دامنی کا شکوہ کرنے لگے ہیں، ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ میں بارش نے قہر برپا کر رکھا ہے ۔ راجستھان گجرات اور مدھیہ پردیش کے شہروں میں ندیوں اور جھیلوں کا پانی آبادی میں داخل ہونے سے شہری زندگی دشوار ہو گئی ہے کئی شاہراہوں پر موٹر گاڑیاں کشتیوں کی طرح تیر رہی ہیں۔پہلی بارش میں ہی بلدیہ کے انتظامات کی پول کھل گئی ہے۔
یو پی میں اسکول بند شراب خانے آباد!
اتر پردیش میں محکمہ بنیادی تعلیم کی جانب سے سرکاری پرائمری سکول ضم کرنے پر عدالت عالیہ نے مہر لگا دی ہے، الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنو بنچ نے اس معاملے کی سماعت کرتے ہوئے سرپرستوں کی عرضی خارج کر دی ہے۔ریاستی حکومت نے 50 سے کم طلبہ والے اسکولوں کو پاس کے دیگر اسکولوں میں ضم کرنے کا عمل شروع کیا تھا جس کی طلباء سرپرستوں کے ساتھ اساتذہ انجمنوں نے پرزور مخالفت کی، اپوزیشن جماعتوں نے بھی لکھنو میں احتجاجی مظاہرے کیے۔ سب سے پہلے عام آدمی پارٹی اور پھر کانگریس اس فیصلے کے خلاف مظاہرے کے لیے سڑکوں پر اترآئی عآپ نے نعرہ دیا "مدھوشالہ نہیں اسکول چاہیے” تعلیم ادھیکار ہے سوغات نہیں” عام آدمی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ سنجے سنگھ نے اس مدعے پر زوردار مہم چھیڑتے ہوئے کہا ہم تب تک لڑیں گے جب تک آخری سکول بچا نہ لیا جائے۔ واضح رہے آر ٹی ای کے تحت چھوٹے بچوں کے لیے ایک کلومیٹر کے دائرے میں بنیادی تعلیم کا انتظام لازمی ہونا چاہیے لیکن یو پی سرکار اسے نظر انداز کر کے بہتر سہولیات فراہم کرنے کے نام پر کم تعداد والے اسکولوں کے بچوں کو دور کے اسکول بھیجنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ سماج وادی پارٹی اور بی ایس پی دونوں اپوزیشن جماعتوں نے سرکار کے اس فیصلے پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسے غریب مخالف بتایا ۔بی ایس پی سربراہ مایاوتی نے یو پی حکومت سے فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر سرکار اپنا فیصلہ واپس نہیں لیتی ہے تو بی ایس پی کی حکومت بننے پر اس فیصلے کو رد کر دیا جائے گا اور پرانا نظم بحال ہوگا”۔ سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے کہا کہ دیہی علاقوں میں اسکولوں کو ضم کرنے کے پیچھے گہری سازش ہے۔ بی جے پی آنے والی نسلوں سے تعلیم کا حق چھیننا چاہتی ہے۔ انہوں نے ایکس پوسٹ میں لکھا جب ایک ووٹر کے لیے بوتھ بنایا جا سکتا ہے تو 30 بچوں کے لیے اسکول کیوں نہیں چلایا جا سکتا؟ یہ پی ڈی اے پچھڑے، دلت اور اقلیتوں کے محروم سماج کو مزید محروم کرنے کی بڑی سازش ہے۔”
آل انڈیا آئیڈیل ٹیچرس اسوسی ایشن کے قومی سکریٹری شکیل احمد نے ہفت روزہ دعوت سے فون پر بات چیت میں بتایا "اسکولوں میں طلبہ کی تعداد کم ہونے کے کئی اسباب ہیں، اسکولوں کو ضم کرنے سے دور دراز گاؤں کے چھوٹے بچوں کی تعلیم تک رسائی مشکل ہو جائے گی جس سے محروم اور پسماندہ طبقات کے بچے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ انہوں نے آئیٹا کی جانب سے مطالبہ کیا کہ کم تعداد والے اسکولوں کا سروے کرتے ہوئے وسائل کو ازسر نو منظم کیا جائے اور اسکول ضم کرنے کے فیصلے پر نظر ثانی کی جائے۔ آئیٹا کی ایشو ایڈریس کمیٹی کے کنوینر سجاد اللہ نے اس سلسلے میں محکمہ بنیادی تعلیم کے سکریٹری کو ایک مکتوب بھی بھیجا ہے۔
اطلاعات کے مطابق یو پی میں مدرسوں کے بعد غیر منظور شدہ اسکول بھی بند کیے جا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں حکومت نے ایک ہدایت نامہ جاری کیا ہے جس میں 15 جولائی سے قبل ضلع بیسک ایجوکیشن افسران کو ایسے اسکولوں کے خلاف کارروائی کا ٹارگٹ دیا گیا ہے۔کئی اضلاع میں غیر منظور شدہ اسکولوں کو بند کر کے ان کے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں داخل کرایا جا رہا ہے۔
محرم کے ساتھ مانسون کی آمد
مانسون سے پہلے محرم کی آمد نے شمالی ہند کے کئی شہروں میں انتظامیہ کے دل کی دھڑکنیں بڑھا دی ہیں۔ یو پی میں ریاستی حکومت کو تعزیہ داری اور کانوڑ کے لیے خصوصی ہدایات جاری کرنی پڑیں۔ محرم کا پہلا عشرہ تو پر امن گزر گیا، اکثر مقامات پر مسلمانوں نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا تاہم مانسون کے آغاز سے پہلے ہی شہری انتظامیہ اور پولیس کی آزمائشیں شروع ہو گئی ہیں، خاص طور پر ٹریفک پولیس کانوڑ یاترا کے راستوں پر آمدورفت کو برقرار رکھنے کی جدوجہد میں ہلکان ہو رہی ہے۔ مغربی یو پی اور اتر اکھنڈ کے کچھ علاقوں میں شرپسند عناصر دوبارہ سرگرم ہو گئے ہیں، میرٹھ اور مظفر نگر میں ہوٹلوں اور دکانوں کے نام چیک کیے جا رہے ہیں۔ ہوٹلوں میں کام کرنے والے ملازمین کی مذہبی شناخت بھی کی جا رہی ہے۔ مظفر نگر میں ایک ملازم کی پینٹ اتروا کر ختنہ تک چیک کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ واقعہ پنڈت جی کے ویشنو ڈھابے پر پیش آیا۔ ڈھابے کا مینیجر مسلمان تھا جبکہ باقی اسٹاف غیر مسلم تھا۔ صرف ایک ملازم مسلمان تھا جس کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا۔ بھگوا لباس پہننے والے یشویر مہاراج کے چیلے اس مہم میں سب سے آگے دکھائی دیے۔ جو تجارتی مراکز پر لگائے گئے کیو آر کوڈ اسکین کر کے نام پتوں کی تصدیق کرتے پھر رہے ہیں۔ تبصرہ نگاروں کے مطابق بظاہر یہ لوگ کانوڑ یاترا سے مسلمانوں کو الگ کرنا چاہتے ہیں لیکن پس پردہ یہ عناصر اسلاموفوبیا پھیلا کر مسلمانوں کی معاشی ناکہ بندی کرنا چاہتے ہیں۔ بی جے پی کے زیر اقتدار دیگر ریاستیں بھی اس طرح کے عناصر کو کھلی چھوٹ دے کر ان کی معاون بن رہی ہیں۔ پچھلے مانسون میں بھی ناموں کی تختی لگانے پر بڑا تنازعہ ہوا تھا، اس بار پھر سے وہی کوشش کی جا رہی ہے۔ اتحاد ملت کونسل کے صدر مولانا توقیر رضا خان نے نام کی تختی لگانے کو درست قرار دیا لیکن مذہبی شناخت چھپانے کو غلط بتایا۔انہوں نے کہا کہ کپڑے اتروا کر مذہبی شناخت کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
بریلی کے ضلع مجسٹریٹ نے کانوڑ یاترا کی تیاریوں کا جائزہ لیتے ہوئے ہدایت جاری کی ہے کہ کانوڑ روٹ پر گوشت کی دکانیں بند رہیں گی اور ہر دکان پر نام کی تختی کے ساتھ سامان کی ریٹ لسٹ بھی لگانی لازمی ہوگی۔ کانوڑیوں کو وی آئی پی ٹریٹمنٹ دینے کے لیے راستے ہموار کیے جا رہے ہیں اور ٹریفک پولیس کو کانوڑ روٹ پر ٹریفک کو موڑنے کی ہدایت جاری کی گئی ہے۔
سنبھل جامع مسجد کے معاملے میں ہندو فریق کی نئی عرضی
سنبھل جامع مسجد پر تنازعہ مزید گہرا ہو سکتا ہے۔ ہندو فریق کی جانب سے سمرن گپتا نام کی خاتون نے چندوسی کے سِول جج کی عدالت میں عرضی دائر کی کہ جامع مسجد کا معاملہ فیصلہ ہونے تک نماز پر پابندی لگا دی جائے۔ عدالت نے اس معاملے کے سماعت کے لیے 21 جولائی کی تاریخ مقرر کی ہے۔ یاد رہے کہ ہندو فریق کے مطالبے پر مسجد کے متنازعہ سروے سے یہ معاملہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ سے واپس ہو کر نچلی عدالت میں زیر غور ہے۔
متھرا شاہی عید گاہ کو متنازعہ بنانے کی کوشش ناکام
الٰہ آباد ہائی کورٹ نے متھرا کی شاہی عیدگاہ کے معاملے میں متنازعہ ڈھانچہ لکھنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔ ہندو فریق نے اس سلسلے میں جسٹس رام منوہر مشرا کی سنگل بنچ کے سامنے عرضی پیش کی تھی۔ فاضل جج نے عرضی خارج کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ اس معاملے میں مالکانہ حقوق کا مقدمہ الگ سے چل رہا ہے جس کی سماعت 18 جولائی کو ہوگی، ہندو فریق کی جانب سے ایڈووکیٹ مہندر پرتاپ سنگھ نے بابری مسجد کیس کی نظیر پیش کرتے ہوئے متنازعہ ڈھانچہ لکھنے کی دلیل پیش کی۔ واضح رہے کہ متھرا اور سنبھل دونوں معاملوں میں ہندو فریقوں کی یہی کوشش ہے کہ دونوں ہی مذہبی مقامات کو عدالت سے متنازعہ قرار دیا جائے۔
گئو کشی معاملوں میں پولیس کا دوہرا رویہ
شمالی ہند کی کئی ریاستوں میں گائے کا ذبیحہ قانونی طور پر ممنوع ہے لیکن اس کے باوجود گئو کشی کے واقعات رک نہیں پارہے ہیں۔ اتر پردیش کے ضلع فتح پور میں ایک انوکھا کیس ہوا ہے جب ہندو تنظیموں نے روہن نام کے ملزم کو گائے کاٹتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ روہن بی ٹیک پاس ہے اور حال ہی میں نوکری چھوڑ کر گھر آیا تھا۔ اس کا ایک بھائی کویت میں نوکری کر رہا ہے۔ پولیس پر روہن کو بچانے کے الزامات لگ رہے ہیں۔ دراصل پولیس ملزم روہن کو دماغی خلل کا شکار بتا رہی ہے جبکہ مقامی باشندے یہ بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ سی ای او پولیس نے اس معاملے کے مزید تفتیش کرانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ بٹو شرما نام کے صارف نے ایکس پوسٹ میں اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا "مسلم ہوتا تو اب تک انکاؤنٹر یا گھر پر بلڈوزر ایکشن ہو گیا ہوتا۔ کاش کہ یہ لوگ کسی مسلم کے لیے بھی ایسا ہی بولتے جو کبھی پکڑا گیا ہو”۔ دراصل پولیس پر ماضی میں بھی اس طرح کے معاملوں میں دوہرے رویے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ حال ہی میں علی گڑھ ہجومی تشدد کے شکار تین افراد پر پولیس نے کراس ایف آئی آر درج کر دی ہے۔ اسی طرح مدھیہ پردیش میں بھی پولیس نے جنید اور عمران پر گائے کی اسمگلنگ کا کیس درج کر لیا جبکہ یہ دونوں مویشی تاجر تھے اور ہجومی تشدد کا شکار ہوئے۔ دستور کے مطابق قانون کی نظر میں سب برابر ہیں لہٰذا پولیس کو بھی تمام ملزموں پر قانون کو یکساں نافذ کرنا چاہیے تھا۔
تعمیری پروجیکٹس میں بد عنوانی کا کھیل
اتر پردیش و اتر اکھنڈ کے تعمیری پروجیکٹس میں غیر معیاری کام کی مسلسل شکایتیں مل رہی ہیں۔ یو پی میں سب سے زیادہ شکایتیں جل جیون مشن کے تحت بننے والی پانی کی ٹنکیوں کی مل رہی ہیں۔ کروڑوں روپے کے بجٹ سے بننے والے اوور ہیڈ ٹینک زمیں بوس چکے ہیں۔ کانگریس کے ریاستی صدر اجے رائے کا کہنا ہے کہ سرکار نے بڑے پیمانے پر گجراتی ٹھیکے داروں کو کام دیا ہے اور وہ سرکاری خزانہ لوٹنے کا کام کر رہے ہیں۔ اتر اکھنڈ کا بھی یہی حال ہے۔ کہیں ٹنکی گر رہی ہے تو کہیں پل۔ دہرادون سے 40 کلومیٹر دور ضلع ٹہری کے رانگڑ گاؤں کے پاس 15 گاؤں کو جوڑنے والے پل کی تعمیر ہو رہی تھی اب تک دو کروڑ روپے خرچ بھی ہو چکے لیکن پل کا کہیں نام و نشان بھی نہیں ہے کیونکہ جو کام ہوا تھا بارش کے دوران سب پانی میں بہہ گیا۔ مقامی باشندے پریشان ہیں کہ بارش کے موسم میں بغیر پل کے دریا کیسے پار کریں گے؟ پانڈے نام کے صارف نے ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے تبصرہ کیا "اتر اکھنڈ میں پل کی ضرورت اب نہیں پڑے گی کیونکہ اڑنے والی ڈبل ڈیکر بس اڑان بھرنے کو تیار ہے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ دہائی اتر اکھنڈ کی ہے اور باقی ملک کے باشندے تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
تو صاحبو! یہ تھا شمال کا حال۔ آئندہ ہفتے پھر ملیں گے کچھ تازہ اور دلچسپ احوال کے ساتھ۔ تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر سلا ۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 جولائی تا 19 جولائی 2025