اتر پردیش میں پیئرنگ اورانضمام کے نام پر اسکول بند ، ہائی کورٹ نے لگائی عبوری روک

بچوں کی قبرگاہ بنتے ہوئے خستہ حال سرکاری اسکول، راجستھان میں سات بچے بوسیدہ عمارت کےملبے میں دب کر فوت

0

محمد ارشد ادیب

چھتیس گڑھ میں اساتذہ کی بحالی میں دھاندلی، دو سے تین لاکھ روپے میں سودے بازی
یو پی میں غیر قانونی تبدیلی مذہب حقیقت یا فسانہ؟ پولیس کا دوہرا رویہ
علی گڑھ میں 400 سالہ قدیم مسجد ہٹانے کا حکم ،مسجد کمیٹی کی ڈی ایم کے متنازعہ فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل
نرسنگ کالج کی وائس پرنسپل آن لائن جوئے کی لت میں مبتلا، پولیس نے پوچھ گچھ کے بعد کیا گرفتار
پارلیمنٹ کا رواں مانسون اجلاس کافی ہنگامہ خیر ثابت ہو رہا ہے، پہلے ہفتے میں ہی نائب صدر جمہوریہ جگدیپ دھنکڑ کے اچانک استعفیٰ کا معاملہ ہو یا ایوان میں آپریشن سندور پر مباحثے کا سوال، بہار الیکشن سے پہلے ووٹر لسٹوں پر نظر ثانی کا عمل ہو یا جسٹس یشونت ورما اور جسٹس شیکھر یادو کے خلاف مواخذے کی کارروائی، حکومت اور اپوزیشن کے درمیان گرم گرم بحث جاری ہے۔ اتر پردیش میں غیر قانونی تبدیلی مذہب کے واقعات اور اسکولوں کے انضمام کے نام پر بند کرنے کا سلسلہ، راجستھان اور مدھیہ پردیش میں خستہ حال اسکولی عمارتوں کے ڈھے جانے کے واقعات پورے ملک و قوم کے لیے لمحے فکریہ بنے ہوئے ہیں۔
پیئرنگ اور انضمام کے نام پر بنیادی تعلیم کے اسکولس بند کرنے کا کھیل ابھی ختم نہیں ہوا۔ جنوبی ہند کے مقابلے میں شمالی ہند کی ریاستوں میں شرح خواندگی کافی کم ہے اس کے باوجود شمال کی کئی ریاستوں میں سرکاری اسکولس مختلف حیلے بہانوں سے بند کیے جا رہے ہیں۔ اتر پردیش میں ان دنوں پچاس طلبہ سے کم تعداد والے اسکولوں کی پیئرنگ یعنی جوڑے بنانے کا عمل چل رہا ہے اس کے تحت پچاس سے کم تعداد والے اسکولوں کے طلبہ اور اساتذہ کو پڑوس کے اسکولوں میں بھیجا گیا ہے۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ کی ڈبل بنچ نے چند بچوں کی جانب سے دائر کردہ عرضی پر سماعت کے بعد اس عمل کو عبوری طور پر روک دیا ہے۔ اس سے پہلے سنگل بنچ نے سرکار کے دلائل کو تسلیم کرتے ہوئے پیئرنگ کی اجازت دی تھی لیکن ضلع سیتاپور کے پانچ بچوں نے اس فیصلے کے خلاف ڈبل بنچ سے رجوع کیا۔ الٰہ اباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی والی دو رکنی بنج نے 21 اگست کو اس معاملے کی سماعت مقرر کی ہے، سنگل بنچ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں بھی چیلنج کیا گیا تھا تاہم، سپریم کورٹ نے عرضی گزاروں کو پہلے ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت دی ہے۔
اتر پردیش میں اس سے پہلے انضمام کے نام پر 28 ہزار پرائمری اسکولوں کو ضم کیا جا چکا ہے۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق جولائی 2025 تک دس ہزار سے زیادہ اسکولوں کی پیئرنگ ہو چکی ہے۔ ہائی کورٹ نے اس پر اسٹے نہیں دیا ہے لیکن مزید پیرنگ پر جوں کی توں حالت برقرار رکھنے کی ہدایت دی ہے۔ مرکزی حکومت پارلیمنٹ میں اعتراف کر چکی ہے کہ یو پی میں پچھلے آٹھ سالوں کے دوران تقریباً 26 ہزار اسکولس بند ہو چکے ہیں۔
بند اسکولوں کا کیا ہوگا؟
اترپردیش میں اسکولی تعلیم کی ڈائریکٹر جنرل کنچن ورما نے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا ہے کہ صوبے میں ایک بھی اسکول بند نہیں ہو رہا ہے۔ ان کے مطابق پیئرنگ میں خالی ہونے والے اسکولوں کو پری نرسری تعلیم کے لیے استعمال کیا جائے گا، ان کو آنگن واڑی مراکز کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے پیئرنگ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کو بہتر تعلیمی مواقع دینے اور وسائل کا بہتر استعمال کرنے کے مقصد سے یہ عمل شروع کیا گیا ہے۔ کوشل کشور پانڈے نام کے صارف نے ایکس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا "یہ سب نری بکواس ہے۔ کوئی سروے نہیں ہوا ہے۔ اسکول انضمام کے بعد بچے برآمدے میں بیٹھ رہے ہیں۔ ایسے افسر شاہوں سے سرکار اور سماج دونوں کو بہت نقصان پہنچا ہے۔”
بچوں کی قبر گاہ بنتے ہوئے خستہ حال اسکول
راجستھان کے جھالاواڑ علاقے میں خستہ حال سرکاری اسکول کی عمارت ڈھے جانے سے سات بچے ملبے میں دب کر فوت ہو گئے جبکہ 29 زخمی ہو گئے۔ ان میں سے کئی کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔ مقامی افسروں نے اس حادثے کے بعد پانچ اساتذہ کو معطل کر دیا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ بچوں کے آگاہ کرنے کے باوجود انہوں نے اپنی ڈیوٹی میں کوتاہی کی اور اسکول کے برآمدے میں ناشتہ کرنے میں مصروف رہے۔ برسات کے موسم میں ہر سال اسکولوں کی خستہ حال عمارتیں گرتی ہیں۔ راجستھان کے علاوہ مدھیہ پردیش کے بھوپال اور شہڈول میں بھی سرکاری اسکولوں میں اس طرح کے حادثات ہو چکے ہیں۔ ریاستی حکومتیں اساتذہ کے خلاف کارروائی کر کے پلہ جھاڑ لیتی ہیں لیکن اسکولوں کی مرمت نہیں کرواتیں۔ اگر ان کی بروقت مرمت کروائی جائے تو حادثے رک سکتے ہیں۔ ہنس راج مینا نے ایکس ہینڈل پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا "مندروں کے لیے بجٹ مل جاتا ہے، قلعوں کی مرمت کے لیے فنڈ آ جاتا ہے، غیر ملکی دوروں پر کروڑوں روپے خرچ ہو جاتے ہیں لیکن سرکاری اسکولوں کی خستہ حال عمارتوں کے لیے کبھی بجٹ نہیں آتا، آخر ایسا کیوں ہے؟
یو پی کے ضلع سلطان پور میں ایک اسکول ٹیچر کو کانوڑ یاترا کے لیے چھٹی نہ دینے پر مندر لے جا کر ناک رگڑوائی گئی جس کے بعد محکمے نے دلت ٹیچر کو معطل بھی کر دیا۔ اس سے پہلے بریلی کے ایک ٹیچر کو ’کانوڑ لینے مت جانا‘ نظم لکھنے پر جان سے مارنے کی دھمکیاں مل چکی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود سرکار ان کا تحفظ کرنے کے بجائے شکایت کرنے والوں کے ساتھ کھڑی ہوئی دکھائی دیتی ہے، جبکہ مذہبی یاتراؤں یا رسوم و رواج کو تعلیم پر ترجیح دینا بچوں کے تعلیمی مستقبل سے کھلواڑ کرنے کے مترادف ہے۔
یو پی کے سابق وزیر سوامی پرساد موریا نے بریلی کے پروگرام میں ریاستی حکومت پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا "خود کو یوگی کہلانے والے وزیر اعلیٰ شراب خانے کھول رہے ہیں اور اسکولوں کو بند کر رہے ہیں۔ آخر کار بہوجن سماج کے لوگ کب جاگیں گے؟ سماج وادی پارٹی نے بند ہونے والے اسکولوں میں پی ڈی اے پاٹھ شالائیں چلانے کا اعلان کیا ہے اور آمیٹھی کے اسماعیل پور گاؤں سے ایک پاٹھ شالہ کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔
چھتیس گڑھ میں اساتذہ کی بحالی میں بد عنوانی
چھتیس گڑھ میں سمگر شکشا کے محکمے میں ووکیشنل اساتذہ کی بحالی میں مالی بدعنوانی کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ امیدواروں کا کہنا ہے کہ محکمہ تعلیم کی جانب سے پیشہ ورانہ اساتذہ کی تقریباً 1300 اسامیوں پر بحالی ہونا ہے۔ طلباء نے بڑی محنت سے تحریری امتحانات دیے ہیں لیکن بحالی سے پہلے کچھ دلال دو سے تین لاکھ روپے تک کی رشوت مانگ رہے ہیں۔ بد عنوانی سے پریشان امیدواروں نے احتجاج شروع کر دیا ہے۔ ان کے مطابق اگر ایمان داری سے بحالی نہیں ہوئی تو وہ محکمہ تعلیم کے دفتر پر تالا ڈال کر دھرنے پر بیٹھ جائیں گے۔
اس سے پہلے راجستھان میں سرکاری آسامیوں کی بحالی میں بھی گھپلے کی خبریں منظر عام پر آچکی ہیں ای او آر او کی بحالی میں فی کس تیس لاکھ روپے رشوت لینے کی خبریں منظر عام پر آنے کے بعد بھرتیاں رد کر دی گئیں۔ ایس آئی بھرتی میں بھی اسی طرح کے الزامات لگ چکے ہیں۔
یو پی میں محکمہ تعلیم کے ایک معمولی کلرک نے کروڑوں روپے کی جائیداد جمع بنا لی ہے۔ انوپم پانڈے نام کے اس شخص پر اپنی بیٹی، بیوی اور سالی کو فرضی طریقے سے نوکری دلانے کی علاوہ کئی افراد سے نوکری دلانے کے نام پر رشوت لینے کا الزام ہے۔ گونڈا کے بی جے پی رکن اسمبلی پریم نارائن پانڈے کی شکایت پر پتہ چلا کہ یہ شخص 688 فرضی اساتذہ بحالی کا ماسٹر مائنڈ ہے۔ اس نے لکھنو سے لے کر گونڈا تک کئی مکانات اور درجنوں مہنگی گاڑیاں خرید رکھی ہیں۔ اس کے علاوہ کئی غیر ملکی دوروں کے سیر سپاٹے پر بھی جا چکا ہے۔ تعلیم کے شعبے میں اس قدر بد عنوانی نوجوانوں کے مستقبل کو برباد کر رہی ہے۔ پڑھے لکھے اہل امیدوار روزگار کے لیے در در بھٹکتے ہیں اور نا اہل رشوت دے کر سرکاری آسامیوں پر قابض ہو جاتے ہیں اور پھر عمر بھر کام چوری کر کے تعلیم و تدریس جیسے مقدس پیشے کو بدنام کرتے ہیں۔
یو پی میں غیر قانونی تبدیلی مذہب حقیقت یا فسانہ؟
اتر پردیش میں چھانگر بابا کے بعد سرکاری ایجنسیاں تبدیلی مذہب کے معاملوں میں خصوصی طور پر سرگرم دکھائی دے رہی ہیں۔ ضلع سدھارتھ نگر میں الفاروق انٹر کالج کے منتظم مولانا شبیر احمد مدنی کو پانچ سال پرانے معاملے میں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا ہے۔ جس سے پورے علاقے میں ہیجان پیدا ہو گیا ہے۔ سماجوادی پارٹی لیڈر اور یو پی اسمبلی کے سابق اسپیکر ماتا پرساد پانڈے نے پولیس کی کارروائی کو نا انصافی اور بھائی چارہ بگاڑنے والا اقدام بتایا ہے۔ واضح رہے کہ الفاروق انٹر کالج کے سابق استاد اکھنڈ پرتاب نے چار سال بعد مولانا پر لالچ دے کر اسلام قبول کرانے کا الزام لگایا ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق شکایت کردہ شخص شاطر اور شرابی ہے۔ اس کے والد نے پانچ سال پہلے ہی اسے اپنی جائیداد سے بے دخل کر دیا تھا۔ اس نے مولانا کو بلیک میل کرنے کے لیے پولیس میں شکایت کی ہے۔
یو پی ‌اے ٹی ایس نے آگرہ میں بھی تبدیلی مذہب کرنے والے ایک گروہ کا پردہ فاش کرنے کا دعویٰ کیا ہے اور اس گروہ کے تار کناڈا سے جوڑ کر کئی نوجوانوں کو گرفتار کر کے جیل بھی بھیج دیا ہے۔
اترپردیش میں تبدیلی مذہب قانون نافذ ہے اس کے باوجود پولیس کو اس طرح کے معاملوں کی بھنک نہیں لگتی! بریلی کے پنڈت کے کے شنکھ دار درجنوں مسلم لڑکیوں کو ہندو بنا کر ان کی شادی غیر مسلم لڑکوں سے کروانے کا دعویٰ کر چکے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کے خلاف پولیس کارروائی نہیں ہوئی۔ اتحاد ملت کونسل کے صدر مولانا توقیر رضا خان نے تبدیلی مذہب کے معاملے میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا "کل کو کوئی میرے خلاف بھی اسی طرح کے الزامات لگا کر جیل بھجوا دے گا۔ دراصل پولیس اس طرح کے معاملوں میں مذہب دیکھ کر کارروائی کرتی ہے۔ بریلی میں حیدری دل کے نام پر کئی نوجوانوں کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا ہے۔ ان پر برقعہ پوش مسلم لڑکیوں کو عوامی مقامات پر روکنے ٹوکنے کا الزام ہے۔ یہ بھگوا لَو ٹریپ سے بچانے کا دعوی کر رہے تھے۔
علی گڑھ کی قدیم مسجد پر ڈی ایم کا متنازعہ حکم
وقف ترمیمی قانون ابھی پوری طریقے سے نافذ بھی نہیں ہوا لیکن اتر پردیش میں اسے پہلے سے ہی عمل میں لانے کی کوششیں شروع ہو گئی ہیں۔ علی گڑہ کے ضلع مجسٹریٹ کے ایک متنازع فیصلے نے وقف بائی یوزر پر اندیشوں کو پھر سے ہوا دے دی ہے۔ دراصل ڈی ایم نے علی گڑھ کے اگلاس میں واقع مغلیہ دور کی قدیم مسجد کو ہٹانے کا حکم دیا ہے۔ کانگریس لیڈر آغا یونس نے اس کی اطلاع دیتے ہوئے بتایا کہ مسجد تقریبا 400 سال پرانی ہے۔ مسجد میں نماز بھی ہو رہی ہے۔ اس کے باوجود بی جے پی رکن اسمبلی کی شہ پر ایک مقامی شخص نے مسجد کو پبلک پراپرٹی بتاتے ہوئے ہائی کورٹ میں عرضی دائر کر دی۔ کورٹ نے ضلع مجسٹریٹ کو فریقین کے دستاویز دیکھ کر فیصلہ کرنے کی ہدایت دی لیکن مسلم فریق کے مطابق ان کے دستاویز دیکھے بغیر ہی ضلع مجسٹریٹ نے مسجد کو ہٹانے کا حکم دے دیا ہے جبکہ سرکاری گزٹ سمیت تمام سرکاری دستاویزوں میں مسجد کا اندراج ہے۔ مسجد کمیٹی نے ضلع مجسٹریٹ کے اس فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست کی ہے۔
ادھر سنبھل جامع مسجد کمیٹی کے صدر ظفر علی کو ہائی کورٹ سے ضمانت مل گئی ہے۔ انہیں پچھلے سال نومبر میں مسجد کے سروے کے بعد ہونے والے پرتشدد واقعات کا ملزم بنا کر گرفتار کیا گیا تھا۔ سماجوادی پارٹی کے مقامی رکن پارلیمان ضیاءالرحمان برق بھی اس میں ملزم بنائے گئے ہیں۔ ظفر علی کی جانب سے کورٹ میں دلیل دی گئی کہ ان کا نام اصل ایف آئی آر میں شامل نہیں تھا، اسے پولیس نے بعد میں شامل کیا گیا ہے۔ پولیس کی جانب سے لگائے گئے الزامات جھوٹے اور من گھڑت ہیں۔ ظفر علی کی ضمانت سے مسجد کے فریق کو تقویت ملنے کی امید ہے۔
نرسنگ کالج کی وائس پرنسپل بن گئی چور!
احمد آباد میں نرسنگ کالج کی وائس پرنسپل جوئے کی لت میں چور بن گئی ہے۔ اس نے اپنا شوق پورا کرنے کے لیے کالج کی تجوری سے آٹھ لاکھ روپے اڑا لیے ہیں۔ برقعہ پہن کر کی گئی چوری کی یہ واردات سی سی ٹی وی کیمرے میں قید ہو گئی۔ پولیس نے فوٹیج کو غور سے دیکھا تو آنکھ کے پاس ایک تل سے وائس پرنسپل کی پہچان ہو گئی۔ وائس پرنسپل نے اپنا جرم قبول کر لیا ہے۔ پولیس نے اس کے گھر سے کچھ نقدی بھی برآمد کر لی ہے۔ آن لائن رمی گیم سماج کے لیے ناسور بنتے جا رہے ہیں۔ بڑے بڑے اداکار اور کھلاڑی اس کی تشہیر کر رہے ہیں جس سے بچوں کے ساتھ بڑوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ احمد آباد کی یہ واردات سماج کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے لیکن سرکار آمدنی کے لالچ میں آنکھیں موندے ہوئے ہے۔
تو صاحبو، یہ تھا شمال کا حال۔ آئندہ ہفتے پھر ملیں گے کچھ تازہ اور دلچسپ احوال کے ساتھ۔ تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر سلا۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 03 جولائی تا 09 اگست 2025