یو پی ایس سی اور مسلمان

تعداد سے آگے بڑھ کر حکمتِ عملی اور حوصلہ افزائی کی طرف توجہ ضروری

محمد نوشاد

فقط شمولیت اور شرکت میں اضافے سے کامیابی کی شرح میں بھی خاطر خواہ اضافہ ممکن
ہر سال جب سِول سروسز امتحانات (UPSC) کے نتائج کا اعلان ہوتا ہے تو عموماً کامیاب ہونے والے مسلم طلبہ کی تعداد کی طرف توجہ مرکوز ہو جاتی ہے اور ان کے فیصد پر بحث چھڑ جاتی ہے، لیکن اس پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا جاتا۔
اس سال کے نتائج نے مسلم برادری کو مایوس کیا ہے، کیونکہ 1009 کامیاب امیدواروں میں صرف 26مسلمان تھے، جو کہ محض 2.5 فیصد بنتے ہیں، حالانکہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق مسلمانوں کی آبادی کا تناسب ملک میں 14.2 فیصد ہے۔
تاریخی طور پر یو پی ایس سی میں مسلمانوں کی کامیابی کی شرح 2 سے 5 فیصد کے درمیان اتار چڑھاؤ کا شکار رہی ہے۔ سرکاری اور غیر سرکاری ادارے طویل عرصے سے سِول سروسز میں مسلمانوں کی بہتر نمائندگی کے لیے کوشاں رہے ہیں۔ کچھ عرصے کے لیے یہ شرح بہتر ہوئی تھی لیکن حالیہ برسوں میں دوبارہ کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ 2019 میں829 کامیاب طلبہ میں 44 مسلمان تھے جو کُل کامیاب امیدواروں کا 5.3 فیصد تھے۔ 2022 میں یہ تعداد 29 (3.1 فیصد) رہی اور 2023 میں 51 مسلمان امیدوار کامیاب ہوئے جو 5 فیصد تھے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمیں کم نمائندگی پر افسوس کرنے کی بجائے اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ مسلمان طلبہ ان امتحانات میں شریک ہوں۔ جب شرکت بڑھے گی تو کامیابی کی شرح بھی خود بخود بہتر ہو گی۔
اس سال ایک روشن مثال جامعہ ملیہ اسلامیہ کی رہائشی کوچنگ اکیڈمی (RCA) کی ہے جہاں سے 32 امیدوار یو پی ایس سی میں کامیاب ہوئے۔ درحقیقت تقریباً کُل 78 امیدوار انٹرویو تک پہنچے جن میں سے 32 کا انتخاب ہوا، ان78 میں 12 لڑکیاں شامل تھیں۔
سابق بیوروکریٹ اور سچر کمیٹی کے رکن ڈاکٹر سید ظفر محمود نے ملت کی خودمختاری کی جانب اس سفرکے طریقہ کار کو وسعت دینے اور تنوع پیدا کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا، ’’گزشتہ کچھ برسوں سے یو پی ایس سی کے ذریعے سِول سروسز میں بھرتی کا رجحان کم ہواہے۔ سات سال پہلے بھرتی کی تعداد 1250 تھی جو تین سال پہلے کم ہو کر 650 ہو گئی۔ اگرچہ اب اس میں معمولی اضافہ ہوا ہے مگر مجموعی رجحان کم ہوتا جا رہا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا ’’حکومت نے حالیہ برسوں میں کارپوریٹ سیکٹر سے جوائنٹ سکریٹری سطح تک سب جگہوں پر براہِ راست تقرریاں شروع کی ہیں، جسے‘ لیٹرل انٹری ’کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ موجودہ ماحول بھی سازگار نہیں رہا۔ سیلف امپاورمنٹ کے اس سفرمیں نئے راستے تلاش کرنے اور حکمت عملی کو وسیع کرنے پر غور کرنا ہوگا۔‘‘
انہوں نے نشاندہی کی کہ ملک میں 29 ریاستی اور یونین ٹریٹری پبلک سروس کمیشنز اور 25 ہائی کورٹس ہر سال بڑی تعداد میں بھرتیاں کرتی ہیں۔ مرکزی اسٹاف سلیکشن کمیشن ہر سال ہزاروں بھرتیاں کرتا ہے۔ یو پی ایس سی بھی سِول سروسز کے علاوہ دیگر بڑی بھرتیاں کرتا ہے۔
ڈاکٹر ظفر محمود کے مطابق ’’ایسی کئی ملازمتوں کے لیے بنیادی تعلیمی قابلیت صرف بارہویں جماعت ہوتی ہے اور صرف تحریری امتحان ہوتا ہے، انٹرویو نہیں۔ ہمیں طلبہ اور طالبات تک ان معلومات کو پہنچانا ہوگا، ان میں جذبہ پیدا کرنا ہوگا اور ان کی تیاری میں مدد کرنا ہو گی۔ زکوٰۃ فاؤنڈیشن آف انڈیا (ZFI) اس سلسلے میں گزشتہ تین برسوں سے آن لائن اور آف لائن پروگراموں کے ذریعے یہ کام کر رہا ہے۔‘‘
زکوٰۃ فاؤنڈیشن کی کوششوں کے بارے میں انہوں نے مزید بتایا ’’یہ تنظیم نویں سے بارہویں جماعت تک کے طلبہ کو ہفتے میں تین دن ایک ایک گھنٹے کی آن لائن کلاسز فراہم کرتی ہے۔ اس مقصد کے لیے یہ کمیونٹی اسکولوں سے رابطہ کرتی ہے تاکہ وہ ایک کمرہ، پروجیکٹر اور اسکرین مہیا کریں۔ اس پروگرام کے ذریعے طلبہ کو بارہویں کے بعد موجود سرکاری مواقع سے آگاہ کیا جاتا ہے اور انہیں اس قابل بنایا جاتا ہے کہ وہ پہلی ہی کوشش میں سرکاری ملازمت حاصل کر لیں۔ ملازمت کے ساتھ ہی وہ اپنی تعلیمی قابلیت میں اضافہ کر سکتے ہیں اور یو پی ایس سی اور دیگر امتحانات کے ذریعے آگے بڑھ سکتے ہیں۔‘‘
جامعہ ملیہ اسلامیہ کی RCA کے سابق ڈائریکٹر محمد طارق نے کہا ’’مسلمانوں کی نمائندگی آل انڈیا سروسز، مرکزی و ریاستی اداروں اور پبلک سیکٹر اداروں میں کمزور ہے اور اس کی بنیادی وجہ ان کا پسماندہ سماجی و معاشی پس منظر ہے۔ لیکن کچھ اور وجوہات بھی ہیں:
1- لاکھوں گریجویٹ ہونے کے باوجود بہت کم مسلمان مسابقتی امتحانات میں شرکت کرتے ہیں۔ ان میں سے کئی بڑے خواب نہیں رکھتے اور کئی کو کوچنگ یا رہنمائی نہیں ملتی۔
2- اکثر نوجوان فوری روزگار کی تلاش میں رہتے ہیں اور تعلیم مکمل ہونے کے بعد کچھ وقت مزید محنت کرنے سے کتراتے ہیں۔
3۔ان کے خاندانوں یا برادریوں میں ان امتحانات کی تیاری کا رواج یا روایت نہیں ہے جیسا کہ دیگر قوموں میں پایا جاتا ہے۔
4۔مسلم تعلیمی ادارے جو رہنمائی فراہم کر سکتے تھے، وہ نااہل افراد کے ہاتھوں میں ہیں جن کے پاس ویژن اور جذبہ نہیں ہے۔ مسلم دانشوروں نے بھی اپنی قوم کو چھوڑ دیا ہے اور ان کی رہنمائی نہیں کرتے۔
5۔جامعہ ملیہ یا سابقہ ہمدرد اسٹڈی سرکل بہتر نتائج اس لیے دے سکے کیونکہ ان کے آغاز میں سید حامد (IAS) پروفیسر عثمان ادہامی، نجیب جنگ (IAS) پروفیسر انیس الرحمٰن اور ایم ایف فاروقی جیسے قابل اور مخلص افراد موجود تھے۔ لیکن یہ جذبہ برقرار نہیں رہ سکا۔ اگرہم بہتر نتائج چاہتے ہیں تو مسلم اداروں کو جامعہ، HSC اور پٹنہ حج ہاؤس جیسے رہائشی کوچنگ انسٹیٹیوٹس قائم کرنے چاہئیں اور قابل افراد کو تعینات کرنا چاہیے۔ ملک بھر میں مسلم گریجویٹس کو بڑی تعداد میں ان امتحانات کے لیے شرکت پر آمادہ کرکے رہنمائی دی جانی چاہیے اور ان کے اندر کامیابی کی تڑپ پیدا کی جائے‘‘
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے RCA کے سابق ڈائریکٹر پروفیسر صغیر انصاری نے AMU کی کمزوریوں کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ طلبہ میں شعور کی کمی، کم حوصلگی اور میڈیکل یا انجینئرنگ جیسے "محفوظ” کورسز کو ترجیح دینا اہم وجوہات ہیں۔ مالی مسائل کے باعث طلبہ جلد روزگار کے خواہاں ہوتے ہیں اور یو پی ایس سی جیسے طویل مدتی امتحانات سے گریز کرتے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ کئی ذہین طلبہ ناکامی کے خوف، ناقص منصوبہ بندی، اور حکمتِ عملی کی کمی کی وجہ سے ان امتحانات سے دور رہتے ہیں۔ AMU کی طالبات میں بہت پوٹینشل ہے، مگر انہیں حوصلہ افزائی اور سہارا درکار ہے۔ اس چیلنج کے لیے شعور اور تربیت کا آغاز اسکول کی سطح سے ہونا چاہیے اور سِول سروسز سے متعلق غلط فہمیوں کو دور کیا جانا چاہیے۔
سِول سروسز میں مسلمانوں کی نمائندگی کے حوالے سے گفتگو کو اب محض کامیاب امیدواروں کی گنتی سے آگے بڑھتے ہوئے شرکت کو بڑھانے، اداروں کی تشکیل اور حوصلہ افزائی و تیاری کی ثقافت کو فروغ دینے کی طرف جانا ہوگا۔ ماہرین کے مطابق بہتر نمائندگی کا راستہ شکوے شکایت سے نہیں بلکہ مربوط منصوبہ بندی، معیاری کوچنگ میں سرمایہ کاری اور ہر طبقے کے طلبہ کو بلند خواب دکھا کر ان کی رہنمائی کرنے میں ہے۔
(بشکریہ ریڈینس ویکلی)

 

***

 سِول سروسز میں مسلمانوں کی نمائندگی کے حوالے سے گفتگو کو اب محض کامیاب امیدواروں کی گنتی سے آگے بڑھتے ہوئے شرکت کو بڑھانے، اداروں کی تشکیل اور حوصلہ افزائی و تیاری کی ثقافت کو فروغ دینے کی طرف جانا ہوگا۔ ماہرین کے مطابق بہتر نمائندگی کا راستہ شکوے شکایت سے نہیں بلکہ مربوط منصوبہ بندی، معیاری کوچنگ میں سرمایہ کاری اور ہر طبقے کے طلبہ کو بلند خواب دکھا کر ان کی رہنمائی کرنے میں ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 مئی تا 24 مئی 2025