امریکی پینل نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ہندوستانی حکومت ’’ہندو نیشنلسٹ ایجنڈے‘‘ کو فروغ دے رہی ہے
نئی دہلی، اپریل 26: یہ بیان کرتے ہوئے کہ ’’2021 میں ہندوستان میں مذہبی آزادی کے حالات نمایاں طور پر خراب ہوئے‘‘ ریاستہائے متحدہ امریکہ کے بین الاقوامی مذہبی آزادی کمیشن (یو ایس سی آئی آر ایف) کی رپورٹ-2022 نے حکومت ہند پر ’’ہندو قوم پرست ایجنڈے کو فروغ دینے کا الزام عائد کیا ہے۔‘‘
یہ الزامات یو ایس سی آئی آر ایف کی کل جاری کی گئی رپورٹ-2022 میں لگائے گئے ہیں۔
تاہم اب تک ہندوستان نے اس رپورٹ پر ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق ’’2021 کے دوران ہندوستانی حکومت نے ہندو قوم پرست ایجنڈے کو فروغ دینے والوں سمیت ایسی پالیسیوں کے فروغ اور ان کے نفاذ کو بڑھاوا دیا، جو مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں، دلتوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کو منفی طور پر متاثر کرتے ہیں۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’حکومت نے موجودہ اور نئے قوانین اور دیگر تبدیلیوں کے ذریعہ ملک کی مذہبی اقلیتوں کے خلاف دشمنی کے ذریعہ قومی اور ریاستی دونوں سطحوں پر ہندو ریاست کے اپنے نظریاتی وژن کو منظم کرنا جاری رکھا ہے۔‘‘
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’2021 میں ہندوستانی حکومت نے تنقیدی آوازوں پر دباؤ ڈالا- خاص طور پر مذہبی اقلیتوں اور ان کی اطلاع دینے اور ان کی وکالت کرنے والی آوازوں پر اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ (یو اے پی اے) جیسے قوانین کے تحت انھیں ہراساں کرنا جاری رکھا۔‘‘
رپورٹ نے نشاندہی کی ’’یو اے پی اے اور بغاوت کے قانون کو حکومت کے خلاف کسی کو بھی خاموش کرنے کی کوشش میں دھمکیوں اور خوف کی بڑھتی ہوئی آب و ہوا پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔‘‘
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’حکومت نے تشدد اور ظلم کی دستاویز تیار کرنے والے صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو گرفتار کیا اور ان کے خلاف شکایات درج کیں، جن میں ایک نام جموں و کشمیر کے خرم پرویز کا بھی جنھوں نے جموں و کشمیر میں ہونے والی زیادتیوں کے بارے میں اطلاع دی تھی۔‘‘
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے ’’مسلمانوں، عیسائیوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد کے بارے میں دستاویزات یا معلومات کا اشتراک کرنے والے افراد کو بھی نشانہ بنایا ہے۔‘‘
مثال کے طور پر رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تریپورہ میں مساجد پر حملوں کے بارے میں ٹویٹ کرنے کے لیے لوگوں کے خلاف یو اے پی اے کے تحت شکایات دائر کی گئیں۔
اس رپورٹ میں ستمبر 2021 میں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی طرف سے اٹھائے گئے خدشات کو بھی اجاگر کیا گیا ہے جس میں پورے ہندوستان میں یو اے پی اے کے استعمال کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
اس رپورٹ میں ہندوستانی حکومت کے بارے میں یہ بھی نشان دہی کی گئی ہے کہ ملک میں بین الاقوامی مالی اعانت کے خواہاں مذہبی اور رفاہی این جی اوز کے لیے مسائل پیدا کیے گئے ہیں۔
ان رپورٹس میں حکومت پر بین المذاہب شادی اور ہندوؤں کی عیسائیت اور اسلام میں تبدیلی کے خلاف غیر ریاستی عناصر کے ساتھ تعاون کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے ’’اکتوبر 2021 میں کرناٹک کی حکومت نے ریاست میں گرجا گھروں اور پادریوں کے ایک سروے کا حکم دیا اور پولیس کو اختیار دیا کہ وہ عیسائیت قبول کرنے والے ہندوؤں کو تلاش کرنے کے لیے گھر گھر جاکر معائنہ کریں۔‘‘
یو ایس سی آئی آر ایف کی رپورٹ میں 2021 میں مذہبی آزادی کی صورتِ حال کی بنا پر ہندوستان کو ایک ’’خاص تشویش کا حامل ملک‘‘ (سی پی سی) کے طور پر نامزد کرنے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔
اس سال سی پی سی کے طور پر نشان زد کیے گئے دوسرے ممالک میں افغانستان، شام، ویتنام اور نائیجیریا شامل ہیں۔
جن ممالک کو سی پی سی کے طور پر دوبارہ نشان زد کیا گیا ہے وہ برما، چین، اریٹیریا، ایران، شمالی کوریا، پاکستان، روس، سعودی عرب، تاجکستان اور ترکمانستان ہیں۔
سی پی سی ان ممالک کے لیے مخصوص ہے جو مذہبی آزادی کی بدترین خلاف ورزی میں مبتلا ہیں۔
یو ایس سی آئی آر ایف کو بین الاقوامی مذہبی آزادی ایکٹ (آئی آر ایف اے) 1998 کے تحت قائم کیا گیا تھا اور 1999 میں اس میں ترمیم کی گئی تھی۔
آئی آر ایف اے امریکی سکریٹری خارجہ کو ان ممالک میں مذہبی خلاف ورزیوں کے معاملات کو حل کرنے کے لیے خاص ممالک پر پابندیاں عائد کرنے کا اختیار دیتا ہے۔