اردو فکشن میں آزادی نسواں کا اصلاحی و اخلاقی تصور

ادب میں الحاد و بے دینی اور فحاشی کے خاتمے کے لیے سنجیدہ کوششیں ضروری

ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی، بھٹکل

عصر حاضر کا انسانی معاشرہ انتشار، انحطاط اور بحران کا شکار ہے۔ آج ہمارا خاندانی نظام درہم برہم ہے، تہذیب کا شیرازہ بکھر رہا ہے، قدریں ٹوٹ رہی ہیں، ہر ذات اضطراب اور ہر فرد کرب میں مبتلا ہے۔ مشرق سے لے کر مغرب تک کے مفکرین و دانشور نئی نسل، نئی تہذیب اور نئے معاشرے کے حالت زار پر قائم ماتم شکوہ تو خوب کرتے ہیں مگر ان کی اصلاح یا کسی مثبت تبدیلی کے لیے کوئی پر خلوص کوشش نہیں کرتے، شاید وہ ایسا نہ کرنے میں حق بجانب بھی ہیں۔ اس لیے کہ خود ان کی فکر کے نگار خانے میں آڑی ترچھی لکیروں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ آج ان کے پاس مغربی فکر کے وہ مانگے ہوئے نام نہاد اجالے ہیں جو پورے سماج کو عریانی و فحاشی، جنسی بے راہ روی، بے چینی، بداخلاقی اور تباہی کے تاریک غاروں میں لیے چلے جارہے ہیں۔
اردو ادب میں مغربی فیمنزم اور آزادی نسواں کی تحریک کے علم بردار گزشتہ ایک صدی سے مذہب مخالف اور اخلاق باختگی کی مسلسل مہم چلا رہے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اہل قلم ریڈیو، ٹی وی، سینما وغیرہ تمام الیکٹرانک میڈیا پر مسلط ہیں اور وہاں وہ اپنے افسانوں اور ڈراموں کے ذریعہ جو فلمیں اور ٹی وی سیریلیں بناتے ہیں وہ انہی باطل افکار و نظریات پر مبنی ہوتے ہیں۔ فکشن جس کے لیے اردو میں فسانہ یا قصہ کا لفظ مستعمل ہے، یہ پہلے داستان کی صورت میں داستان گوئی زبانی سامعین کی محدود تعداد میں سنے جاتے تھے، پھر ناول اور افسانوں کو رسالوں اور کتابوں کی شکل میں آنے کے بعد کثیر تعداد میں قارئین ملے لیکن آج اکیسویں صدی میں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی ایجاد کے سبب الیکٹرانک میڈیا کے فکشن نگار کو ہر گھر کے ڈرائنگ روم میں اپنے ناظرین میسر ہیں، جن کے حواس خمسہ پر نہ صرف یہ فکشن حاوی ہے بلکہ نئی نسل ان کی اسیر بھی بن چکی ہے۔ اس پہلو سے بھی ہمیں آج اپنے ادب کا جائزہ لینا چاہیے۔
لیکن اب یہاں پر تھوڑی دیر کے لیے رک کر آزادی نسواں کی اس تحریک کے نتیجہ میں ہمارے یہاں کیا کچھ ہو رہا ہے، پہلے اس پر ایک نگاہ ڈالنی ضروری ہے تاکہ یہ معلوم ہو کہ ہم مشرق والوں نے جسے اپنا کعبہ و قبلہ بنا رکھا ہے یا جہاں تک پہنچنا ہم ترقی کی معراج سمجھتے ہیں، اب خود وہاں کیا صورت حال ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مغرب کے مفکرین و دانشور اپنے سماجی مسائل سے خود پریشان ہیں اور اس مسئلہ کا حل ڈھونڈ رہے ہیں بلکہ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں اور انہیں کوئی راہ سوجھ نہیں رہی ہے۔
آزادی نسواں اور نام نہاد مساوات مرد و زن کے علم برداروں نے تہذیب و کلچر کے نام پر مرد و عورت کے بے قید حجاب اور اختلاط سے معاشرے میں جو فساد برپا کیا ہے اس کے کڑوے کسیلے پھل اب سامنے آرہے ہیں۔ فلموں اور اشتہاروں نے عورت کو ننگا نچا دیا ہے، ناچ گانوں کی بد تمیزی اور عریاں سے عریاں لباس کے فیشن کے ساتھ مل کر پورے سماج کی ایک شرمناک تصویر بنارہی ہے۔ آرٹ اور کلچر کے نام پر آج جتنے مظاہرے ہو رہے ہیں وہ عورت کی ذلت و رسوائی کا ایسا سامان کر رہے ہیں جو تاریخ کے کسی دور میں نظر نہیں آتا۔ سینما کی تصویریں، ٹی وی سیرئیلیں اور انٹرنیٹ کے بعض سائٹ کوٹھوں پر ہونے والی حرکتوں سے زیادہ شرمناک اور تباہ کن ہیں۔ ان تماشوں سے سماج میں ایسا زبردست بگاڑ پیدا ہو رہا ہے جس کا کوئی علاج نہیں۔ اس سے انسانوں کی نہ صرف سیرت بلکہ ان کی فطرت بھی مسخ ہو رہی ہے۔ پاپ میوزک، پاپ ڈانس، کاکٹیل پارٹیاں، فلمی میلے، مقابلہ حسن اور کلچرل پروگرام صرف بد تہذیب اور بے شرمی کے ہوس انگیز کاروبار ہیں جن کا منافع سرمایہ داروں کی جیب میں جا رہا ہے اور خسارہ تماش بینوں کا ہو رہا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عوام کو عیاش دولت مندوں کے ہاتھوں بیچ دیا گیا ہے۔ آخر یہ آزادی نسواں ہے یا غلامی نسواں جس کی تبلیغ ہمارے مغرب زدہ فکشن نگار حضرات مسلسل کرتے رہے ہیں؟ پروفیسر عبدالمغنی مرحوم نے ایک جگہ بہت صحیح لکھا ہے کہ ’’آزادی ٔنسواں کی اصطلاح اصلاً غلط اور عملاً فساد انگیز ہے۔ یہ عصر حاضر کے فتنوں میں سب سے بڑا فتنہ ہے جو مغربی تصور حیات اور نظام زندگی نے پیدا کیا ہے۔ اور اس کا مقصد مرگ امومت اور زن کو نا زن بنانے کا طریقہ ہے‘‘ انہیں باتوں کو علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے؎
تہذیبِ فرنگی ہے اگر مرگِ اُمومت
ہے حضرتِ انساں کے لیے اس کا ثمر موت
جس عِلم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت
بہر حال اب اس پس منظر میں آئیے اردو فکشن کی طرف۔ ۱۹۳۶ء سے قبل اردو ادب کا دھارا اپنی فطری رفتار سے بہہ رہا تھا۔ ادب کی تمام اصناف اپنی تہذیبی و اخلاقی روایات کے پس منظر میں برگ و بار لا رہی تھیں۔ بیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی مختصر افسانہ نگاری کی ابتدا ہوئی۔ پریم چند اپنے دور کے افسانہ نگاروں میں سب سے زیادہ اخلاقی قدروں کا احترام کرتے تھے اور ان کے افسانوں سے ذہن پر اچھا اثر پڑتا تھا کیوں کہ وہاں ان کا اصلاحی مسلک ہمیشہ پوشیدہ رہتا تھا۔ اسی طرح سدرشن، اعظم کریوی اور علی عباس حسینی اصلاحی مطمح نظر کے حامل تھے۔ رومانی افسانہ نگاروں میں سلطان حیدر جوش اور ل احمد کے افسانوں میں اصلاحی جذبہ نسبتاً کچھ زیادہ تھا ۔ دوسری طرف ناول نگاری کے میدان میں بھی ڈپٹی نذیر احمد سے لے کر منشی پریم چند تک کسی کے یہاں بھی موجودہ آزادی نسواں کا کوئی تصور نہیں ملتا ہے۔ رتن ناتھ سرشار، عبد الحلیم شرر، ہادی حسن رسوا، افضل الحق قریشی، عظیم بیگ چغتائی کے یہاں بھی متوسط طبقہ کی گھریلو زندگی اور خانگی مسائل کو اصلاحی نقطہ نظر سے پیش کرنے کا رجحان ملتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ سرسید نے اپنے دور میں اصلاح معاشرہ کی جو تحریک چلا رکھی تھی یہ سب اسی کا حصہ تھے۔ خصوصاً ڈپٹی نذیر احمد جو اردو کے پہلے ناول نگار ہیں، وہ اپنے ناولوں کے ذریعہ وہ اخلاقی صفات ابھارنا چاہتے تھے جو قوم کی اخلاقی درستگی کے لیے ناگزیر تھیں۔ معلوم ہوا کہ ترقی پسند تحریک سے قبل فکشن کے فن میں اصلاح معاشرہ کی کوششیں پوری توانائی کے ساتھ موجود تھیں۔ ۱۹۳۶ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی پہلی کل ہند کانفرنس کے بعد فکشن کے میدان میں جو نئی پود سامنے آئی اس نے اردو افسانے کا رشتہ ماضی اور روایت سے پوری طرح منقطع کر دیا۔ فرائیڈ کے نظریہ تحلیل نفسی نے افکار کی دنیا میں وہی انقلاب پیدا کیا جو سیاسی دنیا میں مارکس کی اشتراکیت نے کیا تھا۔ مارکس نے اگر انسان کی پوری زندگی کو پیٹ کے گرد گھما کر رکھ دیا تو فرائیڈ نے جنس کا چکر چلایا۔ افسانے اور ادبی اصناف کا بیشتر حصہ جنسی ہیجانات سے بھر گیا۔ فحاشی، عریانی اور بے باکی یہاں تک پہنچ گئی کہ اشرف المخلوقات کے بلند مرتبے پر فائز انسان اسفل السافلین سے بھی نیچے گر گیا اور بقول ڈاکٹر سید عبدالباری ’’سماج کی عکاسی اور زندگی کی ترجمانی کے نام پر بعض اہل قلم نے سوسائٹی کے مفاسد کو چن چن کر اچھالا، عوام میں مریضانہ جنسی تلذذ کی چاٹ پیدا کر کے ان فنکاروں نے اپنے فکشن سے افیون کی گولیوں کا کام لیا، یہاں تک کہ اردو کی اس پر تاثیر صنف نے اپنی تعمیری قوت کھودی، مگرحالات نے بالآخر کروٹ بدلی۔ فرائیڈ، ڈارون اور مارکس کا جادو ٹوٹا۔ زندگی کی مقدس و پائیدار قدروں کی پیاس ابھری اور ادب وفن کے دوسرے شعبوں کی طرح فکشن کے میدان میں بھی بطرز نو تجربات کیے گئے۔
بیسویں صدی کی پانچویں دہائی میں ایسے ادیبوں، شاعروں اور قلم کاروں کا ایک کارواں اردو ادب میں گامزن ہوا جس نے غلط راہوں میں بیتے ہوئے دھاروں کو موڑنے اور نئے جذبات اور نئی امنگوں سے فکر وفن کے دامن کو سیراب کرنے کی کوشش کی۔ ان کوششوں کو یہاں بیان کرنے کا سر دست موقع نہیں۔ اہل قلم نے اپنی بعض تحقیقات میں انہیں تفصیل سے موضوع گفتگو بنایا ہے۔
مختصر یہ کہ موجودہ عہد کے قلم کاروں نے ماضی کی عظیم ادبی روایت سے خود کو منسلک کرتے ہوئے ادب میں الحاد و بے دینی اور فحاشی و بے حیائی کے سیلاب کو روکنے کے لیے جس منظم جدوجہد کا آغاز کیا ہے، اس قافلے میں ہمیں پوری دلجمعی اور حوصلے کے ساتھ شریک ہونا چاہیے تاکہ ادبی جاہلیت کا غلبہ ختم ہو اور انسانی فطرت کے صحیح رجحانات کی حفاظت ہو۔
(مضمون نگار: وظیفہ یاب اسوسی ایٹ پروفیسر، انجمن ڈگری کالج بھٹکل کرناٹک اور سابق قومی صدر ادارہ ادب اسلامی ہند ہیں)

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 ستمبر تا 07 ستمبر 2024