اتر اکھنڈ کے گاؤں دھرالی میں دردناک حادثہ، پہاڑی نالے میں اچانک آنے والی طغیانی سے پورا گاؤں سیلاب کی نذر

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طلبہ کا احتجاج، مظاہرے کے دوران پراکٹر آفس کی بدسلوکی سے علیگ برادری میں ناراضگی

محمد ارشد ادیب

یو پی کے وزیراعلی نے بدیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیل کی اور ا سے دہشت گردی و تبدیلی مذہب سے جوڑدیا
جموں و کشمیر میں 25 کتابوں پر پابندی، کانگریس نے کیا اس تانا شاہی فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ
اعظم گڑھ میں مثالی سرکاری اسکول، مسلم پردھان کی کاوشوں کا نتیجہ ۔ داخلہ لینے کے لئے طلبہ قطار میں
شمالی ہند میں مانسونی بارشوں کے سبب تباہی کا سلسلہ جاری ہے، اتر اکھنڈ اور ہماچل پردیش کے پہاڑی علاقوں میں بادل پھٹنے، زمین کھسکنے اور مٹی کے تودے گرنے سے متعدد حادثے رونما ہو چکے ہیں۔ گنگا جمنی کے میدانی علاقوں میں بھی سیلاب کی صورتحال مزید ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ یو پی سے لے کر بہار اور بنگال تک لاکھوں ایکڑ اراضی زیر اب ہو چکی ہے، فصلیں برباد ہو گئی ہیں اور سیلاب سے متاثر افراد محفوظ مقامات پر منتقل کر دیے گئے ہیں۔ دوسری طرف دارالحکومت دلی میں بھی سیاسی طوفان برپا ہے، اپوزیشن جماعتیں پارلیمنٹ کے رواں مانسون اجلاس میں بہار کی ووٹر لسٹوں میں الٹ پھیر کے معاملے میں بحث پر بضد ہیں۔ کانگریس رہنما و اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے ووٹوں کی چوری کا الزام لگا کر سیاسی گلیاروں میں طوفان برپا کر دیا ہے۔ کانگریس صدر ملکارجن کھرگے نے انتخابی بدعنوانیوں سے جمہوریت کو لاحق خطرات سے آگاہ کرتے ہوئے ملک گیر سطح پر احتجاجی تحریک چھیڑنے کا اعلان کر دیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے ہے راہل گاندھی کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی تیاری شروع کر دی ہے۔ ان سے شکایتوں پر حلفی بیان دینے یا ملک سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
دھرالی گاؤں میں بادل پھٹنے کا دردناک حادثہ، عوام کی ناراضگی
پہاڑی نالے میں اچانک آنے والی طغیانی سے اتر اکھنڈ کے ضلع اترکاشی میں واقع گاؤں دھرالی سیلاب میں بہہ گیا ہے۔ اس دردناک حادثے کے بعد درجنوں افراد لاپتہ ہو گئے ہیں پورا گاؤں ملبے میں دفن ہو چکا ہے۔ تین منزلہ عمارتیں تک ملبے کے اندر دبی ہوئی ہیں۔ یہ گاؤں سیاحتی علاقے ہرشل کے قریب واقع ہے اسی لیے یہاں پر بڑی تعداد میں ہوٹل اور ریسٹورنٹ کھل گئے تھے۔ حادثے میں مقامی باشندوں کے علاوہ سیاحوں کی ہلاکت کا بھی خدشہ ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ گاؤں ہمالیہ پہاڑ کی فالٹ لائن پر واقع تھا۔ اس سے پہلے بھی اس علاقے میں حادثے ہوتے رہے ہیں۔ سال 2014 میں کیدار ناتھ مندر کے پاس بھی اسی طرح کا حادثہ ہوا تھا۔ اس وقت ماہرین ارضیات و ماحولیات نے پہاڑی علاقوں میں تعمیراتی پراجیکٹس اور دریاؤں پر آبی پراجیکٹس بنانے پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ مقامی باشندوں کے مطابق دھرالی کے قریب جنگلات میں روڈ بنانے کے لیے تقریبا 600 درخت کاٹنے کی نشان دہی کی گئی ہے۔ یہ پہاڑی نالہ گلیشر سے نکلتا ہے اور گلیشیئر مسلسل پگھل رہے ہیں جو اولانچ کا سبب بنتے ہیں۔ درخت بڑے پتھروں کو روکنے کا کام کرتے ہیں۔ اگر درخت کاٹے گئے تو اس علاقے میں مزید خطرناک حادثے رونما ہو سکتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں کوئی بھی پراجیکٹ شروع کرنے سے پہلے ماہرین ماحولیات کی رائے لینا لازمی ہونا چاہیے۔
سرکار کے خلاف عوامی ناراضگی
دھرالی میں حادثے کے بعد ریاستی حکومت مرکزی ایجنسیوں کے تعاون سے جنگی پیمانے پر راحت اور بچاؤ کا کام کر رہی ہے لیکن ملبہ اتنا زیادہ ہے کہ ابھی اس کام میں مہینوں لگ سکتے ہیں۔ مقامی باشندوں کی ناراضگی بڑھتی جا رہی ہے ریاست کے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی حادثے کے کئی دنوں بعد جب جائے حادثے کے قریب پہنچے تو مقامی لوگ ان کے خلاف واپس جاؤ کے نعرے لگانے لگے۔ وہ چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے "دھامی تم گھام تاپو، مودی گھام تاپو گھام (دھامی تم دھوپ سینکو مودی تم بھی دھوپ سینکو) یعنی تم لوگ آرام سے بیٹھو ہمیں تمہاری کوئی ضرورت نہیں ہے۔ واضح رہے کہ حادثہ کے بعد علاقہ باقی دنیا سے کٹ چکا ہے نہ بجلی ہے نہ پینے کا صاف پانی۔ اشیائے خورد و نوش کی بھاری قلت ہے۔ ایک مقامی خاتون نے میڈیا سے بات چیت میں بتایا کہ سیاسی لیڈر ووٹ مانگنے تو آتے ہیں لیکن مصیبت کے وقت انہیں ہماری یاد نہیں آتی۔ واضح رہے کہ ریاست میں ہونے والے حالیہ پنچایت انتخابات میں اپوزیشن کانگریس کے امیدواروں نے بڑی تعداد میں کامیابی حاصل کی ہے۔ سیاسی مبصرین اندازہ لگا رہے ہیں کہ ہندو اکثریت والی اس ریاست کے عوام کا برسر اقتدار پارٹی سے بھروسا اٹھتا جا رہا ہے۔ ضلع پنچایت صدور کے انتخابات میں اس کا اثر دیکھنے کو مل سکتا ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مہنگی ہوتی فیس پر طلبہ کا احتجاج اور پراکٹر آفس کی بدسلو کی
پچھلے دنوں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ فیس میں اضافے کے خلاف باب سر سید پر احتجاجی دھرنا دے رہے ہیں، طلبہ کا کہنا ہے کہ فیس میں اضافے سے تعلیم جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا جس کے سبب طلبہ کا مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ جبکہ یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے یونیورسٹی کو ملنے والے فنڈز میں مسلسل کٹوتی ہو رہی ہے، معیاری تعلیم فراہم کرنے کے لیے فیس میں اضافہ ہماری مجبوری ہے۔ یونیورسٹی کی وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون نے طلبہ کے نام کھلا خط جاری کرتے ہوئے فیس میں اضافے کو معمولی بتایا ہے۔ ان کے مطابق طلبہ باہری عناصر کے بہکاوے میں احتجاج کر رہے ہیں۔ احتجاج کے دوران پراکٹر آفس پر جمعہ کی نماز سے روکنے اور طلبہ پر لاٹھی چارج کرنے کا بھی الزام لگا ہے۔ علی گڑھ برادری نے اس کی شدید مذمت کی ہے۔ انصار رضا نام کے ایک طالب علم نے ایکس پر لکھا” اے ایم یو انتظامیہ نے اچانک فیس میں اضافہ کر دیا ہے جو ہم جیسے غریب اور متوسط طلبہ پر بھاری بوجھ ہے” نیشنل سیمپل سروے 2021 کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں میں فیس میں 25 فیصد اضافہ چکا ہے جس کے سبب متوسط طبقے کے طلبہ اور ان کے سرپرست پریشان ہیں۔ علی گڑھ میں تقریبا 40 فیصد بچے کمزور معاشی طبقات سے آتے ہیں۔ انڈیا ٹوڈے کے ایک حالیہ سروے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سستی اور معیاری تعلیم فراہم کرنے کے معاملے میں علی گڑھ کا تیسرا نمبر ہے۔ پہلے اور دوسرے نمبر پر دہلی یونیورسٹی اور جے این یو ہیں۔ فیس میں اضافے کا فیصلہ طلبہ کے مستقبل کے ساتھ اے ایم یو کی شناخت کے لیے مضرثابت ہو سکتا ہے۔
یو پی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کا متنازعہ بیان
نفرتی بیانات دینے کے لیے بد نام اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ایک اور متنازعہ بیان دیا ہے۔ انہوں نے علی گڑھ میں سودیشی مصنوعات کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ جب ہم بدیسی مصنوعات خریدتے ہیں تو دہشت گردی، تبدیلی مذہب اور ملک مخالف طاقتوں کو اس کا فائدہ ملتا ہے۔ یہ رقم ملک کو غیر مستحکم کرنے میں استعمال کی جاتی ہے۔ انہوں نے علی گڑھ کے مئیر کو سر عام شہر میں صاف صفائی کرانے اور ٹریفک جام سے چھٹکارا دلانے کی سختی کے ساتھ ہدایت کی۔ انہوں نے بیٹی اور تاجروں کی سیکیورٹی میں سیندھ لگانے والوں کے خلاف سخت کارروائی پر زور دیا لیکن ریاست میں خواتین کے خلاف ہونے والی مسلسل جنسی ہراسانی و دیگر جرائم پر کوئی ٹھوس لائحہ عمل پیش نہیں کر سکے۔
ہندو یواواہنی لیڈر پر طالبہ کی آبرو لوٹنے کا الزام
یو پی کے ضلع غازی آباد میں قانون کی ایک طالبہ نے ہندو یواواہنی کے ایک مقامی لیڈر سوشیل پرجاپتی پر عصمت ریزی کا الزام لگایا ہے۔ طالبہ نے اپنی شکایت میں بتایا ہے کہ اسے مراد نگر کے علاقے میں ایک سینئر وکیل سے ملاقات کے بہانے بلایا گیا۔ وہ ان سے ملاقات کر کے کریئر گائیڈنس حاصل کرنا چاہتی تھی۔ اس دوران اسے ایک فلیٹ میں لے جا کر نشیلی کولڈ ڈرنک پلائی گئی اس کے بعد اس کی عزت لوٹی گئی۔ پولیس نے سوشیل پرجاپتی کے خلاف مقدمہ درج کر کے اس کی تلاش شروع کر دی ہے۔ غازی آباد کے ایڈیشنل پولیس کمشنر آلوک پریادرسی کے مطابق طالبہ کا میڈیکل چیک اپ کرایا گیا ہے۔ اس دوران سوشیل کو بچانے کے لیے کچھ بجرنگ دل کے کارکن پولیس تھانے بھی پہنچ گئے۔ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کارکنوں نے ملزم کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہوئے سخت کاروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ نیہا شرما نامی وکیل نے کہا کہ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ کس طرح مجرمین اپنے مجرمانہ فعل کے لیے سیاسی اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہیں۔ پولیس کو کسی سیاسی دباؤ کے بغیر متاثرہ طالبہ کو انصاف دلانے میں مدد کرنا چاہیے۔
جموں کشمیر میں 25 کتابوں پر پابندی!
جموں کشمیر کے محکمہ داخلہ نے 25 کتابوں پر پابندی لگا دی ہے، ان کتابوں کو علیحدگی پسند نظریات اور تشدد کو بڑھاوا دینے والا بتایا گیا ہے۔ بی این ایس کوڈ 2023 کے سیکشن 98 کے تحت ان کتابوں کو ضبط کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ چھ اگست کو جاری کردہ حکم نامے میں مولانا مودودی کی کتاب الجہاد فی الاسلام اور امام حسن البنا کی کتاب مجاہد کی اذان کے علاوہ اروندہتی رائے، اے جی نورانی وکٹوریا شوفیلڈ اور ڈیوڈ جیسے اہم مصنفین کی کتابیں شامل ہیں۔ ان کتابوں کو مذہبی بنیاد پرستی کو فروغ دینے والا اور ملکی خود مختاری اور سالمیت کو خطرے میں ڈالنے والا بتایا گیا ہے۔ کانگریس کے قومی سکریٹری شاہنواز عالم نے ان کتابوں پر پابندی لگانے کو تانا شاہی قرار دیا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ اس فیصلے کو واپس لیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت ایل جی کے ذریعے کشمیر کو کنٹرول کر کے در پردہ پاکستان کو فائدہ پہنچا رہی ہے۔ اس فیصلے سے خطے میں بد امنی پھیل سکتی ہے۔ حکومت کے اس اقدام سے خطے میں تعلیمی اور سیاسی بیانیہ کو محدود کرنے کے بارے میں خدشات پیدا ہونے لگے ہیں۔
واضح رہے کہ مرکزی حکومت این سی آر ٹی کی اسکولی نصاب میں بھی بڑے پیمانے پر تبدیلی کر رہی ہے۔ قومی تعلیمی پالیس 2020 کے تحت نئے نصاب میں سماجی علوم کی درجہ آٹھ کی کتاب حصہ اول سے میسور کے حکم راں ٹیپو سلطان اور ان کے والد حیدر علی کو نصاب سے نکال دیا گیا ہے۔ ان دونوں نے انگریزوں کے خلاف بے مثال بہادری اور شجاعت کا مظاہرہ کیا تھا۔ جنگ آزادی میں ان کا اہم رول مانا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ رضیہ سلطانہ اور ملکہ نور جہاں کو بھی نصابی کتابوں سے حذف کر دیا گیا ہے۔ تاریخ کے ماہرین حکومت کے اس اقدام سے حیران ہیں۔ ان کے مطابق تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے اسے مختلف عمر کے طلبہ کو پڑھائی جانے والی تاریخی کتب سے مسلم شخصیات کو ہٹائے جانے سے تعبیر کیا ہے۔
اعظم گڑھ کا مثالی سرکاری اسکول
اتر پردیش میں سرکاری اسکولوں کی بد حالی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، خاص طور پر پرائمری اسکولوں کی بوسیدہ عمارتیں اور بد انتظامی موضوع بحث بنی رہتی ہیں۔ لیکن اعظم گڑھ کے عظمت گڑھ بلاک کے باسو پور بنکٹ گاؤں کا پرائمری سکول ان دنوں سب کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اس اسکول کو کایا کلپ اسکیم کے تحت مثالی بنایا گیا ہے۔ اس کے سارے کمرے چمک دار ٹائل سے سجائے گئے ہیں، بچوں کے بیٹھنے کے لیے عمدہ فرنیچر اور ایئر کنڈیشن ماحول مہیا کیا گیا ہے۔ علامہ شبلی نعمانی اور پنڈت راہل سانکرتیان کے نام پر کلاس روم اور کیفی اعظمی کے نام پر شان دار کتب خانہ بھی بنایا گیا ہے۔ بچوں کے کھانے کے لیے ڈائننگ ہال اور کھیلنے کے لیے میدان بھی موجود ہے، بچوں کو تربیت یافتہ ٹیچروں کی نگرانی میں کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ سے تعلیم دی جاتی ہے۔ اسکول کی تصویر بدلنے میں گاؤں کے پردھان کے شوہر عبدالوہاب، پرنسپل دھننجے مشرا اور بلاک پرمکھ منیش مشرا نے خصوصی کردار ادا کیا ہے۔ اس مثالی اسکول کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جہاں ریاست کے کئی اضلاع میں بچوں کی کم تعداد کے سبب سرکاری اسکولوں کا انضمام ہو رہا ہے وہیں اس اسکول میں داخلہ لینے والے بچوں کی قطار لگی ہوئی ہے۔ اس اسکول میں نوے فیصد معاشی طور پر کمزور، دلت اور اقلیتی طبقے سے تعلق رکھنے والے بچے پڑھتے ہیں۔ بلاک پرمکھ نے گاؤں پردھان کے شوہر عبدالوہاب کی کاوشوں کو سراتے ہوئے بتایا کہ ان کی اس کامیابی سے دیگر گاؤں پردھان بھی تحریک حاصل کر رہے ہیں اور اپنے اسکولوں کو بہتر بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ عبدالوہاب نے بتایا کہ ٹیم انڈیا کے مشہور کرکٹر سرفراز کا تعلق اسی گاؤں سے ہے۔
تو صاحبو! یہ تھا شمال کا حال۔ آئندہ ہفتے پھر ملیں گے کچھ تازہ اور دلچسپ احوال کے ساتھ۔ تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر سلا۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 جولائی تا 23 اگست 2025

hacklink panel |
betorder giriş |
güncel bahis siteleri |
hacklink panel |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
şans casino |
deneme bonusu veren siteler |
gamdom |
gamdom giriş |
casino siteleri |
casino siteleri |
casino siteleri güncel |
yeni casino siteleri |
betorder giriş |
sekabet giriş |
2025 yılının en güvenilir deneme bonusu veren siteler listesi |
Deneme Bonusu Veren Siteleri 2025 |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
taksimbet giriş |
betpas giriş |
bahis siteleri |
ekrem abi siteleri |
betebet giriş |
gamdom |
gamdom |
gamdom giriş |
gamdom |
betsat |
ronabet giriş |
truvabet |
venüsbet giriş |
truvabet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
onlyfans nude |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
Sweet Bonanza oyna |
hacklink panel |
betorder giriş |
güncel bahis siteleri |
hacklink panel |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
şans casino |
deneme bonusu veren siteler |
gamdom |
gamdom giriş |
casino siteleri |
casino siteleri |
casino siteleri güncel |
yeni casino siteleri |
betorder giriş |
sekabet giriş |
2025 yılının en güvenilir deneme bonusu veren siteler listesi |
Deneme Bonusu Veren Siteleri 2025 |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
taksimbet giriş |
betpas giriş |
bahis siteleri |
ekrem abi siteleri |
betebet giriş |
gamdom |
gamdom |
gamdom giriş |
gamdom |
betsat |
ronabet giriş |
truvabet |
venüsbet giriş |
truvabet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
onlyfans nude |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
Sweet Bonanza oyna |