![](https://dawatnews.net/wp-content/uploads/2025/02/20250216-4.jpg)
اتر اکھنڈ کا یونیفارم سول کوڈ سنجیدہ تحلیل و تجزیہ کا متقاضی
قانونی و فقہی مشاورت اور عدالتی چارہ جوئی کے سوا کوئی راستہ نہیں
شہاب فضل، لکھنؤ
نا موزوں قوانین کو ملک کے کثیر مذہبی و ثقافتی سماج پر مسلط کرنا متعدد مسائل پیدا کرنے کے مترادف
شادی بیاہ، طلاق، گزارہ بھتہ، گود لینے کے معاملات اور وراثت جیسے عائلی امور کے سلسلہ میں اتر اکھنڈ میں ۲۷ جنوری ۲۰۲۵ سے یونیفارم سول کوڈ (یوسی سی) نافذ کر دیا گیا ہے جو بی جے پی کے ایجنڈے کا ایک اہم حصہ ہے۔ سبھی مذاہب کے پیروکاروں کے لیے یکساں طور سے یہ ضوابط نافذ ہیں، البتہ آئین کے آرٹیکل ۳۴۲ اور آرٹیکل ۳۶۶ (۲۵) کے تحت ڈکلیئرڈ قبائلیوں کو اس سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی آئین ہند کے باب ۲۱ میں پروٹیکٹیڈ کمیونٹیز پر بھی یہ ضابطے لاگو نہیں ہوں گے۔ لیو اِن رلیشن شپ یعنی بغیر شادی کے شوہر بیوی کی طرح رہنے والے جوڑوں کو بھی ان ضابطوں پر عمل کرنا ہوگا اور شادی شدہ جوڑوں کی طرح ہی انہیں رجسٹریشن کروانا ہوگا۔ خواتین کو مردوں کے مساوی طلاق کا حق دیا گیا ہے۔ اس قانون کے مطابق جائیداد میں بیٹے اور بیٹی کو یکساں حصہ ملے گا، چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔ جائز اور ناجائز بچہ میں کوئی فرق نہیں مانا جائے گا۔
اتر اکھنڈ کی حکومت نے یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا اعلان کرتے ہوئے اس سلسلہ میں ایک پورٹل لانچ کیا ہے۔ یو سی سی ڈاٹ یو کے ڈاٹ جی او وی ڈاٹ اِن ویب سائٹ کے توسط سے شادی، طلاق، لیو اِن رلیشن شپ، قانونی وراثت اور وصیت کا رجسٹریشن کروایا جاسکے گا۔
اتر اکھنڈ میں یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ نے کئی کمیونٹیوں میں بے چینی پیدا کر دی ہے اور اتر اکھنڈ کے ‘‘مول نواس بھو قانون سمنوے سنگھرش سمیتی’’ نے اس کی مخالفت کا اعلان کیا ہے۔ آئین ہند میں اقلیتوں بشمول مسلمانوں کو ان کی ذاتی اور عائلی زندگی میں ان کے مذہبی اصولوں پر عمل کرنے کی جو آزادی دی گئی ہے اسے یہ قانون سلب کرتا ہے چنانچہ مسلمانوں کا بھی بے چین ہونا اور اس کی مخالفت کا اعلان کرنا فطری ہے۔ ‘‘مول نواس بھوقانون سمنوے سنگھرش سمیتی’’ کے جنرل سکریٹری پرانجل نوڈیال نے یونیفارم سول کوڈ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس کوڈ میں جس طرح کے قوانین ہیں وہ ہماری ثقافت کے خلاف ہیں اور اس کے خلاف احتجاج کی حکمت عملی طے کی جارہی ہے۔ مسلمانوں کی طرف سے بھی اس معاملہ پر عدالتی چارہ جوئی کی جائے گی۔ فی الحال مختلف تنظیمیں اتر اکھنڈ کے یونیفارم سول کوڈ کا جائزہ لے رہی ہیں۔
جہاں تک قانون کے مندرجات کی بات ہے تو اس میں جائیداد میں بیٹے اور بیٹی کی وراثت میں یکساں حصہ داری، شوہر اور بیوی کو یکساں طور سے طلاق کا حق اور خلع کا خاتمہ، گود لیے گئے بچے کو حقیقی بچے کی طرح ماننے، طلاق احسن اور طلاق بدعت دونوں کو ممنوع قرار دینے اور گزارہ بھتہ جیسے نکات مسلمانوں کے لیے ناقابل قبول ہیں۔ آنے والے دنوں میں عدالتی چارہ جوئی میں یہ نکات مزید واضح ہوسکیں گے اور یہ بھی پتہ چلے گا کہ اس پر کیسی قانونی حکمت عملی مناسب رہے گی۔
قانون کے مخصوص نکات
نئے نافذ شدہ قانون کے مطابق اتر اکھنڈ میں اب تمام مذاہب کے ماننے والوں کے لیے شادی کا رجسٹریشن ساٹھ دن کے اندر کروانا لازمی ہے۔ ۲۶ مارچ ۲۰۱۰ کے بعد کی شادیوں کا رجسٹریشن چھ ماہ کے اندر کروانا لازمی قرار دیا گیا ہے ورنہ سرکاری سہولتوں کا فائدہ نہیں ملے گا اور قانونی کارروائی کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ رجسٹریشن کے لیے دی جانے والی پر پندرہ دن کے اندر سب رجسٹرار کو فیصلہ لینا ہوگا۔ غلط اطلاع دینے پر جرمانہ لگایا جا سکتا ہے۔
اتر اکھنڈ یونیفارم سول کوڈ کے چار اہم حصے ہیں۔ حصہ اول شادی اور طلاق، حصہ دوم وراثت، حصہ سوم لیو اِن ریلشن شپ اور حصہ چہارم میں متفرق ضوابط ہیں۔ یہ ان لوگوں پر بھی لاگو ہوگا جو اتر اکھنڈ کے شہری ہیں مگر ریاست سے باہر اقامت پذیر ہیں۔ اتر اکھنڈ کی ریاستی یا مرکزی حکومت کی اسکیموں سے فائدہ اٹھانے والوں پر بھی یہ قانون نافذ ہوگا۔ اس قانون کے دائرے میں وہ سب لوگ آئیں گے جو کم از کم ایک سال سے اتر اکھنڈ میں رہائش پذیر ہیں۔
یو سی سی پورٹل پر عام لوگوں کو اپنے آدھار کی تفصیلات کے ساتھ سائن اپ کرنا ہوگا، جس سے رجسٹریشن وغیرہ کا کام کیا جاسکتا ہے۔ شادی کے رجسٹریشن کے لیے زوجین کی پوری تفصیل دینی ہو گی۔ نام، مذہب، عمر، فون نمبر، آدھار نمبر، تاریخ پیدائش، مستقل پتہ، شہریت، سکونت کا سرٹیفیکٹ، شادی سے پہلے کا رشتہ وغیرہ، سرپرستوں کی تفصیل، شادی کا مقام اور مذہب کے مطابق رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کی نوعیت مثلاً نکاح وغیرہ، گواہوں کی تفصیل، تاریخ پیدائش کی سند وغیرہ۔ پہلے سے اگر صاحب اولاد ہو تو اس کا بھی رجسٹریشن کرانا ہوگا۔ اولاد چایے جائز ہو یا ناجائز، حقیقی اولاد کی طرح حقوق پائے گی۔ شادی کے روایتی طریقوں کو برقرار رکھا گیا ہے۔ نکاح حسب سابق طریقے پر ہوگا البتہ شادی کا رجسٹریشن اور دیگر شرطیں سبھی کے لیے یکساں ہوں گے۔ مہر کو جائز مانا گیا ہے۔ شادی کے وقت لڑکے کی عمر اکیس سال اور لڑکی کی عمر اٹھارہ سال ہونا لازمی ہے۔ اس قانون کے تحت تعدد ازدواج کی اجازت نہیں۔
اس قانون میں طلاق احسن، طلاق بدعت، خلع، مبارت اور ظہار کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ طلاق یا شوہر کے انتقال کے بعد عدت کے تصور کو بھی تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ پنچایتی فیصلے سے طلاق یا روایتی طریقہ سے طلاق کے طریقے کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔ ان طریقوں سے طلاق لینے پر قانونی کارروائی بھی ہوسکتی ہے، چنانچہ طلاق اب عدالت کے ذریعے سے ہی ہوسکے گی۔
اتر اکھنڈ یونیفارم سول کوڈ کے مطابق ۲۰۱۰ کے بعد کی طلاق کو بھی چھ مہینے کے اندر رجسٹر کرانا لازمی ہے۔ طلاق کو رجسڑ کرنے کے لیے عدالت کا حکم بھی لازمی ہے۔ لیو اِن رلیشن شپ میں علیحدگی کو طلاق کی طرح رجسٹر کرنا ہوگا۔ دونوں پارٹنروں کی رضامندی سے ایسا کرنا ممکن ہے۔ عمر اگر اٹھارہ سے اکیس سال کے درمیان ہو تو لیو ان رلیشن شپ میں رہنے کے لیے رجسٹریشن کے ساتھ والدین کی رضا مندی بھی ضروری ہے۔
جہاں تک وصیت اور وراثت کا معاملہ ہے تو یو سی سی میں ڈیکلیریشن کرنے والے شخص، وارثین اور گواہوں کی جانکاری کی آدھار کی تفصیل دینی ہوگی۔ وصیت سے متعلق ویڈیو ریکارڈ کرکے اسے اپلوڈ کرنا ہوگا۔ مسلح افواج کے جوانوں کے لیے ہاتھ سے وصیت لکھی جاسکتی ہے، گواہوں کے سامنے زبانی ریکارڈ کیا جا سکتا ہے۔ دو گواہوں کے سامنے اسے لکھا بھی جاسکتا ہے۔
جائیداد میں بیٹے اور بیٹی کو برابر کا حصہ ملے گا۔ متوفی کی بیوی یا متوفیہ کے شوہر کو جائیداد میں حصہ نہیں ملے گا جس نے جائیداد کے مالک کی زندگی میں ہی کسی اور سے شادی کرلی ہو۔ ایسے لوگوں کو وارث نہیں مانا جائے گا۔ باپ کو گارجین مانا گیا ہے اور ماں کو کسٹوڈین، چنانچہ زوجین میں تنازعہ کی صورت میں پانچ سال کے عمر تک کے بچے کی کسٹڈی ماں کو ملے گی۔ اس قانون میں گود لینے کے حوالے سے کئی ضابطے بنائے گئے ہیں البتہ دوسرے مذہب کے بچے کو گود لینے کا حق نہیں دیا گیا ہے۔
اقلیتوں کے حقوق چھیننے کی کوشش
اگرچہ اتر اکھنڈ کے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی نے ۲۷ جنوری ۲۰۲۵ کو پریس کانفرنس میں کہا کہ یو سی سی کسی بھی مذہب کی روایات و رسومات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کرے گا، جس پر اتر اکھنڈ مسلم سیوا سنگٹھن کے صدر نعیم قریشی نے سوال کیا کہ اگر آدی واسیوں کو اس قانون سے باہر رکھا گیا ہے تو پھر یہ یونیفارم یا یکساں سول کوڈ کیسے ہوا؟ انہوں نے کہا کہ حکومت کا مقصد اقلیتوں کے حقوق کو چھیننا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسے اس وقت تک اتر اکھنڈ میں نافذ نہ کیا جائے جب تک کہ مرکزی حکومت ایسا کوئی قانون لے کر نہ آئے۔ انہوں نے کہا کہ اس میں مسلمانوں کو اپنے مذہبی طریقہ سے شادی کرنے، طلاق کا اصول اپنانے اور جائیداد کی وراثت کے نظام کو اپنانے سے روکا گیا ہے۔
دوسری طرف بی جے پی کی گجرات حکومت نے بھی یونیفارم سول کوڈ کی سمت قدم بڑھا دیے ہیں۔ ریاستی حکومت نے سپریم کورٹ کی سابق جج رنجنا پرکاش دیسائی کی سربراہی میں ایک پانچ رکنی کمیٹی قائم کی ہے جسے پینتالیس دنوں میں اپنی رپورٹ پیش کرنی ہے۔ حکومت گجرات نے اعلان کیا ہے کہ ٹرائبل کمیونٹیوں پر یہ کوڈ نافذ نہیں ہوگا۔ رنجنا دیسائی وہی سابق جج ہیں جو اتر اکھنڈ حکومت کی قائم کردہ کمیٹی کی بھی سربراہ رہ چکی ہیں۔
پشکر سنگھ دھامی کی حکومت نے ۲۷ مئی ۲۰۲۲ کو ایک کمیٹی بنائی جس نے ڈیڑھ سال کی گفت و شنید کے بعد اپنی رپورٹ تیار کی اور ۲ فروری ۲۰۲۴ کو یہ رپورٹ حکومت کو سونپی۔ ۷ فروری ۲۰۲۴ کو اتر اکھنڈ اسمبلی میں یہ بل پاس ہوا اور ۱۲ مارچ ۲۰۲۴ کو اسے صدر جمہوریہ ہند کی منظوری ملی۔ پھر اس کے ضوابط بنائے گئے اور ۲۷ جنوری ۲۰۲۵ کو اسے لاگو کر دیا گیا۔
یونیفارم سول کوڈ اور بھارت کا آئین
بھارت کے آئین میں یونیفارم سول کوڈ کا ذکر ڈائریکٹیو پرنسپلز آف اسٹیٹ پالیسی میں ہے۔ آئین کے آرٹیکل ۴۴ میں یونیفارم سول کوڈ کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ حکومت اسے پورے بھارت میں اپنے شہریوں کے لیے نافذ کرنے کی کوشش کرے گی لیکن اسے لازمی نہیں کیا گیا کیوں کہ قانون ساز اسمبلی میں اس پر بحثیں ہوئیں اور مسلم اور اینگلو انڈین اراکین نے اس کی مخالفت کی۔ انہوں نے واضح طور سے کہا تھا کہ یہ مذہبی آزادی اور اقلیتوں کے حقوق کے خلاف ہوگا، چنانچہ اسے لازمی طور سے لانے کے خیال کو ترک کر دیا گیا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اتر اکھنڈ آزاد ہندوستان کی پہلی ریاست ہے جس نے یونیفارم سول کوڈ کی طرف قدم بڑھائے ہیں۔ حالانکہ گوا میں یونیفارم سول کوڈ کچھ استثنا کے ساتھ نافذ ہے۔ یہ دراصل پرتگال سول کوڈ ۱۸۶۷ ہے جو آزادی سے کافی پہلے کی بات ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ نے شاہ بانو کیس میں تبصرہ کرتے ہوئے یونیفارم سول کوڈ کی ضرورت ظاہر کی تھی۔ جب کہ اس کے برعکس ۲۰۱۸ میں حکومت ہند کے لا کمیشن نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ یو سی سی نہ تو لازمی ہے اور نہ ہی اس کی ضرورت ہے۔ اگر پرسنل لاز میں اصلاح کرنا ہی ہے تو یہ اصلاحی کام موجودہ قوانین کی کمیوں کو دور کرکے کیا جاسکتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا یونیفارم سول کوڈ کو مذہبی طور سے حساس مسئلہ مان کر سڑکوں پر احتجاج کیا جائے یا خالص قانونی و عدالتی چارہ جوئی پر ہی توانائی صرف کی جائے؟ عقل اور منطق تو یہی کہتی ہے کہ اسے فرقہ واریت اور مسلم دشمنی کے ایک اور ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا موقع ہندوتوادیوں کو نہ دیا جائے اور عدالتی راستے سے ہی اس سے نجات حاصل کرنے کی کوشش جائے۔
یہ بات پیش نظر رہے کہ بھارت کے کثیر ثقافتی اور کثیرمذہبی منظرنامے میں یونیفارم سول کوڈ نہ لانے کی دلیل کو موجودہ حکومت ماننے کے لیے تیار نہیں ہے، خاص طور پر بی جے پی کی ریاستی حکومتوں کے سامنے یہ دلیل نقار خانے میں طوطی کی صدا جیسی ہے جہاں عقل و منطق کی گنجائش ہی نہیں، لہٰذا بہتر یہی ہوگا کہ ملی و فقہی امور سے وابستہ ادارے مذکورہ کوڈ کا تحلیل و تجزیہ کریں، قانونی ماہرین سے مشاورت کریں، ساتھ ہی وہ دیگر ممالک میں رائج یونیفارم سول کوڈز پر بھی غور کریں اور اس سلسلہ میں اجتہادی نقطہ نظر اپنائیں تاکہ جامع اور مدلل باتیں سامنے آسکیں اور عدالتی چارہ جوئی سے کچھ مثبت نتائج برآمد ہوں۔
***
بھارت کے کثیر ثقافتی اور کثیرمذہبی منظرنامے میں یونیفارم سول کوڈ نہ لانے کی دلیل کو موجودہ حکومت ماننے کے لیے تیار نہیں ہے، خاص طور پر بی جے پی کی ریاستی حکومتوں کے سامنے یہ دلیل نقار خانے میں طوطی کی صدا جیسی ہے جہاں عقل و منطق کی گنجائش ہی نہیں، لہٰذا بہتر یہی ہوگا کہ ملی و فقہی امور سے وابستہ ادارے مذکورہ کوڈ کا تحلیل و تجزیہ کریں، قانونی ماہرین سے مشاورت کریں، ساتھ ہی وہ دیگر ممالک میں رائج یونیفارم سول کوڈز پر بھی غور کریں اور اس سلسلہ میں اجتہادی نقطہ نظر اپنائیں تاکہ جامع اور مدلل باتیں سامنے آسکیں اور عدالتی چارہ جوئی سے کچھ مثبت نتائج برآمد ہوں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 فروری تا 22 فروری 2025