اتراکھنڈ میں مسلم شناخت والے 17مقامات کے نام تبدیل

دہرادون کے میاں والا کو رام جی والا کا نام دینے پر راجپوت برادری کا سخت احتجاج

دہرادون: (دعوت نیوز ڈیسک)

اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی نے ریاست کے چار اضلاع میں 17 ایسے مقامات کے نام تبدیل کر دیے ہیں جو مسلم شناخت کے حامل سمجھے جاتے تھے۔ اس اقدام کو ہندوستانی ثقافت اور ورثے کے احترام کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے اور یہ تبدیلی بھی مسلمانوں کے تہوار عیدالفطر کے موقع پر کی گئی ہے جس سے ایک نئی بحث نے جنم لیا ہے۔
دھامی کے مطابق ان مقامات کے ناموں میں تبدیلی کا مقصد خطے کی ’’تاریخی اور ثقافتی‘‘ جڑوں کو اجاگر کرنا ہے۔ ریاستی حکومت کے اس فیصلے کی ایک طرف حمایت کی جا رہی ہے تو دوسری طرف تنقید بھی کی جا رہی ہے، اور یہ اقدام ثقافتی اثرات کے حوالے سے ایک وسیع بحث کو جنم دے رہا ہے۔
ایک خبر رساں ویب سائٹ کے مطابق تبدیل شدہ مقامات ہریدوار، دہرادون، نینی تال اور اُدھم سنگھ نگر کے اضلاع میں واقع ہیں۔ ان میں نمایاں ترین تبدیلیاں یہ ہیں: اورنگ زیب پور کو شیواجی نگر، غازی والی کو آریہ نگر، خان پور کو شری کرشنا پور اور خان پور کرسالی کو امبیڈکر نگر کا نام دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں، دہرادون کے میاں والا کو اب رام جی والا کہا جائے گا جبکہ چند پور خورد کا نیا نام پرتھوی راج نگر ہوگا۔ نینی تال کی نوابی روڈ کو اٹل روڈ اور پانچکّی مارگ کو گرو گولوالکر مارگ کا نام دیا گیا ہے جو آر ایس ایس کے دوسرے سربراہ تھے۔
وزیر اعلیٰ دھامی نے اپنے بیان میں وضاحت کی کہ یہ تبدیلیاں ’’عوام کی خواہش‘‘ کے مطابق کی گئی ہیں اور یہ ہندوستان کے ثقافتی ورثے سے ہم آہنگ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا ’’یہ اقدامات ان عظیم شخصیات کے احترام میں کیے گئے ہیں جنہوں نے ہندوستان کی شاندار تاریخ اور ثقافت کو محفوظ رکھنے میں کردار ادا کیا ہے‘‘
یہ ناموں کی تبدیلی کا عمل ایک وسیع تر رجحان کا حصہ ہے جو دھامی کے ہندوتوا ایجنڈے کے مطابق ہے، جو 2021 میں وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد سے واضح طور پر نظر آ رہا ہے۔ ان کی پالیسیوں میں یکساں سول کوڈ (UCC) کا نفاذ، مدارس کے خلاف اقدامات اور ریاست میں ’’غلامی کی آخری باقیات‘‘ کے خاتمے کی مہم شامل ہے۔
بی جے پی نے اس اقدام کی ستائش کرتے ہوئے اسے ریاست کی تاریخی شناخت کی بحالی کی ایک ضروری کوشش قرار دیا ہے۔ بی جے پی کے آئی ٹی سیل کے سربراہ امیت مالویہ نے سوشل میڈیا پر لکھا ’’یہ نئے نام عوامی جذبات کی عکاسی کرتے ہیں اور ہندوستان کے ثقافتی و تاریخی ورثے کو برقرار رکھنے کی کوشش ہیں۔ اس اقدام کا مقصد ان عظیم شخصیات کو خراج تحسین پیش کرنا ہے جنہوں نے آنے والی نسلوں کو تحریک دی۔‘‘
تاہم، اس فیصلے کو سخت تنقید کا بھی سامنا ہے۔ خاص طور پر دہرادون کے میاں والا گاؤں کے نام کی تبدیلی پر شدید اعتراضات سامنے آئے ہیں۔ یہ گاؤں مشہور راجپوت ’’میاں‘‘ قبیلے سے منسوب تھا، اور اس کا کوئی تعلق مسلم ثقافت سے نہیں تھا۔ راجپوت برادری، بالخصوص میاں قبیلے کے وارثین نے اس تبدیلی کی سخت مخالفت کی ہے اور اسے تاریخی و ثقافتی حقیقت کو نظر انداز کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔
سینئر صحافی جے سنگھ راوت نے اس معاملے پر زیادہ محتاط رویہ اپنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا ’’میاں ایک معزز راجپوت قبیلہ ہے جو اپنی عسکری بہادری کے لیے جانا جاتا ہے۔ میاں والا کا نام ان کی تاریخ سے وابستہ ہے نہ کہ کسی مسلم پس منظر سے؟ بی جے پی-آر ایس ایس کے پالیسی سازوں کو چاہیے کہ وہ مقامی تاریخ کا مطالعہ کریں پھر ایسے اقدامات کریں۔‘‘
یہ ناموں کی تبدیلی کا معاملہ اتراکھنڈ میں دھامی کی قیادت میں ہونے والی وسیع تر ثقافتی اور سیاسی تبدیلیوں کی عکاسی کرتا ہے۔ ریاست میں ورثے، مذہب اور شناخت کے حوالے سے بدلتے ہوئے رجحانات کے درمیان یہ تنازعہ، خاص طور پر میاں والا کی تبدیلی اس امر کو اجاگر کرتا ہے کہ ہندوستان جیسے کثیر الجہتی اور متنوع معاشرے میں تاریخی بیانیوں کی بازیافت کس قدر پیچیدہ معاملہ ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 اپریل تا 19 اپریل 2025