اترپردیش میں مدارس کے قدیم نظام کو تہ و بالا کرنے کی کوشش

کمیٹی میں پولیس اہلکاروں کی شمولیت اور اہل مدارس کو دھمکانے کا عمل غور و فکر کا متقاضی

شہاب فضل، لکھنؤ

سرکاری اسکولوں کو درست کرنے کے بجائے مدارس سے چھیڑ چھاڑ سیاسی ایجنڈے کا حصہ تو نہیں!
مسلم پرسنل لابورڈ کی یوگی آدتیہ ناتھ سے ملاقات اوریوپی کانگریس اقلیتی محکمہ کے سربراہ شاہنوازعالم کا بیان
اترپردیش میں واقع چنندہ مدارس کے سلسلہ میں ریاستی حکومت کی طرف سے جاری کردہ نوٹس پر ان دنوں واویلا مچا ہوا ہے اور متعدد اضلاع میں ضلع مجسٹریٹوں کی جانب سے قائم کی گئی کمیٹیاں معاملے کی جانچ میں مصروف ہیں۔ ان کمیٹیوں میں پولیس والے بھی شامل ہیں جن سے مدارس کے ذمہ داروں میں بے چینی ہے۔ یہ معاملہ اس لیے بھی سرخیوں میں ہے کیوں کہ گزشتہ 22 مارچ 2024 کو الٰہ آباد ہائی کورٹ کی یک رکنی بنچ نے اترپردیش بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ 2004 کو غیرآئینی قرار دے کر مدارس کے طلباء و طالبات کو’ بیسک شکشا پریشد، ہائی اسکول یا انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن بورڈ ‘کے اسکولوں میں داخل کروانے کا حکم دیا تھا۔ کورٹ نے مزید کہا تھا کہ مدرسہ ایکٹ ، سیکولرزم کے اصولوں اور آئین ہند کی دفعات 14، 21 اور 21 اے کے خلاف ہے ۔
ہائی کورٹ کے اس حکم کو متاثرہ فریقوں بشمول آل انڈیا ٹیچرز ایسوسی ایشن مدارس عربیہ نے سپریم کورٹ میں اسپیشل لیو پٹیشن داخل کرکے چیلنج کیا۔ عدالت عظمیٰ نے مثبت رخ اختیار کرتے ہوئے عرضی کو سماعت کے لیے قبول کرلیا اور ہائی کورٹ کے حکم پر فوری طور سے روک لگادی جس پر مدارس کے ذمہ داروں نے راحت کی سانس لی۔
5 اپریل کو سپریم کورٹ سے یہ راحت بھری خبر آئی تھی ۔اس معاملہ پر اگلے چند دنوں میں ہی سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آنے والا ہے جس سے صورت حال مزید واضح ہوگی، تاہم اترپردیش کے چیف سکریٹری کی جانب سے 26 جون 2024 کو جاری کردہ سرکولر بے چینی کا باعث بنا ہے جو ریاست میں غیرتسلیم شدہ مدارس کی جانچ اور راشٹریہ بال ادھیکار سنرکشن آیوگ ؍ نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس (این سی پی سی آر) نئی دہلی کی ایک ہدایت کی روشنی میں سبھی مدارس میں زیر تعلیم مسلم اور ہندو بچوں کی فہرست سازی اور انہیں اسکولوں میں داخل کرنے سے متعلق ہے۔
یوپی کے تقریباً ہر ضلع میں ضلع مجسٹریٹ کے حکم سے جو کمیٹی بنائی گئی ہے اس میں ایس ڈی ایم، بیسک شکشا ادھیکاری (بی ایس اے) ضلع اقلیتی بہبود افسر اور سرکل افسر (پولیس) کو شامل کیا گیا ہے ۔اس چار رکنی کمیٹی کو امداد یافتہ تسلیم شدہ مدرسوں میں زیر تعلیم ہندو بچوں کو وہاں سے نکالنے اور غیرتسلیم شدہ مدرسوں میں زیر تعلیم سبھی بچوں کو نکال کر رسمی تعلیم دینے کے لیے بیسک شکشا پریشد کے اسکولوں میں داخل کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ ضلع حکام کو اپنی پیش رفت رپورٹ ، ڈائرکٹر اقلیتی بہبود اور چیف سکریٹری کو ارسال کرنے کی ہدایت دی گئی ہے ۔
مدرسہ کے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں منتقلی کا فرمان کہیں توہین عدالت تو نہیں!
اس سلسلہ میں آل انڈیا ٹیچرز ایسوسی ایشن مدارس عربیہ کے ایک ذمہ دار نے کہا کہ سپریم کورٹ نے حالانکہ پانچ اپریل کو اپنے حکم امتناعی میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگادی، پھر بھی این سی پی سی آر کے حکم کی آڑ میں پورے یو پی میں مدارس کے خلاف جانچ کا عمل جاری ہے ۔ انہوں نے کہا ’’سپریم کورٹ نے اپنے حکم امتناعی میں یہ ذکر کیا ہے کہ یو پی میں مدرسے کم از کم 120 سال سے قائم ہیں اور اس وقت تقریباً 17 لاکھ بچے مدارس میں پڑھتے ہیں جنہیں سرکاری اسکولوں میں منتقل کرنے کا فیصلہ بلاجواز ہے۔ اس کے باوجود چیف سکریٹری یو پی نے تمام اضلاع کو ایک ایسا ہدایت نامہ بھیجا جو توہین عدالت کے دائرہ میں آتا ہے‘‘ ۔
وزیر اعلیٰ اترپردیش سےمسلم پرسنل لا بورڈ کے وفد کی ملاقات
اس پورے معاملہ میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ایک وفد نے گزشتہ 30 جولائی کو وزیر اعلیٰ یو پی یوگی آدتیہ ناتھ سے لکھنؤ میں ان کی قیام گاہ پر ملاقات کی اور انہیں ایک عرضداشت سونپی۔ بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر قاسم رسول الیاس نے بتایا کہ بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا فضل الرحیم مجددی کی قیادت میں یہ ملاقات کی گئی۔
انھوں نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ پر یہ واضح کیا گیا کہ ’’مانیتا‘‘ اور غیر مانیتا یعنی مدرسے کے تسلیم شدہ اور غیر تسلیم شدہ ہونے کی اصطلاح غلط ہے۔ کئی مدرسے ایسے ہیں جو برسوں سے قائم ہیں، ان میں دارالعلوم دیوبند، دارالعلوم ندوۃ العلماء، مدرسۃ الاصلاح، جامعۃ الفلاح، جامعہ اشرفیہ، جامعہ سلفیہ، جامعۃ الصالحات جیسے بین الاقوامی شہرت کے حامل مدرسے شامل ہیں۔ دوسری بات یہ کہ ان مدارس سے تعلیم یافتہ مدرسوں کا مستقبل تابناک رہتا ہے۔ وہ اعلیٰ تعلیم کی طرف بھی جاتے ہیں اور ملک و بیرون ملک کی یونیورسٹیوں سے اعلیٰ ڈگریاں حاصل کرتے ہیں۔ لکھنؤ یونیورسٹی، جواہر لال نہرو یونیورسٹی، بنارس ہندو یونیورسٹی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی سمیت ایسی بیشتر یونیورسٹیاں ہیں جہاں سے وہ انڈر گریجویشن، ماسٹرز اور ریسرچ کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ یہی نہیں، مدارس سے فارغ التحصیل افراد مصر، سعودی عرب، یو کے، امریکہ، ملیشیا، انڈونیشیا، برونئی،مراقش وغیرہ کی یونیورسٹیوں میں بھی جاکر مزید پڑھائی یا ریسرچ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بیرون ملک کے طلباء بھی حصول تعلیم کے لیے بھارت کے مدارس میں آتے ہیں۔ ان مدارس سے فارغ کئی افراد حکومت ہند میں کے کئی بڑے مناصب پر فائز ہیں اور ملک کے سفیر بھی مقرر ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر الیاس نے بتایا کہ یو پ میں ایسے 8449 مدرسے ہیں جنہیں غیر تسلیم شدہ بتایا جارہا ہے اور چیف سکریٹری کے سرکولر کے بعد سے ضلعی انتظامیہ ہر ضلع میں موجود مدارس کو انتباہ دے رہی ہے کہ وہ مدارس کے بچوں کو ابتدائی تعلیم کے لیے اسکولوں میں داخل کروائیں۔ سدھارتھ نگر، کشتی نگر، سنت کبیر نگر، بہرائچ اور علی گڑھ وغیرہ میں مدارس کے خلاف ضلعی انتظامیہ نے کارروائی بھی شروع کر دی ہے۔
مسلم پرسنل لا بورڈ کے وفد نے وزیر اعلیٰ سے کہا کہ ان مدارس کو غیر منظور شدہ اس بنیاد پر کہا جارہا ہے کہ وہ مدرسہ بورڈ سے ملحق نہیں ہیں، حالانکہ یہ مدارس کسی نہ کسی ٹرسٹ یا سوسائٹی کے تحت برسوں سے قائم ہیں اور ان مدارس میں دینی تعلیم کے ساتھ عصری علوم بھی پڑھائے جاتے ہیں۔ بورڈ کے وفد نے واضح کیا کہ چیف سکریٹری کی طرف سے جاری یہ حکم نامہ ملک کے آئین کی دفعات 29، 28، 26، 21، 14،اور 30 سے متصادم ہے۔ ملک کے آئین نے اقلیتوں کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ نہ صرف اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کر سکتے ہیں بلکہ اس کا انتظام وانصرام بھی اپنی مرضی کے مطابق کر سکتے ہیں۔ اسی طرح رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ 2009 نے بھی مدارس اور پاٹھ شالاؤں کو ایکٹ سے مستثنیٰ کر رکھا ہے۔ بورڈ نے وزیر اعلی سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر اس حکمنامہ کو واپس لینے کے احکامات جاری کریں تاکہ ریاست کے مسلمانوں میں جو بے چینی پیدا ہوگئی ہے اس کا مداوا ہو سکے۔
آئین ہند کے شقوں کی خلاف ورزی
وفد کے قائد مولانا فضل الرحیم مجددی نے وزیر اعلیٰ یو پی سے ہونے والی گفتگو کو بہت امید افزا قرار دیتے ہوئے کہاکہ زمینی حقائق جدا ہیں اور سیاسی ایجنڈا مختلف ہے ۔انہوں نے کہاکہ بیشتر مدارس میں دینی علوم کے ساتھ عصری علوم بھی پڑھائے جاتے ہیں اور مدرسہ کے بچوں کو مین اسٹریم یا مکھیہ دھارا میں لانے کا نعرہ ایک خوش کن مگر گمراہ کن نعرہ ہے ۔
انہوں نے مدارس کی شناخت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کو ناقابل برداشت اور آئین ہند میں دیے گئے حقوق کی سنگین خلاف ورزی سے تعبیر کیا ۔انہوں نے کہا کہ یو پی میں کئی جگہوں پر ضلعی انتظامیہ، مدارس میں زیر تعلیم غیر مسلم طلباء کو نکال کر سرکاری اسکولوں میں منتقل کررہی ہے جو فرد کے ذاتی اختیار کے حق پر حملہ ہے۔ مسلم طلباء پر بھی دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ آرٹی ای ایکٹ کے مطابق بنیادی تعلیم حاصل کریں اور مدارس انتظامیہ کو انتباہ دیا جارہا ہے کہ ایسا نہ کرنے پر ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ اسی طرح مدھیہ پردیش میں مدارس کے بچوں کو روزانہ ہاتھ جوڑ کر سرسوتی وندنا پڑھنے پر مجبور کیا جارہا ہے جو ایک متعصبانہ عمل اور مسلم شناخت پر حملہ ہے۔مولانا مجددی نے کہاکہ آر ٹی ای ایکٹ کے دائرہ سے مدارس مستثنیٰ ہیں، چنانچہ اس طرح کا اقدام مدارس کے اس قدیم اور مستحکم نظام میں انتشار پیدا کرنے کی ایک ناروا کوشش ہے جس سے لاکھوں بچوں کا نقصان ہوگا ۔
مسلم بچوں کے دینی و تعلیمی کے حق پر حملہ
دینی تعلیمی کونسل یو پی کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر مسعودالحسن عثمانی نے سوال کیا کہ حکومت جب مدارس کو بند کرکے بچوں کو اسکولوں میں بھیجنا چاہتی ہے تو پھر مسلم بچوں کی دینی تعلیم کا بندوبست کیسے ہوگا، جس کا حق آئین ہند فراہم کرتا ہے؟ انہوں نے کہاکہ کسی بھی کمیونٹی کی ثقافتی، لسانی اور مذہبی شناخت کی گارنٹی آئین ہند کی متعدد دفعات میں واضح لفظوں میں دی گئی ہے، اس اعتبار سے حکومت اترپردیش کی پوری کارروائی غیرآئینی، غیرقانونی اور غیرجمہوری ہے۔
ڈاکٹر عثمانی نے کہاکہ یو پی میں بنیادی تعلیم کا نظام پوری طرح سے فیل ہوگیا ہے۔ ان اسکولوں میں اردو کی بھی تعلیم کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔ بچوں کو انہیں اسکولوں کے سپرد کیا جارہاہے، جس سے آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ حکومت کا مقصد کیا ہے۔ اضلاع سے ایسی اطلاعات موصول ہورہی ہیں کہ پولیس کے اہلکار مدارس میں آکر منتظمہ کے لوگوں کو ڈرا دھمکا رہے ہیں۔انہوں نے مزید کہاکہ یو پی میں اسکولوں اور مدرسوں کی مانیتا یعنی منظوری پر عملی طور سے پابندی لگی ہوئی ہے۔ ایک طرف منظوری نہیں مل رہی ہے تو دوسری طرف عدم منظوری کا بہانہ بناکر مدرسوں کو بند کرنے کا حکم دیا جارہا ہے۔
ڈاکٹر مسعودالحسن عثمانی نے کہا کہ بھارت میں مدارس و مکاتب کے قیام کی تحریک بہت پرانی ہے۔ ترکی میں جب خلافت ختم ہوئی تو وہاں بھی مکاتب کے قیام کی تحریک چلی۔ قابل ذکر ہے کہ اترپردیش میں دینی تعلیمی کونسل کا قیام 1959ء میں عمل میں آیا اور اس کے پس پشت خاص کر مسلم بچوں کی دینی و لسانی تعلیم کا انتظام کرنے کے لیے مکاتب قائم کرنے کا مقصد ہی کارفرما تھا۔
مجاہد آزادی قاضی عدیل عباسی کی تحریک پر مشرقی یو پی کے ضلع بستی میں 31 دسمبر 1959ء کو ایک کانفرنس ہوئی جس میں دینی تعلیمی کونسل کا قیام عمل میں آیا، مولانا ابوالحسن علی ندوی صدر اور قاضی عدیل عباسی جو 1937ء سے 1956ء تک تین دفعہ اترپردیش کی مقننہ کے رکن رہے، اس کے جنرل سکریٹری مقرر ہوئے ۔دینی تعلیمی کونسل کا دفتر 1960ء میں لکھنؤ منتقل ہوا اور اس کے تحت خاص طور سے مشرقی یو پی میں جگہ جگہ مکاتب قائم کیے گئے جن میں درجہ پانچ تک تعلیم دی جاتی ہے۔
چیف سکریٹری، اترپردیش کے 26 جون کے سرکولر کا جمعیۃ علماء ہند نے بھی نوٹس لیا ہے اور چیف سکریٹری کو ایک احتجاجی عرضداشت ارسال کی ہے ۔جمعیۃ علماء کے سکریٹری ایڈووکیٹ نیاز احمد فاروقی نے کہاکہ اس پورے معاملے پر ہماری نظر ہے، ابھی کسی بڑے مدرسہ کو نوٹس نہیں دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ مدارس آر ٹی ای ایکٹ سے مستثنیٰ ہیں ۔چیف سکریٹری کا سرکولر غلط ہے، اس میں بہت ابہام ہے اور مکتب، مدرسہ اور جامعہ کے فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہاکہ جو باقاعدہ مدرسے ہیں ان پر قدغن کی کسی بھی کوشش کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
کارروائی، سیاسی ایجنڈے کا حصہ!
اس پورے معاملہ میں جب یو پی کانگریس کے اقلیتی محکمہ کے سربراہ مسٹر شاہنواز سے بات کی گئی تو انہوں نے چیف سکریٹری کے سرکولر اور حکومت کے آرڈر کو سیاسی ایجنڈے سے جنم لینے والی متعصبانہ کارروائی قرار دیا۔ انہوں نے نشاندہی کرتے ہوئے کہاکہ ہندو بچوں کو مدرسوں سے نکالنے کا حکم دیا جارہا ہے جو مسلم ہندو ایکتا یا ایک دوسرے کے رابطہ میں آنے سے روکنے کی کوشش ہے۔ اسی طرح جانچ کمیٹی میں پولیس اہلکار کو شامل کرنا مدرسوں کے منتظمین کو ڈرانے دھمکانے کی ہی ایک کوشش ہے ۔ انہوں نے کہاکہ مختلف مذاہب کے بچوں کے ایک ساتھ پڑھنے سے مل جل کر رہنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور ایک دوسرے کو جاننے سمجھنے کا بھی موقع ملتا ہے ۔
شاہنوازعالم نے کہاکہ بی جے پی کے لوگ یہی چاہتے ہیں کہ ملک کا سیکولر تانا بانا منتشر ہوجائے، یہ ایک سیاسی ایجنڈا ہے ۔انہوں نے کہاکہ وزیر اعلیٰ کو یو پی میں بیسک تعلیم کا نظام درست کرنا چاہیے جو چوپٹ ہوتا جا رہا ہے۔ اس طرف توجہ دینے کے بجائے ایسے کام کیے جارہے ہیں جس سے عوام کا دھیان بھٹکے۔ انہوں نے مزید کہاکہ مدرسہ کو حکومت کریمنل نظریہ سے دیکھ رہی ہے۔ اس کا مقصد خیرخواہی کے بجائے انہیں پریشان کرنا اور بنیادی حق کو کچلنا ہے ۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 اگست تا 17 اگست 2024