
!اتر پردیش میں مدارس اور مساجد حکومت کے نشانے پر
سرکاری زمین پر تعمیر اور حکومتی منظوری کے بہانے انہدامی کارروائیاں ایک سنگین مسئلہ
شہاب فضل، لکھنؤ
ملّی تنظیموں اور عوامی اداروں کو آگے آکر ٹھوس حکمت عملی وضع کرنا ہوگا
اتر پردیش میں گزشتہ کچھ مہینوں سے مدرسے اور مسجدیں ریاستی حکومت اور انتظامیہ کے نشانے پر ہیں۔ چناں چہ حال ہی میں نیپال کی سرحد کے قریب ضلع سدھارتھ نگر کی شہرت گڑھ تحصیل کے ایک گاؤں سسوا شیو بھاری میں تقریباً 65 سالہ قدیم مسجد اور اس سے متصل مدرسہ کو ایس ڈی ایم اور پولیس سرکل افسر پر مشتمل سرکاری لاؤ لشکر کی نگرانی میں منہدم کر دیا گیا۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ زمین سرکاری پر غیر قانونی طریقہ سے مسجد تعمیر کی گئی تھی۔ آس پاس کے چار مواضعات میں بھی اسی طرح سے زمینوں کو سرکاری بتا کر مدرسوں کو منہدم کیا گیا ہے۔ ریاست کے دیگر اضلاع بہرائچ، شراوستی، کشی نگر، مہراج گنج وغیرہ میں بھی اس طرح کی کارروائیاں عمل میں لائی گئی ہیں۔ اتراکھنڈ، ہماچل پردیش اور بی جے پی اتحاد کی حکومت والی کچھ دیگر ریاستوں سے مدارس و مساجد کے خلاف کارروائیوں کی مسلسل اطلاعات آرہی ہیں۔
اگر اتر پردیش کی بات کی جائے تو اکیلے ضلع سدھارتھ نگر میں ہی 528 مدرسوں کو نوٹسیں موصول ہوئی ہیں کہ یہ مدرسے حکومت سے منظور شدہ نہیں ہیں۔ یہاں ہر مدرسہ کے تعلق سے ابھی زمین کا مسئلہ نہیں اٹھا ہے مگر معاملے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اتر پردیش میں سال 17- 2016 سے مدرسوں کی منظوری کا عمل معطل ہے، یعنی ایک بھی مدرسہ کو سرکاری ریاستی مدرسہ تعلیمی بورڈ نے منظوری نہیں دی ہے۔ جو مدرسے منظور شدہ ہیں انہیں ہر پانچ سال میں اپنی منظوری کی تجدید کروانی پڑتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب منظوری ہی نہیں دی جا رہی ہے تو پھر ان کی تجدید کیسے ہوگی! یہی وجہ ہے کہ تقریباً ہر ضلع میں مدرسوں کو ایسی نوٹسیں تھمائی جارہی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ایسے تمام مدرسوں کو کہیں سرکاری زمین کے نام پر تو کہیں منظوری نہ ہونے کے نام پر حکومتی اہلکاروں کے عتاب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ان کے وجود پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں۔
اس معاملے میں کسی ملّی تنظیم کی جانب سے ابھی تک کوئی واضح کارروائی سامنے نہیں آئی ہے جس کی وجہ سے مدرسہ کے منتظمین اور مساجد کمیٹیوں کے ذمہ داران خود کو لاچار و بے بس محسوس کر رہے ہیں۔
ریوینیو ریکارڈوں میں ہیر پھیر اور حکام کا عدم تعاون کا رویہ
شہرت گڑھ والے معاملے میں مسجد انتظامیہ کمیٹی کے پاس موجود دستاویزات کے مطابق صوبیدار نامی ایک شخص کی نجی زمین پر یہ مسجد تقسیم ہند سے کچھ قبل یا بعد کے ایام میں تعمیر کی گئی تھی۔ اس کے چار پانچ سال بعد مسجد سے متصل ایک کمرے میں بچوں کو قرآن پڑھانے یا ناظرہ کے لیے کسی حافظ قرآن کو رکھ لیا گیا اور اس طرح سے مکتب و مدرسہ کی بنیاد پڑ گئی۔
مدرسہ انتظامیہ کمیٹی سے وابستہ ایک ذمہ دار نے اس سلسلہ میں بتایا کہ 1357 کی فصلی یعنی سن 1952 کے ریونیو ریکارڈوں میں مدرسہ اور مسجد کی زمین گاؤں کے صوبیدار نامی ایک شخص کے نام پر درج ہے۔ بعد کے ریونیو ریکارڈ میں یہ زمین بنجر کے طور پر درج کی گئی ہے اور اس پر مسجد تعمیر ہونے کا ذکر ہے۔ تحصیل کے عملہ نے یہ زمین صوبیدار کے نام سے ہٹاکر بنجر کیسے اور کیوں درج کی یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ ریونیو حکام اس پر خاموش ہیں۔
مدرسہ اور مسجد کو منہدم کرنے کی کارروائی بھی بہت تیزی کے ساتھ کی گئی اور انتظامیہ کمیٹی کے بقول مقامی سرکاری حکام نے ان کی بات نہیں سنی۔ حالانکہ سن 2023 میں اس مسجد و مدرسہ کو 67 اے کی ایک نوٹس مل چکی تھی مگر انتظامیہ کمیٹی کے لوگ معاملے کی سنگینی کا احساس نہیں کر سکے اور آخرکار جب 30 مئی 2025 کو تحصیل کی ریونیو کورٹ سے یہ فیصلہ آگیا کہ مسجد و مدرسہ، بنجر یعنی سرکاری زمین پر تعمیر کیے گئے ہیں اور انہیں مہر بند کر دیا گیا تب کمیٹی کے اراکین نے ریونیو کورٹ میں نظر ثانی کی اپیل داخل کی اور ساتھ ہی آگے کی قانونی کارروائی کے لیے کاغذات کی گہرائی سے تلاش میں لگ گئے۔ اس درمیان سرکاری اہلکار، کمیٹی کے ذمہ داروں پر یہ دباؤ ڈالتے رہے کہ وہ خود اپنے ہاتھوں سے مسجد و مدرسہ کو منہدم کردیں مگر کوئی اس پر تیار نہ ہوا۔ چنانچہ گزشتہ 11 جون کو سرکاری اہلکاروں نے مسجد و مدرسہ کو ملا کر منہدم کر دیا۔ انہدام سے قبل کمیٹی کے ذمہ داروں کی جانب سے ریونیو کورٹ میں داخل کی گئی نظر ثانی کی اپیل پر کوئی سماعت نہیں کی گئی۔ اس کے علاوہ ریونیو قانون کی دفعہ 101 کے تحت اس زمین کے بدلے دوسری زمین کو سرکاری کھاتے میں درج کرنے کی پیشکش کو بھی نظر انداز کر دیا۔
کمیٹی نے اس سلسلہ میں الٰہ آباد ہائی کورٹ میں پٹیشن داخل کی ہے جس پر ابھی تک کوئی سماعت نہیں ہوئی ہے۔ پٹیشن میں یہ استدعا کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ نے ابھی حال ہی میں یہ فیصلہ دیا ہے کہ ملک میں مسلم اقلیت کو دینی تعلیم کے لیے اپنے ادارے قائم کرنے اور انہیں چلانے کا اختیار حاصل ہے اور انہیں اس سے روکا نہیں جاسکتا۔ کمیٹی نے یہ بھی دلیل دی ہے کہ اگر ایسی کسی زمین پر مسجد یا مدرسہ تعمیر ہے جو ریونیو ریکارڈ میں سرکاری زمین کے طور پر درج ہے تو اس کے بدلے دوسری زمین لی جاسکتی ہے مگر اس پر بھی حکام نے انہیں کوئی راحت نہیں دی۔
غیر منظور شدہ مدارس و مکاتب کو درپیش مشکلات
کیا یہ سمجھا جائے کہ اتر پردیش میں غیر منظور شدہ مدارس و مکاتب کے وجود کو خطرات لاحق ہیں؟ چونکہ ملی تنظیموں کی جانب سے ابھی اس سلسلہ میں کوئی ٹھوس حکمت عملی نہیں وضع کی گئی ہے اور ابھی چند میٹنگوں پر ہی اکتفا کیا گیا ہے اس لیے دور افتادہ علاقوں میں مدرسہ کمیٹیوں کے ذمہ داروں کے سامنے نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن والی کیفیت ہے اور وجود کے سوالات فضا میں گردش کر رہے ہیں۔ زیادہ تر معاملات میں سرکاری حکام پہلے ذمہ داروں پر خود سے ہی مدرسہ کو بند کرنے یا عمارت کو منہدم کرنے کا دباؤ ڈالتے ہیں اور جب یہ لوگ انکار کرتے ہیں تو انہیں نوٹسیں تھمائی جاتی ہیں، جو اقلیتی بہبود افسر یا تحصیل عملہ یا دونوں کی جانب سے ہوسکتی ہیں۔ اس میں پولیس بھی ساتھ ہوتی ہے جس کی وجہ سے لوگوں میں ڈر پیدا ہوتا ہے۔ کُل ملا کر ماحول ایسا پیدا کر دیا جاتا ہے کہ ذمہ دار خود ہی ہمت ہار کر بیٹھ جائیں اور کسی بھی قسم کی قانونی چارہ جوئی سے دور رہنے میں ہی عافیت سمجھنے لگیں۔
اس پورے معاملے پر ملّی تنظیموں کو غور و فکر کرنا چاہیے اور مشق ستم بنائے گئے مدرسوں اور مساجد کا سروے کرکے اور ان کے ذمہ داروں سے ملاقات کرکے معاملات کو سمجھنا چاہیے اور کوئی ٹھوس حکمت عملی وضع کرنا چاہیے۔ادھر شمالی ہند میں مدارس کی جانب سے ابتدائی درجات یعنی درجہ ہشتم تک کی تعلیم کو سرکاری نظام سے مربوط کرنے کی ٹھوس کوششیں بھی نہیں کی گئیں جس کی وجہ سے بھی معاملات بگڑتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مدرسہ یا مسجد کی زمین کے قانونی دستاویزات موجود ہوں یعنی زمین کی باضابطہ رجسٹری ہو اور مدرسہ کی محکمہ اقلیتی بہبود یا محکمہ بنیادی تعلیم سے منظوری لی جائے۔ تاہم، اس بات کو بھی سمجھنا ہوگا کہ جہاں کہیں ہراسانی کا معاملہ ہو تو وہاں قانونی چارہ جوئی کی اپنی اہمیت ہے جس سے نہ صرف انصاف کے حصول کی آس بندھتی ہے بلکہ متاثرہ لوگوں میں معاملہ فہمی اور قانونی نزاکتوں کی سمجھ بھی پیدا ہوتی ہے۔ یہ بے چارگی کے احساس کو کم کرنے اور حوصلہ بلند رکھنے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔
یہ بات بھی ملحوظ خاطر رکھنی چاہیے کہ ملک میں قومی تعلیمی پالیسی 2020 متعارف ہونے کے بعد اسکول یا کسی دیگر تعلیمی ادارے سے ابتدائی درجات سے ہی طلبہ کے لیے آٹومیٹیڈ پرمننٹ اکیڈمک اکاؤنٹ رجسٹری یا آپار آئی ڈی اور پرماننٹ ایجوکیشن نمبر (پین) کا نظام متعارف کرایا گیا ہے۔ آپار آئی ڈی طالب علم کی ایک منفرد آئی ڈی ہوتی ہے جو آدھار کی طرح پوری تعلیمی زندگی میں ایک ہی رہے گی اور ہر ادارے میں بطور شناخت استعمال ہوگی۔ اسے طالب علم کے اکیڈمک بینک آف کریڈٹ سے بھی منسلک کیا گیا ہے۔ چونکہ آپار اور پین آئی ڈی منظور شدہ ادارے ہی بنا سکتے ہیں اس لیے مدرسہ کی تعلیم کو سرکاری تعلیمی نظام سے کیسے مربوط کیا جائے اس پر بھی غور و فکر کی ضرورت ہے تاکہ مدرسہ سے تعلیم یافتہ طلبہ کو عصری تعلیمی اداروں سے جڑنے میں دشواریاں پیش نہ آئیں اور ان کے اندر بیگانگی کا احساس پیدا نہ ہو۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 جون تا 05 جولائی 2025