حیدرآباد، 9 جنوری (دعوت نیوز ڈیسک)
قانون کی تعلیم کے بعد میڈیکل کالج کے آغاز کے لیے ہر ممکن کوشش کا عہد
اردو کا تعلق کسی خاص علاقہ یا مذہب سے نہیں ہے، یہ بھارت کی ایک ایسی زبان ہے جو دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کرچکی ہے، اور اس کے مداحوں میں آج غیر مسلم احباب کی تعداد زیادہ ہے۔ پروفیسر طارق منصور، سابق وائس چانسلر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں منعقدہ 28 ویں یومِ تاسیس کی تقریب میں ان خیالات کا اظہار کیا۔ اس موقع پر جناب ممتاز علی، چانسلر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی بطورِ مہمانِ خصوصی مدعو تھے، جبکہ پروگرام کی صدارت وائس چانسلر پروفیسر سید عین الحسن نے کی۔
آغا حشر کاشمیری آڈیٹوریم، مرکز برائے فاصلاتی و آن لائن تعلیم، ‘مانو’ کیمپس میں منعقدہ یومِ تاسیس کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر طارق منصور نے مزید کہا کہ برصغیر میں اردو کا آغاز اور فروغ پنجاب اور دکن کے علاقوں میں ہوا اور آج اردو برصغیر سے باہر نکل کر دنیا بھر میں پہنچ چکی ہے۔ جہاں یہ ہندوستان کی 23 مسلمہ زبانوں میں شامل ہے وہیں اسے اقوامِ متحدہ نے عالمی زبان کا درجہ دیا ہے۔
پروفیسر طارق منصور نے اردو کے فروغ میں غیر مسلم حضرات کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آج بھی ڈاکٹر سنجیو صراف کی ریختہ فاؤنڈیشن اردو کو غیر اردو داں حضرات تک پہنچانے میں پیش پیش ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اردو کسی ایک خاص مذہب یا علاقے کی زبان نہیں ہے۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کو اپنے قیام کی 28 ویں سالگرہ پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے پروفیسر طارق منصور نے کہا کہ ‘مانو’ کی ذمہ داری ہے کہ وہ خلیجی ممالک سے ہندوستان کے بہتر تعلقات کے پس منظر میں تعلیم اور تحقیق کا کام کرے۔ انہوں نے کہا کہ تاریخی طور پر بھی حیدرآباد دکن کا خاص طور پر سعودی عرب سے تعلق رہا ہے اور ضروری ہے کہ ‘مانو’ ان تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔
مہمانِ اعزازی، چانسلر اردو یونیورسٹی جناب ممتاز علی نے بھی تقریب کو مخاطب کیا اور کہا کہ اردو یونیورسٹی نے جس کامیابی کے ساتھ اردو میں قانون کی تعلیم کا آغاز کیا ہے، اب وقت آگیا ہے کہ یہاں طب کی تعلیم بھی شروع ہو۔ انہوں نے مولانا ابوالکلام آزاد کو خراج پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ نہ صرف مذہبی رہنما تھے بلکہ عصری علوم کے بھی حامی تھے۔ اردو یونیورسٹی سے وابستہ ہر فرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مولانا آزاد کے مشن کو آگے بڑھائے۔
پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ یومِ تاسیس کی اہمیت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی کے چانسلر کی خواہش کے مطابق اردو یونیورسٹی میں میڈیکل کالج کے آغاز کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ اس موقع پر انہوں نے اپنے اشعار بھی سنائے۔
پروگرام کے آغاز میں پروفیسر اشتیاق احمد، رجسٹرار نے خیر مقدمی کلمات کہے اور یونیورسٹی کی ترقی میں اساتذہ، غیر تدریسی عملہ اور غیر مستقل اسٹاف کی محنت کا اعتراف کیا۔
یومِ تاسیس کی اس تقریب میں یونیورسٹی سے سبکدوش ہونے والے ملازمین پروفیسر صداقت علی خان، ڈاکٹر عبدالقیوم، ڈاکٹر عباس خان، جناب اظہر حسین خان اور جناب نندا کمار کو تہنیت پیش کی گئی۔ اس کے علاوہ شہر کی ممتاز شخصیات جنہوں نے اردو زبان و ادب کے لیے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں، ان کو اعتراف خدمات ایوارڈز دیے گئے، جن میں پدم شری محمد علی بیگ، جناب اشہر فرحان، ڈاکٹر سید مصطفیٰ کمال، ڈاکٹر عبدالقدیر، پروفیسر تقی علی خان (بعد از مرگ) اور محترمہ نسیمہ تراب الحسن شامل ہیں۔
اس موقع پر تین کتابوں کی رسمِ اجراء بھی کی گئی، جن میں یونیورسٹی کا جریدہ ”ادب و ثقافت“ کا مولانا آزاد پر خصوصی نمبر، پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ کی کتاب ”انسان زمین پر اللہ کا خلیفہ“ اور ڈاکٹر صابر علی سیوانی کی کتاب ”روضة الشہدا اور کربل کتھا کا تقابلی مطالعہ“ شامل ہیں۔
پروگرام کی کارروائی پروفیسر عبدالسمیع صدیقی نے چلائی جبکہ پروفیسر علیم اشرف جائسی، ڈی ایس ڈبلیو نے شکریہ کے فرائض انجام دیے۔
شہر حیدرآباد کی نمائندہ شخصیات کی خدمات کا اعتراف
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں 28 ویں یومِ تاسیس کے موقع پر شہر حیدرآباد کی نمائندہ شخصیات کی خدمات کا اعتراف کیا گیا۔ یومِ تاسیس کی تقریب میں جن شخصیتوں کو اعتراف خدمات کا ایوارڈ دیا گیا ان میں اردو زبان میں تھیئٹر کو فروغ دینے کے لیے پدم شری محمد علی بیگ، اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے جن شخصیات کو آج ایوارڈ دیا گیا ان میں مدیر شگوفہ ڈاکٹر سید مصطفی کمال، پروفیسر تقی علی خان (بعد از مرگ) اور محترمہ نسیمہ تراب الحسن شامل ہیں۔ جبکہ تعلیم کے فروغ کے لیے ڈاکٹر عبدالقدیر ، چیئرمین شاہین گروپ آف انسٹیٹیوشنس، بیدر کو ایوارڈ دیا گیا اور اردو کو ٹیکنالوجی سے جوڑنے
کی گراں قدر خدمات انجام دینے کے اعتراف میں جناب اشہر فرحان کو بھی یادگاری مومنٹو اور تہنیت پیش کی گئی جو ان کے غیاب میں پروفیسر نجم الحسن نے حاصل کی۔ ان سبھی ایوارڈ یافتگان کو آج یومِ تاسیس کی تقریب میں وائس چانسلر پروفیسر سید عین الحسن کے ہاتھوں شال پوشی، تہنیت نامہ اور یادگاری مومنٹو دیا گیا۔ پروفیسر تقی علی خان کو بعد از مرگ دیے جانے والے اس ایوارڈ کو ان کی صاحبزادی نے حاصل کیا۔ محترمہ نسیمہ تراب الحسن، اپنی خرابیِ صحت کی وجہ سے پروگرام میں شریک نہیں ہو سکیں۔ اس لیے ڈاکٹر پریہ حسن نے ان کے غیاب میں ان کا تہنیت نامہ اور یادگاری مومنٹو حاصل کیا۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 جنوری تا 25 جنوری 2024