یو پی میں سیاسی ہلچل تیز۔ ایودھیا ہارنے پر سوالات کی بوچھاڑ

ریاستی کابینہ میں بڑے پیمانے تبدیلی کے امکانات! اکھلیش یادو بنے یو پی کے سر تاج

عرفان الہٰی ندوی

مایاوتی نے ہار کا ٹھیکرا مسلمانوں کے سر پر پھوڑا
شمالی ہند میں مانسون کی آمد سے قبل گرمی کی شدت اپنے شباب پر ہے۔یو پی میں پارلیمانی انتخابات کے نتائج آنے کے بعد بھی سیاسی پارہ چڑھا ہوا ہے۔ پارلیمانی انتخابات کا رخ موڑنے والی شمالی ہند کی سب سے اہم ریاست اتر پردیش میں تجزیہ کا دور شروع ہو گیا ہے۔ ریاستی حکومت میں تبدیلی کی قیاس آرائیاں بھی تیز ہو گئی ہیں۔ انڈیا اتحاد کی حلیف جماعتیں یہ سوچ کر خوش ہیں کہ یو پی کے عوام نے مودی اور یوگی کو جمہوریت کے آئینے میں ان کا اصلی چہرہ دکھا دیا ہے۔ کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے یو پی کے عوام کی سیاسی سمجھ داری کی تعریف کرتے ہوئے خصوصی طور پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ پرینکا گاندھی بھی یو پی والوں پر اپنا پیار اور دلار برسا رہی ہیں۔ سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو کے حوصلے بھی ساتویں آسمان پر ہیں۔ انہیں پوری امید ہے کہ پی ڈی اے کا جادو انہیں ریاست کے اقتدار اعلیٰ تک ضرور پہنچا دے گا۔ دوسری جانب حکم راں محاذ بھی مطمئن ہے کہ چلو اچھا ہوا اس بار بی جے پی کی دیگر حلیف جماعتوں کو بھی اقتدار کا مزہ چکھنے کا موقع مل جائے گا۔ تاہم، سیاسی مبصرین اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ مودی اور امیت شاہ کو اتحادی حکومت چلانے کا تجربہ نہیں ہے، ان دونوں کا مزاج اور رویہ بھی ملی جلی سرکار چلانے میں آڑے آسکتا ہے۔ ہفت روزہ دعوت نے شمالی ہند کے اسی کالم میں ساتویں مرحلے کی پولنگ کے بعد ہی واضح کر دیا تھا کہ بی جے پی سنگل لارجسٹ پارٹی تو بن سکتی ہے لیکن کسی کو واضح اکثریت ملنے کے بجائے معلق پارلیمان وجود میں آنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ ہمارا یہ اندازہ بالکل درست ثابت ہوا جبکہ ایگزٹ پولز بی جے پی اور این ڈی اے کی بمپر جیت کے دعوے کر رہے تھے۔
دارالحکومت دہلی میں این ڈی اے کی اتحادی حکومت وجود میں آچکی ہے اور اب مودی کی تیسری مرتبہ تاج پوشی ہو رہی ہے۔ تاہم تمام سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ نریندر مودی کا بحیثیت وزیر اعظم اصلی امتحان اب شروع ہوگا۔ اپوزیشن اور تبصرہ نگار انہیں ابھی سے ایک تہائی وزیر اعظم کہنے لگے ہیں کیونکہ اتحادی حکومت کے دو اہم شراکت دار بہار کے نتیش کمار اور ٹی ڈی پی کے چندرا بابو نائیڈو سیاسی سودے بازی اور بازو مروڑنے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ مرکزی حکومت کا کوئی بھی فیصلہ ان دونوں کی مرضی کے بغیر کرنا وزیر اعظم کے لیے خطروں سے کھیلنے کے مترادف ہوگا۔
کانگریس کے میڈیا انچارج جے رام رمیش نے مودی کے تیسری بار وزیر اعظم بننے پر طنزیہ لہجے میں پوچھا ’نریندر مودی کے لیے ڈھول پیٹنے والے ان کے اخلاقی سیاسی اور نجی ہار والے مینڈیٹ میں بھی امید کی کرن تلاش کر رہے ہیں، اس بات کی تشہیر کی جا رہی ہے کہ جواہر لال نہرو کے بعد مودی لگا تار تین بار جیتنے والے پہلے وزیر اعظم ہیں جبکہ اس سے پہلے اٹل بہاری تین بار اور اندرا گاندھی چار بار حلف لے چکی ہیں۔
اتر پردیش میں بھی نتائج آنے کے بعد سیاسی ہلچل تیز ہو گئی ہے۔ ریاستی کابینہ میں کسی بھی وقت بڑی تبدیلی ہو سکتی ہے۔ خبر ہے کہ وزیر اعلی یوگی کی میٹنگ میں ان کے دونوں نائب وزرائے اعلیٰ نہیں پہنچے۔سیاسی تجزیہ نگار اندازہ لگا رہے ہیں کہ یوپی کے اقتدار میں کبھی بھی بڑا الٹ پھیر ہو سکتا ہے۔ یو پی کے نتائج نے بی ایس پی کی سربراہ مایاوتی کو سب سے گہرا صدمہ پہنچایا ہے۔ ان کی پارٹی پورے ملک میں ایک بھی سیٹ جیتنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ یو پی میں ان کی پارٹی کا ووٹ فیصد بھی دس فیصد سے نو تک گر گیا ہے۔ بی ایس پی سے اچھی کارگر کارکردگی تو آزاد سماج پارٹی (کاشی رام) کی رہی جس کے سربراہ چندر شیکھر آزاد راون نگینہ سے کامیاب ہو کر پارلیمنٹ پہنچ چکے ہیں۔
بی ایس پی کو کور کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ الیکشن کے دوران مایاوتی کا اپنے بھتیجے آکاش آنند سے تمام عہدے اور ذمہ داریاں واپس لینے کا منفی اثر پڑا ہے۔ آئین بچانے کے نام پر دلت ووٹر انڈیا اتحاد کی پشت پر کھڑا ہو گیا۔ لیکن مایاوتی نے ہار کا ٹھیکرا حسب سابق مسلمانوں کے سر پر پھوڑ دیا۔ انہوں نے پریس کے لیے جاری بیان میں بڑی تعداد میں مسلمانوں کو ٹکٹ دینے کے باوجود ووٹ نہ ملنے کا شکوہ کرتے ہوئے دھمکی بھی دے ڈالی کہ آئندہ وہ مسلمانوں کو ٹکٹ دینے سے پہلے وہ خوب سوچ بچار کریں گی۔ سوشل میڈیا میں اس بات پر بھی زور دار بحث چل رہی ہے کہ اگر مایاوتی اتحاد کے ساتھ ہوتیں تو مزید 16 سیٹیں انڈیا اتحاد کی جھولی میں گر سکتی تھیں۔
پارلیمانی انتخابات میں یو پی ڈی ایف میں شامل سول سوسائٹیوں اور ملی تنظیموں کا بھی اہم رول رہا ہے۔ ڈیموکریٹک فورم کے کنوینر رفیق الزماں کے مطابق فورم نے اتر پردیش کے تیس پارلیمانی حلقوں میں حقیقی اعداد و شمار کی بنیاد پر کام کیا تھا ان میں سے 22 حلقوں میں انڈیا اتحاد کی جانب سے کانگریس اور سماج وادی پارٹی کے امیدواروں کو کامیابی ملی ہے۔ ان کے مطابق فورم کی کور ٹیم نے ووٹ اور شناختی کارڈ بنوانے سے لے کر نریٹیو بلڈنگ تک ہر محاذ پر کام کیا ہے۔ اس کا سب سے بڑا اثر یہ ہوا کہ عوام دستور کی حفاظت کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور بے روزگار، مہنگائی اور ریزرویشن جیسے موضوعات پر ڈٹے رہے۔
رفیق الزماں نے ہفت روزہ دعوت کو بتایا کہ یو پی ڈی ایف نے انڈیا اتحاد کے امیدواروں کو عوامی مسائل اور موضوعات کی بنیاد پر حمایت دی ہے۔ جیت کرانے والے ارکان پارلیمنٹ سے ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرائی جائے گی۔
یو پی کے ایودھیا پارلیمانی حلقے میں بی جے پی امیدوار للو سنگھ کی ہار قومی میڈیا میں بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ گودی میڈیا کے اینکرز بھی سوال پوچھ رہے ہیں کہ آخر بی جے پی کو رام مندر بنوانے کا سیاسی فائدہ کیوں نہیں مل سکا ہے؟ اس کے جواب میں سوشل میڈیا میں ایسی تصویریں وائرل ہو رہی ہیں جن میں ایودھیا کی توسیع کے لیے سیکڑوں مکانوں اور دکانوں کو بلڈوزر سے منہدم کر دیا گیا ہے۔ مقامی باشندوں کے مطابق انہیں اس کا مناسب معاوضہ بھی نہیں دیا گیا۔ ان کے آنسو بی جے پی کی ہار کا سب سے بڑا سبب ہیں۔ ایودھیا کے نو منتخب رکن پارلیمنٹ اودھیش پرساد نے بھی اپنے بیان میں دعوی کیا ہے کہ "ہم اصلی رام بھکت ہیں، بی جے پی نے رام کے نام پر صرف سیاست کی ہے” انہوں نے ایودھیا میں بی جے پی کو ہرانے والے ووٹروں کو لعنت ملامت کرنے والے ٹرولز پر شدید نکتہ چینی کی ہے۔
انتخابی نتائج آنے کے بعد یو پی کے وزیر اعلی یوگی ایکشن موڈ میں ہیں۔ ریاست کے کئی مقامات پر پولیس اور جرائم پیشہ افراد کے درمیان تصادم اور انکاؤنٹر کی خبریں آرہی ہیں۔ اسی دوران ضلع پرتاپ گڑھ سے ایک دردناک خبر سامنے آئی ہے جہاں پرتاپ گڑھ جمیعت علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا فاروق کو بے رحمی سے قتل کر دیا گیا۔ جس سے پورے علاقے میں تناؤ پھیل گیا ہے۔ پولیس کے مطابق مولانا کو زمین کے ایک تنازعہ کے سبب قتل کیا گیا ہے۔
تو صاحبو! یہ تھا شمال کا حال۔ آئندہ ہفتہ پھر ملیں گے کچھ تازہ اور دلچسپ احوال کے ساتھ۔ تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر سلا

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 جون تا 22 جون 2024