
اردو یونیورسٹی سے تعلیم نے میری زندگی کو بدل دیا: انعم ظفر
ایک غریب خاندان سے تعلق رکھنے والی طالبہ کی داستان ۔جے آر ایف میں کل ہند سطح پر پہلا مقام
ڈاکٹر محمد مصطفیٰ علی سروری
انعم ظفر کی عمر 25 برس ہے۔ انعم اپنے شوہر جوہر علی کے ساتھ شہر حیدرآباد کے علاقہ لنگم پلی میں رہتی ہیں۔ لیکن شہر حیدرآباد انعم کے لیے ایک اجنبی شہر ہے کیونکہ وہ اصل میں بہار کے ضلع دربھنگہ کے گاؤں چندن پٹی کی رہنے والی ہے۔ انعم دراصل مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں ایم ایڈ کا کورس کر رہی ہیں اور فی الحال ایم ایڈ کے چوتھے سمسٹر میں زیر تعلیم ہیں۔
یہ 22؍ فروری 2025 کی بات ہے۔ ہفتہ کا دن تھا جب دہلی کی نیشنل ٹسٹنگ ایجنسی NTA نے NET یو جی سی امتحان کے نتائج کا اعلان کردیا تو اس امتحان کے نتائج کے مطابق دربھنگہ کی انعم ظفر نے NET کے اس امتحان میں پورے انڈیا میں اول پوزیشن حاصل کی۔ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے لیے یہ ایک تاریخی خبر تھی اور انعم ظفر کی خوش قسمتی کہ اس نے آل انڈیا فرسٹ رینک حاصل کیا تھا۔
انعم ظفر کی کامیابی پر جب یہ اطلاع حیدرآباد سے 1600 کیلومیٹر دور چندن پٹی، دربھنگہ پہنچی تو انعم کی والدہ ریحانہ خاتون کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ یہ ایک ایسی خاتون کی خوشی کے آنسو تھے جس نے تن تنہا اپنی لڑکی کی پرورش کی۔
یہ شاید 2008ء کی بات ہے جب انعم کی عمر 8 برس تھی۔ اس وقت انعم کے والد نے اپنی بیوی کو چھوڑ کر علیحدگی اختیار کرلی تھی۔ ریحانہ خاتون نے اس وقت فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ اپنی زندگی کے غموں کا سایہ اپنی بیٹی پر پڑنے نہیں دیں گی اور اپنی زندگی کا بقیہ سفر اکیلے ہی طے کریں گی۔
اب ریحانہ خاتون کے سامنے ان کی زندگی کا سب سے بڑا چیلنج تھا۔ اپنی اس اکلوتی لڑکی کی اچھے سے پرورش کیسے کریں؟
ریحانہ خاتون نے طے کیا کہ وہ اپنی ہر مشکل خود برداشت کریں گی۔ ہر پریشانی خود جھیلیں گی لیکن اپنی بیٹی کی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے ہر ممکنہ کوشش کریں گی۔
فیصلہ لینا تو نسبتاً آسان تھا لیکن مشکل تو یہ تھی کہ اس فیصلے کو عملی جامہ کیسے پہنایا جائے۔ ریحانہ خاتون یہ تو جانتی تھیں کہ بغیر تعلیم کے ان کی لڑکی کی زندگی کو بہتر نہیں بنایا جا سکتا اور سرکاری اسکولس کا معیار تعلیم کچھ زیادہ بہتر نہیں ہے، ایسے میں ریحانہ خاتون نے طے کیا کہ وہ اپنی اکلوتی لڑکی کو ایک اچھے خانگی اسکول میں شریک کروائیں گی۔
چندن پٹی، دربھنگہ کے جعفری اکیڈیمی سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے والی انعم ظفر کو اس کی ماں نے معیاری تعلیم کے لیے دربھنگہ کے ہی ووڈ بائن ماڈرن اسکول میں شریک کروانے کا فیصلہ کیا۔ انگلش میڈیم کے اس اسکول کی ماہانہ فیس ہی 800 روپے تھی۔ انعم کی ماں نے خود ایک دوسرے اسکول میں بطور ٹیچر کام کیا۔ جہاں سے انہیں تنخواہ کی شکل میں 800 روپے ملتے تھے اور یوں ریحانہ خاتون نے اپنی پوری تنخواہ اپنی بیٹی کی تعلیم میں لگا دینے کا فیصلہ کیا اور گھر کے دیگر اخراجات کو پورا کرنے کے لیے پرائیویٹ ٹیوشنس دینا شروع کردیا۔
پہلے تو ریحانہ خاتون اپنے اسکول کو جاکر کام کرتیں اور واپس گھر آکر محلے کے بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی تھیں۔
انعم ظفر نے اپنے رشتہ کے ماما کے ساتھ (حیدر ٹی وی 14) کو انٹرویو دیتے ہوئے بتلایا کہ جب ان کی والدہ کو ان کے والد نے چھوڑ دیا تھا تو خاندان کے بہت سارے لوگوں نے انہیں مشورہ د یا کہ وہ دوسری شادی کرلیں لیکن ریحانہ خاتون نے اپنی اکلوتی لڑکی انعم کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنی ساری توجہ اپنی بیٹی کی تعلیم و تربیت پر مرکوز کر دی۔
یوں انعم ظفر نے ووڈبائن ماڈرن اسکول سی بی ایس ای سے پہلے دسویں اور پھر بارہویں کا امتحان کامیاب کیا۔ اس کے بعد انعم نے للت نارائن یونیورسٹی، متھلا سے بی ایس سی کی ڈگری مکمل کی۔ چونکہ ’مانو‘ میں بی ایڈ کی فیس بھی دیگر جامعات کے مقابلے کم تھی تو اس کے بعد انعم ظفر نے اردو یونیورسٹی سے بی ایڈ کرنے کا فیصلہ کیا اور دربھنگہ میں واقع مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے کالج آف ٹیچر ایجوکیشن سے بی ایڈ کا کورس مکمل کیا۔ ساتھ ہی TET کا امتحان بھی کامیاب کیا اور آگے کی تعلیم کے لیے ایم ایڈ انٹرنس ’مانو‘ سے ہی لکھا اور نمایاں کامیابی درج کرتے ہوئے حیدرآباد کے مین کیمپس میں ایم ایڈ میں داخلہ لیا اورفی الحال انعم ظفر ایم ایڈ کے چوتھے و آخری سمسٹر میں زیر تعلیم ہے۔
انعم ظفر نے یو جی سی کے JRF (جونیئر ریسرچ فیلو ) میں پورے ہندوستان میں ایجوکیشن کے مضمون میں اول پوزیشن حاصل کر کے جب کامیابی درج کی تو اپنی کامیابی کو اپنی ماں، اپنے شوہر اور اپنے ان رشتہ داروں کے نام معنون کیا جنہوں نے زندگی کے برے حالات میں ان کی مدد کی اور ہمیشہ تسلی دینے اور ہمت بڑھانے کا کام کیا۔
انعم نے اپنے ماما، مولانا علی رضا اشرف کے سوال کے جواب میں بتایا کہ وہ آگے تعلیم اور ترقی کے ساتھ ساتھ ذاکرہ کے طور پر مجالس بھی پڑھنا چاہتی ہیں۔ جے آر ایف کے پہلے رینک کے حصول کو انعم اپنی کامیابی کی پہلی سیڑھی قرار دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ وہ پروفیسر اور اس کے آگے بھی ترقی کا سفر جاری رکھنا چاہتی ہیں۔
انعم ظفر کہتی ہیں کہ میں آج جو بھی خوشی کے دن دیکھ رہی ہوں وہ میری ماں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔
زبان اردو کے متعلق انعم ظفر نے کہا کہ میڈیم کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔ اصل میں مہارت اور قابلیت معنی رکھتی ہے۔ اردو ہو یا انگریزی یہ صرف زبانیں ہیں جس کے توسط سے علم حاصل کیا جاتا ہے۔
ایسے میں اردو میڈیم طلبہ کو احساس کمتری سے باہر نکل کر آنا ہوگا اور منصوبہ بند انداز میں اپنی تعلیم پر توجہ مرکوز کرنا ہوگا۔انعم کہتی ہیں کہ میرے اندر محنت کرنے کا جذبہ تھا۔ میرے اساتذہ نے اس محنت کو صحیح رخ پر گامزن کیا اور انعم نے خاص طور پر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے اساتذہ کا بھی شکریہ ادا کیا جنہوں نے بی ایڈ میں مضبوط بنیادوں پر تعلیم دی۔
انعم کے مطابق اس نے بی ایس سی انگلش میڈیم سے کیا۔ اسکولی تعلیم انگلش میڈیم سے ہوئی لیکن جب اس نے بی ایڈ مانو سے کرنے کا فیصلہ کیا تو اس کا میڈیم بھی انگلش سے اردو میں تبدیل ہوگیا اور میڈیم تبدیل کرنے سے وہ کہتی ہیں کہ اس کا کامیابی کا سفر اور بھی آسان ہوگیا۔ امید ہے کہ انعم ظفر کی اس نمایاں کامیابی سے اردو میڈیم کے طلبہ کو ایک نیا حوصلہ ملے گا۔
اپنے 27 برسوں کے تعلیمی سفر کے دوران مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے لیے انعم ظفر کا آل انڈیا فرسٹ رینک حاصل کرنا ایک اہم سنگ میل ہے۔ توقع کی جاسکتی ہے کہ اردو یونیورسٹی ایسے کئی اہم اور نمایاں سنگ میل طے کرتے ہوئے آگے کا سفر جاری رکھیں گی۔
انعم ظفر کی کامیابی کے بعد ملک بھر کے میڈیا اداروں نے ان کے انٹرویوز لیے ہیں اس نوجوان اسکالر کا ہر انٹرویو اردو طلبہ کے لیے ایک نئی روشنی، نیا حوصلہ اور رہنمائی کرنے کا کام کر رہا ہے۔ یقیناً پورے ہندوستان کے اردو میڈیم طلبہ اور خاص کر اردو یونیورسٹی کے طلبہ کے لیے انعم ظفر کی کامیابی مشعل راہ کا کام انجام دے گی۔
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگزار ہیں)
[email protected]
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 مارچ تا 22 مارچ 2025