اردو دشمنی پر عدالتی تازیانہ

ابھی تہذیب کا نوحہ نہ لکھنا،ابھی کچھ لوگ اردو بولتے ہیں

ڈاکٹر سلیم خان، ممبئی

فقط ایک زبان نہیں مکمل تہذیب ہے اردو: عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ ایک سنگِ میل
اردو کے تعلق سے سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ یوگی ادتیہ ناتھ جیسے زبان و مذہب کی بنیاد پر نفرت پھیلا کر اپنی سیاست چمکانے والوں کے لیے تازیانہ عبرت ہے۔ آج کل ملک میں عجب افراتفری کا ماحول ہے۔ ایک طرف یوگی اردو کے خلاف نفرت انگیزی کرتے ہیں اور دوسری جانب راجستھان میں اردو کے بجائے سنسکرت تھوپنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تمل ناڈو میں تو ہندی کی پر زور مخالفت ہوتی رہی ہے مگر اب مہاراشٹر میں بھی راج ٹھاکرے نے ہندی کے خلاف محاذ کھول دیا ہے۔ ان مثالوں سے زبان کی بنیاد پر سیاست کرنے والوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ داؤ الٹا بھی پڑ سکتا ہے بلکہ پڑ رہا ہے۔ زبان کے معاملے میں ہندتوا نواز یوگی اور راج ٹھاکرے آمنے سامنے ہیں اور موصوف کا دعویٰ ہے کہ ہم ہندو تو ہیں مگر ہندی نہیں ہیں حالانکہ اردو زبان میں ہندی کے معنیٰ ہندوستانی کے بھی ہوتے ہیں۔ بیچارے راج ٹھاکرے کو نہیں معلوم کہ ہندی صرف ایک زبان کا نہیں بلکہ ایک قوم کا بھی نام ہے اور اس حوالے سے وہ ہندی زبان کے مخالف ہونے کے باوجود ہندی ہیں۔ یہی بات علامہ اقبال نے ترانہ ہندی میں کہی ہے جسے بیشتر قومی تقریبات میں بغیر سمجھے پڑھا جاتا ہے؎
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم، وطن ہے ہندوستاں ہمارا
1904 میں علامہ اقبال پر شاید یہ بات الہام ہو گئی تھی کہ 120 سال بعد کچھ لوگ مذہب کی بنیاد پر اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے لگیں گے اسی لیے انہوں نے عوام الناس کو اس فتنے سے خبر دار کر دیا۔ پچھلے دنوں اتر پردیش اسمبلی کے اجلاس میں بی جے پی حکومت نے اعلان کیا کہ اراکین اسمبلی اب بھوجپوری، اودھی، برج اور بندیل کھنڈی میں بھی اپنی بات رکھ سکتے ہیں۔ اس پر سماج وادی پارٹی کے قائد ماتا پرساد پانڈے نے کہا کہ اتر پردیش میں بڑی تعداد میں لوگ اردو بولتے ہیں، اس لیے اسے بھی اسمبلی کی کارروائی میں شامل کیا جانا چاہیے۔ یہ سنتے ہی وزیر اعلیٰ یوگی نے جواباً کہا کہ جو لوگ اردو پڑھانے کی وکالت کرتے ہیں وہ ملک کو’ کٹھ ملا پن‘ کی طرف لے جانا چاہتے ہیں، لیکن ایسا نہیں چلے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ کچھ لوگ بچوں کو مولوی بنانا چاہتے ہیں جو کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہو گا۔ یوگی کے اس نفرت انگیز بیان کے ساتھ یار دوستوں نے ان کی پرانی تقریر میں کہا ہوا اردو شعر چسپاں کہہ کر کے عار دلانے کی کوشش کی۔ اتفاق سے اس شعر کا مفہوم بھی ان کی شخصیت پر من و عن صادق آتا ہے۔ یوگی نے ایوان میں کہا تھا؎
بڑا حسین ہے ان کی زبان کا جادو
لگا کہ آگ بہاروں کی بات کرتے ہیں
یو پی اسمبلی میں اردو زبان کی مخالفت اب کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ماضی میں ایسا کئی بار ہو چکا ہے۔ یہاں تک کہ اردو میں حلف لینے کا مطالبہ کرنے والے ارکان اسمبلی کو اس سے باز رکھنے کی کوشش بھی کی گئی اور معاملہ عدالت تک پہنچ گیا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں اردو بولنے والوں کی تعداد تقریباً چھ کروڑ ہے۔ یہ دارالحکومت دہلی سمیت ملک کی چھ دیگر ریاستوں میں دوسری سرکاری زبان کا درجہ بھی رکھتی ہے اور ان میں اتر پردیش بھی شامل ہے لیکن صوبے کے پڑھے لکھے جاہل وزیر اعلیٰ کو ان حقائق کا علم نہیں ہے۔ اسی لیے عام آدمی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ سنجے سنگھ نے کہا "یہ نہایت مضحکہ خیز بات ہے کہ یوگی نے اردو کے خلاف بیان بازی کرتے ہوئے چار منٹ بیس سیکنڈ میں نو مرتبہ اردو الفاظ استعمال کیے” اس طرح گویا یوگی نے خود کو کٹھ ملا ثابت کر دیا۔ فرہنگ آصفیہ کے مطابق ‘کٹھ ملا’ کا مطلب ‘کم پڑھا لکھا’ ہے جبکہ فیروزاللغات میں اس لفظ کے معنی ‘جاہل اور دقیانوسی’ لکھا ہے۔ یہ دونوں صفات یوگی میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں۔ یوگی جیسے جاہلوں پر تو احمد وصی کا یہ خوبصورت شعر معمولی ترمیم کے ساتھ صادق آجاتا ہے؎
وہ کرے بات تو ہر لفظ سے بدبو آئے
ایسی بولی نہیں بولے جسے اردو آئے
یوگی کو نہیں معلوم کہ ملک کے پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پرساد نے ابتدائی تعلیم ایک مدرسے میں اردو میں حاصل کی تھی۔ اردو کے مشہور شاعر آنند نرائن ملا نے لکھنو کے فرنگی محل مدرسے میں ابتدائی تعلیم حاصل کی، آگے چل کر انہوں نے قانون کی پڑھائی کی اور 1955 میں ہائی کورٹ کے جج مقرر ہوئے۔ آنند نرائن ملا نے بھی کمال کی پیش قیاسی کرتے ہوئے اترپردیش کی پولیس کے بارے میں جو تبصرہ کیا تھا وہ حرف بہ حرف درست ثابت ہوا۔ انہوں نے کہا تھا "پولیس جرائم پیشہ لوگوں کا سب سے منظم گروہ ہے۔” فی الحال وہ جرائم پیشہ گروہ یوگی ادتیہ ناتھ کی سر براہی میں وزارت داخلہ کے تحت بالائے قانون انکاونٹر کی آڑ میں قتل و غارتگری کرتا پھر رہا ہے۔ آنند نرائن ملا کا یہ بیان تو یوگی جیسے خر دماغ لوگوں کے لیے سمِ قاتل ہے کہ ‘اردو میری مادری زبان ہے، میں اپنا مذہب چھوڑ سکتا ہوں لیکن مادری زبان نہیں چھوڑ سکتا۔” آنند نرائن ملا جیسے عالم و فاضل جج نے یوگی جیسے سیاست دانوں کے بارے میں کیا خوب کہا تھا ؎
ملاؔ بنا دیا ہے اسے بھی محاذ جنگ
اک صلح کا پیام تھی اردو زباں کبھی
عدالتِ عظمیٰ کے حالیہ فیصلے میں اردو زبان کو وطنِ عزیز میں ’’گنگا جمنی تہذیب‘‘ کا بہترین نمونہ قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’زبان خیالات کی ترسیل کا ایک ذریعہ ہے، جو مختلف الخیال اور الگ الگ عقائد رکھنے والوں کو قریب لاتی ہے۔ اس لیے اسے ان میں تقسیم کا سبب نہیں بنانا چاہیے۔‘‘ سپریم کورٹ کے مطابق زبان کو معاشرے کی ثقافتی اور تہذیبی ترقی کی علامت کے طور پر دیکھا جانا چاہیے ۔اردو کو شمالی اور وسطی ہندوستان کے میدانی علاقوں میں پائی جانے والی جامع ثقافت کے اقدار پر مبنی زبان کہنے کے بعد کہا گیا کہ وہ ہندوستانی تہذیب کا بہترین نمونہ ہے۔ عدالت نے اردو کے خلاف تعصب کی وجہ یہ غلط فہمی بتائی کہ اسے غیر ملکی زبان سمجھا جاتا ہے۔ فیصلے میں اس رائے کی تردید کی گئی اور مراٹھی و ہندی کی طرح اردو کو بھی ایک ہندوستانی زبان قرار دیا۔ فیصلے میں لکھا ہے کہ اردو زبان نے بھی اسی سر زمین پر جنم لیا ہے۔ صدیوں کے عرصے میں پہلے سے کہیں زیادہ نکھار حاصل کر کے یہ زبان بہت سارے معروف شعراء کی پسندیدہ زبان بن گئی ہے۔ عدالت نے کہا ’’ہماری غلط فہمیوں اور زبان کے خلاف تعصبات کو ہمت اور سچائی کے ساتھ پرکھنے اور آزمانے کی ضرورت ہے۔ یہ ہماری قوم کا عظیم تنوع ہے اور ہماری طاقت کبھی بھی کمزور نہیں ہو سکتی۔‘‘ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں تمام زبانوں کی اہمیت پر زور دیا مگر جاوید صبا تو آگے بڑھ کر اردو کا یہ امتیاز بتاتے ہیں؎
ایک ہی پھول سے سب پھولوں کی خوشبو آئے
اور یہ جادو اسے آئے جسے اردو آئے
فی الحال جموں کشمیر کے بعد ریاست مہاراشٹر اور تلنگانہ اردو کی تعلیم و ترویج کے اہم مراکز ہیں۔ اتفاق سے مہاراشٹر ہی کے ضلع اکولا میں واقع پاتور سے تعلق رکھنے والی ایک سابق میونسپل کونسلر ورشتائی سنجے بگاڑے نے بلدیاتی کتبوں پر مراٹھی زبان کے ساتھ ساتھ اردو کے استعمال کو چیلنج کیا تھا۔ ان کی دلیل یہ تھی اردو زبان کا استعمال غلط ہے، میونسپل کونسل کا کام صرف مقامی زبان مراٹھی میں ہی ہونا چاہیے یہاں تک کہ نام کی تختیوں پر بھی اردو نہیں لکھی جانی چاہیے۔ ماحول بگاڑنے کی خاطر مس بگاڑے نے اردو زبان کے استعمال کے خلاف پہلے ایک نچلی عدالت میں مقدمہ دائر کیا۔ وہاں ناکامی کے بعد انہوں نے ممبئی ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ عدالت عالیہ میں بھی ان کے ہاتھ ناکامی ہی لگی مگر وہ نہیں مانیں بلکہ ضد پکڑ کر عدالتِ عظمیٰ پہنچ گئیں۔ لیکن ہر جگہ انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ پھر بھی اردو والوں کو ان کا شکر گزار ہونا چاہیے کیونکہ ان کے خلاف سپریم کورٹ نے ایک تاریخی فیصلہ سنا کر یوگی جیسے لوگوں کا منہ بند کر دیا۔ عدالت نے کہا کہ اگر میونسپل کونسل کے زیر اثر علاقوں میں رہنے والے لوگ یا ان کا ایک گروہ اردو سے واقف ہے تو سرکاری زبان یعنی مراٹھی کے علاوہ کم از کم میونسپل کونسل کے سائن بورڈز پر اردو استعمال کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ اس کے ساتھ یہ خوشگوار تلقین بھی کی کہ ’’آئیے، ہم اردو اور اپنی تمام زبانوں کے دوست بنیں کیونکہ زبان کا تعلق مقامی برادری، علاقے اور وہاں کے باشندوں سے ہوتا ہے۔ اس کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا‘‘ صفی انبالوی بھی یہی کہتے ہیں؎
اپنی اردو تو محبت کی زباں تھی پیارے
اف سیاست نے اسے جوڑ دیا مذہب سے
عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کا اعتراف کرنے کے لیے اردو کی تاریخ پر غائر نظر ڈالنا کافی ہے۔ اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ 1837 تک ہندوستان کی سرکاری زبان فارسی تھی مگر پھر اردو نے اس کی جگہ لے لی۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دہلی سلاطین اور مغل حکم ران اردو کے فروغ کے لیے کتنے سنجیدہ تھے۔ ویسے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ابتدائی ایام میں اس کی ترویج میں دکن کی سلطنتوں کا اہم کردار رہا ہے۔ دکنی سلطنتوں کو سیاسی وجوہات پر اردو عزیز تھی کیونکہ دہلی والے فارسی کو سینے سے لگائے ہوئے تھے۔ آزادی کے بعد جب پاکستان نے اردو کو قومی زبان قرار دیا تو ہندتوا نواز اردو کے خلاف ہوگئے جبکہ وہ خالص ہندوستانی زبان ہے۔ اردو کے حوالے سے ماضی بعید میں دکنی سلطنتوں کی سرپرستی سے زبان کو فائدہ پہنچا جبکہ تقسیم ہند کے بعد بغض و عناد میں اردو کو ہندی سے لڑا کر اسے نقصان پہنچایا گیا۔ منور رانا کے بقول ؎
سگی بہنوں کا جو رشتہ ہے اردو اور ہندی میں
کہیں دنیا کی دو زندہ زبانوں میں نہیں ملتا
اردو ایک ہند آریائی زبان ہے جو دہلی و نواح کی برج بھاشا، کھڑی بولی، ہریانوی، قنوجی اور میواتی بولیوں سے مل کر وجود میں آئی۔ ہندوستانی لسانیات کے ماہر سنیتی کمار چٹرجی کے خیال میں ’اگر مسلمان ہندوستان میں نہ آتے تب بھی جدید ہند آریائی زبانوں کی پیدائش ہو جاتی لیکن ان کے ادبی آغاز و ارتقا میں تاخیر ضرور ہوتی۔‘ انیسویں صدی میں اردو بر صغیر میں فارسی، عربی اور سنسکرت کے خلاف ایک ہمہ جہت لسانی انقلاب تھا۔ اس کی تدوین و ترویج میں انگریزی سامراج کا بھی اہم حصہ ہے۔ 1800 میں کلکتہ کے فورٹ ولیم کالج میں جان گلکرسٹ کی سربراہی میں ہندوستانی زبانوں کا الگ شعبہ قائم کیا گیا تو اس میں اردو خصوصی توجہ کا مرکز بن گئی۔ اس کالج کا بنیادی مقصد ہندوستان میں زیرِ ملازمت انگریز افسروں کو ہندوستانی تہذیب و زبان سے آگاہ کرنا تھا۔ اس وقت ہندوستانی کہلانے والی اردو میں بہت سی کتابوں کے تراجم کیے گئے، آگے چل کر یہ ترجمے اردو کی ادبی ترقی اور ترویج میں معاون ثابت ہوئے لیکن انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ میں منہمک مذہبی طبقات کی طرف سے ابتداء میں اسے کافی مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
اتر پردیش میں اردو پر سیاست اور اسے مسلمان بنانے کا آغاز آزادی کے وقت سے ہی ہو گیا تھا اور ابتداء کے دو تین انتخابات تک اردو بھی ایک موضوع رہتی تھی۔ اردو کے ساتھ نفرت انگیزی کی سیاست اور اس کے خلاف پروپیگنڈے کے باوجود عوام کے دلوں سے اردو کی محبت کو دور نہیں کیا جا سکا۔ اس کا منہ بولتا ثبوت جشن ریختہ کی غیر معمولی مقبولیت ہے۔ روہنی سنگھ جیسی معروف صحافیہ کا اس عمر میں اردو سیکھ کر کتاب لکھنا اور اسے پنر جنم کہنا بھی اس حقیقت کا غماز ہے۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے نے بھی اردو کو مذہبی پیرائے سے جوڑ کر دیکھنے والی ذہنیت کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ بعض ریاستوں میں تین زبانوں کے فارمولے کی آڑ میں جان بوجھ کر اردو کو کنارے لگایا جا رہا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ نے اپنے حالیہ فیصلے میں آئین کے دفعہ 343 کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے ’آئین سازوں کا اس دفعہ میں سرکاری زبانوں کے حوالے سے ہندی اور انگریزی کے خصوصی ذکر کا یہ مطلب نہیں تھا کہ ہندوستانی اور اردو کو ختم کر دیا جائے۔‘
جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس کے ونود چندرن نے اپنے حالیہ فیصلے میں تقسیم ہند کی وجہ سے ہندوستان میں اردو کو ہونے والے نقصان کا اعتراف بھی کیا ہے۔اس بینچ نے ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’انہوں نے مانا تھا کہ اردو ہندوستانی انڈیا کی لنگوا فرینکا ہو گی‘ اور ’آزادی کی تحریک کے دوران یہ واضح تھا کہ ہندوستانی ملک کی قومی زبان ہو گی مگر تقسیم ہند کی وجہ سے سب سے زیادہ اردو متاثر ہوئی۔‘ بابائے قوم گاندھی جی نے بھی متعدد تحریروں میں ’ہندوستانی‘ کو قومی زبان بنانے کی وکالت کی ہے۔ ہندوستانی سے مراد سنسکرت اور فارسی سے الگ عام لوگوں کے بول چال کی زبان جو اردو سے قریب تر تھی۔ 2023 میں ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ بار اسوسی ایشن کے صدر اور نامور وکیل کپل سبل نے بحث کے دوران سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کے سامنے بشیر بدر کا ایک شعر پڑھا تو بحث کا رخ اردو زبان کی طرف مڑ گیا۔ سابق چیف جسٹس نے اردو کو خوبصورت زبان کہا تو کپل سبل نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اسے مرض الموت میں مبتلا زبان قرار دے دیا تھا۔ دو سال بعد اسی عدالت نے اردو کے حوالے سے ایک حوصلہ افزاء فیصلہ سنا دیا۔
اردو کے تعلق سے کپل سبل کی تشویش بجا ہے مگر دو سال قبل مشہور انگریزی اخبار ’دی ہندو‘ کے اعداد و شمار اس تاثر کی تردید کرتے ہیں کہ یہ زبان ختم ہو رہی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی 320 زبانوں میں ویکیپیڈیا پر دستیاب آرٹیکلز میں سب سے زیادہ 66 لاکھ 71 ہزار 236 انگریزی کے تھے۔ دوسرے نمبر پر فلپائن کی ایک علاقائی زبان سیبانو کے 61 لاکھ 23 ہزار 197 آرٹیکلز دستیاب تھے۔ دیگر مشہور زبانوں میں جرمن (28.6 لاکھ) سویڈش (25.1 لاکھ) ڈچ (21.2 لاکھ) اور فرانسیسی (25.3 لاکھ) زبانوں کا نمبر آیا تھا جبکہ چینی زبان میں دستیاب آرٹیکلز کی تعداد 13.6 لاکھ تھی۔ ہندوستان کی آئینی تسلیم شدہ زبانوں میں اردو کو وکی پیڈیا پر آرٹیکلز کی دستیابی میں سبقت حاصل تھی ۔ اردو میں دستیاب آرٹیکلز کی تعداد 1.91 لاکھ تھی جبکہ ہندی (1.57 لاکھ) تمل (1.54 لاکھ) اور بنگلہ (1.4 لاکھ) تھے۔ ایسے میں بے ساختہ داغ دہلوی کا یہ شعر زبان پر آ جاتا ہے؎
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***

 

***

 سپریم کورٹ کے مطابق زبان کو معاشرے کی ثقافتی اور تہذیبی ترقی کی علامت کے طور پر دیکھا جانا چاہیے ۔اردو کو شمالی اور وسطی ہندوستان کے میدانی علاقوں میں پائی جانے والی جامع ثقافت کے اقدار پر مبنی زبان کہنے کے بعد کہا گیا کہ وہ ہندوستانی تہذیب کا بہترین نمونہ ہے۔ عدالت نے اردو کے خلاف تعصب کی وجہ یہ غلط فہمی بتائی کہ اسے غیر ملکی زبان سمجھا جاتا ہے۔ فیصلے میں اس رائے کی تردید کی گئی اور مراٹھی و ہندی کی طرح اردو کو بھی ایک ہندوستانی زبان قرار دیا۔ فیصلے میں لکھا ہے کہ اردو زبان نے بھی اسی سر زمین پر جنم لیا ہے۔ صدیوں کے عرصے میں پہلے سے کہیں زیادہ نکھار حاصل کر کے یہ زبان بہت سارے معروف شعراء کی پسندیدہ زبان بن گئی ہے۔ عدالت نے کہا ’’ہماری غلط فہمیوں اور زبان کے خلاف تعصبات کو ہمت اور سچائی کے ساتھ پرکھنے اور آزمانے کی ضرورت ہے۔ یہ ہماری قوم کا عظیم تنوع ہے اور ہماری طاقت کبھی بھی کمزور نہیں ہو سکتی۔‘‘


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 اپریل تا 03 مئی 2025