یو پی پی ایس سی کے امیدواروں کی وجہ سے سرکار جھکنے پر مجبور سکریٹریٹ میں سرکاری نوکریوں کی بندر بانٹ

باباؤں اور شاکھاوں کا سرکاری رتبہ، ایک اشارے پر یو پی میں بڑے بڑے کام

محمد ارشد ادیب

فلم اداکارہ دشا پاٹنی کے والد ٹھگی کے شکار بی جے پی رکن پارلیمان کی دعوت میں روٹی بوٹی پر دھینگا مشتی
آئی پی ایس علمہ افروز کی ایمانداری کا صلہ ۔ ہماچل حکومت نے لمبی چھٹی پر گھر کیوں بھیجا؟
شمالی بھارت کی وادی کشمیر میں موسم سرما کی پہلی برف باری سے درجہ حرارت گرنے لگا ہے لیکن یو پی کے وزیر اعلیٰ کی زبان سے نکلنے والے ایک متنازعہ نعرے نے پورے ملک کا سیاسی پارہ چڑھا دیا ہے۔ اس نعرے کو یو پی سے لے کر مہاراشٹر تک الگ الگ انداز سے پیش کیا جا رہا ہے، مہاراشٹر میں تو این ڈی اے کی حلیف جماعتوں نے اس نعرے کی ہوا ہی نکال دی، اس نعرے کا سب سے کارآمد مطلب الٰہ آباد میں پریاگ راج کے مسابقتی طلبہ نے نکالا ہے۔ یو پی پبلک سروس کمیشن کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کرنے والے مسابقتی امیدواروں نے نیا نعرہ دیا "جیت ابھی ادھوری ہے بٹیں گے نہیں ہٹیں گے نہیں” واضح رہے یہ طلبہ آر او اے آر او امتحانات ایک دن اور ایک شفٹ میں کرانے کے مطالبے پر جمع ہوئے تھے۔ حکومت نے پہلے انہیں ڈرانے، دھمکانے اور بھگانے کی کوشش کی لیکن احتجاجی طلبہ کے اتحاد نے خود حکومت کو ہی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ وزیراعلی یوگی آدتیہ ناتھ کی مداخلت کے بعد کمیشن نے مسابقتی امتحان مختلف شفٹوں میں کرانے کا فیصلہ واپس لے لیا ہے۔ امتحان کی تاریخ طے کرنے کے لیے ایک کمیٹی بنائی گئی ہے جس کی رپورٹ ملنے کے بعد اگلی تاریخ کا اعلان جلد کر دیا جائے گا۔ جو حکومت تن کر اور اکڑ کر فیصلے لینے کی عادی ہو چکی تھی اب اسے بھی سمجھ آنے لگا ہے کہ نوجوانوں کو برہم کرنے کا کیا نقصان ہو سکتا ہے۔ فی الحال پی سی ایس کا امتحان 22 دسمبر کو دو شفٹوں میں کرایا جائے گا۔ اس امتحان میں تقریبا پونے چھ لاکھ طلبہ شرکت کر رہے ہیں جبکہ آر او اے آر او امتحان میں دس لاکھ سے زیادہ طلبہ امیدوار ہیں دونوں امتحانات میں پندرہ لاکھ سے زیادہ امیدوار ہیں ۔یو پی پی ایس سی کا کہنا ہے کہ انہیں اتنی بڑی تعداد میں امتحانی مراکز نہیں مل پا رہے ہیں حکومت امتحانات کے دوران پرچہ لیک ہونے کی بدنامی سے محتاط رویہ اختیار کر رہی ہے جبکہ طلبہ کا کہنا ہے کہ جو حکومت پریاگ راج میں اتنا بڑا کمبھ میلہ کرا سکتی ہے وہ طلبہ کے امتحانات کیوں نہیں کرا سکتی۔ یو پی پی ایس سی دفتر کے باہر ایک احتجاجی طالبہ نے میڈیا کو بیان دیتے ہوئے بتایا کہ حکومت کے رویے سے صاف عیاں ہے کہ اس کی ترجیح کمبھ میلہ ہے طلبہ کا مستقبل نہیں۔ طالبہ نے کہا اگر مذہب اور ذات پات کا مسئلہ ہوتا تو حکومت ضرور توجہ دیتی طلبہ کے مطالبات پر کیوں دھیان دے گی؟
یو پی اسمبلی میں نوکریوں کی بندر بانٹ
یو پی اسمبلی سکریٹریٹ میں سمیکشا ادھیکاری کے عہدوں پر بحالی میں بے ضابطگی کے الزامات لگ رہے ہیں ایک انگریزی اخبار نے اس سلسلے میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ یو پی اسمبلی کے لیے ہونے والی ان بحالیوں کا پانچواں حصہ سابق اسپیکر کے اسٹاف، پرنسپل سکریٹریوں کے بچوں اور وی وی آئی پی افراد کے ناطے رشتہ داروں کو نوکری کی شکل میں ملا ہے۔ قانون ساز کونسل کے پرنسپل سکریٹری کے بیٹے کو اسمبلی ہاؤس میں سمیکشا ادھیکاری بنایا گیا ہے جبکہ اسمبلی ہاؤس کے سیکرٹری کے دو بھانجوں کو قانون ساز کونسل میں تقرری دی گئی ہے۔ ابھیشیک اپادھیائے نام کے ایک صحافی نے اپنے ایکس ہینڈل پر طنز کرتے ہوئے لکھا اب نوکری میں بھی بٹیں گے تو کٹیں گے اپنوں کو نوکری دی اور دوسروں کو کاٹ دیا۔ جس دور میں پریاگ راج میں ہزاروں طلبہ آر او اے آر او امتحان کے لیے احتجاجی تحریک چلا رہے ہوں اسی دور میں یو پی اسمبلی ہاؤس میں آر او اے آر او اسامیوں کی بندر بانٹ ہو گئی۔ یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ یوگی حکومت میں بدعنوانی پر زیرو ٹالرینس کی زمینی حقیقت کیا ہے؟ وکاس اپریتی نام کے ایک صارف نے اس پر تبصرہ کیا اصل مسئلہ یہی ہے جسے لوگ سمجھنے کو تیار نہیں ہیں۔ لیڈر اور افسروں کے بچے ملائی کھا رہے ہیں اور عوام کو ہندو مسلم، مذہب، ذات پات، مندر مسجد، پاکستان اور روہنگیا جیسے مسائل میں الجھا کے پانچ کلو راشن کا تھیلا تھما دیا گیا ہے، یہی سچ ہے”۔
اسی دوران کانپور سے ایک نابینا بابا کا ویڈیو وائرل ہو گیا ہے جس میں وہ عوامی منچ پر ہی اسمبلی اسپیکر ستیش مہانا سے اپنے ایک چہیتے شاگرد کو اسمبلی سکریٹریٹ میں سمیکشا ادھیکاری بنانے کی سفارش کر رہے ہیں۔ جگت گرو رام بھدرا آچاریہ کی اس سفارش پر انیل یادو نام کے ایک صحافی نے سوال اٹھایا اگر رام بھدرا آچاریہ کی سفارش پر ان کے چیلے کی غیر قانونی تقرری ہوتی ہے تو کیا اس سے ایک ہونہار امیدوار کا حق نہیں مارا جائے گا کیا یہ مذہب کے مطابق ٹھیک ہے اور اتنے بڑے مقام پر بیٹھ کر کی گئی سفارش غیر اخلاقی نہیں ہے؟ یاد رہے کہ یہ وہی بابا ہیں جنہوں نے حال ہی میں عصمت ریزی کے جرم میں جیل میں بند آسارام باپو کو جیل سے رہا کرانے کی وکالت کی تھی اور کہا تھا کہ میری مودی سے بہت گہری دوستی ہے۔
یو پی سرکار میں باباؤں اور شاخاؤں کا رتبہ
یو پی میں خاص فکر کی تنظیموں اور باباؤں کا سیاسی رتبہ اور اثر ورسوخ کتنا ہے اس کا اندازہ لکھیم پور کھیری کی ایک چھوٹی سی خبر سے لگایا جا سکتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق کھیری میں کھیت کی پیمائش میں تاخیر کرنے پر ایک آئی اے ایس اور تین پی سی ایس افسروں کو معطل کر دیا گیا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے ضلع میں تعیناتی کے دوران آر ایس ایس کی ایک کارکن وشیشور دیال کی زمین کی پیمائش کرنے میں ٹال مٹول سے کام لیا۔ چھ سال پرانے اس معاملے میں ان تمام افسروں کے خلاف کارروائی ہوئی ہے جو اس دوران اسی حلقے میں تعینات تھے اور بعد میں تبادلے پر کہیں اور چلے گئے تھے۔ ان میں لکھنو کے ایڈیشنل کمشنر گھنشام سنگھ آئی اے ایس،بارہ بنکی کے اے ڈی ایم ارون کمار سنگھ جھانسی کے سٹی مجسٹریٹ ودھیش سنگھ اور بلند شہر کی ایس ڈی ایم رینو شامل ہیں۔ ان کے علاوہ درگا شکتی ناگپال اور سابق ڈی ایم مہندر بہادر کو وضاحتی نوٹس بھی جاری کیے گئے ہیں۔ اس پر اشونی یادو نام کے ایک صارف نے تبصرہ کیا کہ آر ایس ایس بہت بڑی طاقت ہے، اس کا کوئی بھی کام بھارت میں نہیں رک سکتا جبکہ او بی سی دلت سماج کے لوگوں کو دردر کی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں۔ کھیتی باڑی نام کے ایکس ہینڈل پر لکھا گیا بات چونکہ سنگھ کی تھی اس لیے معطلی ہوئی ہیں۔ ایک صارف نے لکھا کہ یو پی سرکار کو عام لوگوں کے کاموں میں سے بھی ہمدردی رکھنی چاہیے نہ کہ صرف آر ایس ایس سے؟ اب آپ ان تبصروں سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ عام لوگ حکومت کی نا انصافیوں اور امتیازی سلوک سے کس قدر نالاں ہیں۔
بی جے پی رکن پارلیمنٹ کی دعوت میں روٹی بوٹی پر دھینگا مشتی۔
آر ایس ایس اور ان کی ذیلی تنظیمیں سبزی کے مقابلے میں گوشت خوری کو اچھا نہیں سمجھتی ہیں۔ ان کے پروگراموں میں خالص ترکاری سے بنے کھانوں کا اہتمام کیا جاتا ہے لیکن بھدوہی سے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ ڈاکٹر ونود بند نے اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پارٹی کارکنوں کے لیے مٹن کی دعوت کر دی، پھر کیا ہوا کارکنوں میں روٹی بوٹی کے لیے گالی گلوچ شروع ہو گئی اور نوبت ہاتھا پائی سے ہوتی ہوئی مارپیٹ تک پہنچ گئی کئی افراد زخمی ہو گئے کسی کا ہاتھ ٹوٹا تو کسی کے سر میں چوٹ آئی۔ الغرض بوٹی کی چکر میں سر پھٹول ہو گیا۔ اب ایم پی کا نمائندہ صفائی پیش کر رہا ہے کہ یہ دراصل ایم پی کے سیاسی مخالفین کی چال ہے۔ انہوں نے تو پارٹی کے خاص کارکنوں کے لیے دو سو لوگوں کا انتظام کیا تھا لیکن دعوت میں پہنچ گئے ایک ہزار لوگ۔ سوال یہ ہے باقی کے 800 لوگ کیا مٹن قورمے کی خوشبو سونگھ کر دعوت میں چلے آئے تھے؟ در اصل ڈاکٹر بند بھدوہی کے رکن پارلیمنٹ منتخب ہونے سے پہلے مرزا پور کی مجھواں اسمبلی حلقے کی نمائندگی کرتے تھے ان کے استعفی دینے کے بعد اس حلقے میں ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں جسے جتانے کی ذمہ داری بھی انہی کے کندھوں پر ہے اور ووٹر تو ووٹر ہیں وہ تو الیکشن کے دوران امیدواروں کی ہر چیز پر اپنا حق سمجھتے ہیں ایسے میں اگر وہ بن بلائے بھی آئے تھے تو ایم پی صاحب کو ان کا بھی انتظام کرنا چاہیے تھا۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ اس میں کسی کی غلطی نہیں ہے بلکہ قصور بکرے کا ہے جو اپنی ساری بوٹیاں نچوانے کے بعد بھی مہمانوں کو خوش نہیں کر سکا۔
ہماچل پردیش کی آئی پی ایس علمہ افروز کیوں لوٹیں اپنے گاؤں؟
ہماچل پردیش کے بددی ضلع کی ایس پی علمہ افروز کا لمبی چھٹی پر گاؤں آنا موضوع بحث بن گیا ہے۔ دراصل علمہ افروز ضلع مراد آباد کے کندرکی قصبے کی رہنے والی آئی پی ایس افسر ہیں۔ بددی میں تعیناتی کے دوران انہوں نے ایمانداری سے کام کیا، ضلع میں غیر مجاز کانکنی کے معاملے میں انہوں نے ایک رکن اسمبلی رام کمار چوہدری کی بیوی کے نام سے ایک جے سی بی اور دیگر گاڑیوں کے چالان کاٹ دیے۔ پھر کیا تھا ریاستی حکومت کے اشارے پر محکمے نے انہیں طویل چھٹی پر بھیج دیا۔ علمہ افروز بھی تیز طرار اور ایماندار پولیس افسر ہیں انہوں نے راتوں رات سرکاری رہائش خالی کر دی اور اپنی والدہ کے ساتھ گاؤں واپس آگئیں۔ ان کی چھٹی کندر بیکی ضمنی انتخابات میں انتخابی موضوع بن گئی۔ سب سے پہلے بی جے پی امیدوار نے اسے موضوع بناتے ہوئے اپوزیشن پر حملہ بولا انہوں نے کہا علمہ افروز کو طویل رخصت پر بھیجنا تشویش ناک ہے۔ یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ ایس پی اور کانگریس کے لوگ اپنے مفادات کے لیے اقلیتوں کی خیر خواہ ہونے کا ڈھونگ رچاتے ہیں ورنہ انہیں اقلیتوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ بی جے پی امیدوار کے بعد مراد آباد کے سابق رکن پارلیمنٹ اور ایس پی لیڈر ایس ٹی حسن نے اس معاملے میں راہل گاندھی سے مداخلت کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ علمہ افروز نے اس معاملے میں ابھی تک کوئی بیان نہیں دیا ہے وہ چھٹی میں اپنے رشتہ داروں میں چھٹی کے مزے لوٹ رہی ہیں جبکہ ہماچل پردیش کی سکھو حکومت کی پریشانی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ ان کی حکومت پر پہلے ہی مسجدوں اور باہری مسلمانوں کے نام پر فرقہ پرستی کے الزامات لگ رہے ہیں۔ دیو بھومی سنگھرش سمیتی نے منڈی کے سیری منج میں مسجد کی تعمیر کے خلاف احتجاجی مظاہرے کی دھمکی دی ہے۔
جگدیش چندر پاٹنی سے بریلی میں ٹھگی
فلم اداکارہ دشا پاٹنی کے والد جگدیش چندر پاٹنی بریلی میں دھوکہ دہی کا شکار ہوئے۔ ٹھگوں نے سابق پولیس افسر جگدیش چندر کو اتراکھنڈ حکومت میں کسی کمیشن میں سیاسی عہدہ دلانے کا جھانسہ دے کر پچیس لاکھ روپے ٹھگ لیے۔ بریلی پولیس نے اس معاملے میں جونا اکھاڑا کے آچاریہ جے پرکاش شوندر پرتاپ سنگھ سمیت پانچ افراد کے خلاف ایف آئی ار درج کی ہے۔ پولیس اس معاملے کی جانچ کر رہی ہے۔ ایک صارف نے اس پر تبصرہ کیا "کرسی کا لالچ تو سب کو ہوتا ہے لالچ بری بلا ہے خیر جنتا کا ہی کھایا پیا تھا تھوڑا سا نکل گیا سی ای او ہو کر بھی ٹھگی کا شکار ہو گئے۔
تو صاحبو! یہ تھا شمال کا حال، آئندہ ہفتے پھر ملیں گے کچھ تازہ اور دلچسپ احوال کے ساتھ تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر سلا۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 نومبر تا 30 نومبر 2024